Tuesday, February 24, 2015

 

اسٹیسی





فروری اکیس،  دو ہزار پندرہ


ایک فکر کے سلسلے کا کالم

کالم شمار دو سو انتیس


اسٹیسی

 
اسٹیسی سے باتیں کرتے ہوءے مجھے جلد ہی اندازہ ہوگیا کہ اس کے اندر وہ خوداعتمادی ہے جو کسی ایسی تءیس سالہ لڑکی میں ہوسکتی ہے جس نے یکے بعد دیگرے کءی کامیابیاں حاصل کی ہوں۔
میں کسی لمبی پرواز میں بہت دیر اپنی نشست پہ بیٹھا نہیں رہ سکتا۔ لمبی پرواز میں کسی نہ کسی بہانے اپنی نشست سے اٹھ جاتا ہوں اور پیچھے ضرورت گاہوں کے ساتھ کھڑا رہتا ہوں۔ عملہ مجھے وہاں سے ہٹاءے تو آگے جا کر کسی اور ضرورت گاہ کے باہر کھڑا ہوجاتا ہوں۔ اتحاد اءیر ویز کی سان فرانسسکو سے ابوظہبی کی سولہ گھنٹے کی پرواز کے دوران بھی ایسا ہی ہوا۔  سان فرانسسکو سےچلے بہت وقت ہوگیا تو میں اٹھ کر پیچھے چلا گیا جہاں مسافروں کو کھلانے پلانے کے بعد دو اءیرہوسٹس سستانے کے لیے بیٹھی ہوءی تھیں۔ میں نے ان سے بات شروع کی تو اسٹیسی نے ہی بات کرنے میں دلچسپی ظاہر کی۔ مجھے خیال ہوا کہ شاید دوسری اءیرہوسٹس کا اتنا تجربہ نہ تھا۔ شاید وہ ڈرتی ہو کہ کسی مرد سے بہت زیادہ بات کی تو مرد کہیں بے تکلف نہ ہوجاءے۔ مگر اسٹیسی ایسی نہ تھی۔ وہ تجربہ کار تھی۔ اسے اپنی طاقت کا اندازہ تھا۔ وہ جانتی تھی کہ وہ بے دھڑک کسی بھی مسافر سے بے تکلفی سے بات کرسکتی تھی اور جب چاہے اپنی مرضی سے یہ سلسلہ منقطع کرسکتی تھی۔
اتحاد اءیرلاءنز کی ملازمت سے پہلے اسٹیسی انڈگو اءیرلاءن میں کام کرتی رہی تھی۔ انڈگو بھارت میں مقامی پروازوں کے لیے ایک کم قیمت اءیرلاءن ہے۔ اسٹیسی نے سوچا تھا کہ اس کو اکیس سال کی عمر میں کسی بین الاقوامی اءیرلاءن میں ملازم ہونا چاہیے۔ " اتحاد سے میرا انٹرویو ٹھک میری اکیسویں سالگرہ کے  موقع پہ ہوا،" اس نے ہنستے ہوءے مجھے بتایا۔ اس دفعہ ابوظہبی پہنچنے پہ اسٹیسی کو دو دن آرام کرنا تھا اور پھر ایتھنز جانا تھا، ایتھنز کے بعد اس کی اگلی پرواز لاس اینجلس کی تھی، اور اس کے بعد پھر سان فرانسسکو کی باری تھی۔
اسٹیسی نے اپنے بالوں کو جوڑے کی شکل میں باندھ رکھا تھا۔ مگر اس وقت تک جوڑے کے بال ایک طرف سے ڈھیلے ہو کر جھول گءے تھے۔ مجھے دور دراز کے شہروں کے نام گنوانے کے دوران ہی اس نے اپنے بالوں کو جوڑے سے کھول کر ایک بار پھر کسا اور جوڑا بنا کر بالوں میں دونوں طرف پن لگا دیے۔
جوان لوگ امکانات کے ایک بے کراں سمندر کے سامنے کھڑے ہوتے ہیں۔ ہر سال، ہر ماہ، ہر دن، ہر لحظہ انسان جو فیصلے کرتا ہے ان فیصلوں کے حساب سے اس کی زندگی کی سمت متعین ہوتی جاتی ہے۔ آخری عمر آتے آتے تو بس ایک سرنگ سی رہ جاتی ہے جس میں انسان کو سیدھا آگے بڑھنا ہوتا ہے۔
