Tuesday, April 14, 2015
عمران خان کہنیاں کیوں مارتے ہیں؟
اپریل بارہ، دو ہزار پندرہ
ایک فکر کے سلسلے کا کالم
کالم شمار دو سو چھتیس
عمران خان کہنیاں کیوں مارتے ہیں؟
سنہ ۲۰۰۵۔ شمالی کیلی فورنیا کے شہر پالو آلٹو میں آرگنائزیشن آف پاکستانی آنٹریپرینئیرز کی اوپن فورم نامی کانفرینس کی کاروائی زوروں پہ تھی۔ لابی میں لگے ایلیویٹر کو صرف ایک منزل اوپر جانا تھا۔ صبح سے دوپہر کے اس سمے تک اوپن فورم کے شرکا بہتیرے بار اوپر سے نیچے اور نیچے سے اوپر جانے کا کام سیڑھیوں کی مدد سے کر چکے تھے، مگر اس وقت وہ ایلیویٹر کھچاکھچ بھرا ہوا تھا۔ بلکہ ایلیویٹر چلنے سے پہلے اس کے باہر اتنی کثیر تعداد میں لوگ جمع تھے کہ ایلیویٹر میں چند ہی لوگ سما پائے تھے۔ باقی باہر نامراد کھڑے رہ گئے تھے۔ اس ایلیویٹر سواری کی خاص بات یہ تھی کہ عمران خان اوپن فورم میں اپنی کلیدی تقریر کے بعد ایلیوٹر سے اوپر جارہے تھے اور ان کے معتقدین کا ایک گروہ ان کے ساتھ تھا۔ ایلیویٹر کا دروازہ بند ہوا تو تو میں نے وہاں موجود تمام لوگوں کو غور سے دیکھا۔ میں شاید ان مسافروں میں واحد شخص تھا جو عمران خان کے لیے والہانہ عقیدت کے ایسے جذبات نہ رکھتا تھا جیسے دوسرے لوگوں کے چہروں سے عیاں تھے۔ اپنی کمال مہربانی سے اوپن کی قیادت، بالخصوص عمیر خان، نے مجھے یہ موقع فراہم کیا تھا کہ عمران خان جتنا عرصہ اوپن کانفرینس میں رہیں، ہر محفل میں جہاں عمران خان بولیں، میں شریک رہوں اور اس عوامی شخصیت کا دور سے جائزہ لیتا رہوں۔ اور اسی وجہ سے مجھے اس ایلیوٹر میں جگہ ملی تھی ۔میں اس وقت عمران خان اور ان کے مریدوں کو دیکھ کر سوچ رہا تھا کہ کسی شخص سے عوام محبت کا ایسا اظہار کریں تو اس شخص کے لیے اپنے دماغ کو ٹھکانے رکھنا کس قدر مشکل کام ہوتا ہوگا۔
عمران خان کیا ہیں اور ان کے کن کارناموں کی وجہ سے لوگ ان کے دیوانے ہیں، اس بارے میں بہت طویل بحث ہوسکتی ہے، مگر اس بات سے انکار ممکن نہیں کہ بہت سے لوگ عمران خان کے پرستار ہیں اور ان کی طرف یوں کھنچے چلے آتے ہیں جیسے لوہے کی ہلکی پھلکی سوئیاں کسی طاقتور مقناطیس کے رخ ہوجاتی ہیں۔
حال میں ایک ویڈیو سامنے آئی ہے جس میں عمران خان کو اپنے پیچھے کھڑے ایک شخص کو، جو غالبا ان کا مرید رہا ہوگا، کہنی مارتے دکھایا گیا ہے۔ آپ سوال کرسکتے ہیں کہ عمران خان لوگوں کو کہنیاں کیوں مارتے ہیں؟ اور اگر آپ عمران خان سے یہ سوال کریں تو یقینا عمران خان پلٹ کر آپ سے پوچھیں گے کہ لوگ ان سے، یعنی عمران خان سے، اس قدر چمٹ کر کیوں کھڑے ہوتے ہیں۔ غیر لوگوں کا اس قدر قریب آجانا صرف عمران خان کو ہی نہیں کھلتا بلکہ ہر اس شخص کو برا لگتا ہے جس نے مغرب میں کچھ عرصہ گزارنے پہ مغرب کی اخلاقی اقدار کو قبول کرلیا ہو۔ لوگوں سے معاملے میں مغرب اور مشرق کی اخلاقی اقدار میں ایک بہت بڑا فرق دائرہ شخصی (پرسنل اسپیس) کے تعین کا ہے۔ مغربی اخلاقی اقدار میں سب سے اندرونی دائرہ شخصی کافی وسیع ہے؛ اس میں داخلے کا اختیار صرف خاص لوگوں کو ہے۔ مشرق میں دائرہ شخصی بہت چھوٹا ہوتا ہے۔ لوگوں کا مغرب میں کچھ عرصہ گزارنے کے بعد پاکستان میں اس مختصر دائرہ شخصی کو قبول کرنا مشکل کام ہوتا ہے۔ مغربی دنیا سے جو لوگ پاکستان جاتے ہیں ان کے منہ سے یہ شکایت عام سننے میں آتی ہے کہ پاکستان میں لوگ بہت قریب آ کر آپ سے بات کرتے ہیں اور قطار میں اس قدر جڑ کر کھڑے ہوتے ہیں کہ آپ کو اپنے سے پیچھے کھڑے شخص کی سانس اپنے کانوں پہ محسوس ہوتی ہے۔ آپ پاکستان میں بینک سے رقم نکلوانے جائیں تو کیشیر سے رقم لینے کے بعد جب آپ رقم کو گن رہے ہوتے ہیں تو آپ کے دائیں، بائیں، اور پیچھے کھڑے لوگ بھی آپ کے ساتھ یہ رقم گن رہے ہوتے ہیں۔
دنیا میں ہر زمانے میں مختلف گروہوں کی اخلاقی اقدار آپس میں ٹکرا رہی ہوتی ہیں اور آخر میں جیت طاقتور گروہ کی اخلاقی اقدار کی ہوتی ہے۔ چنانچہ یہ طے ہے کہ بہت جلد پوری دنیا میں دائرہ شخصی سے متعلق مغربی اقدار رائج ہوجائیں گی۔ مگر جب تک ایسا نہیں ہوتا اس وقت تک عمران خان کو کہنیاں مار کر اپنے سے چپکنے والے لوگوں کو پیچھے ہٹانا ہوگا۔
Labels: East and West, elbowing people, Imran Khan, OPEN Forum 2005, Personal Space