Tuesday, April 28, 2015

 

سبین محمود کا قاتل کون ہے؟






اپریل چھبیس،  دو ہزار پندرہ


ایک فکر کے سلسلے کا کالم

کالم شمار دو سو اڑتیس


سبین محمود کا قاتل کون ہے؟
 
سبین محمود کے قتل کے بعد سوشل میڈیا پہ متحرک افراد سبین کی یاد میں محفلیں منعقد کررہے ہیں، سبین محمود کا مشن جاری رکھنے کا عزم کر رہے ہیں، مگر اس کے ساتھ ہی یہ سوال ہر ذہن میں ہے کہ سبین محمود کو کس نے قتل کیا۔ بہت سی محفلوں میں یہ بنیادی مگر ناپسندیدہ سوال نہیں اٹھایا جا رہا اور اسی لیے دلوں میں ایک خلش ہے۔ تو آئیے بہت طاقتور آواز سے یہ سوال اٹھائیں کہ سبین محمود کا قاتل کون ہے۔
مگریہ اہم سوال کرنے کے ساتھ ساتھ ایمانداری سے یہ بھی سمجھ لیجیے کہ جہاں کراچی میں ٹی ٹو ایف نامی ٹھیے کی روح رواں سبین محمود کے قتل پہ ہر سوچنے سمجھنے والا شخص غم و غصے میں ہے وہیں اس افسوس ناک واقعے سے زیادہ افسوس ناک بات یہ ہے کہ سبین محمود کا قتل ان چاروں گروہوں کے لیے بے حد نفع بخش ثابت ہوا ہے جن گروہوں پہ سبین محمود کے قتل کا الزام لگایا جارہا ہے۔ وہ چار گروہ کونسے ہیں؟ اول، پاکستانی فوج سے تعلق رکھنے والی خفیہ ایجنسیاں، دوئم، بلوچ مزاحمت کار، سوئم، مذہبی شدت پسند، اور چہارم، پاکستان میں کام کرنے والے بھارتی خفیہ ایجنسیوں کے ایجنٹ۔
کیونکہ  نہ تو اب تک سبین محمود کے قتل کی ذمہ داری کسی گروہ نے قبول کی ہے اور نہ ہی اس واردات میں ملوث کسی شخص کی گرفتاری عمل میں آئی ہے اس لیے اس وقت سبین محمود کے قاتل یا قاتلوں کے متعلق محض قیاس آرائیاں ہی کی جاسکتی ہیں۔ آپ سبین محمود کا قاتل کسے ٹہراتے ہیں اس بات کا انحصار اس بات پہ ہے کہ خود آپ کے سیاسی خیالات کس نوع کے ہیں۔ اس موضوع پہ دو ایسے اشخاص کے درمیان مکالمات کا تبادلہ ملاحظہ فرمائیے جن میں سے ایک کا تعلق بائیں بازو سے اور دوسرے کا دائیں بازو سے ہے۔
کھبا: سبین محمود کا قتل آئی ایس آئی نے کرایا ہے کیونکہ آئی ایس آئی نہیں چاہتی کہ بلوچستان میں جاری شورش کا زیادہ چرچا ہو۔ ایجنسیوں کا خیال ہے کہ بلوچستان کے خراب حالات کو میڈیا میں اچھالنے سے کام اور خراب ہورہا ہے۔ ایجنسیوں کی سوچ یہ ہے کہ بلوچ مزاحمت کار تھوڑے سے ہیں، اگر سازشی عناصر ان مزاحمت کاروں کو میڈیا میں جگہ نہ دیں تو یہ آگ کچھ ہی عرصے میں خود بخود بجھ جائے گی۔ بلوچستان کے حالات پہ ایسا ہی ایک پروگرام اپریل نو کو لاہور کی جامعہ، لمز میں ہونے جا رہا تھا۔ آئی ایس آئی نے یونیورسٹی حکام کو باقاعدہ خط لکھ کر جامعہ کو اس پروگرام کرانے سے روکا۔ اس واقعے پہ بہت شور مچا۔ جب سبین نے وہی پروگرام کراچی میں اپنے ٹھیے پہ کرانے کا اعلان کیا تو اب پرانی لاہور والی حکمت عملی استعمال نہیں کی جاسکتی تھی۔ سبین کو پروگرام کے فورا بعد قتل کرادیا گیا۔ اس قتل سے آئی ایس آئی نے اپنی مرضی کے نتائج حاصل کرلیے ہیں۔ اب میڈیا اور سوشل میڈیا سے تعلق رکھنے والا ہرشخص بلوچستان کے معاملے پہ بات کرتے ہوئے ہچکچائے گا اور ایک خوداختیاری سینسرشپ قائم ہوجائے گی۔
سجا: اس سے زیادہ حماقت کی بات کوئی اور نہیں ہوسکتی۔ ایجنسیوں کو اگر کسی کو واقعی قتل کرنا ہوتا تو وہ سبین کو راستے سے کیوں ہٹاتیں؟ وہ کیوں نا براہ راست ماما قدیر، فرزانہ، یا محمد علی تالپورسے نمٹتیں؟ گنتی کے یہ تین لوگ بلوچ دہشت گردوں کے معصوم، سول چہرے ہیں۔ بلوچ دہشت گردوں نے زیریں بلوچستان میں چن چن کر پنجابیوں اور مہاجروں کو مارا ہے۔ حالیہ تاریخ میں گروہی نسل کشی، ایتھنک کلینسنگ، کی اس سے زیادہ واضح اور بربریت سے بھرپور مثال ملنا مشکل ہے۔ اس کے علاوہ سبین کو عین بلوچستان والے سیمینار کے بعد مارنے سے زیادہ حماقت کا کام اور کیا ہوسکتا تھا کیونکہ اس طرح تو فورا سب کا دھیان فوج اور آئی ایس آئی ہی کی طرف جانا تھا۔
 کھبا: بلوچستان والے سیمینار کے فورا بعد سبین کو مارنا ہی تو اس گھنائونے قتل کا سب سے چالاک پہلو ہے۔ اور ایسا اس لیے کیا گیا تاکہ عام لوگ وہ بات کہہ سکیں جو آپ کہہ رہے ہیں کہ ایجنسیوں کے لوگ اتنے بے وقوف نہیں ہیں کہ ایسا کام کریں جس سے سب کا دھیان سیدھا ان کی طرف جائے۔
سجا: آپ تو یہ دیکھیے کہ اس واقعے سے سب سے زیادہ سیاسی فائدہ کس نے حاصل کیا۔ سب سے زیادہ فائدہ بلوچ مزاحمت کاروں کو ہوا۔ کراچی میں ان کے سیمینار سے جو کچھ سیاسی فائدہ انہیں حاصل ہونا تھا، سبین کے قتل سے وہ فائدہ کئی گنا زیادہ بڑھ گیا۔ سبین سے اپنا کام نکلوانے کے بعد انہوں نے سبین کا کام تمام کر کے اس کے قتل کو بھی کیش کرلیا۔ سبین کو بلوچ دہشت گردوں نے قتل کیا ہے۔ اس قتل سے ان کے اپنے تین لوگ بھی محفوظ رہے اور پوری دنیا میں بلوچ مزاحمت کاروں کا ایسا چرچا ہوگیا جیسا چرچا ایک زندہ سبین نہ کرسکتی تھی۔
کھبا: آپ کی بات محض ایک سازشی ذہن کی پیداوار ہے۔ بات بدلے وقت کی ہے۔ ایک وقت تھا کہ پاکستان میں انگلش میڈیم انقلابی بڑی طاقت نہ سمجھے جاتے تھے۔  انگلش میڈیم انقلابی ڈان سمیت پاکستان کے مختلف انگریزی اخبارات میں اپنے دل کی بھڑاس نکالتے تھے اورلکھنے والے کی بات صرف ان ہی لوگوں تک پہنچتی تھی جو خود انگلش میڈیم انقلابیوں جیسے تھے۔ قصہ مختصر یہ کہ انگریزی میں لکھنے والے ایسے انقلابی کسی طاقت کے لیے کوئی خطرہ نہ تھے۔ مگر دیکھتے دیکھتے وقت بدل گیا۔ ہر شخص کے ہاتھ میں دستی فون آیا اور پھر یہ فون دانا (اسمارٹ) ہوگیا یعنی اسی فون پہ انٹرنیٹ کے ذریعے دنیا بھر کی خبریں اور ویڈیو بھی پہنچنے لگے۔ انگلش میڈیم انقلابی اردو میں لکھ تو نہیں پاتے مگر اردو بول ضرور لیتے ہیں۔ مواصلات میں سوشل میڈیا کے انقلاب کے بعد ایسے انقلابی دستی فون کے ذریعے بنائے جانے والے ویڈیو کو ہر خاص و عام تک پہنچانے کے قابل ہوگئے۔ ان کی آواز جو پہلے محض انگریزی اخبارات کے کالم تک محدود تھی اب ہر جگہ پہنچنے لگی اور اس بات پہ بہت سے ماتھے ٹھنکے۔ ٹی وی میڈیا کو حامد میر پہ قاتلانہ حملے سے لائن پہ لایا گیا۔ خفیہ ایجنسیوں سے تعلق رکھنے والے ان ہی لوگوں کی اب یہ کوشش ہے کہ سبین محمود کے قتل سے سوشل میڈیا بھی اسی طرح لائن پہ آجائے۔
سجا: آپ افواج پاکستان کو بدنام کرنے کی کوشش نہ کریں۔ بلوچ مزاحمت کاروں کے بعد اس قتل کا دوسرا بڑا فائدہ بھارت کو ہوا ہے۔ اس قتل میں پاکستانی فوج کو ملوث کرنے کی سازش کی جارہی ہے اور چین سمیت دنیا بھر میں یہ پیغام پہنچایا جارہا ہے کہ پاکستان سرمایہ کاری کے لیے موزوں جگہ نہیں ہے۔ اگر سبین کا قتل بلوچ مزاحمت کاروں نے نہیں کیا تو پھر اس میں را کے ملوث ہونے کا عین امکان ہے۔ را کے لیے کراچی میں موجود کرائے کے قاتلوں کو خریدنا ذرا مشکل نہیں ہے۔
سبین محمود کے قتل کا تھوڑا فائدہ مذہبی دہشت گردوں کو بھی پہنچا ہے۔ سبین مذہبی انتہا پسندوں کے خلاف بھی آواز اٹھاتی تھی۔ گو کہ انگریزی میں اٹھنے والی اس آواز کی بہت زیادہ اہمیت نہیں تھی مگر بہرحال یہ آواز کچھ لوگوں کے لیے تکلیف دہ تھی۔ عین ممکن ہے کہ مذہبی دہشت گردوں نے بلوچستان کے سیمینار والے دن کو سبین سے جان چھڑانے کے لیے  اچھا موقع جانا ہو۔
کھبا: آپ لاکھ تاویلیں پیش کریں، سبین محمود کے قتل کے بعد زیادہ تر انگلیاں آئی ایس آئی کی طرف اٹھ رہی ہیں۔ چنانچہ ضرورت اس بات کی ہے کہ آئی ایس آئی اس قتل کی تحقیقات کرے اور مجرموں کو جلد از جلد دنیا کے سامنے پیش کرے۔ مجھے راہزنوں سے گلہ نہیں، تیری راہبری کا سوال ہے۔
سجا: یقینا ایسا ہی ہوگا۔ آئی ایس پی آر پہلے ہی اس طرح کا بیان دے چکی ہے۔
....
اس دفعہ کالم ملتان پہ لکھنا تھا۔ اسی مناسبت سے ملتان پہ ایک مختصر ویڈیو تیار کی تھی۔ مگر سبین محمود کے قتل کا المناک واقعہ ہوا تو اس پہ لکھنے بیٹھ گیا۔ اس طرح ویڈیو ملتان کی ہے اور ذکر سبین کا۔

Labels: , , , , , ,


Comments: Post a Comment



<< Home

This page is powered by Blogger. Isn't yours?