Tuesday, April 28, 2015

 

سبین محمود کا قاتل کون ہے؟






اپریل چھبیس،  دو ہزار پندرہ


ایک فکر کے سلسلے کا کالم

کالم شمار دو سو اڑتیس


سبین محمود کا قاتل کون ہے؟
 
سبین محمود کے قتل کے بعد سوشل میڈیا پہ متحرک افراد سبین کی یاد میں محفلیں منعقد کررہے ہیں، سبین محمود کا مشن جاری رکھنے کا عزم کر رہے ہیں، مگر اس کے ساتھ ہی یہ سوال ہر ذہن میں ہے کہ سبین محمود کو کس نے قتل کیا۔ بہت سی محفلوں میں یہ بنیادی مگر ناپسندیدہ سوال نہیں اٹھایا جا رہا اور اسی لیے دلوں میں ایک خلش ہے۔ تو آئیے بہت طاقتور آواز سے یہ سوال اٹھائیں کہ سبین محمود کا قاتل کون ہے۔
مگریہ اہم سوال کرنے کے ساتھ ساتھ ایمانداری سے یہ بھی سمجھ لیجیے کہ جہاں کراچی میں ٹی ٹو ایف نامی ٹھیے کی روح رواں سبین محمود کے قتل پہ ہر سوچنے سمجھنے والا شخص غم و غصے میں ہے وہیں اس افسوس ناک واقعے سے زیادہ افسوس ناک بات یہ ہے کہ سبین محمود کا قتل ان چاروں گروہوں کے لیے بے حد نفع بخش ثابت ہوا ہے جن گروہوں پہ سبین محمود کے قتل کا الزام لگایا جارہا ہے۔ وہ چار گروہ کونسے ہیں؟ اول، پاکستانی فوج سے تعلق رکھنے والی خفیہ ایجنسیاں، دوئم، بلوچ مزاحمت کار، سوئم، مذہبی شدت پسند، اور چہارم، پاکستان میں کام کرنے والے بھارتی خفیہ ایجنسیوں کے ایجنٹ۔
کیونکہ  نہ تو اب تک سبین محمود کے قتل کی ذمہ داری کسی گروہ نے قبول کی ہے اور نہ ہی اس واردات میں ملوث کسی شخص کی گرفتاری عمل میں آئی ہے اس لیے اس وقت سبین محمود کے قاتل یا قاتلوں کے متعلق محض قیاس آرائیاں ہی کی جاسکتی ہیں۔ آپ سبین محمود کا قاتل کسے ٹہراتے ہیں اس بات کا انحصار اس بات پہ ہے کہ خود آپ کے سیاسی خیالات کس نوع کے ہیں۔ اس موضوع پہ دو ایسے اشخاص کے درمیان مکالمات کا تبادلہ ملاحظہ فرمائیے جن میں سے ایک کا تعلق بائیں بازو سے اور دوسرے کا دائیں بازو سے ہے۔
کھبا: سبین محمود کا قتل آئی ایس آئی نے کرایا ہے کیونکہ آئی ایس آئی نہیں چاہتی کہ بلوچستان میں جاری شورش کا زیادہ چرچا ہو۔ ایجنسیوں کا خیال ہے کہ بلوچستان کے خراب حالات کو میڈیا میں اچھالنے سے کام اور خراب ہورہا ہے۔ ایجنسیوں کی سوچ یہ ہے کہ بلوچ مزاحمت کار تھوڑے سے ہیں، اگر سازشی عناصر ان مزاحمت کاروں کو میڈیا میں جگہ نہ دیں تو یہ آگ کچھ ہی عرصے میں خود بخود بجھ جائے گی۔ بلوچستان کے حالات پہ ایسا ہی ایک پروگرام اپریل نو کو لاہور کی جامعہ، لمز میں ہونے جا رہا تھا۔ آئی ایس آئی نے یونیورسٹی حکام کو باقاعدہ خط لکھ کر جامعہ کو اس پروگرام کرانے سے روکا۔ اس واقعے پہ بہت شور مچا۔ جب سبین نے وہی پروگرام کراچی میں اپنے ٹھیے پہ کرانے کا اعلان کیا تو اب پرانی لاہور والی حکمت عملی استعمال نہیں کی جاسکتی تھی۔ سبین کو پروگرام کے فورا بعد قتل کرادیا گیا۔ اس قتل سے آئی ایس آئی نے اپنی مرضی کے نتائج حاصل کرلیے ہیں۔ اب میڈیا اور سوشل میڈیا سے تعلق رکھنے والا ہرشخص بلوچستان کے معاملے پہ بات کرتے ہوئے ہچکچائے گا اور ایک خوداختیاری سینسرشپ قائم ہوجائے گی۔
سجا: اس سے زیادہ حماقت کی بات کوئی اور نہیں ہوسکتی۔ ایجنسیوں کو اگر کسی کو واقعی قتل کرنا ہوتا تو وہ سبین کو راستے سے کیوں ہٹاتیں؟ وہ کیوں نا براہ راست ماما قدیر، فرزانہ، یا محمد علی تالپورسے نمٹتیں؟ گنتی کے یہ تین لوگ بلوچ دہشت گردوں کے معصوم، سول چہرے ہیں۔ بلوچ دہشت گردوں نے زیریں بلوچستان میں چن چن کر پنجابیوں اور مہاجروں کو مارا ہے۔ حالیہ تاریخ میں گروہی نسل کشی، ایتھنک کلینسنگ، کی اس سے زیادہ واضح اور بربریت سے بھرپور مثال ملنا مشکل ہے۔ اس کے علاوہ سبین کو عین بلوچستان والے سیمینار کے بعد مارنے سے زیادہ حماقت کا کام اور کیا ہوسکتا تھا کیونکہ اس طرح تو فورا سب کا دھیان فوج اور آئی ایس آئی ہی کی طرف جانا تھا۔
 کھبا: بلوچستان والے سیمینار کے فورا بعد سبین کو مارنا ہی تو اس گھنائونے قتل کا سب سے چالاک پہلو ہے۔ اور ایسا اس لیے کیا گیا تاکہ عام لوگ وہ بات کہہ سکیں جو آپ کہہ رہے ہیں کہ ایجنسیوں کے لوگ اتنے بے وقوف نہیں ہیں کہ ایسا کام کریں جس سے سب کا دھیان سیدھا ان کی طرف جائے۔
سجا: آپ تو یہ دیکھیے کہ اس واقعے سے سب سے زیادہ سیاسی فائدہ کس نے حاصل کیا۔ سب سے زیادہ فائدہ بلوچ مزاحمت کاروں کو ہوا۔ کراچی میں ان کے سیمینار سے جو کچھ سیاسی فائدہ انہیں حاصل ہونا تھا، سبین کے قتل سے وہ فائدہ کئی گنا زیادہ بڑھ گیا۔ سبین سے اپنا کام نکلوانے کے بعد انہوں نے سبین کا کام تمام کر کے اس کے قتل کو بھی کیش کرلیا۔ سبین کو بلوچ دہشت گردوں نے قتل کیا ہے۔ اس قتل سے ان کے اپنے تین لوگ بھی محفوظ رہے اور پوری دنیا میں بلوچ مزاحمت کاروں کا ایسا چرچا ہوگیا جیسا چرچا ایک زندہ سبین نہ کرسکتی تھی۔
کھبا: آپ کی بات محض ایک سازشی ذہن کی پیداوار ہے۔ بات بدلے وقت کی ہے۔ ایک وقت تھا کہ پاکستان میں انگلش میڈیم انقلابی بڑی طاقت نہ سمجھے جاتے تھے۔  انگلش میڈیم انقلابی ڈان سمیت پاکستان کے مختلف انگریزی اخبارات میں اپنے دل کی بھڑاس نکالتے تھے اورلکھنے والے کی بات صرف ان ہی لوگوں تک پہنچتی تھی جو خود انگلش میڈیم انقلابیوں جیسے تھے۔ قصہ مختصر یہ کہ انگریزی میں لکھنے والے ایسے انقلابی کسی طاقت کے لیے کوئی خطرہ نہ تھے۔ مگر دیکھتے دیکھتے وقت بدل گیا۔ ہر شخص کے ہاتھ میں دستی فون آیا اور پھر یہ فون دانا (اسمارٹ) ہوگیا یعنی اسی فون پہ انٹرنیٹ کے ذریعے دنیا بھر کی خبریں اور ویڈیو بھی پہنچنے لگے۔ انگلش میڈیم انقلابی اردو میں لکھ تو نہیں پاتے مگر اردو بول ضرور لیتے ہیں۔ مواصلات میں سوشل میڈیا کے انقلاب کے بعد ایسے انقلابی دستی فون کے ذریعے بنائے جانے والے ویڈیو کو ہر خاص و عام تک پہنچانے کے قابل ہوگئے۔ ان کی آواز جو پہلے محض انگریزی اخبارات کے کالم تک محدود تھی اب ہر جگہ پہنچنے لگی اور اس بات پہ بہت سے ماتھے ٹھنکے۔ ٹی وی میڈیا کو حامد میر پہ قاتلانہ حملے سے لائن پہ لایا گیا۔ خفیہ ایجنسیوں سے تعلق رکھنے والے ان ہی لوگوں کی اب یہ کوشش ہے کہ سبین محمود کے قتل سے سوشل میڈیا بھی اسی طرح لائن پہ آجائے۔
سجا: آپ افواج پاکستان کو بدنام کرنے کی کوشش نہ کریں۔ بلوچ مزاحمت کاروں کے بعد اس قتل کا دوسرا بڑا فائدہ بھارت کو ہوا ہے۔ اس قتل میں پاکستانی فوج کو ملوث کرنے کی سازش کی جارہی ہے اور چین سمیت دنیا بھر میں یہ پیغام پہنچایا جارہا ہے کہ پاکستان سرمایہ کاری کے لیے موزوں جگہ نہیں ہے۔ اگر سبین کا قتل بلوچ مزاحمت کاروں نے نہیں کیا تو پھر اس میں را کے ملوث ہونے کا عین امکان ہے۔ را کے لیے کراچی میں موجود کرائے کے قاتلوں کو خریدنا ذرا مشکل نہیں ہے۔
سبین محمود کے قتل کا تھوڑا فائدہ مذہبی دہشت گردوں کو بھی پہنچا ہے۔ سبین مذہبی انتہا پسندوں کے خلاف بھی آواز اٹھاتی تھی۔ گو کہ انگریزی میں اٹھنے والی اس آواز کی بہت زیادہ اہمیت نہیں تھی مگر بہرحال یہ آواز کچھ لوگوں کے لیے تکلیف دہ تھی۔ عین ممکن ہے کہ مذہبی دہشت گردوں نے بلوچستان کے سیمینار والے دن کو سبین سے جان چھڑانے کے لیے  اچھا موقع جانا ہو۔
کھبا: آپ لاکھ تاویلیں پیش کریں، سبین محمود کے قتل کے بعد زیادہ تر انگلیاں آئی ایس آئی کی طرف اٹھ رہی ہیں۔ چنانچہ ضرورت اس بات کی ہے کہ آئی ایس آئی اس قتل کی تحقیقات کرے اور مجرموں کو جلد از جلد دنیا کے سامنے پیش کرے۔ مجھے راہزنوں سے گلہ نہیں، تیری راہبری کا سوال ہے۔
سجا: یقینا ایسا ہی ہوگا۔ آئی ایس پی آر پہلے ہی اس طرح کا بیان دے چکی ہے۔
....
اس دفعہ کالم ملتان پہ لکھنا تھا۔ اسی مناسبت سے ملتان پہ ایک مختصر ویڈیو تیار کی تھی۔ مگر سبین محمود کے قتل کا المناک واقعہ ہوا تو اس پہ لکھنے بیٹھ گیا۔ اس طرح ویڈیو ملتان کی ہے اور ذکر سبین کا۔

