Thursday, November 12, 2015

 

میلبورن میں صبح










ایک فکر کے سلسلے کا کالم

کالم شمار دو سو چوون

نومبر آٹھ، دو ہزار پندرہ


میلبورن میں صبح
 

  میلبورن جاگ چکا تھا۔ میلبورن کے علاقے بلیک برن میں واقع بلوبل بیڈ اینڈ بریک فاسٹ نامی اس سرائے میں رات اچھی گزری تھی۔ صبح جب آنکھ کھلی تو سردی کا احساس ہوا۔ باہر سورج چمک رہا تھا مگر موسم سرد تھا۔ رات کو دونوں کیمرے، ٹوتھ برش، اور لیپ ٹاپ چارجر پہ لگا دیے تھے۔ ان تمام آلات کی بیٹری اس وقت تک چارج ہوچکی تھی۔
کمرے کے کرائے میں صبح کا ناشتہ شامل تھا۔ ناشتے کا وقت نو بجے تک تھا اس لیے جلدی جلدی تیار ہو کر نو بجے سے پہلے ناشتے کی میز پہ پہنچ گیا۔ اس وقت تک اس گھر میں ٹہرنے والے دوسرے مہمان ناشتہ کر کے وہاں سے روانہ ہوچکے تھے۔ مگر جولی وہاں موجود تھی۔ جولی اس گھر میں دیکھ بھال کا کام کرتی تھی۔ اس نے مسکرا کر مجھے ناشتے پہ خوش آمدید کہا۔ اس کا لہجہ سن کر میں نے اس کے جغرافیائی تعلق کے بارے میں رائے قائم کرنے کی کوشش کی۔ مگر جولی نے جلد میری مشکل حل کردی۔ وہ بہت باتونی تھی۔ اس نے ذرا سی دیر میں مجھے بتادیا کہ اس کا تعلق ہنگری سے تھا۔ جولی نے بتایا کہ جب سنہ ۵۶ میں ہنگری میں اس وقت کی حکومت کے خلاف بغاوت ہوئی تو اس کی عمر تیرہ برس تھی۔ جولی کو اس شورش میں  اندازہ ہوگیا کہ اب ہنگری میں اس کا گزارا مشکل تھا۔ وہ سنہ ۷۸ میں آسٹریلیا چلی آئی۔ آسٹریلیا کا انتخاب اس نے اس لیے کیا کیونکہ سنہ ۵۶ ہی میں میلبورن میں اولمپکس ہوئے تھے اور اس طرح ہنگری میں رہتے ہوئے جولی آسٹریلیا سے واقف ہوگئی تھی۔ آسٹریلیا آنے کی ایک اور وجہ یہ تھی کہ دوسرے مغربی ممالک کے مقابلے میں جولی کے لیے آسٹریلیا آنا آسان تھا۔
ایک دن پہلے میں نے اس سرائے کے مالک کے آخری نام پہ غور کیا تھا۔ وہ نام یقینا مشرقی یورپ کا معلوم ہوتا تھا۔ میں نے جولی سے پوچھا کہ آیا مالک مکان کا تعلق بھی ہنگری سے تھا۔ جولی نے اثبات میں جواب دیا مگر بتایا کہ مالک مکان کی پیدائش یہیں آسٹریلیا کی تھی، وہ ہنگیرین سمجھ تو سکتا تھا مگر بول نہیں سکتا تھا۔ جب کہ جولی اب تک اپنے پرانے ملک سے جڑی ہوئی تھی۔ جولی نے بتایا کہ وہ صبح ہنگری کے ایک ٹی وی چینل کی خبریں دیکھ کر آئی تھی۔ وہ وہاں کے حالات سے بہت زیادہ پرامید نہیں تھی۔ یہ تارکین وطن اپنی جائے پیدائش کو ترک کرنے کے باوجود ایک ان دیکھی نال سے اس جغرافیے کے ساتھ جڑے ہوتے ہیں، وہاں نہ رہتے ہوئے بھی اس جگہ کے حالات سے آگہی رکھنے کی کوشش کرتے ہیں، اور اپنی جنم بھومی کی  سیاسی ابتری اور معاشی زبوں حالی پہ دل ہی دل میں کڑھتے رہتے ہیں۔
جولی کی عمر ستر سے اوپر تھی مگر وہ پھرتی سے کام کررہی تھی۔ اس نے بتایا کہ اسے اس سرائے میں صبح صرف چند گھنٹے ہی کام کرنا ہوتا ہے، پھر وہ اپنے گھر چلی جاتی ہے۔ اس کا گھر وہاں سے کچھ ہی فاصلے پہ تھا جہاں وہ پیدل چل کر جاتی تھی۔
میں نے جب جولی کو بتایا کہ میری ہنگری سے خوش گوار یادیں وابستہ ہیں تو وہ اس بات پہ بہت خوش ہوئی۔ تم بوداپست میں کہاں ٹہرے تھے؟ تم فلاں جگہ گئے؟ تم نے فلاں ریستوراں سے کھانا کھایا؟ وہ اشتیاق سے سوال کرتی رہی اور میں ذہن پہ بہت زور ڈال کر پرانی یادوں کو تازہ کرنے کی کوشش کرتا رہا۔
