Tuesday, March 25, 2014

 

اپنی کم سن بچیوں کو اسلامی نظریاتی کونسل کے مولویوں سے بچاءیں



مارچ تءیس،  دو ہزارچودہ

ایک فکر کے سلسلے کا کالم

کالم شمار ایک سو اکیاسی

اپنی کم سن بچیوں کو اسلامی نظریاتی کونسل کے مولویوں سے بچاءیں
 


پاکستان میں اسلامی نظریاتی کونسل نے حال میں اپنی [غیرپسندیدہ] موجودگی کا اظہار دو بیانات کے ساتھ کیا ہے۔ کونسل کے چءیرمین مولانا محمد خان شیرانی صاحب کا پہلا بیان دوسری شادی سے متعلق تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ اسلامی نظریاتی کونسل کے ممبران کے اسلام کے حساب سے مرد کو دوسری شادی کے لیے پہلی بیوی سے اجازت لینے کی کوءی ضرورت نہیں ہے۔ ابھی یار لوگ مولانا کے اس بیان سے سنبھل ہی رہے تھے کہ مولانا شیرانی نے دوسرا بیان داغ دیا۔ دوسرے بیان میں فرمایا گیا کہ مولانا شیرانی اور ان کے ساتھیوں کے اسلام کے حساب سے لڑکیوں کی شادی کی کوءی کم از کم عمر نہیں ہے، یعنی بارہ، تیرہ کیا، آٹھ، سات، چھ سالہ لڑکیوں کو بھی رشتہ ازدواج میں باندھا جاسکتا ہے۔ کچھ لوگ مولانا کے ان دو بیانات پہ غصے میں آگءے، مگر سچ پوچھیے تو میں ان بیانات سے بہت خوش ہوا۔ مجھے یہ جان کر قلبی اطمینان ہوا کہ اسلامی نظریاتی کونسل دراصل اخلاقی طور پہ دیوالیہ لوگوں کا ایک ادارہ ہے، اور یہ لوگ اپنے مضحکہ خیز بیانات سے نہ صرف یہ ثابت کررہے ہیں کہ کونسل کے ممبران موجودہ زمانے کی اخلاقی اقدار سے بے خبر ہیں بلکہ یہ بھی ثابت کررہے ہیں کہ ایک عام پاکستانی کے لیے ان لوگوں کے 'اسلامی نظریات' کی کوءی اہمیت نہیں ہونی چاہیے اور جس قدر جلد ممکن ہو اسلامی نظریاتی کونسل کو ختم کر کے ان نام نہاد اسلامی علما کو ان کے گھروں کو روانہ کیا جاءے۔
ایک ایسی کونسل ہی جس کے پچیس ممبران میں ایک بھی عورت نہ ہو، یقینا ایسے زن مخالف نظریات رکھ سکتی ہے۔
عمرانیات کا کوءی بھی طالب علم دیکھ سکتا ہے کہ کس طرح وقت کے ساتھ انسانی معاشرے تبدیل ہوتے ہیں اور لوگوں کے ذہنی رجحانات بدل جاتے ہیں۔ معاشرے کے قوانین کو ان ہی بدلتے رجحانات کے ساتھ تبدیل ہونا ہوتا ہے۔ جہاں ایسا نہ کیا جاءے وہاں فرسودہ قوانین محض ہنسی مذاق بن جاتے ہیں۔
آج سے چودہ سو سال پہلے کی عورت کا مقابلہ آج کی عورت سے کیجیے۔ عورتوں سے متعلق ترقی یافتہ معاشروں کے  رجحانات بالکل بدل گءے ہیں۔ آج سے ڈیڑھ ہزار سال پہلے کی عورت مرد کی جاگیر تھی۔ آج عورت کو بالکل مرد کے مساوی انسان سمجھا جاتا ہے۔ اس بدلتی سوچ سے پوری دنیا میں ایک تبدیلی آءی ہے اور معاشروں میں طاقت کا توازن بدل گیا ہے۔ نءے قوانین کے تشکیل ہی سے اس بڑی تبدیلی کا ادراک کیا جاسکتا ہے۔