اسٹیسی کے بارے میں میرا خیال تھا کہ اس نے اپنی تءیس سالہ زندگی میں کوءی ناکامی نہیں دیکھی تھی۔  وہ شاید مستقل کامیبایوں سے ہم کنار رہی تھی۔ شاید ایسا تھا کہ امکانات کے سمندر میں اس نے اپنی کشتی کا رخ جس طرف کیا وہاں اسے  پرسکون سمندر ہی ملا۔ کیا کسی ناکامی کے بعد، یا پے درپے کءی ناکامیوں کے بعد بھی وہ پراعتماد اور پرامید رہے گی، میں اس بارے میں سوچتا رہا۔ طوفان تو اس زندگی کا حصہ ہیں۔ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ اس کے مقدر میں کوءی طوفان نہ ہو؟
ہمارا جہاز اس وقت بلادالشام پہنچ چکا تھا۔ میں اسکرین پہ دیکھ سکتا تھا کہ جہاز داعش کے علاقے سے بچ کر پرواز کررہا تھا۔ میں نے یہ مشاہدہ اسٹیسی کو پیش کیا تو وہ بھی محظوظ ہوءی۔ اسی پرواز میں کچھ پہلے میرا خیال تھا کہ جہاز یورپ پہ پرواز کرتے ہوءے یوکرین سے بچ کر گزرے گا مگر مجھے وہاں اس قسم کی احتیاط نظر نہ آءی تھی حالانکہ کچھ ہی عرصہ پہلے یوکرین کے اوپر اڑنے والا ملاءیشین اءیرلاءنز کا ایک جہاز مارگرایا گیا تھا۔ میرے علم کے مطابق داعش کے پاس ایسے میزاءل نہ تھے کہ وہ پینتیس، چالیس ہزار فٹ کی بلندی پہ پروز کرنے والے کسی طیارے کو مار گراءیں۔ یوکرین شام کے مقابلے میں زیادہ خطرناک خطہ تھا۔ یا شاید کپتان نے یوکرین کے قریب بھی ایسی ہی احتیاط کی ہو جیسی وہ شام کے قریب کررہا تھا مگر اس بارے میں مجھے نقشے پہ اندازہ نہ ہوا ہو۔
اسٹیسی کردستان کے بارے میں اس وقت تک نہ جانتی تھی جب تک اس کی وہاں جانے کی باری نہ آءی۔ "ایک دن مجھے بتایا گیا کہ اگلے روز مجھے اربل جانا ہے۔ اربل؟ یہ اربل کہاں ہے؟ میں نے حیرت سے پوچھا تھا۔ جب مجھے یوں ہی لاتعلقی سے بتایا گیا کہ اربل عراق میں ہے تو میں چونک گءی۔ عراق؟ کیا مجھے دیوانہ سمجھتے ہو کہ میں عراق جاءوں گی؟ میں نے احتجاج کیا تو مجھے بتایا گیا کہ عراق کا وہ علاقہ  بہت محفوظ ہے اور وہاں باقاعدگی سے جہاز جاتے ہیں۔" اسٹیسی نے مجھے پورا واقعہ مزے لے کرسنایا۔
گو کہ میں نے اسٹیسی سے یہ نہ پوچھا کہ اس کا تعلق کہاں سے تھا مگر جس طرح اس نے اءیر ایشیا کے سی ای او کے نسلی تعلق کے بارے میں مجھ سے غور سے سنا تھا مجھے اندازہ ہوا کہ اسٹیسی کا تعلق جنوبی ہندوستان کی کسی عیساءی کمیونٹی سے تھا۔ اس بات کا بھی امکان تھا کہ اسٹیسی کی رگوں میں دوڑتے خون کا ایک چھوٹا حصہ پرتگال سے درا٘مد شدہ ہو۔ میں نے اسٹیسی کے نام کے بارے میں بھی سوچا کہ اسٹیسی کی اب تک کی کامیاب زندگی میں اسے کے نام کا کتنا دخل تھا۔ صنعتی انقلاب کے بعد دنیا کی راہ نماءی میں عیساءی نام والے لوگ آگے آگے رہے ہیں اور اسی لیے دنیا میں آج عیساءی نام قابل اعتماد سمجھے جاتے ہیں۔
اسٹیسی نے کہا کہ وہ صرف دو سال اور جہاز پہ کام کرنا چاہتی تھی۔
" بس بہت ہوگیا۔ میں تنگ آگءی ہوں اس روز روز کے سفر سے۔ میں ایک جگہ ٹک کر رہنا چاہتی ہوں،" اس نے مجھے بتایا۔
حالانکہ بات یوں شروع نہ ہوءی تھی۔ اسٹیسی نے اءیرلاءن مں نوکری ہی اسی لیے کی تھی وہ دنیا گھومنا چاہتی تھی۔  لوگ کوءی بھی کام کریں، اور وہ کام انہیں کتنا ہی پسند کیوں نہ ہو، ایک دن ان کا دل اس کام سے بھر جاتا ہے۔
شاید اسی طرح انسان کا دل ایک دن زندگی سے بھی بھر جاتا ہے۔

