Tuesday, February 24, 2015

 

اسٹیسی





فروری اکیس،  دو ہزار پندرہ


ایک فکر کے سلسلے کا کالم

کالم شمار دو سو انتیس


اسٹیسی

 
اسٹیسی سے باتیں کرتے ہوءے مجھے جلد ہی اندازہ ہوگیا کہ اس کے اندر وہ خوداعتمادی ہے جو کسی ایسی تءیس سالہ لڑکی میں ہوسکتی ہے جس نے یکے بعد دیگرے کءی کامیابیاں حاصل کی ہوں۔
میں کسی لمبی پرواز میں بہت دیر اپنی نشست پہ بیٹھا نہیں رہ سکتا۔ لمبی پرواز میں کسی نہ کسی بہانے اپنی نشست سے اٹھ جاتا ہوں اور پیچھے ضرورت گاہوں کے ساتھ کھڑا رہتا ہوں۔ عملہ مجھے وہاں سے ہٹاءے تو آگے جا کر کسی اور ضرورت گاہ کے باہر کھڑا ہوجاتا ہوں۔ اتحاد اءیر ویز کی سان فرانسسکو سے ابوظہبی کی سولہ گھنٹے کی پرواز کے دوران بھی ایسا ہی ہوا۔  سان فرانسسکو سےچلے بہت وقت ہوگیا تو میں اٹھ کر پیچھے چلا گیا جہاں مسافروں کو کھلانے پلانے کے بعد دو اءیرہوسٹس سستانے کے لیے بیٹھی ہوءی تھیں۔ میں نے ان سے بات شروع کی تو اسٹیسی نے ہی بات کرنے میں دلچسپی ظاہر کی۔ مجھے خیال ہوا کہ شاید دوسری اءیرہوسٹس کا اتنا تجربہ نہ تھا۔ شاید وہ ڈرتی ہو کہ کسی مرد سے بہت زیادہ بات کی تو مرد کہیں بے تکلف نہ ہوجاءے۔ مگر اسٹیسی ایسی نہ تھی۔ وہ تجربہ کار تھی۔ اسے اپنی طاقت کا اندازہ تھا۔ وہ جانتی تھی کہ وہ بے دھڑک کسی بھی مسافر سے بے تکلفی سے بات کرسکتی تھی اور جب چاہے اپنی مرضی سے یہ سلسلہ منقطع کرسکتی تھی۔
اتحاد اءیرلاءنز کی ملازمت سے پہلے اسٹیسی انڈگو اءیرلاءن میں کام کرتی رہی تھی۔ انڈگو بھارت میں مقامی پروازوں کے لیے ایک کم قیمت اءیرلاءن ہے۔ اسٹیسی نے سوچا تھا کہ اس کو اکیس سال کی عمر میں کسی بین الاقوامی اءیرلاءن میں ملازم ہونا چاہیے۔ " اتحاد سے میرا انٹرویو ٹھک میری اکیسویں سالگرہ کے  موقع پہ ہوا،" اس نے ہنستے ہوءے مجھے بتایا۔ اس دفعہ ابوظہبی پہنچنے پہ اسٹیسی کو دو دن آرام کرنا تھا اور پھر ایتھنز جانا تھا، ایتھنز کے بعد اس کی اگلی پرواز لاس اینجلس کی تھی، اور اس کے بعد پھر سان فرانسسکو کی باری تھی۔
اسٹیسی نے اپنے بالوں کو جوڑے کی شکل میں باندھ رکھا تھا۔ مگر اس وقت تک جوڑے کے بال ایک طرف سے ڈھیلے ہو کر جھول گءے تھے۔ مجھے دور دراز کے شہروں کے نام گنوانے کے دوران ہی اس نے اپنے بالوں کو جوڑے سے کھول کر ایک بار پھر کسا اور جوڑا بنا کر بالوں میں دونوں طرف پن لگا دیے۔
جوان لوگ امکانات کے ایک بے کراں سمندر کے سامنے کھڑے ہوتے ہیں۔ ہر سال، ہر ماہ، ہر دن، ہر لحظہ انسان جو فیصلے کرتا ہے ان فیصلوں کے حساب سے اس کی زندگی کی سمت متعین ہوتی جاتی ہے۔ آخری عمر آتے آتے تو بس ایک سرنگ سی رہ جاتی ہے جس میں انسان کو سیدھا آگے بڑھنا ہوتا ہے۔
اسٹیسی کے بارے میں میرا خیال تھا کہ اس نے اپنی تءیس سالہ زندگی میں کوءی ناکامی نہیں دیکھی تھی۔  وہ شاید مستقل کامیبایوں سے ہم کنار رہی تھی۔ شاید ایسا تھا کہ امکانات کے سمندر میں اس نے اپنی کشتی کا رخ جس طرف کیا وہاں اسے  پرسکون سمندر ہی ملا۔ کیا کسی ناکامی کے بعد، یا پے درپے کءی ناکامیوں کے بعد بھی وہ پراعتماد اور پرامید رہے گی، میں اس بارے میں سوچتا رہا۔ طوفان تو اس زندگی کا حصہ ہیں۔ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ اس کے مقدر میں کوءی طوفان نہ ہو؟
