Tuesday, January 06, 2015

 

جبران ناصر کی عظمت کو سلام





جنوری چار،  دو ہزار پندرہ


ایک فکر کے سلسلے کا کالم

کالم شمار دو سو باءیس


جبران ناصر کی عظمت کو سلام



جبران ناصر وہ نوجوان وکیل ہے جو اسلام آباد میں رہنے والے طالبان کے حواریوں کے خلاف مظاہروں کی قیادت کررہا ہے۔ کچھ دن پہلے فیس بک پہ ایک ایسی ویڈیو دیکھنے کو ملی جس میں جبران ناصر پاکستانیوں سے مخاطب ہے اور بتا رہا ہے کہ ہر مذہب، ہر فرقے کے لوگوں کے ساتھ مل کر امن سے رہنا ہی اصل انسانیت ہے۔ جبران ناصر جس دانش مندی سے یہ باتیں کررہا ہے کاش کہ ایسی دانشمندی ہماری سیاسی قیادت کو بھی آجاءے۔ اس ویڈیو میں سب سے اہم حصہ وہ ہے جس میں جبران بتا رہے کہ اس کے مخالفین اس پہ قادیانی یا شیعہ ہونے کا الزام لگا رہے ہیں۔ جبران کا کہنا ہے کہ اس کے گھر والوں کا  مشورہ تھا کہ جبران کسی سنی عالم دین کے ساتھ بیٹھ کر ایک ویڈیو میں ان جھوٹے الزامات کی تردید کرے۔ اس کے آگے جبران نے جو بات کہی وہ سونے میں تولنے کے قابل ہے۔ اس نے کہا کہ وہ تو سنی ہے اور اپنے سنی ہونے کی سند پیش کرسکتا ہے مگر کیا کسی کا قادیانی یا شیعہ یا غیرمسلم ہونا اتنا بڑا جرم ہے کہ پاکستان میں اس شخص کی جان کے لالے پڑ جاءیں؟ جبران پوچھتا ہے کہ پاکستان کے رہنے والے وہ قادیانی کہاں جاءیں جو اپنے قادیانی ہونے پہ فخر کرتے ہیں، اور پاکستان کے عیساءی اور ہندو کیا کریں؟
یہ بات واضح ہے کہ پاکستانی ریاست کو جلد از جلد مذہبی معاملات سے باہر نکالنا ہوگا۔ مذہب اور اعتقادات لوگوں کا ذاتی معاملہ ہیں؛ ریاست کو ان معاملات میں ٹانگ اڑانے کی کوءی ضرورت نہیں ہے۔ کون کافر ہے اور کون نہیں، اس کا فیصلہ روز قیامت ہوگا۔ اگر یہ بات مولویوں کو سمجھ نہیں آرہی تو نہ آءے۔ لگانے دو ان نادانوں کو ایک دوسرے پہ کفر کے فتوے، مگر ریاست کو اس گندگی سے دور رکھو۔
درج ذیل اقتباس 'آگ، ہوا، مٹی، پانی' نامی کتاب سے لیا گیا ہے اور زیربحث موضوع سے متعلق ہے۔
دارالعمل
آنتی گا سے گواتے جاتے ہوئے ایک بار پھر وہ عمارت نظر آئی جس پہ عربی میں کلمہ لکھا ہوا تھا۔ ہم نے ارادہ کیا کہ اُس روز گواتے سے واپس آتے ہوئے اس جگہ رُ ک کر ضرور معلومات کریں گے ۔ بس نے ہمیں مرکز شہر میں اتار دیا۔ ہمارے پاس گواتے کا نقشہ موجود تھا۔ ڈاکخانہ دو تین میل سے زیادہ دور نہ تھا۔ ہم پیدل اُس طرف چل دیے۔مرکز شہر کے فٹ پاتھوں پر ٹھیلے لگے ہوئے تھے ۔ اُن ٹھیلوں نے لوگوں کے چلنے کی جگہ گھیر لی تھی۔ ہم ایک ایسے علاقے سے گزرے جہاں کھڑکیوں اور دروازوں پر لوہے کی موٹی موٹی سلاخیں لگی ہوئی تھیں۔ وہ کاروبار یقینا اپنے آپ کو محفوظ تصور نہیں کرتے تھے۔