Labels: , , , , , ,


Tuesday, April 21, 2015

 

مسعود حامد، ایلس البینیا، اور ام جہل


اپریل انیس،  دو ہزار پندرہ


ایک فکر کے سلسلے کا کالم

کالم شمار دو سو سینتیس


مسعود حامد، ایلس البینیا، اور ام جہل

کراچی میں ایم کیو ایم کے خلاف رینجرز کے آپریشن کے بعد کراچی میں ٹارگٹ قتل کے واقعات میں کمی آگئی تھی اور کہا جارہا تھا کہ کراچی سے دہشت گردی کا خاتمہ ہوگیا ہے مگر پچھلے ہفتے پے در پے تشدد کے تین واقعات نے شہر والوں کو پریشان کردیا ہے۔ جمعرات کے روز پریڈی تھانے کے ایس ایچ او اعجاز خواجہ پہ قاتلانہ حملہ ہوا جس کے بعد اعجاز خواجہ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے چل بسے۔ اسی روز یعنی جمعرات کے روز ایک مقامی کالج کی امریکی پرنسپل ڈیبرا لوبو پہ قاتلانہ حملہ کیا گیا۔ ڈیبرا لوبو زخمی ہونے کے باوجود معجزانہ طور پہ حملے میں بچ گئیں۔ پھر جمعے کی رات ڈیفینس کے علاقے میں ایک گاڑی سے مسعود حامد صاحب کی لاش ملی۔ مسعود حامد پاکستان ہیرلڈ پبلیکیشنز نامی اشاعتی ادارے کے مارکیٹنگ ڈائریکٹر تھے۔ یہ اشاعتی ادارہ ڈان گروپ کا حصہ ہے جو کئی اخبارات اور جرائد کے علاوہ سٹی ایف ایم ۸۹ ریڈیو اور ڈان ٹی وی کا مالک ہے۔ دو دنوں میں ہونے والے تشدد کے ان تینوں واقعات میں سب سے منفرد مسعود حامد کے قتل کا واقعہ ہے۔ پولیس افسر اعجاز خواجہ شیعہ تھے اور قیاس ہے کہ ان کو ان کے مسلک کی وجہ سے قتل کیا گیا۔ پھر جن مسلح افراد نے ڈیبرا لوبو کی کار پہ فائرنگ کی وہ ایک رقعہ چھوڑ کر گئے جس میں اسلامی ریاست یعنی آئی ایس کی طرف سے حملے کی ذمہ داری قبول کی گئی تھی اور یہ بتایا گیا تھا کہ ڈیبرا لوبو کو امریکی ہونے کی وجہ سے نشانہ بنایا جارہا ہے۔ مگر مسعود حامد کو کیوں قتل کیا گیا؟ واضح رہے کہ اخباری اطلاعات کے مطابق مسعود حامد کے سر میں صرف ایک گولی کا نشان ہے؛ یہ بھی بتایا جارہا ہے کہ قاتل جائے واردات پہ اپنی گن چھوڑ گئے۔ مسعود حامد نہ تو شیعہ تھے اور نہ ہی قادیانی، تو پھر ان پہ حملہ کیوں کیا گیا؟ کیا مسعود حامد کو ان کے ادارتی تعلق کی وجہ سے قتل کیا گیا؟ شاید نہیں کیونکہ مسعود حامد نہ تو خبروں سے وابستہ تھے اور نہ ہی ابلاغ کے معاملے میں ادارے کی پالیسی بناتے تھے۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ یہ محض ایک لوٹ مار کی واردات تھی جو مسعود حامد کی مزاحمت کی وجہ سے بگڑ گئی؟ شاید نہیں کیونکہ مسعود حامد ایک پڑھے لکھے شخص تھے اور ہر سمجھدار شخص جانتا ہے کہ جب کسی نے آپ کے سر پہ گن رکھی ہو تو آپ ایک نازک اور کمزور پوزیشن میں ہوتے ہیں اور اس کمزوری میں مزاحمت کرنا آپ کے لیے بڑے نقصان کا سبب بن سکتا ہے۔ کیا وہ کوئی پیسوں کےلین دین کا معاملہ تھا یا کوئی اور ذاتی پرخاش، جس کی وجہ سے مسعود حامد اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے؟ ہم یہ بات نہیں جانتے مگر یہ ضرور جانتے ہیں کہ پے درپے تشدد کے ان تین واقعات نے ثابت کیا ہے کہ کراچی کی بدامنی کو کسی ایک سیاسی جماعت کے کھاتے میں ڈالنا عقل مندی نہیں ہے۔ کراچی میں ہر نوع کے دہشت گرد موجود ہیں اور ان سب کے خلاف مساوی کاروائی کی ضرورت ہے۔