چودہ سو سال پہلے کا اسلام اپنے وقت کے حساب سے ایک زبردست انقلابی پیغام تھا اور معاشرے کے پسے ہوءے طبقات کے لیے ہوا کا تازہ جھونکا تھا۔ مگر ضرورت اس بات کی تھی کہ اسلام کو اسی ترقی پسند سوچ کے ساتھ  مستقل عصری تقاضوں کے ہم آہنگ رکھا جاءے۔ افسوس کہ ایسا نہ ہوا۔ اور آج کا مولوی ہمیں جس 'اسلام' کی طرف بلاتا ہے اس سے ویسی ہی بو آتی ہے جیسی کسی چودہ سو سال پرانے باسی حلوے سے آسکتی ہے۔ یہ وہ 'اسلام' ہے جو چودہ سو سال پہلے کے معاشرتی رجحانات کے ساتھ چمٹا ہوا ہے۔  مجھے یقین ہے کہ اگر مولونا شیرانی سے پوچھا جاءے کہ کیا غلامی غیراسلامی ہے تو ان کا کہنا ہوگا کہ، "ہرگز نہیں۔ نبی کے زمانے میں غلام ہوتے تھے اس لیے آج بھی غلام رکھے جاسکتے ہیں۔" بالکل اسی طرح یقینا اسلامی نظریاتی کونسل کے دقیانوسی خیالات کے حساب سے معاشرے میں کم از کم اجرت کی بھی کوءی حد مقرر نہیں ہونی چاہیے؛ چھوٹے بچوں سے کام کرانے پہ کوءی پابندی نہیں ہونی چاہیے؛ کسی اسلامی ملک کو بچوں کی عام تعلیم کا انتظام کرنے کی بھی کوءی ضرورت نہیں ہونی چاہیے؛ ریاست کو صحت عامہ پہ توجہ کرنے کی بھی کوءی اسلامی ذمہ داری نہیں ہے، وغیرہ، وغیرہ۔
سچ پوچھیے تو پاکستان کو کسی اسلامی نظریاتی کونسل کی ضرورت نہیں ہے۔ ہمارے پیارے نبی کی وفات کے بعد کسی شخص، کسی گروہ کو نہ یہ اختیار ہے اور نہ ہی ہونا چاہیے کہ وہ باقی لوگوں کو بتاءے کہ صحیح اسلام کیا ہے۔
پاکستان کو ایک جدید، اور یقینا سچی اسلامی، ریاست بنانے کے لیے ضروری ہے کہ ریاست کو جلد از جلد مذہب کے چنگل سے آزاد کیا جاءے۔ اسلامی نظریاتی کونسل جیسے اداروں کو توڑ کر ان میں کام کرنے والے لوگوں کو مثبت کاموں پہ لگایا جاءے جس سے یہ لوگ معاشرے کا فعال حصہ بن سکیں نہ کہ اپنے دو ٹکے کے خیالات سے الٹا معاشرے کی ترقی کا راستہ روکیں۔
مگر ان مولویوں کو چلتا کرنے سے پہلے ان کو معاشرے کا کارآمد حصہ بنانے کے لیے ان کو ہاتھ کے ہنر ضرور سکھاءے جاءیں۔ ان کی ذہنی استعداد کے حساب سے ان کو موٹر میکینک، ریفریجریشن، الیکٹریشن وغیرہ کے ڈپلوما کورس کراءے جاسکتے ہیں۔ ان کو ہاتھ کے ہنر سکھا کر کام پہ لگانا اس لیے ضروری ہے تاکہ یہ کونسل سے نکلنے کے بعد اپنے اپنے علاقوں میں پہنچ کر علاقے کے سب سے جاہل اور غریب خاندانوں کی کم سن بچیوں پہ ہاتھ ڈالنے سے باز رہیں۔۔
  