=+++


Labels: , , , , , , , , , , ,


Tuesday, February 17, 2015

 

کراچی جشن ادب، چند مشاہدات




فروری سولہ،  دو ہزار پندرہ


ایک فکر کے سلسلے کا کالم

کالم شمار دو سو اٹھاءیس


کراچی جشن ادب، چند مشاہدات


بات دراصل اسکاٹ لینڈ سے شروع ہوءی۔ ایک ذہین اسکاٹ کی دلچسپی تاریخ میں تھی۔ اس نے روایتی تعلیم حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ کءی زمینی سفر کیے اور اپنے اس سفر سے بہت کچھ سیکھا۔ اس نے پرانی تاریخی دستاویزات حاصل کیں اور تحقیق سے کتابیں لکھنے کا کام شروع کیا۔ جب اس نے بہادر شاہ ظفر پہ کتاب لکھی تو اچانک بہت سے لوگ اس کے کام کی طرف متوجہ ہوءے ۔ اس کتاب میں انگلستان کے لوگوں کی دلچسپی بھی تھی اور ہندوستان کے لوگوں کی بھی۔ کتاب اس لیے بھی دلچسپ تھی کہ یہ لکھنے والا تاریخ داں سے زیادہ کہانی گو تھا۔ یہ مصنف اپنے تخیل سے تاریخی واقعات میں مختلف رنگ بھرنا جانتا تھا۔ اور یوں ولیم ڈالرمپل قارءین کے ایک وسیع گروہ تک پہنچ گیا۔ اپنی کتابوں کی فروخت سے وہ اتنا آسودہ ہوگیا کہ اپنے قلم کے سہارے زندگی گزار سکتا تھا۔ اس موقع پہ اس نے ایک نیا جوا کھیلا۔ کیوں نہ وہ ہندوستان منتقل ہوجاءے جہاں وہ اسی رقم سے انگلستان کے مقابلے میں کہیں زیادہ پرتعیش زندگی بسر کرسکتا تھا؟ اور یوں ڈالرمپل ہندوستان پہنچ گیا۔ ڈالرمپل دو اور وجوہات سے ہندوستان پہنچا: ایک یہ کہ جنوبی ایشیا میں اس کی دلچسپی تھی اور دوءم یہ کہ اس خطے میں ایک بڑی جنگ بھی شروع ہوچکی تھی۔ ایسے تجربات کسی بھی لکھنےوالے کے لیے ایک بہت بڑا خزانہ ہوتے ہیں۔
ڈالرمپل اپنے اہل خانہ کے ساتھ ہندوستان میں ایک فارم پہ بہت اچھی زندگی گزار رہا تھا مگر وہ اور بھی بہت کچھ کرنا چاہتا تھا۔ اس نے اسکاٹ لینڈ کے شہر ایڈن برا میں وہ سالانہ میلہ دیکھا تھا جس کا ایک حصہ لکھنے والوں کے لیے مختص ہوتا ہے۔ وہ ایسا ہی جشن ادب ہندوستان میں دیکھنا چاہتا تھا۔ اور یوں ڈالرمپل نے اپنے بھارتی لکھاری دوستوں کے ساتھ  مل کر جے پور جشن ادب کی بنیاد رکھی۔ ایک دو سال کے اندر ہی وہ جشن ادب بہت مقبول ہو گیا اور اس میلے میں دور دور سے، لکھنے والے اور ان کو دیکھنے اور سننے والے لوگ آنے لگے۔ اوروں کے ساتھ جے پور جشن ادب میں پاکستانی بھی پہنچے۔ اور یوں چراغ سے چراغ جلے، کراچی جشن ادب کی بنیاد پڑی اور اس سال کراچی جشن ادب کا چھٹا اجلاس تھا۔