میں مستقل ویڈیو بناتا ہوں اور اکثر کام کی ویڈیو بنانے کے بعد ان کے بارے میں مکمل طور سے بھول جاتا ہوں۔ حال میں اپنے ویڈیو ذخیرے میں مجھے ایسی ہی کام کی ایک ویڈیو ملی۔ یہ ویڈیو سنہ ۲۰۱۰ میں اس وقت بنائی گئی تھی جب "سندھ کی سلطنتیں" [ایمپائرز آف دا انڈس] کی مصنفہ انگریز لکھاری ایلس البینیا کے اعزاز میں سان ہوزے میں ایک تقریب ہوئی۔ اس مضمون کے ساتھ موجود ویڈیو اس وقت ریکارڈ کی گئی تھی۔ موجودہ جنوبی ایشیا کا ہر سیاستداں، ہر حکمراں جو سمجھتا ہے کہ وہ بہت تیس مارخان ہے اس کے لیے البینیا کی اس کتاب کو پڑھنا ٖضروری ہے تاکہ وہ سمجھ سکے کہ اس زمین پہ اس سے پہلے کتنے بڑے بڑے طرم خان آئے اور گزر گئے، اور آج ہم ان میں مشکل سے چند ہی کو جانتے ہیں۔
ایک طرف بل گیٹس کی پولیو کے خلاف جنگ جاری ہے اور دوسری طرف پاکستان میں پولیو ویکسین کے خلاف مذہبی انتہا پسندوں کی جنگ بھی زور پکڑ گئی ہے۔ ان انتہا پسندوں کی پوری کوشش ہے کہ پولیو سرزمین پاکستان میں قلعہ بند ہوکر محفوظ رہے اور بل گیٹس اپنا سا منہ لے کر رہ جائیں۔ پولیو ویکسین کے خلاف جدید ترین ہتھیار ایک ویڈیو کی صورت میں سامنے آیا ہے جس میں ایک برقعہ پوش خاتون نے بہت "تحقیق " سے ثابت کیا ہے کہ پولیو ویکسین دراصل دماغی سرطان کا سبب بنتی ہے اور اس ویکسین کی وجہ سے مسلمانوں کے گھر بچے ہونا بند ہوجائیں گے۔ اس ویڈیو میں بتایا گیا ہے کہ ان برقعہ پوش قابل خاتون کا نام ام محمد ہے۔ سب سے پہلے تو یہ کہنا ضروری ہے کہ کفار مغرب نے ویڈیو اسی لیے ایجاد کی تھی کہ ویڈیو میں تصویر نظر آئے۔ ایک ایسی ویڈیو جس میں ایک برقعہ پوش خاتون کیمرے کے سامنے کھڑی ہوں، اور ہمیں صرف ان کی آواز سنائی دے دراصل ویڈیو کے تصرف سے بغاوت ہے؛ اس کام کے لیے کفار مغرب کی دوسری ایجاد یعنی ریڈیو کو باآسانی استعمال کیا جاسکتا ہے۔ یہ ویڈیو بنانے والوں سے اور بالخصوص ام محمد سے ایک دوسری بات کرنا ضروری ہے، اور وہ یہ کہ برائے مہربانی اپنا تحقیقی مقالہ کفار مغرب کی تیسری بڑی ایجاد یعنی پرنٹ کی صورت میں پیش کریں۔ تحقیقی مقالہ پرنٹ کی صورت میں پیش کرنا اس لیے ضروری ہے تاکہ ہم آپ کے بتائے گئے ریفرینس کو چیک کرسکیں۔ واضح رہے کہ میں ویڈیو دیکھتا ہوا نوٹس لیتا رہا۔ ام محمد بتا رہی تھیں کہ پولیو ویکسین سے فلاں وقت فلاں جگہ اتنے بچے ہلاک ہوئے اور فلاں جگہ اس طرح سرطان پھیلا؛ پھر جب میں نے انٹرنیٹ پہ ام محمد کے ان دعووں کی تصدیق چاہی تو مجھے کچھ نہ ملا۔ اگر ام محمد نے اپنا مقالہ لکھت میں پیش کیا ہوتا تو اس بات کا امکان نہ رہتا کہ نوٹس لیتے وقت میں نے کوئی غلطی کی ہے اور ام محمد کا بیان بالکل درست ہے۔
ساری باتوں کی ایک بات یہ کہ ام محمد سے درخواست ہے کہ وہ اپنے نام میں ہمارے نبی کا نام لگا کر ایک مقدس ہستی کی تذلیل کی کوشش نہ کریں۔ جس طرح نبی کے زمانے میں ایک شخص اپنی خرافات کی وجہ سے ابو جہل مشہور تھا اسی طرح آپ کی فضول باتوں کی وجہ سے آپ پہ ام جہل کی کنیت زیادہ سجتی ہے۔