خیال باری کو امیزان سے حاصل کرنے کے لیے یہاں کلک کیجیے
http://www.amazon.com/Khayal-Bari-Edition-Hasan-Cemendtaur/dp/1493595318/ref=sr_1_1?ie=UTF8&qid=1395682205&sr=8-1&keywords=cemendtaur
آڈیو سی ڈی 'ملاقات' یہاں دستیاب ہے
http://www.amazon.com/Mulaqaat-Cemendtaur/dp/B00J5SKEEK/ref=sr_1_2?ie=UTF8&qid=1395682256&sr=8-2&keywords=cemendtaur
اور آڈیو سی ڈی 'ایٹم بم' یہاں
http://www.amazon.com/Atom-Bomb-Cemendtaur/dp/B00IV3GT9Y/ref=sr_1_3?ie=UTF8&qid=1395682284&sr=8-3&keywords=cemendtaur

Labels: , ,


Wednesday, March 19, 2014

 

علالت، ملاءیشءین اءیرلاءنز



 مارچ سولہ، دو ہزار چودہ

ایک فکر کے سلسلے کا کالم

کالم شمار ایک سو اسی
علالت، ملاءیشءین اءیرلاءنز


اب کی دفعہ بیماری کچھ لمبی کھنچ گءی اور مجھے اپنے آپ سے کیا ایک پرانا وعدہ توڑنا پڑا۔ سلسلہ شروع جمعے کے روز سے ہوا جب لگا کہ جسم جواب دے رہا ہے۔ پھر سنیچر سے بخار شروع ہوگیا۔ کیونکہ گھر میں دوسرے لوگ بھی چند دن پہلے فلو کا شکار ہوءے تھے اس لیے مجھے معلوم تھا کہ مجھے بھی فلو ہوا ہے۔ پچھلے سال فلو کا ٹیکہ لگوا لیا تھا مگر اب کی بار ناغہ ہوگیا۔ سوچا کہ ہردفعہ کی طرح اس بار بھی لوٹ پوٹ کر صحیح ہوجاءوں گا اور کوءی دوا کھانے کی ضرورت نہ پڑے گی۔ کبھی بیمار پڑوں اور کوءی تیماردار پوچھے کہ ڈاکٹر کو دکھایا؟ تو میرا جواب ہوتا ہے کہ میں اپنے جسم کے پوتر مندر کو ڈاکٹروں کے شر سے محفوظ رکھنا چاہتا ہوں۔ سنیچر، اتوار، اور پیر بخار رہا، زیادہ سے زیادہ ایک سو ایک اور کم سے کم سو؛ پھر منگل کے روز بخار اتر گیا۔ میں سمجھا کہ مصیبت ٹل گءی ہے۔ جسم میں تواناءی کا فقدان محسوس کرنے کے باوجود میں کام میں جٹ گیا۔ طبیعت پھر بوجھل ہوگءی۔ بدھ کا دن تکلیف میں گزرا۔ جمعرات بھی بے آرامی میں گزر رہی تھی کہ اچانک دایاں کان بند ہوگیا اور پھر کان میں درد بڑھنا شروع ہوا۔ شام تک درد اتنا بڑھا کہ دل چیخیں مارنے کا تھا۔ کاءزر اسپتال کو فون کیا؛ انہوں نے فورا بلا لیا۔ وہاں پہنچا تو ڈاکٹر راجپوت سے سامنا ہوا۔ انہوں نے کان میں جھانکا، اسٹیتھو اسکوپ پیٹھ پر رکھ کر سانس کو غور سے سنا اور پھر کافی دیر تک انگریزی میں بہت کچھ کہتی رہیں۔ پھر نہ جانے کیا ہوا کہ انہوں نے رک کر پوچھا، "ویسے آپ ہندی تو جانتے ہیں نا؟" میں نے کہا، "ڈاکٹر راجپوت، ہماری پوری کوشش ہے کہ اگلے چناءو میں سینٹاکلارا کا نام بدل کر گاندھی نگر ہوجاءے؛ یہاں سینٹا کلارا میں ایرے غیرے بھی کام چلانے کے لیے ہندی کے دو چار الفاظ سیکھ لیتے ہیں؛ میں تو اسی دھرتی کا رہنے والا ہوں۔" کہنے لگیں، "ٹھیک ہے۔ میں سمجھتی ہوں کہ آپ دوا نہیں کھانا چاہتے مگر میرا مشورہ ہوگا کہ آپ اس موقع پہ دوا کھا لیں۔ میں آپ کو اینٹی بایوٹک لکھ دیتی ہوں۔" اسپتال کے دوا خانے سے دوا لے کر میں گھر آگیا۔ اب میں ہوں اور یہ دواءیں۔ یہاں میری طبیعت خراب ہوءی اور وہاں ملاءیشءین اءیرلاءنز کا جہاز غاءب ہوگیا۔ آج آٹھواں روز ہے اور اس جہاز کی کوءی خبر نہیں ہے۔ ہر دفعہ جب کسی جہاز کا حادثہ ہوتا ہے تو ہواءی جہاز کا سفر آءندہ آنے والوں کے لیے مزید محفوظ ہوجاتا ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ تازہ ترین حادثے سے سبق حاصل کر کے آءندہ کی حفاظت کے اقدامات کیے جاتے ہیں۔ ملاءیشءین اءیرلاءنز کے جہاز کے واقعے کے نتیجے میں بھی ایسا ہوگا مگر اس وقت تو کوشش ہے جہاز کا ملبہ تلاش کرنے کی۔ کیونکہ جہاز کو تباہ ہوتے کسی نے نہ تو سمندر پہ دیکھا اور نہ ہی خشکی پہ۔  جہاز کے حادثے سے سیکھنے کی ایسی ہی کوشش مجھے اپنی علالت کے سلسلے میں کرنی ہوگی۔ یہ کیسی بات ہے کہ میں اپنے جسم کے بارے میں اس قدر کم معلومات رکھتا ہوں۔ بستر سے اٹھا تو کسی قدر گہراءی سے سمجھنے کی کوشش کروں گا کہ نزلہ زکام کس طرح حملہ آور ہوتے ہیں اور بیماری کے کسی بھی مرحلے میں اگلے مرحلوں کی بہتر تیاری کیسے کی جاسکتی ہے۔