میں کراچی جشن ادب کے افتتاحی روز تو نہ پہنچا مگر دوسرے دن وہاں پہنچ گیا۔ وہ تین روزہ ادبی میلہ کراچی کے بیچ لگژری ہوٹل میں منعقد کیا گیا تھا۔ جشن ادب کے دوسرے روز وہاں خوب گہما گہمی تھی۔ پاکستان میں اس قدر قتل و غارت گری اور فساد ہے کہ لوگ اچھی خبر کی تلاش میں رہتے ہیں۔ وہ کہیں سے امید کی ایک کرن دیکھنا چاہتے ہیں۔ ایسی تاریکی میں کراچی جشن ادب لوگوں کو ایسی ہی امید دکھاتا ہے۔ اس جشن ادب میں وہ لوگ شرکت کرتے ہیں جو ملک کے لیے اچھا خواب تو دیکھتے ہیں مگر اس خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے کے لیے ان کے پاس طاقت نہیں ہے۔ وہ اس جشن ادب میں ہم ٘خیال لوگوں سے مل کر خوش ہوتے ہیں۔
جشن ادب میں مہمانوں کا جس طرح اور جس زبان میں استقبال کیا جارہا تھا اس سے ظاہر تھا کہ پاکستان میں انگریزی کا اثر تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ پاکستان میں انگریزی صرف ایک خارجی، بین الاقوامی حامیت کی زبان ہی نہیں ہے بلکہ انگریزی میں گفت و شنید کسی شخص کے اونچے طبقاتی تعلق کا مظہر ہوتی ہے۔ انگریزی بولنا ظاہر کرتا ہے کہ آپ ماڈرن ہیں اور معاشرے کے پڑھے لکھے، سلجھے ہوءے طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔
کراچی جشن ادب میں ہفتے کے روز ایک ایسی محفل میں شرکت کا موقع ملا جہاں انتظار حسین صاحب موجود تھے۔ اسی محفل میں موجود اداکار فریال گوہر نے ایک افسانہ انتظار حسین صاحب کا اور ایک  سعادت حسن منٹو کا ڈراماءی اداءیگی سے پیش کیا۔ میں اس محفل میں کچھ تاخیر پہنچا  اس لیے انتظار حسین کا افسانہ نہ سن پایا۔ صرف انتظار حسین کا اپنے افسانے پہ تبصرہ سننے کا موقع ملا۔ انتظار حسین کا کہنا تھا کہ لکھنے والے کو کبھی اپنی تحریر کی تشریح نہیں کرنی چاہیے کیونکہ اس طرح اس کی تحریر قیود میں بندھ جاتی ہے۔ سعادت حسن منٹو کا منتخب افسانہ ایک پرانے دور میں لکھے جانے کے باوجود حسب حال تھا۔ ایک مارواڑی سنہ سینتالیس کے بعد کراچی آتا ہے اور یہاں اپنا کاروبار جماتا ہے۔ اس کو بتایا جاتا ہے کہ جو لوگ حادثے میں مارے جاءیں وہ شہید کہلاتے ہیں۔ وہ یہ بھی جانتا ہے کہ کسی بھی مسلمان کے لیے شہادت بہت اعلی عہدہ ہے۔ چنانچہ یہ کاروباری شخص ناقص عمارتوں کی تعمیر سے لوگوں کی شہادت کا انتظام کرنے لگتا ہے۔



Labels: , , , ,


Tuesday, February 10, 2015

 

