Tuesday, February 17, 2015

 

کراچی جشن ادب، چند مشاہدات




فروری سولہ،  دو ہزار پندرہ


ایک فکر کے سلسلے کا کالم

کالم شمار دو سو اٹھاءیس


کراچی جشن ادب، چند مشاہدات


بات دراصل اسکاٹ لینڈ سے شروع ہوءی۔ ایک ذہین اسکاٹ کی دلچسپی تاریخ میں تھی۔ اس نے روایتی تعلیم حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ کءی زمینی سفر کیے اور اپنے اس سفر سے بہت کچھ سیکھا۔ اس نے پرانی تاریخی دستاویزات حاصل کیں اور تحقیق سے کتابیں لکھنے کا کام شروع کیا۔ جب اس نے بہادر شاہ ظفر پہ کتاب لکھی تو اچانک بہت سے لوگ اس کے کام کی طرف متوجہ ہوءے ۔ اس کتاب میں انگلستان کے لوگوں کی دلچسپی بھی تھی اور ہندوستان کے لوگوں کی بھی۔ کتاب اس لیے بھی دلچسپ تھی کہ یہ لکھنے والا تاریخ داں سے زیادہ کہانی گو تھا۔ یہ مصنف اپنے تخیل سے تاریخی واقعات میں مختلف رنگ بھرنا جانتا تھا۔ اور یوں ولیم ڈالرمپل قارءین کے ایک وسیع گروہ تک پہنچ گیا۔ اپنی کتابوں کی فروخت سے وہ اتنا آسودہ ہوگیا کہ اپنے قلم کے سہارے زندگی گزار سکتا تھا۔ اس موقع پہ اس نے ایک نیا جوا کھیلا۔ کیوں نہ وہ ہندوستان منتقل ہوجاءے جہاں وہ اسی رقم سے انگلستان کے مقابلے میں کہیں زیادہ پرتعیش زندگی بسر کرسکتا تھا؟ اور یوں ڈالرمپل ہندوستان پہنچ گیا۔ ڈالرمپل دو اور وجوہات سے ہندوستان پہنچا: ایک یہ کہ جنوبی ایشیا میں اس کی دلچسپی تھی اور دوءم یہ کہ اس خطے میں ایک بڑی جنگ بھی شروع ہوچکی تھی۔ ایسے تجربات کسی بھی لکھنےوالے کے لیے ایک بہت بڑا خزانہ ہوتے ہیں۔
ڈالرمپل اپنے اہل خانہ کے ساتھ ہندوستان میں ایک فارم پہ بہت اچھی زندگی گزار رہا تھا مگر وہ اور بھی بہت کچھ کرنا چاہتا تھا۔ اس نے اسکاٹ لینڈ کے شہر ایڈن برا میں وہ سالانہ میلہ دیکھا تھا جس کا ایک حصہ لکھنے والوں کے لیے مختص ہوتا ہے۔ وہ ایسا ہی جشن ادب ہندوستان میں دیکھنا چاہتا تھا۔ اور یوں ڈالرمپل نے اپنے بھارتی لکھاری دوستوں کے ساتھ  مل کر جے پور جشن ادب کی بنیاد رکھی۔ ایک دو سال کے اندر ہی وہ جشن ادب بہت مقبول ہو گیا اور اس میلے میں دور دور سے، لکھنے والے اور ان کو دیکھنے اور سننے والے لوگ آنے لگے۔ اوروں کے ساتھ جے پور جشن ادب میں پاکستانی بھی پہنچے۔ اور یوں چراغ سے چراغ جلے، کراچی جشن ادب کی بنیاد پڑی اور اس سال کراچی جشن ادب کا چھٹا اجلاس تھا۔
میں کراچی جشن ادب کے افتتاحی روز تو نہ پہنچا مگر دوسرے دن وہاں پہنچ گیا۔ وہ تین روزہ ادبی میلہ کراچی کے بیچ لگژری ہوٹل میں منعقد کیا گیا تھا۔ جشن ادب کے دوسرے روز وہاں خوب گہما گہمی تھی۔ پاکستان میں اس قدر قتل و غارت گری اور فساد ہے کہ لوگ اچھی خبر کی تلاش میں رہتے ہیں۔ وہ کہیں سے امید کی ایک کرن دیکھنا چاہتے ہیں۔ ایسی تاریکی میں کراچی جشن ادب لوگوں کو ایسی ہی امید دکھاتا ہے۔ اس جشن ادب میں وہ لوگ شرکت کرتے ہیں جو ملک کے لیے اچھا خواب تو دیکھتے ہیں مگر اس خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے کے لیے ان کے پاس طاقت نہیں ہے۔ وہ اس جشن ادب میں ہم ٘خیال لوگوں سے مل کر خوش ہوتے ہیں۔
جشن ادب میں مہمانوں کا جس طرح اور جس زبان میں استقبال کیا جارہا تھا اس سے ظاہر تھا کہ پاکستان میں انگریزی کا اثر تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ پاکستان میں انگریزی صرف ایک خارجی، بین الاقوامی حامیت کی زبان ہی نہیں ہے بلکہ انگریزی میں گفت و شنید کسی شخص کے اونچے طبقاتی تعلق کا مظہر ہوتی ہے۔ انگریزی بولنا ظاہر کرتا ہے کہ آپ ماڈرن ہیں اور معاشرے کے پڑھے لکھے، سلجھے ہوءے طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔
کراچی جشن ادب میں ہفتے کے روز ایک ایسی محفل میں شرکت کا موقع ملا جہاں انتظار حسین صاحب موجود تھے۔ اسی محفل میں موجود اداکار فریال گوہر نے ایک افسانہ انتظار حسین صاحب کا اور ایک  سعادت حسن منٹو کا ڈراماءی اداءیگی سے پیش کیا۔ میں اس محفل میں کچھ تاخیر پہنچا  اس لیے انتظار حسین کا افسانہ نہ سن پایا۔ صرف انتظار حسین کا اپنے افسانے پہ تبصرہ سننے کا موقع ملا۔ انتظار حسین کا کہنا تھا کہ لکھنے والے کو کبھی اپنی تحریر کی تشریح نہیں کرنی چاہیے کیونکہ اس طرح اس کی تحریر قیود میں بندھ جاتی ہے۔ سعادت حسن منٹو کا منتخب افسانہ ایک پرانے دور میں لکھے جانے کے باوجود حسب حال تھا۔ ایک مارواڑی سنہ سینتالیس کے بعد کراچی آتا ہے اور یہاں اپنا کاروبار جماتا ہے۔ اس کو بتایا جاتا ہے کہ جو لوگ حادثے میں مارے جاءیں وہ شہید کہلاتے ہیں۔ وہ یہ بھی جانتا ہے کہ کسی بھی مسلمان کے لیے شہادت بہت اعلی عہدہ ہے۔ چنانچہ یہ کاروباری شخص ناقص عمارتوں کی تعمیر سے لوگوں کی شہادت کا انتظام کرنے لگتا ہے۔



Labels: , , , ,


Comments: Post a Comment



<< Home

This page is powered by Blogger. Isn't yours?