مرکزی ڈاکخانے کی عمارت بہت بڑی اور پُر شکوہ تھی۔ مگر اتنی بڑی عمارت کے اندر ہمارے نام ایک بھی خط نہیں تھا۔ ہم وہاں سے مایوس باہر نکلے اور شہر کو فتح کرنے کی نیت سے ادھر ادھر ٹہلتے رہے۔ جب ایک جیسی سڑکوں اورایک جیسی مفلوک الحالی سے دل بھر گیا تو واپسی کے لیے روانہ ہو گئے۔ بس میں بہت زیادہ رش تھا۔ میں مستقل کھڑکی سے باہر دیکھ رہا تھا۔ مجھے آنتی گوا کے راستے میں پڑنے والی کلمے والی عمارت کی تلاش تھی۔ جیسے ہی وہ عمارت نظر آئی میں نے “روکو، روکو” کا شور مچا دیا۔ گواتے سے آتنی گوا جانے والی بس بیچ راستے میں کہیں نہیں رُکتی تھی۔ جو مسافر گواتے سے چڑھتے وہ آنتی گوا جا کر ہی اُترتے تھے۔ میرے روکو، روکو کے شور پر کچھ دیر تو خوب افراتفری رہی۔ کچھ مسافر میرے ساتھ مل گئے تھے اور بس کو وہاں رُکوانا چاہتے تھے، کچھ دوسرے حیران تھے کہ آخر بس کو یہاں بیچ میں رُکوانے کی کیا تُک ہے۔ تھوڑا سا آگے جانے کے بعد آخر کار بس رُک ہی گئی۔ ہم مسافروں کو چیرتے پھاڑتے بس سے اترے اور سڑک کے ساتھ پیچھے کی طرف چل پڑے۔
ہمارا مطلوبہ احاطہ ایک بہت بڑی اراضی کا حصار کیے ہوئے تھے۔ دیوار پر کلمے کے نیچے ہسپانوی میں "دارالعمل اسلامی مرکز” لکھا ہوا تھا۔ گیٹ کے ساتھ ہی چوکیدار کا گھر تھا۔ گھنٹی بجانے پر چوکیدار کے گھر سے ایک مقامی ہندی لڑکا نکل کر آیا۔ اُس نے بوسیدہ نیکر اور ٹی شرٹ پہن رکھی تھی۔ لڑکے نے ہم سے پوچھا کہ ہم کون ہیں اور کیا چاہتے ہیں۔ ہم نے اپنا نام بتایا اور کہا کہ ہم اسلامی مرکز کو اندر سے دیکھنا چاہتے ہیں۔ وہ ہماری بات سُن کر واپس گھر میں گھُس گیا۔ ہمیں گھر کے اندر سے اُس لڑکے کی آواز سنائی دے رہی تھی۔ لڑکے نے فون پر کسی سے بات کی اور انہیں ہمارے بارے میں بتایا۔ اندر سے اجازت ملنے پر ہمارے لیے گیٹ کھول دیا گیا۔ اسلامی مرکز پہاڑ پر واقع تھا۔ بہت سے لوگوں کے ذہن میں تصور ہے کہ خدا کہیں اوپر کی طرف رہتا ہے۔ چنانچہ مذہبی عمارتیں اور مینار اپنی اونچائی سے آسمان کی طرف جانے کی کوشش کرتے ہیں۔ شاید اس طرح کا خیال رکھنے والوں کو ہوائی جہاز میں عبادت کرنے کا خاص لطف آتا ہو۔
ہم بڑی بڑی سیڑھیاں چڑھتے ہوئے اوپر عمارت تک پہنچے۔ اسلامی مرکز کی عمارت بہت عمدہ اور جدید انداز کی تھی۔ عمارت کے باہر ایک لڑکا ہمارے انتظار میں کھڑا تھا۔ وہ شکل سے دیسی (برصغیر کا) نظرا ٓتا تھا۔ ہم نے اُس سے اردو میں بات کی۔ وہ اٹک اٹک کر اردو بول رہا تھا۔ ہمیں ایک انتظار گاہ میں لے جایا گیا۔ اُس لڑکے نے بتایا کہ اُس کے والد مرکز کے منتظم اعلی تھے۔
آپ یہاں انتظار کریں۔ وہ کچھ ہی دیر میں آ جائیں گے،” ہمیں انگریزی میں بتایا گیا۔
اُس انتظار گاہ کی دیواروں پر جو تصویریں لگی تھیں اُن کو دیکھ کر ہمیں فورا اندازہ ہو گیا کہ وہ مرکز قادیانی فرقے کے لوگوں کا تھا۔ پھر وہاں دو آدمی آ گئے۔ انہوں نے گول ٹوپیاں لگا رکھی تھیں۔ میں نے اُن دونوں سے ہاتھ ملایا۔ اگر دنیا کے کسی اور خطے میں میری ملاقات اُن دونوں سے ہوئی ہوتی تو میں اُن کی شکلیں اور حلیہ دیکھ کر شرط لگاتا کہ اُن کا تعلق ملیشیا یا انڈونیشیا سے ہوگا۔ مگر ہم اُس وقت گواتے مالا میں تھے۔ وہ دونوں وہیں کے رہنے والے تھے اور انہوں نے حال میں عیسائیت کو چھوڑ کر اسلام قبول کیا تھا۔ 
