Friday, November 14, 2014

 

ولی خان بابر، سلیم شہزاد، رضا رومی، اور حامد میر




نومبر نو،  دو ہزار چودہ


ایک فکر کے سلسلے کا کالم

کالم شمار دو سو چودہ


ولی خان بابر، سلیم شہزاد، رضا رومی، اور حامد میر


طعنے مختصر ہوتے ہیں۔ ٹوءٹر پہ مختصر بات کی جاتی ہے۔ اس لیے ٹوءٹر طعنوں تشنوں کے لیے بہت موزوں ہے۔ اس تمہید کی ضرورت اس لیے پیش آءی کہ حال میں رضا رومی نے اپنے فیس بک دوستوں کو بتایا کہ انہیں ٹوءٹر کے ذریعے سخت تنقید کا نشانہ بنا گیا ہے۔ انہیں طعنے دیے جارہے ہیں کہ وہ بزدل ہیں جو پاکستان سے بھاگ نکلے۔ رضا رومی سے کہا جا رہا ہے کہ وہ نڈر ہوتے تو پاکستان میں رہ کر حالات کا مقابلہ کرتے۔ فیس بک پہ رضا رومی کے دوستوں نے انہیں مشورہ دیا ہے کہ وہ اس دشنام طرازی پہ کان نہ دھریں۔ پاکستان میں ان کی جان کو سخت خطرہ ہے۔ رضا رومی کے لیے بہتر یہی ہے کہ وہ عافیت سے امریکہ میں رہتے رہیں۔
پاکستان میں صحافیوں پہ حملہ کوءی نءی بات نہیں ہے مگر یہ جانچنا ضروری ہے کہ ولی خان بابر، سلیم شہزاد، حامد میر، اور رضا رومی پہ ہونے والے حملوں میں کیا فرق ہے۔ پہلی بات تو یہ جانیے کہ پاکستان کے ادارے اور سیاسی جماعتیں تقریبا مادر پدر آزاد ہیں۔ ان اداروں اور ان جماعتوں سے تعلق رکھنے چند لوگ اپنے طور پہ فیصلہ کرسکتے ہیں کہ وہ کس کو راہ سے ہٹانا چاہیں گے اور اس فیصلے پہ عملدرآمد بھی کرسکتے ہیں۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ آپ کو کسی ادارے کو مورد الزام ٹہرانے میں احتیاط کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ یہ بات وثوق سے  نہیں کہی جا سکتی کہ کسی پہ حملے میں کوءی پورا ادارہ یا کوءی پوری جماعت ملوث تھی۔ چنانچہ آپ کراچی میں کسی سے ولی خان بابر کے متعلق پوچھیں تو آپ کو بتایا جاءے گا کہ ولی خان بابر کو ایم کیو ایم سے تعلق رکھنے والے افراد نے قتل کیا۔ اسی طرح سلیم شہزاد نے اپنے اغوا سے پہلے دوستوں سے بتایا تھا کہ انہیں پاکستان کے خفیہ اداروں سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی طرف سے دھمکیاں ملی تھیں۔ حامد میر نے اپنے اوپر ہونے والے حملے سے پہلے اپنے بھاءی سے کہہ دیا تھا کہ اگر انہیں یعنی حامد میر کو اغوا یا قتل کیا جاءے تو حامد میر کے بھاءی جان لیں کہ ایسی کارواءی خفیہ ایجنسی آءی ایس آءی نے کی ہوگی۔ چنانچہ یہاں حامد میر پہ حملہ ہوا وہاں ان کے بھاءی جھٹ ٹی وی اسٹیشن پہنچ گءے۔ رضا رومی پہ ہونے والا قاتلانہ حملہ کچھ مختلف نوعیت کا تھا کہ انہیں کبھی براہ راست کوءی دھمکی موصول نہیں ہوءی تھی۔ البتہ سوشل میڈیا کے ذریعے انہیں معلوم ہوتا رہتا تھا کہ کچھ لوگ رضا رومی کے آزاد خیالات اور ببانگ دہل شدت پسندوں  پہ ان کی سخت تنقید کی وجہ سے رضا رومی سے خوش نہیں تھے۔
ولی خان بابر اور شہزاد سلیم اس دنیا میں نہ رہے، اس لیے یہ نہیں کہا جاسکتا کہ ان دونوں صحافیوں کو جن تنظیموں سے خطرہ تھا، یہ ان کے ساتھ کس قسم کے مذاکرات کر کے اپنی جان بچا سکتے تھے، یا کس طرح کچھ مہلت حاصل کر کے ملک سے فرار ہوسکتے تھے۔ مگر حامد میر ہم سب کے سامنے ہیں۔ کراچی میں قاتلانہ حملے میں بچنے کے بعد وہ آج بھی اسلام آباد میں رہ رہے ہیں اور اپنا ٹی وی پروگرام کیپٹل ٹاک بھی کر رہے ہیں۔ حامد میر نے کس سے کس قسم کے مذاکرات کیے ہیں یہ نہیں کہا جاسکتا۔ رضا رومی کا معاملہ کچھ مختلف ہے کیونکہ ان پہ کیا جانے والا حملہ نادیدہ ہاتھوں نے کیا تھا۔ اندھیرے میں چھپے لوگوں سے مذاکرات نہیں کیے جاسکتے۔ جولوگ رضا رومی کو پاکستان واپس جانے پہ اکسا رہے ہیں وہ یقینا رضا رومی کے دوست نہیں ہیں، اور عین ممکن ہے یہ وہ لوگ ہوں جو رضا رومی کے زندہ بچ جانے پہ کف افسوس مل رہے ہوں۔  
اور صحافیوں ہی کا کیا، پاکستان میں کس کی جان و مال محفوظ ہے؟ جس ملک میں ایک سابق وزیر اعظم کا لڑکا دن دھاڑے اغوا ہوجاءے اور مہینوں بازیاب نہ ہو، جس ملک میں ایک سابق وزیراعظم کا قتل ہوجاءے اور قاتل کا کوءی سراغ نہ ملے وہاں ھما شما کس کھاتے میں ہیں؟
اپنی دگرگوں امن عامہ کی صورتحال کی وجہ سے پاکستان ایک ناکام ریاست ہے جہاں حکومت کا زور چند شہری علاقوں میں وہاں کے کمزور لوگوں پہ، دن کی روشنی میں چلتا ہے۔ سورج غروب ہوتا ہے تو حکومت کی رٹ سکڑ کر اور بھی مختصر ہوجاتی ہے۔ ان بیس کروڑ لوگوں کی عظمت کو سلام جو اتنے خراب حالات میں بھی مستقل وہاں رہ رہے ہیں۔


Labels: , , , , , , , , , , ,


Comments: Post a Comment



<< Home

This page is powered by Blogger. Isn't yours?