پہلے انسان





فروری نو،  دو ہزار پندرہ


ایک فکر کے سلسلے کا کالم

کالم شمار دو سو ستاءیس


پہلے انسان


جب فساد بہت زیادہ بڑھا اور ایک خاص مسلک کے چند لوگ اپنے ہی مسلک کے لوگوں کی اکثریت کی خاموشی کو اپنے کالے کرتوتوں کی تاءید جان کر اقلیتی مسالک اور مذاہب کے لوگوں پہ تواتر سے حملے کرنے لگے تو بہت دن تو خاموشی رہی، لوگ مارے جاتے رہے، مگر پھر ایک عجیب بات ہوءی۔ ہوا یوں کہ ایک روشن خیال، جواں سال وکیل کو خیال آیا کہ جن فرقوں اور ادیان کے لوگوں کو مارا جارہا ہے کیوں نا ان کو یکجا کیا جاءے۔ اتنے مختلف خیالات کے لوگوں کو کس بات پہ اکھٹا کیا جاسکتا ہے؟ انسانیت کے نام پہ،نوجوان کو خیال آیا۔ اس نوجوان نے جو تحریک شروع کی اس کا نام 'پہلے انسان' تھا۔ پیغام بہت واضح تھا اور وہ یہ کہ کسی بھی شخص کے مذہبی اور سیاسی خیالات انسان کی دوسری اور تیسری پرتیں ہیں۔ ان سب تہوں کے اندر ایک انسان ہے جو اپنی حاجات اور ضروریات کے حساب سے بالکل دوسرے انسانوں جیسا ہے۔ انسان کی اول ضرورت حفاظت کی ہے۔ وہ محفوظ رہنا چاہتا ہے، زندگی کی حتی الامکان داءمیت چاہتا ہے۔ اس اول ضرورت کے بعد اس کی ضروریات میں سر چھپانے کا ٹھکانہ، اور کھانا پینا شامل ہیں۔ مگر بغور دیکھا جاءے تو ان دوسری ضروریات کو پورا کرنے کی خواہش میں بھی اول ضرورت کی تسکین ہی پوشیدہ ہے یعنی ہر ممکن طور پہ زندگی کی طوالت کی کوشش۔ اگر دنیا کے سارے انسان اس بنیادی سطح پہ برابر اور ایک جیسے ہیں تو کیوں نا لوگوں کو انسانیت کے نام پہ متحد کیا جاءے؟ یہ نوجوان وکیل 'پہلے انسان' کا نعرہ لے کر جارح گروہ کی خاموش اکثریت تک گیا۔ حیرت انگیز طور پہ اس خاموش اکثریت میں بہت سے لوگ پہلے ہی نوجوان کا پیغام دل کی گہراءی سے سمجھتے تھے۔ اب ان لوگوں کو شیعہ افراد سے یکجا کرنا تھا۔ نوجوان وکیل سنی افراد کا وفد لے کر شیعہ گروہوں تک گیا۔ یہ شیعہ افراد 'پہلے انسان' کے نعرے اور خیال سے تو متفق ہوءے اور سنی گروہ کے وفد سے مل کر خوش بھی ہوءے مگر جب انہیں بتایا گیا کہ عنقریب ان کی ملاقات قادیانی افراد سے کراءی جاءے گی اور ان تینوں گروہوں کو 'پہلے انسان' کے نعرے پہ یکجا کرنے کی کوشش کی جاءے گی تو یہ سنی اور شیعہ افراد تذبذب میں پڑ گءے۔ نوجوان کو ان لوگوں کو یہ بات سمجھانے میں کچھ وقت لگا کہ 'پہلے انسان' والے خیال کے پیچھے یہی سوچ ہے کہ لوگ ایک دوسرے سے نظریاتی اختلاف کے باوجود ایک دوسرے کی انسانیت کو ماننے اور اس انسانیت کے احترام کے لیے تیار ہوں۔ نوجوان کا کہنا تھا کہ سنی اور شیعہ افراد سے ہرگز یہ نہیں کہا جارہا کہ وہ دوسری اقلیتوں کے نظریات کی حمایت کریں؛ ان سے تو صرف یہ کہا جارہا ہے کہ وہ یہ کہیں کہ ہاں، ہمارے بہت سے خیالات متصادم ہیں مگر اس ظاہری اختلاف کے باوجود ہم ہر طرح کے فرد کو ایک انسان کے طور پہ قبول کرتے ہیں اور ایک انسان کے طور پہ ہم لوگوں کے بنیادی حقوق کا دفع کرنا چاہتے ہیں۔ اور یوں سنی، شیعہ اور قادیانی افراد کی آپس میں ملاقات ہوسکی اور اس ملاقات کی خوب تشہیر ہوءی۔ نوجوان کا اگلا مرحلہ اس اتحاد میں ہندوءوں، عیساءیوں اور دوسرے مذاہب کے لوگوں کو شامل کرنا تھا۔ سنی، شیعہ، اور قادیانی گروہ کے لوگوں کو ہندوءوں اور عیساءیوں کے ساتھ بٹھانا آسان کام نہ تھا مگر اس نوجوان وکیل نے یہ کام بھی کردیا۔ اس موقع پہ جارح گروہ نے زوردار اخباری مہم شروع کی۔ اس اخباری گروہ میں لوگوں کو یہ جھوٹا پیغام دیا گیا کہ کفر کی تمام قوتیں 'اسلام' کے خلاف متحد ہو گءی ہیں۔ ان اسلام دشمن گروہوں سے نمٹنے کے لیے ضروری ہے کہ تمام مسلمان جارح گروہ کے جھنڈے تلے جمع ہوجاءیں۔ یہ زوردار اخباری مہم دیکھتے ہوءے اتحادیوں نے بھی جوابی مہم شروع کرنے کے بارے میں سوچا۔ اتحادیوں کے لیے ضروری تھا کہ وہ بہت واضح الفاظ میں اپنا پیغام سب پہ واضح کریں۔ جوابی اخباری مہم میں اتحادیوں نے کہا کہ ان کی 'پہلے انسان' نامی تحریک صرف ان لوگوں تک محدود نہیں ہے جو اب تک جارح گروہ کی دہشت گردی کا نشانہ بنتے رہے ہیں۔ 'پہلے انسان' کی تحریک خود جارح گروہ میں شامل لوگوں کے لیے بھی ہے۔ اتحادی، جارح گروہ کے افراد کی انسانیت کو سمجھتے ہیں۔ اگر جارح گروہ ہتھیار پھینک کر باقی لوگوں سے انسانیت کی سطح پہ بات کرے تو اتحادی ان لوگوں کی عظمت کے صحیح معنوں میں قاءل ہوجاءیں گے۔ دونوں طرف کی اخباری مہمات کی وجہ سے بہت سے لوگ جو اب تک خاموش بیٹھے تھے اٹھ کھڑے ہوءے۔ یہ اتحادیوں کی فتح تھی کہ انہوں نے اپنا پیغام سادہ الفاظ میں لوگوں تک وضاحت کے ساتھ پہنچایا تھا۔ اور اسی وجہ سے بہت بڑی تعداد میں لوگ اس 'پہلے انسان' نامی تحریک کے ساتھ ملتے گءے۔ اب اتحادیوں نے اپنی تحریک کو اور آگے بڑھایا۔ وہ محلہ در محلہ گھروں میں جا کر اہل علاقہ کو 'پہلے انسان' نامی تحریک میں شامل کرنے لگے۔ لوگوں سے صرف ایک سوال کیا جاتا تھا کہ آیا وہ اس بات پہ قاءل ہیں کہ ہر شخص چاہے وہ کسی مذہب اور مسلک سے تعلق رکھتا ہو، اسے زندہ رہنے کا حق حاصل ہے؟ اگر وہ ہاں کہتے تو اس تاءید کو 'پہلے انسان' نامی تحریک میں شمولیت خیال کیا جاتا اور پھر اسی بنیاد پہ محلوں، گلیوں، اور علاقوں کی درجہ بندی ہونے لگی کہ کس علاقے می کتنے فی صد لوگ 'پہلے انسان' نامی تحریک کے یک نکتہ پیغام سے متفق ہیں۔ اور یوں جب عوام کی سوچ میں وضاحت آتی گءی اور ان کی دہشت پسندوں سے ہمدردیاں ختم ہوتی گءیں تو دہشت گردی کے واقعات میں خود بخود کمی آتی گءی اور رفتہ رفتہ پاکستان ایک پرامن ملک بنتا گیا۔
بعد از تحریر: ظاہر ہے کہ اوپر جو کچھ بیان کیا گیا ہے وہ تاریخ نہیں محض خواہش ہے۔ یہ وہ خیالات ہیں جو کل جبران ناصر سے کراچی جشن ادب میں ملاقات کے بعد ذہن میں آءے۔