میرے ذہن میں خدا کا جو تصور ہے وہ خوبصورتی کا ایک پرتو ہے۔ میرے نزدیک خدا سے تعلق کی بات بہت حسین ہے اور جو لوگ خدا سے تعلق قائم کرنے کے لیے آپ کو اپنی طرف بلائیں اُن کی ادائیں، اُن کا ماحول بہت دل کش اور مسحور کُن ہونا چاہیے۔ میں خدا اور خوبصورتی کے اس تصور کے ساتھ جب اُن نام نہاد مذہبی رہنمائوں کی طرف دیکھتا ہوں جو اپنے آپ کو اسلام کا چیمپئین خیال کرتے ہیں اور مستقل دوسروں پر لعن طعن کرتے رہتے ہیں، تو میں اُن رہنمائوں کے اطراف کی بد صورتی سے سخت نالاں ہوتا ہوں۔ مجھے شوق ہے کہ میں مختلف اعتقادات رکھنے والے لوگوں کی عبادت گاہوں کا مشاہدہ کروں۔ میں نے مندروں، گردواروں، کلیسائوں، اورخانقاہوں کا دورہ کیا ہے۔ خدا گواہ ہے کہ جتنی افراتفری میں نے مسجدوں میں دیکھی ہے اُتنی کسی اور مذہب کی عبادت گاہ میں نہیں دیکھی۔ اس مستقل افراتفری اور بد تمیزی کے باوجود میں نے کسی منبر سے وہ خطبہ نہیں سُنا جس میں کوئی ملا لوگوں کو تمیز کے طریقے سکھا رہا ہو، لوگوں کو بتا رہا ہو کہ وہ قطار بنا کر کیسے مسجد کے اندر داخل ہوں اور وہاں سے باہر نکلیں۔ اسلام کے یہ نام نہاد چیمپئین شاید اپنی ذاتی طہارت کا تو خیال کرتے ہوں مگر اپنی ذات سے باہر ان کو کسی قسم کی صفائی ستھرائی، کسی قسم کی خوبصورتی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔اسی طرح خدا کے رسول کی بتائی ہوئی گہری اور فلسفیانہ باتوں سے بھی ان کا کوئی تعلق نہیں۔ ان کا سارا زورنمود و نمائش پر ہے۔ ان کے ماتھے پر کالا گٹا ان کی پارسائی کی مہر ہے۔ اُس مہر سے آگے ان کو کچھ سمجھ میں نہیں آتا۔ یہ اپنے حساب سے عقل کی جو باتیں لوگوں کو بتا رہے ہیں اُن باتوں کا موجودہ دور سے اور اس کے مسائل سے کوئی واسطہ نہیں۔ میں نے کسی مذہبی رہنما کو لوگوں کو یہ بتاتے نہیں سُنا کہ وہ لوگ اپنے آس پاس کے ماحول کو، اپنے محلے کو، اپنے دفتر کو، اپنے اسکول کو صاف سُتھرا کیسے رکھیں اور کوڑے کو کس طریقے سے ٹھکانے لگائیں۔ میں دنیا بھر میں بہت سی مساجد میں گیا ہوں، میں نے پاکستان میں بہت سے مدارس کا بھی دورہ کیا ہے، مگر میں نے کوئی مسجدکوئی مدرسہ ایسا نہیں دیکھا جہاں پھولوں کی خوبصورت کیاریاں ہوں، جہاں پودے اور درخت اس ترتیب سے لگائے گئے ہوں کہ انہیں دیکھ کر آپ کا دل خوش ہو جائے۔بات بات پر کفر کا فتوی جاری کرنے والوں کو چاہیے کہ وہ اپنے تضادات کی طرف نظر کریں اور دوسروں کو درست کرنے سے پہلے یہ اپنے آپ کو ٹھیک کریں۔ وہاں بیٹھے ہوئے یہ باتیں میرے ذہن میں اس لیے آئیں کیونکہ اُس قادیانی مرکز کا انتظام کسی بھی مسجد کے انتطام سے ہزار درجے بہتر تھا۔

Labels: , , , , , , , , ,


Comments: Post a Comment



<< Home

This page is powered by Blogger. Isn't yours?