Tuesday, February 03, 2015

 

شکارپور، اور اگلے حملے سے بچنے کی تیاری








فروری ایک،  دو ہزار پندرہ


ایک فکر کے سلسلے کا کالم

کالم شمار دو سو چھبیس


شکارپور، اور اگلے حملے سے بچنے کی تیاری



پاکستان کی ناکامی کی تازہ ترین داستان شکارپور، سندھ میں رقم ہوءی ہے جہاں جمعے کے روز ایک شیعہ مسجد پہ دہشت گرد حملے میں ساٹھ سے زیادہ افراد ہلاک ہوءے ہیں اور دسیوں زخمی ہیں۔

مذمت اور افسوس کے کلمات۔ مظاہرے، دھرنے، مطالبات، مارے جانے والوں کی یاد میں آنسو بہانا اور موم بتیاں روشن کرنا۔ اب یہ باتیں اچھی نہیں لگتیں۔ کیونکہ جہاں ان باتوں سے پرانی، سڑی باس آتی ہے وہیں ان کلمات اور افعال کاکھوکھلا پن بھی سب پہ واضح ہے۔
زیادہ سے زیادہ لوگوں کو یہ بات سمجھ میں آتی جا رہی ہے کہ پاکستان بڑی حد تک ایک ناکام ریاست بن چکا ہے۔ صدارتی محل اور آرمی ہیڈکوارٹر کے باہر چند ہی جگہیں بچی ہیں جہاں حکومت کی رٹ اب تک قاءم ہے۔ ورنہ قاتل، لٹیرے، اور دہشت گرد آزاد ہیں۔ جس کو چاہیں ماریں، جس کو چاہیں لوٹیں، اور جہاں چاہے دھماکہ کریں۔ آءین اور قانون معاشرے کے سب سے کمزور عوام کو طاقتور اور خواص کے برابر لا کھڑا کرتے ہیں۔ جب ریاست ناکام ہو جاءے تو قانون کا سایہ کمزور کے سر سے اٹھ جاتا ہے۔ اسی لیے ایک ناکام ریاست میں سب سے بڑا قہر معاشرے کے کمزور لوگوں پہ ٹوٹتا ہے۔ جسمانی طور سے معذور افراد، کم حیثیت لوگ، چھوٹے مذہبی گروہوں سے تعلق رکھنے والے افراد، ناکام ریاست کا عذاب ان ہی کمزور سروں پہ گرتا ہے۔ پاکستان میں ریاست کی ناکامی نے تین راستوں سے طواءف الملوکی کو ہوا دی ہے۔ اس جاری فساد میں شمار ایک وہ لوگ ہیں جو ریاست کی ناکامی کا فاءدہ اٹھاتے ہوءے لوٹ مار میں مصروف ہیں۔ ان لوگوں میں ڈاکوءوں سے لے کر اغوا براءے تاوان کے مجرم اور نشانچی قاتل [ٹارگٹ کلر] تک شامل ہیں۔ یہ جراءم پیشہ لوگ دھڑلے سے اس لیے وارداتیں کرتے ہیں کیونکہ ان کو اچھی طرح پتہ ہے کہ انہیں کچھ نہیں کہا جاءے گا، یہ جو چاہے کریں ان کا بال بھی بیکا نہ ہوگا۔  شمار دو اور تین وہ افراد اور گروہ ہیں جو مذہبی بہکاوے میں ہیں۔ ان میں اول الذکر گروہ وہ ہے جس کو سمجھایا گیا ہے کہ اسلام کے اصل پاسبان وہ ہیں؛ دوسرے فرقے اور بالخصوص شیعہ دین میں فساد پھیلا رہے ہیں ۔ یہ گروہ اپنا دینی فرض سمجھ کر باقی گروہوں پہ تواتر سے حملے کر رہا ہے اور اپنے تءیں ثواب کما رہا ہے۔ اس گروہ کے افراد کو بھی ریاست کی ناکامی کا اچھی طرح علم ہے چنانچہ انہیں ذرہ برابر بھی ڈر نہیں ہے کہ انہیں پکڑا جاءے گا۔ آخر الذکر گروہ وہ ہے جس میں ملک کے بیشتر مسلمان شامل ہیں۔ ماضی میں ریاست نے مذہبی معاملات میں کود کر ان لوگوں کو مذہب کے نام پہ جاری فساد کی طرف لگا دیا ہے۔ توہین رسالت جیسے جھوٹے، کالے اور مکار قوانین اب گلی کوچے کے ہر گمراہ کو اکسا رہے ہیں کہ وہ جس سے چاہے توہین رسالت کا بدلہ چکاءے اور قانون کی دھجیاں اڑا دے۔