Labels: , , , , , , , , , ,


Tuesday, February 03, 2015

 

شکارپور، اور اگلے حملے سے بچنے کی تیاری








فروری ایک،  دو ہزار پندرہ


ایک فکر کے سلسلے کا کالم

کالم شمار دو سو چھبیس


شکارپور، اور اگلے حملے سے بچنے کی تیاری



پاکستان کی ناکامی کی تازہ ترین داستان شکارپور، سندھ میں رقم ہوءی ہے جہاں جمعے کے روز ایک شیعہ مسجد پہ دہشت گرد حملے میں ساٹھ سے زیادہ افراد ہلاک ہوءے ہیں اور دسیوں زخمی ہیں۔

مذمت اور افسوس کے کلمات۔ مظاہرے، دھرنے، مطالبات، مارے جانے والوں کی یاد میں آنسو بہانا اور موم بتیاں روشن کرنا۔ اب یہ باتیں اچھی نہیں لگتیں۔ کیونکہ جہاں ان باتوں سے پرانی، سڑی باس آتی ہے وہیں ان کلمات اور افعال کاکھوکھلا پن بھی سب پہ واضح ہے۔
زیادہ سے زیادہ لوگوں کو یہ بات سمجھ میں آتی جا رہی ہے کہ پاکستان بڑی حد تک ایک ناکام ریاست بن چکا ہے۔ صدارتی محل اور آرمی ہیڈکوارٹر کے باہر چند ہی جگہیں بچی ہیں جہاں حکومت کی رٹ اب تک قاءم ہے۔ ورنہ قاتل، لٹیرے، اور دہشت گرد آزاد ہیں۔ جس کو چاہیں ماریں، جس کو چاہیں لوٹیں، اور جہاں چاہے دھماکہ کریں۔ آءین اور قانون معاشرے کے سب سے کمزور عوام کو طاقتور اور خواص کے برابر لا کھڑا کرتے ہیں۔ جب ریاست ناکام ہو جاءے تو قانون کا سایہ کمزور کے سر سے اٹھ جاتا ہے۔ اسی لیے ایک ناکام ریاست میں سب سے بڑا قہر معاشرے کے کمزور لوگوں پہ ٹوٹتا ہے۔ جسمانی طور سے معذور افراد، کم حیثیت لوگ، چھوٹے مذہبی گروہوں سے تعلق رکھنے والے افراد، ناکام ریاست کا عذاب ان ہی کمزور سروں پہ گرتا ہے۔ پاکستان میں ریاست کی ناکامی نے تین راستوں سے طواءف الملوکی کو ہوا دی ہے۔ اس جاری فساد میں شمار ایک وہ لوگ ہیں جو ریاست کی ناکامی کا فاءدہ اٹھاتے ہوءے لوٹ مار میں مصروف ہیں۔ ان لوگوں میں ڈاکوءوں سے لے کر اغوا براءے تاوان کے مجرم اور نشانچی قاتل [ٹارگٹ کلر] تک شامل ہیں۔ یہ جراءم پیشہ لوگ دھڑلے سے اس لیے وارداتیں کرتے ہیں کیونکہ ان کو اچھی طرح پتہ ہے کہ انہیں کچھ نہیں کہا جاءے گا، یہ جو چاہے کریں ان کا بال بھی بیکا نہ ہوگا۔  شمار دو اور تین وہ افراد اور گروہ ہیں جو مذہبی بہکاوے میں ہیں۔ ان میں اول الذکر گروہ وہ ہے جس کو سمجھایا گیا ہے کہ اسلام کے اصل پاسبان وہ ہیں؛ دوسرے فرقے اور بالخصوص شیعہ دین میں فساد پھیلا رہے ہیں ۔ یہ گروہ اپنا دینی فرض سمجھ کر باقی گروہوں پہ تواتر سے حملے کر رہا ہے اور اپنے تءیں ثواب کما رہا ہے۔ اس گروہ کے افراد کو بھی ریاست کی ناکامی کا اچھی طرح علم ہے چنانچہ انہیں ذرہ برابر بھی ڈر نہیں ہے کہ انہیں پکڑا جاءے گا۔ آخر الذکر گروہ وہ ہے جس میں ملک کے بیشتر مسلمان شامل ہیں۔ ماضی میں ریاست نے مذہبی معاملات میں کود کر ان لوگوں کو مذہب کے نام پہ جاری فساد کی طرف لگا دیا ہے۔ توہین رسالت جیسے جھوٹے، کالے اور مکار قوانین اب گلی کوچے کے ہر گمراہ کو اکسا رہے ہیں کہ وہ جس سے چاہے توہین رسالت کا بدلہ چکاءے اور قانون کی دھجیاں اڑا دے۔