ہنگری سے میرا ایک رشتہ میرے بچپن سے وابستہ ہے۔ چچا مرحوم اسرار حسن حبیب بینک میں زرمبادلہ ڈپارٹمنٹ میں کام کرتے تھے۔ ان کے پاس دنیا بھر سے ڈاک آتی تھی۔ وہ ڈاک کے لفافوں سے ٹکٹ کاٹ کر میرے لیے لے آتے۔ میں ان ٹکٹوں کو اپنی ٹکٹ البم میں ملکوں کے حساب سے سجاتا۔ ایک طرح کے ٹکٹوں پہ میگیار پوستا لکھا ہوتا۔ مجھے پہلی دفعہ جب ایسا ٹکٹ ملا تو میں حیران ہوا کہ وہ کس ملک کا ٹکٹ تھا؟ میں میگیار نامی کسی ملک سے واقف نہ تھا۔ آج انٹرنیٹ کے اس دور میں یہ کیا ہوتا ہے، یہ صاحب کون ہیں، یہ شہر کہاں ہے، جیسے سوالات کسی شخص سے پوچھنا سرگی برن اور لیری پیج کی توہین کرنے کے مترادف خیال کیا جاتا ہے۔ ان دو جوانوں نے اپنی عقل اور محنت سے گوگل جیسا اعلی سرچ انجن بنا تو دیا، اب گوگل کے علاوہ کسی اور سے کچھ پوچھنے کی کیا تک ہے؟ مگر جس زمانے میں پانچویں جماعت میں پڑھنے والا ایک لڑکا میگیار پوستا والے ڈاک ٹکٹ کو حیرت سے دیکھ رہا تھا اس وقت انٹرنیٹ جیسی سہولت سالوں دور تھی۔ اگلی بار چچا سے ملاقات ہوئی تو میں نے ان سے یہ سوال پوچھا۔ انہوں نے بتایا کہ اس ٹکٹ کا تعلق ہنگری سے تھا۔ اس وقت یہ معلوم ہوا کہ اس دنیا کے بہت سے علاقوں اور ریاستوں کے لوگ اپنے جغرافیائی خطے کو ایک نام سے یاد کرتے ہیں جب کہ وہاں سے باہر رہنے والے اسی جغرافیے کو کچھ اور کہہ کر پکارتے ہیں۔
چھوٹے بچوں کو نت نئے خیالات سے متعارف کرنا بہت احسن کام ہے۔
میلبورن میں یوں تو سیاحتی دلچسپی کے کئی مقامات ہیں مگر میرے لیے اس شہر میں سب سے بڑی دلچسپی حسیب شرر سے ملاقات تھی۔ حسیب ڈی جے کالج میں میرے ساتھ تھا۔ پھر جامعہ این ای ڈی میں بھی ہم دونوں نے ساتھ وقت گزارا۔ ترقی پزیر ملک میں ایک پھول کا رہا سہا عرق پینے کے بعد اس ویرانے سے گھبرا کر یہ مکھیاں ادھر ادھر روانہ ہوگئیں۔ کچھ مکھیاں مشرق وسطی کی طرف نکل گئیں، بہت سی شمالی امریکہ کی طرف، اور ایک آدھ نے آسٹریلیا کا رخ کیا۔ حسیب کا شمار گنتی کے ان ہی چند لوگوں میں ہوتا ہے جو اس یک ملکی براعظم میں آباد ہو گئے۔  حسیب سے گزری رات بات ہوئی تھی اور صبح ملاقات کا وقت طے ہوگیا تھا۔ حسیب وقت مقررہ پہ ہمارے ٹھکانے پہ موجود تھے۔ حسیب ایک نہایت ہنس مکھ شخص ہے۔ ہم دونوں کئی دہائیوں کے بعد ایک دوسرے سے مل رہے تھے۔ ہم زور سے گلے ملے، حسیب اپنی پرانی عادت کے عین مطابق مستقل ہنستا جارہا تھا۔ میں نے کہا، یار حسیب، جب ڈی جے میں تمھارا ساتھ تھا تو تمھارے منہ پہ یہی ہنسی تھی اور تمھارے سر پہ بال تھے۔ اب صرف تمھارے منہ پہ ہنسی ہے۔ میرے اس مذاق پہ حسیب اور ہنسا اور ہنس ہنس کر دہرا ہوگیا۔




Labels: , ,


Comments:
kia he zabarbast tarika h apni bat ko dosro tak pohchany ka, alfaz ki tarang ka hunar bht khub h.... porany dost ki mulakat ko malomat or dosti ki haryali o tazgi ki khusbu ko oru tak phelaya..
 
Post a Comment



<< Home

This page is powered by Blogger. Isn't yours?