Tuesday, April 21, 2015

 

مسعود حامد، ایلس البینیا، اور ام جہل


اپریل انیس،  دو ہزار پندرہ


ایک فکر کے سلسلے کا کالم

کالم شمار دو سو سینتیس


مسعود حامد، ایلس البینیا، اور ام جہل

کراچی میں ایم کیو ایم کے خلاف رینجرز کے آپریشن کے بعد کراچی میں ٹارگٹ قتل کے واقعات میں کمی آگئی تھی اور کہا جارہا تھا کہ کراچی سے دہشت گردی کا خاتمہ ہوگیا ہے مگر پچھلے ہفتے پے در پے تشدد کے تین واقعات نے شہر والوں کو پریشان کردیا ہے۔ جمعرات کے روز پریڈی تھانے کے ایس ایچ او اعجاز خواجہ پہ قاتلانہ حملہ ہوا جس کے بعد اعجاز خواجہ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے چل بسے۔ اسی روز یعنی جمعرات کے روز ایک مقامی کالج کی امریکی پرنسپل ڈیبرا لوبو پہ قاتلانہ حملہ کیا گیا۔ ڈیبرا لوبو زخمی ہونے کے باوجود معجزانہ طور پہ حملے میں بچ گئیں۔ پھر جمعے کی رات ڈیفینس کے علاقے میں ایک گاڑی سے مسعود حامد صاحب کی لاش ملی۔ مسعود حامد پاکستان ہیرلڈ پبلیکیشنز نامی اشاعتی ادارے کے مارکیٹنگ ڈائریکٹر تھے۔ یہ اشاعتی ادارہ ڈان گروپ کا حصہ ہے جو کئی اخبارات اور جرائد کے علاوہ سٹی ایف ایم ۸۹ ریڈیو اور ڈان ٹی وی کا مالک ہے۔ دو دنوں میں ہونے والے تشدد کے ان تینوں واقعات میں سب سے منفرد مسعود حامد کے قتل کا واقعہ ہے۔ پولیس افسر اعجاز خواجہ شیعہ تھے اور قیاس ہے کہ ان کو ان کے مسلک کی وجہ سے قتل کیا گیا۔ پھر جن مسلح افراد نے ڈیبرا لوبو کی کار پہ فائرنگ کی وہ ایک رقعہ چھوڑ کر گئے جس میں اسلامی ریاست یعنی آئی ایس کی طرف سے حملے کی ذمہ داری قبول کی گئی تھی اور یہ بتایا گیا تھا کہ ڈیبرا لوبو کو امریکی ہونے کی وجہ سے نشانہ بنایا جارہا ہے۔ مگر مسعود حامد کو کیوں قتل کیا گیا؟ واضح رہے کہ اخباری اطلاعات کے مطابق مسعود حامد کے سر میں صرف ایک گولی کا نشان ہے؛ یہ بھی بتایا جارہا ہے کہ قاتل جائے واردات پہ اپنی گن چھوڑ گئے۔ مسعود حامد نہ تو شیعہ تھے اور نہ ہی قادیانی، تو پھر ان پہ حملہ کیوں کیا گیا؟ کیا مسعود حامد کو ان کے ادارتی تعلق کی وجہ سے قتل کیا گیا؟ شاید نہیں کیونکہ مسعود حامد نہ تو خبروں سے وابستہ تھے اور نہ ہی ابلاغ کے معاملے میں ادارے کی پالیسی بناتے تھے۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ یہ محض ایک لوٹ مار کی واردات تھی جو مسعود حامد کی مزاحمت کی وجہ سے بگڑ گئی؟ شاید نہیں کیونکہ مسعود حامد ایک پڑھے لکھے شخص تھے اور ہر سمجھدار شخص جانتا ہے کہ جب کسی نے آپ کے سر پہ گن رکھی ہو تو آپ ایک نازک اور کمزور پوزیشن میں ہوتے ہیں اور اس کمزوری میں مزاحمت کرنا آپ کے لیے بڑے نقصان کا سبب بن سکتا ہے۔ کیا وہ کوئی پیسوں کےلین دین کا معاملہ تھا یا کوئی اور ذاتی پرخاش، جس کی وجہ سے مسعود حامد اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے؟ ہم یہ بات نہیں جانتے مگر یہ ضرور جانتے ہیں کہ پے درپے تشدد کے ان تین واقعات نے ثابت کیا ہے کہ کراچی کی بدامنی کو کسی ایک سیاسی جماعت کے کھاتے میں ڈالنا عقل مندی نہیں ہے۔ کراچی میں ہر نوع کے دہشت گرد موجود ہیں اور ان سب کے خلاف مساوی کاروائی کی ضرورت ہے۔
