Tuesday, February 10, 2015

 

پہلے انسان





فروری نو،  دو ہزار پندرہ


ایک فکر کے سلسلے کا کالم

کالم شمار دو سو ستاءیس


پہلے انسان


جب فساد بہت زیادہ بڑھا اور ایک خاص مسلک کے چند لوگ اپنے ہی مسلک کے لوگوں کی اکثریت کی خاموشی کو اپنے کالے کرتوتوں کی تاءید جان کر اقلیتی مسالک اور مذاہب کے لوگوں پہ تواتر سے حملے کرنے لگے تو بہت دن تو خاموشی رہی، لوگ مارے جاتے رہے، مگر پھر ایک عجیب بات ہوءی۔ ہوا یوں کہ ایک روشن خیال، جواں سال وکیل کو خیال آیا کہ جن فرقوں اور ادیان کے لوگوں کو مارا جارہا ہے کیوں نا ان کو یکجا کیا جاءے۔ اتنے مختلف خیالات کے لوگوں کو کس بات پہ اکھٹا کیا جاسکتا ہے؟ انسانیت کے نام پہ،نوجوان کو خیال آیا۔ اس نوجوان نے جو تحریک شروع کی اس کا نام 'پہلے انسان' تھا۔ پیغام بہت واضح تھا اور وہ یہ کہ کسی بھی شخص کے مذہبی اور سیاسی خیالات انسان کی دوسری اور تیسری پرتیں ہیں۔ ان سب تہوں کے اندر ایک انسان ہے جو اپنی حاجات اور ضروریات کے حساب سے بالکل دوسرے انسانوں جیسا ہے۔ انسان کی اول ضرورت حفاظت کی ہے۔ وہ محفوظ رہنا چاہتا ہے، زندگی کی حتی الامکان داءمیت چاہتا ہے۔ اس اول ضرورت کے بعد اس کی ضروریات میں سر چھپانے کا ٹھکانہ، اور کھانا پینا شامل ہیں۔ مگر بغور دیکھا جاءے تو ان دوسری ضروریات کو پورا کرنے کی خواہش میں بھی اول ضرورت کی تسکین ہی پوشیدہ ہے یعنی ہر ممکن طور پہ زندگی کی طوالت کی کوشش۔ اگر دنیا کے سارے انسان اس بنیادی سطح پہ برابر اور ایک جیسے ہیں تو کیوں نا لوگوں کو انسانیت کے نام پہ متحد کیا جاءے؟ یہ نوجوان وکیل 'پہلے انسان' کا نعرہ لے کر جارح گروہ کی خاموش اکثریت تک گیا۔ حیرت انگیز طور پہ اس خاموش اکثریت میں بہت سے لوگ پہلے ہی نوجوان کا پیغام دل کی گہراءی سے سمجھتے تھے۔ اب ان لوگوں کو شیعہ افراد سے یکجا کرنا تھا۔ نوجوان وکیل سنی افراد کا وفد لے کر شیعہ گروہوں تک گیا۔ یہ شیعہ افراد 'پہلے انسان' کے نعرے اور خیال سے تو متفق ہوءے اور سنی گروہ کے وفد سے مل کر خوش بھی ہوءے مگر جب انہیں بتایا گیا کہ عنقریب ان کی ملاقات قادیانی افراد سے کراءی جاءے گی اور ان تینوں گروہوں کو 'پہلے انسان' کے نعرے پہ یکجا کرنے کی کوشش کی جاءے گی تو یہ سنی اور شیعہ افراد تذبذب میں پڑ گءے۔ نوجوان کو ان لوگوں کو یہ بات سمجھانے میں کچھ وقت لگا کہ 'پہلے انسان' والے خیال کے پیچھے یہی سوچ ہے کہ لوگ ایک دوسرے سے نظریاتی اختلاف کے باوجود ایک دوسرے کی انسانیت کو ماننے اور اس انسانیت کے احترام کے لیے تیار ہوں۔ نوجوان کا کہنا تھا کہ سنی اور شیعہ افراد سے ہرگز یہ نہیں کہا جارہا کہ وہ دوسری اقلیتوں کے نظریات کی حمایت کریں؛ ان سے تو صرف یہ کہا جارہا ہے کہ وہ یہ کہیں کہ ہاں، ہمارے بہت سے خیالات متصادم ہیں مگر اس ظاہری اختلاف کے باوجود ہم ہر طرح کے فرد کو ایک انسان کے طور پہ قبول کرتے ہیں اور ایک انسان کے طور پہ ہم لوگوں کے بنیادی حقوق کا دفع کرنا چاہتے ہیں۔ اور یوں سنی، شیعہ اور قادیانی افراد کی آپس میں ملاقات ہوسکی اور اس ملاقات کی خوب تشہیر ہوءی۔ نوجوان کا اگلا مرحلہ اس اتحاد میں ہندوءوں، عیساءیوں اور دوسرے مذاہب کے لوگوں کو شامل کرنا تھا۔ سنی، شیعہ، اور قادیانی گروہ کے لوگوں کو ہندوءوں اور عیساءیوں کے ساتھ بٹھانا آسان کام نہ تھا مگر اس نوجوان وکیل نے یہ کام بھی کردیا۔ اس موقع پہ جارح گروہ نے زوردار اخباری مہم شروع کی۔ اس اخباری گروہ میں لوگوں کو یہ جھوٹا پیغام دیا گیا کہ کفر کی تمام قوتیں 'اسلام' کے خلاف متحد ہو گءی ہیں۔ ان اسلام دشمن گروہوں سے نمٹنے کے لیے ضروری ہے کہ تمام مسلمان جارح گروہ کے جھنڈے تلے جمع ہوجاءیں۔ یہ زوردار اخباری مہم دیکھتے ہوءے اتحادیوں نے بھی جوابی مہم شروع کرنے کے بارے میں سوچا۔ اتحادیوں کے لیے ضروری تھا کہ وہ بہت واضح الفاظ میں اپنا پیغام سب پہ واضح کریں۔ جوابی اخباری مہم میں اتحادیوں نے کہا کہ ان کی 'پہلے انسان' نامی تحریک صرف ان لوگوں تک محدود نہیں ہے جو اب تک جارح گروہ کی دہشت گردی کا نشانہ بنتے رہے ہیں۔ 'پہلے انسان' کی تحریک خود جارح گروہ میں شامل لوگوں کے لیے بھی ہے۔ اتحادی، جارح گروہ کے افراد کی انسانیت کو سمجھتے ہیں۔ اگر جارح گروہ ہتھیار پھینک کر باقی لوگوں سے انسانیت کی سطح پہ بات کرے تو اتحادی ان لوگوں کی عظمت کے صحیح معنوں میں قاءل ہوجاءیں گے۔ دونوں طرف کی اخباری مہمات کی وجہ سے بہت سے لوگ جو اب تک خاموش بیٹھے تھے اٹھ کھڑے ہوءے۔ یہ اتحادیوں کی فتح تھی کہ انہوں نے اپنا پیغام سادہ الفاظ میں لوگوں تک وضاحت کے ساتھ پہنچایا تھا۔ اور اسی وجہ سے بہت بڑی تعداد میں لوگ اس 'پہلے انسان' نامی تحریک کے ساتھ ملتے گءے۔ اب اتحادیوں نے اپنی تحریک کو اور آگے بڑھایا۔ وہ محلہ در محلہ گھروں میں جا کر اہل علاقہ کو 'پہلے انسان' نامی تحریک میں شامل کرنے لگے۔ لوگوں سے صرف ایک سوال کیا جاتا تھا کہ آیا وہ اس بات پہ قاءل ہیں کہ ہر شخص چاہے وہ کسی مذہب اور مسلک سے تعلق رکھتا ہو، اسے زندہ رہنے کا حق حاصل ہے؟ اگر وہ ہاں کہتے تو اس تاءید کو 'پہلے انسان' نامی تحریک میں شمولیت خیال کیا جاتا اور پھر اسی بنیاد پہ محلوں، گلیوں، اور علاقوں کی درجہ بندی ہونے لگی کہ کس علاقے می کتنے فی صد لوگ 'پہلے انسان' نامی تحریک کے یک نکتہ پیغام سے متفق ہیں۔ اور یوں جب عوام کی سوچ میں وضاحت آتی گءی اور ان کی دہشت پسندوں سے ہمدردیاں ختم ہوتی گءیں تو دہشت گردی کے واقعات میں خود بخود کمی آتی گءی اور رفتہ رفتہ پاکستان ایک پرامن ملک بنتا گیا۔
بعد از تحریر: ظاہر ہے کہ اوپر جو کچھ بیان کیا گیا ہے وہ تاریخ نہیں محض خواہش ہے۔ یہ وہ خیالات ہیں جو کل جبران ناصر سے کراچی جشن ادب میں ملاقات کے بعد ذہن میں آءے۔


Labels: , , , , , , , , , ,


Comments: Post a Comment



<< Home

This page is powered by Blogger. Isn't yours?