Labels: , , , , , , ,


Tuesday, April 14, 2015

 

عمران خان کہنیاں کیوں مارتے ہیں؟






اپریل بارہ،  دو ہزار پندرہ

ایک فکر کے سلسلے کا کالم

کالم شمار دو سو چھتیس
 
عمران خان کہنیاں کیوں مارتے ہیں؟
سنہ ۲۰۰۵۔ شمالی کیلی فورنیا کے شہر پالو آلٹو میں آرگنائزیشن آف پاکستانی آنٹریپرینئیرز کی  اوپن فورم نامی کانفرینس کی کاروائی زوروں پہ تھی۔ لابی میں لگے ایلیویٹر کو صرف ایک منزل اوپر جانا تھا۔ صبح سے دوپہر کے اس سمے تک اوپن فورم کے شرکا بہتیرے بار اوپر سے نیچے اور نیچے سے اوپر جانے کا کام سیڑھیوں کی مدد سے کر چکے تھے، مگر اس وقت وہ ایلیویٹر کھچاکھچ بھرا ہوا تھا۔ بلکہ ایلیویٹر چلنے سے پہلے اس کے باہر اتنی کثیر تعداد میں لوگ جمع تھے کہ ایلیویٹر میں چند ہی لوگ سما پائے تھے۔ باقی باہر نامراد کھڑے رہ گئے تھے۔ اس ایلیویٹر سواری کی خاص بات یہ تھی کہ عمران خان اوپن فورم میں اپنی کلیدی تقریر کے بعد ایلیوٹر سے اوپر جارہے تھے اور ان کے معتقدین کا ایک گروہ ان کے ساتھ تھا۔ ایلیویٹر کا دروازہ بند ہوا تو تو میں نے وہاں موجود تمام لوگوں کو غور سے دیکھا۔ میں شاید ان مسافروں میں واحد شخص تھا جو عمران خان کے لیے والہانہ عقیدت کے ایسے جذبات نہ رکھتا تھا جیسے دوسرے لوگوں کے چہروں سے عیاں تھے۔ اپنی کمال مہربانی سے اوپن کی قیادت، بالخصوص عمیر خان، نے مجھے یہ موقع فراہم کیا تھا کہ عمران خان جتنا عرصہ اوپن کانفرینس میں رہیں، ہر محفل میں جہاں عمران خان بولیں، میں شریک رہوں اور اس عوامی شخصیت کا دور سے جائزہ لیتا رہوں۔ اور اسی وجہ سے مجھے اس ایلیوٹر میں جگہ ملی تھی ۔میں اس وقت عمران خان اور ان کے مریدوں کو دیکھ کر سوچ رہا تھا کہ کسی شخص سے عوام محبت کا ایسا اظہار کریں تو اس شخص کے لیے اپنے دماغ کو ٹھکانے رکھنا کس قدر مشکل کام ہوتا ہوگا۔
عمران خان کیا ہیں اور ان کے کن کارناموں کی وجہ سے لوگ ان کے دیوانے ہیں، اس بارے میں بہت طویل بحث ہوسکتی ہے، مگر اس بات سے انکار ممکن نہیں کہ بہت سے لوگ عمران خان کے پرستار ہیں اور ان کی طرف یوں کھنچے چلے آتے ہیں جیسے لوہے کی ہلکی پھلکی سوئیاں کسی طاقتور مقناطیس کے رخ ہوجاتی ہیں۔