ہمارا جہاز اس وقت بلادالشام پہنچ چکا تھا۔ میں اسکرین پہ دیکھ سکتا تھا کہ جہاز داعش کے علاقے سے بچ کر پرواز کررہا تھا۔ میں نے یہ مشاہدہ اسٹیسی کو پیش کیا تو وہ بھی محظوظ ہوءی۔ اسی پرواز میں کچھ پہلے میرا خیال تھا کہ جہاز یورپ پہ پرواز کرتے ہوءے یوکرین سے بچ کر گزرے گا مگر مجھے وہاں اس قسم کی احتیاط نظر نہ آءی تھی حالانکہ کچھ ہی عرصہ پہلے یوکرین کے اوپر اڑنے والا ملاءیشین اءیرلاءنز کا ایک جہاز مارگرایا گیا تھا۔ میرے علم کے مطابق داعش کے پاس ایسے میزاءل نہ تھے کہ وہ پینتیس، چالیس ہزار فٹ کی بلندی پہ پروز کرنے والے کسی طیارے کو مار گراءیں۔ یوکرین شام کے مقابلے میں زیادہ خطرناک خطہ تھا۔ یا شاید کپتان نے یوکرین کے قریب بھی ایسی ہی احتیاط کی ہو جیسی وہ شام کے قریب کررہا تھا مگر اس بارے میں مجھے نقشے پہ اندازہ نہ ہوا ہو۔
اسٹیسی کردستان کے بارے میں اس وقت تک نہ جانتی تھی جب تک اس کی وہاں جانے کی باری نہ آءی۔ "ایک دن مجھے بتایا گیا کہ اگلے روز مجھے اربل جانا ہے۔ اربل؟ یہ اربل کہاں ہے؟ میں نے حیرت سے پوچھا تھا۔ جب مجھے یوں ہی لاتعلقی سے بتایا گیا کہ اربل عراق میں ہے تو میں چونک گءی۔ عراق؟ کیا مجھے دیوانہ سمجھتے ہو کہ میں عراق جاءوں گی؟ میں نے احتجاج کیا تو مجھے بتایا گیا کہ عراق کا وہ علاقہ  بہت محفوظ ہے اور وہاں باقاعدگی سے جہاز جاتے ہیں۔" اسٹیسی نے مجھے پورا واقعہ مزے لے کرسنایا۔
گو کہ میں نے اسٹیسی سے یہ نہ پوچھا کہ اس کا تعلق کہاں سے تھا مگر جس طرح اس نے اءیر ایشیا کے سی ای او کے نسلی تعلق کے بارے میں مجھ سے غور سے سنا تھا مجھے اندازہ ہوا کہ اسٹیسی کا تعلق جنوبی ہندوستان کی کسی عیساءی کمیونٹی سے تھا۔ اس بات کا بھی امکان تھا کہ اسٹیسی کی رگوں میں دوڑتے خون کا ایک چھوٹا حصہ پرتگال سے درا٘مد شدہ ہو۔ میں نے اسٹیسی کے نام کے بارے میں بھی سوچا کہ اسٹیسی کی اب تک کی کامیاب زندگی میں اسے کے نام کا کتنا دخل تھا۔ صنعتی انقلاب کے بعد دنیا کی راہ نماءی میں عیساءی نام والے لوگ آگے آگے رہے ہیں اور اسی لیے دنیا میں آج عیساءی نام قابل اعتماد سمجھے جاتے ہیں۔
اسٹیسی نے کہا کہ وہ صرف دو سال اور جہاز پہ کام کرنا چاہتی تھی۔
" بس بہت ہوگیا۔ میں تنگ آگءی ہوں اس روز روز کے سفر سے۔ میں ایک جگہ ٹک کر رہنا چاہتی ہوں،" اس نے مجھے بتایا۔
حالانکہ بات یوں شروع نہ ہوءی تھی۔ اسٹیسی نے اءیرلاءن مں نوکری ہی اسی لیے کی تھی وہ دنیا گھومنا چاہتی تھی۔  لوگ کوءی بھی کام کریں، اور وہ کام انہیں کتنا ہی پسند کیوں نہ ہو، ایک دن ان کا دل اس کام سے بھر جاتا ہے۔
شاید اسی طرح انسان کا دل ایک دن زندگی سے بھی بھر جاتا ہے۔

=+++


Labels: , , , , , , , , , , ,


Comments: Post a Comment



<< Home

This page is powered by Blogger. Isn't yours?