میں مستقل ویڈیو بناتا ہوں اور اکثر کام کی ویڈیو بنانے کے بعد ان کے بارے میں مکمل طور سے بھول جاتا ہوں۔ حال میں اپنے ویڈیو ذخیرے میں مجھے ایسی ہی کام کی ایک ویڈیو ملی۔ یہ ویڈیو سنہ ۲۰۱۰ میں اس وقت بنائی گئی تھی جب "سندھ کی سلطنتیں" [ایمپائرز آف دا انڈس] کی مصنفہ انگریز لکھاری ایلس البینیا کے اعزاز میں سان ہوزے میں ایک تقریب ہوئی۔ اس مضمون کے ساتھ موجود ویڈیو اس وقت ریکارڈ کی گئی تھی۔ موجودہ جنوبی ایشیا کا ہر سیاستداں، ہر حکمراں جو سمجھتا ہے کہ وہ بہت تیس مارخان ہے اس کے لیے البینیا کی اس کتاب کو پڑھنا ٖضروری ہے تاکہ وہ سمجھ سکے کہ اس زمین پہ اس سے پہلے کتنے بڑے بڑے طرم خان آئے اور گزر گئے، اور آج ہم ان میں مشکل سے چند ہی کو جانتے ہیں۔
ایک طرف بل گیٹس کی پولیو کے خلاف جنگ جاری ہے اور دوسری طرف پاکستان میں پولیو ویکسین کے خلاف مذہبی انتہا پسندوں کی جنگ بھی زور پکڑ گئی ہے۔ ان انتہا پسندوں کی پوری کوشش ہے کہ پولیو سرزمین پاکستان میں قلعہ بند ہوکر محفوظ رہے اور بل گیٹس اپنا سا منہ لے کر رہ جائیں۔ پولیو ویکسین کے خلاف جدید ترین ہتھیار ایک ویڈیو کی صورت میں سامنے آیا ہے جس میں ایک برقعہ پوش خاتون نے بہت "تحقیق " سے ثابت کیا ہے کہ پولیو ویکسین دراصل دماغی سرطان کا سبب بنتی ہے اور اس ویکسین کی وجہ سے مسلمانوں کے گھر بچے ہونا بند ہوجائیں گے۔ اس ویڈیو میں بتایا گیا ہے کہ ان برقعہ پوش قابل خاتون کا نام ام محمد ہے۔ سب سے پہلے تو یہ کہنا ضروری ہے کہ کفار مغرب نے ویڈیو اسی لیے ایجاد کی تھی کہ ویڈیو میں تصویر نظر آئے۔ ایک ایسی ویڈیو جس میں ایک برقعہ پوش خاتون کیمرے کے سامنے کھڑی ہوں، اور ہمیں صرف ان کی آواز سنائی دے دراصل ویڈیو کے تصرف سے بغاوت ہے؛ اس کام کے لیے کفار مغرب کی دوسری ایجاد یعنی ریڈیو کو باآسانی استعمال کیا جاسکتا ہے۔ یہ ویڈیو بنانے والوں سے اور بالخصوص ام محمد سے ایک دوسری بات کرنا ضروری ہے، اور وہ یہ کہ برائے مہربانی اپنا تحقیقی مقالہ کفار مغرب کی تیسری بڑی ایجاد یعنی پرنٹ کی صورت میں پیش کریں۔ تحقیقی مقالہ پرنٹ کی صورت میں پیش کرنا اس لیے ضروری ہے تاکہ ہم آپ کے بتائے گئے ریفرینس کو چیک کرسکیں۔ واضح رہے کہ میں ویڈیو دیکھتا ہوا نوٹس لیتا رہا۔ ام محمد بتا رہی تھیں کہ پولیو ویکسین سے فلاں وقت فلاں جگہ اتنے بچے ہلاک ہوئے اور فلاں جگہ اس طرح سرطان پھیلا؛ پھر جب میں نے انٹرنیٹ پہ ام محمد کے ان دعووں کی تصدیق چاہی تو مجھے کچھ نہ ملا۔ اگر ام محمد نے اپنا مقالہ لکھت میں پیش کیا ہوتا تو اس بات کا امکان نہ رہتا کہ نوٹس لیتے وقت میں نے کوئی غلطی کی ہے اور ام محمد کا بیان بالکل درست ہے۔
ساری باتوں کی ایک بات یہ کہ ام محمد سے درخواست ہے کہ وہ اپنے نام میں ہمارے نبی کا نام لگا کر ایک مقدس ہستی کی تذلیل کی کوشش نہ کریں۔ جس طرح نبی کے زمانے میں ایک شخص اپنی خرافات کی وجہ سے ابو جہل مشہور تھا اسی طرح آپ کی فضول باتوں کی وجہ سے آپ پہ ام جہل کی کنیت زیادہ سجتی ہے۔



Labels: , , , , , , ,


Comments: Post a Comment



<< Home

This page is powered by Blogger. Isn't yours?