پاکستان میں رہنے والے ہندو، سکھ، عیساءی، قادیانی، شیعہ یہ بات جان لیں کہ ایک ناکام ریاست میں حکومت سے دادرسی ٹھٹھول کے قابل فعل ہے۔ آپ کس سے مطالبہ کررہے ہیں، اور کس سے مدد مانگ رہے ہیں؟ ان سے جو خود اپنی جان بچاتے پھرتے ہیں؟
وقت آپ سے کچھ اور تقاضہ کر رہا ہے۔ اور وہ تقاضہ یہ ہے کہ آپ پہلی فرصت میں ملک و حکومت و فوج پہ اپنا اعتماد بالکل ختم کردیں۔ ریاست کی مستقل ناکامی دراصل آپ کی آزادی کا اعلان ہے۔ کسی بھی ریاست کا سب سے بنیادی کام اپنے شہریوں کی حفاظت کا انتظام کرنا ہے۔ جو ریاست اس سب سے بنیادی مقصد میں ناکام ہے وہ دراصل اپنے وجود کا حق کھو چکی ہے۔ اپنے شہریوں کی حفاظت میں واضح اور مسلسل ریاستی ناکامی کے بعد اب پاکستان میں موجود ہر اقلیتی، لسانی، اور کسی اور طرح سے متحد گروہ ایک آزاد قوم ہے۔  آپ آزاد قوم کی طرح سوچیں اور اپنے تمام انتظامات خود کریں-  اور آپ اپنی اس نءی آزادی کو ریاست سے بغاوت ہرگز خیال نہ کریں۔ آپ کے دشمن ریاست کے ہر قانون کو توڑتے ہوءے اپنی بغاوت کا اعلان بہت پہلے کر چکے ہیں۔ پھر آپ کو شکستہ خوردہ سیاسی نظام سے وفادار رہنے کی کیا ضرورت ہے؟
اب اپنے لوگوں کے لیے آپ کو وہ سارے کام خود کرنے ہیں جو کوءی بھی مہذب حکومت و ریاست کرتی ہے۔ ان کاموں میں اولین کام اپنے لوگوں کی حفاظت ہے۔
آپ اپنے لوگوں میں سے ایک جماعت چنیں جو آپ کے گروہ کی حفاظت کا کام کرے۔ آپ کو محنت سے، رقم خرچ کر کے، اپنے اپنے علاقے کے گرد چہاردیواری کھینچ کر، جگہ جگہ کمیرے لگا کر، فاصلے فاصلے سے چوکیاں بنا کر اپنی حفاظت کو یقینی بنانا ہے۔ آپ کو اپنے لوگوں میں سے چن کر اپنے علاقے میں پولیس کا انتظام کرنا ہے۔ آپ کو اس طرح سے قلعہ بند ہو کر رہنا ہے کہ آپ کے علاقے میں آپ کی مرضی کے بغیر نہ کوءی گاڑی آسکے اور نہ کوءی فرد۔  آپ کو اپنے ہم خیال شیعہ اور سنی گروہوں سے رابطے بڑھانے ہیں تاکہ ان رابطوں سے آپ اپنے دشمنوں کے گروہوں کے اندر تک پہنچ سکیں اور اپنے خلاف ہونے والی کسی سازش کو پہلے ہی دریافت کر لیں۔ یہ کام مشکل ہے مگر کسی بھی ناکام ریاست میں صرف ان لوگوں کو جینے کا حق ملتا ہے جو ہر مشکل سے گزرتے ہوءے اپنے جینے کا سامان کرتے ہیں۔
 قصہ مختصر اب تنگ آمد، بجنگ آمد کی صورتحال ہے۔ مستقل کیڑے مکوڑوں کی طرح مارے جانے سے بہتر ہے کہ آپ اپنے لوگوں، اپنے علاقے کا انتظام آپ خود سنبھالیں اور اپنی گردن کی طرف بڑھنے والے ہر ہاتھ کو کاٹ دینے کی طاقت پیدا کریں۔



Labels: , , , , , , ,


Comments: Post a Comment



<< Home

This page is powered by Blogger. Isn't yours?