حال میں ایک ویڈیو سامنے آئی ہے جس میں عمران خان کو اپنے پیچھے کھڑے ایک شخص کو، جو غالبا ان کا مرید رہا ہوگا، کہنی مارتے دکھایا گیا ہے۔ آپ سوال کرسکتے ہیں کہ عمران خان لوگوں کو کہنیاں کیوں مارتے ہیں؟ اور اگر آپ عمران خان سے یہ سوال کریں تو یقینا عمران خان پلٹ کر آپ سے پوچھیں گے کہ لوگ ان سے، یعنی عمران خان سے، اس قدر چمٹ کر کیوں کھڑے ہوتے ہیں۔ غیر لوگوں کا اس قدر قریب آجانا صرف عمران خان کو ہی نہیں کھلتا بلکہ ہر اس شخص کو برا لگتا ہے جس نے مغرب میں کچھ عرصہ گزارنے پہ مغرب کی اخلاقی اقدار کو قبول کرلیا ہو۔ لوگوں سے معاملے میں مغرب اور مشرق کی اخلاقی اقدار میں ایک بہت بڑا فرق دائرہ شخصی (پرسنل اسپیس) کے تعین کا ہے۔ مغربی اخلاقی اقدار میں سب سے اندرونی دائرہ شخصی کافی وسیع ہے؛ اس میں داخلے کا اختیار صرف خاص لوگوں کو ہے۔ مشرق میں دائرہ شخصی بہت چھوٹا ہوتا ہے۔ لوگوں کا مغرب میں کچھ عرصہ گزارنے کے بعد پاکستان میں اس مختصر دائرہ شخصی کو قبول کرنا مشکل کام ہوتا ہے۔ مغربی دنیا سے جو لوگ پاکستان جاتے ہیں ان کے منہ سے یہ شکایت عام سننے میں آتی ہے کہ پاکستان میں لوگ بہت قریب آ کر آپ سے بات کرتے ہیں اور قطار میں اس قدر جڑ کر کھڑے ہوتے ہیں کہ آپ کو اپنے سے پیچھے کھڑے شخص کی سانس اپنے کانوں پہ محسوس ہوتی ہے۔ آپ پاکستان میں بینک سے رقم نکلوانے جائیں تو کیشیر سے رقم لینے کے بعد جب آپ رقم کو گن رہے ہوتے ہیں تو آپ کے دائیں، بائیں، اور پیچھے کھڑے لوگ بھی آپ کے ساتھ یہ رقم گن رہے ہوتے ہیں۔
دنیا میں ہر زمانے میں مختلف گروہوں کی اخلاقی اقدار آپس میں ٹکرا رہی ہوتی ہیں اور آخر میں جیت طاقتور گروہ کی اخلاقی اقدار کی ہوتی ہے۔ چنانچہ یہ طے ہے کہ بہت جلد پوری دنیا میں دائرہ شخصی سے متعلق مغربی اقدار رائج ہوجائیں گی۔ مگر جب تک ایسا نہیں ہوتا اس وقت تک عمران خان کو کہنیاں مار کر  اپنے سے چپکنے والے لوگوں کو پیچھے ہٹانا ہوگا۔

Labels: , , , ,


This page is powered by Blogger. Isn't yours?