پاکستان میں رہنے والے ہندو، سکھ، عیساءی، قادیانی، شیعہ یہ بات جان لیں کہ ایک ناکام ریاست میں حکومت سے دادرسی ٹھٹھول کے قابل فعل ہے۔ آپ کس سے مطالبہ کررہے ہیں، اور کس سے مدد مانگ رہے ہیں؟ ان سے جو خود اپنی جان بچاتے پھرتے ہیں؟
وقت آپ سے کچھ اور تقاضہ کر رہا ہے۔ اور وہ تقاضہ یہ ہے کہ آپ پہلی فرصت میں ملک و حکومت و فوج پہ اپنا اعتماد بالکل ختم کردیں۔ ریاست کی مستقل ناکامی دراصل آپ کی آزادی کا اعلان ہے۔ کسی بھی ریاست کا سب سے بنیادی کام اپنے شہریوں کی حفاظت کا انتظام کرنا ہے۔ جو ریاست اس سب سے بنیادی مقصد میں ناکام ہے وہ دراصل اپنے وجود کا حق کھو چکی ہے۔ اپنے شہریوں کی حفاظت میں واضح اور مسلسل ریاستی ناکامی کے بعد اب پاکستان میں موجود ہر اقلیتی، لسانی، اور کسی اور طرح سے متحد گروہ ایک آزاد قوم ہے۔  آپ آزاد قوم کی طرح سوچیں اور اپنے تمام انتظامات خود کریں-  اور آپ اپنی اس نءی آزادی کو ریاست سے بغاوت ہرگز خیال نہ کریں۔ آپ کے دشمن ریاست کے ہر قانون کو توڑتے ہوءے اپنی بغاوت کا اعلان بہت پہلے کر چکے ہیں۔ پھر آپ کو شکستہ خوردہ سیاسی نظام سے وفادار رہنے کی کیا ضرورت ہے؟
اب اپنے لوگوں کے لیے آپ کو وہ سارے کام خود کرنے ہیں جو کوءی بھی مہذب حکومت و ریاست کرتی ہے۔ ان کاموں میں اولین کام اپنے لوگوں کی حفاظت ہے۔
آپ اپنے لوگوں میں سے ایک جماعت چنیں جو آپ کے گروہ کی حفاظت کا کام کرے۔ آپ کو محنت سے، رقم خرچ کر کے، اپنے اپنے علاقے کے گرد چہاردیواری کھینچ کر، جگہ جگہ کمیرے لگا کر، فاصلے فاصلے سے چوکیاں بنا کر اپنی حفاظت کو یقینی بنانا ہے۔ آپ کو اپنے لوگوں میں سے چن کر اپنے علاقے میں پولیس کا انتظام کرنا ہے۔ آپ کو اس طرح سے قلعہ بند ہو کر رہنا ہے کہ آپ کے علاقے میں آپ کی مرضی کے بغیر نہ کوءی گاڑی آسکے اور نہ کوءی فرد۔  آپ کو اپنے ہم خیال شیعہ اور سنی گروہوں سے رابطے بڑھانے ہیں تاکہ ان رابطوں سے آپ اپنے دشمنوں کے گروہوں کے اندر تک پہنچ سکیں اور اپنے خلاف ہونے والی کسی سازش کو پہلے ہی دریافت کر لیں۔ یہ کام مشکل ہے مگر کسی بھی ناکام ریاست میں صرف ان لوگوں کو جینے کا حق ملتا ہے جو ہر مشکل سے گزرتے ہوءے اپنے جینے کا سامان کرتے ہیں۔
 قصہ مختصر اب تنگ آمد، بجنگ آمد کی صورتحال ہے۔ مستقل کیڑے مکوڑوں کی طرح مارے جانے سے بہتر ہے کہ آپ اپنے لوگوں، اپنے علاقے کا انتظام آپ خود سنبھالیں اور اپنی گردن کی طرف بڑھنے والے ہر ہاتھ کو کاٹ دینے کی طاقت پیدا کریں۔



Labels: , , , , , , ,


This page is powered by Blogger. Isn't yours?