امیزان ڈاٹ کام سے 'خیال باری' یہاں دستیاب ہے:

امیزان ڈاٹ کام سے آڈیو سی ڈی 'ایٹم بم' اس بالا ربط پہ دستیاب ہے:




Tuesday, March 18, 2014

 

کوہ برومو






مارچ نو،  دو ہزارچودہ


ایک فکر کے سلسلے کا کالم

کالم شمار ایک سو اناسی


کوہ برومو

 
امید ہے کہ جب تک یہ کالم آپ کے ہاتھ میں پہنچے گا میں صحتیاب ہوچکا ہوں گا مگر اس وقت بخار کی کیفیت ہے۔ آنکھیں جل رہی ہیں اور جسم ٹوٹا ٹوٹا معلوم دیتا ہے۔ کھانسی کے ساتھ سر ہلتا ہے تو یوں لگتا ہے کہ جیسے مغز کا پچھلا حصہ کھوپڑی میں بری طرح ہل گیا ہو۔ بستر پہ لیٹے رہنے کے علاوہ کچھ کرنے کا دل نہیں چاہ رہا۔  اس حالت میں پوری تواناءی جمع کر کے ایک پرانہ قصہ ہی بیان کرسکتا ہوں۔
کچھ  بات ہو جاءے قدرت کے شاہکاروں کی اور ان سے منسوب آفت کی۔ کہتے ہیں کہ دنیا کے ماحول کو آلودہ کرنے میں انسان کے علاوہ قدرت بھی کچھ کم نہیں ہے۔ چیمورولوانگ پہنچ کر مجھے اس بیان کی صداقت کا اندازہ ہوا۔ وہاں ہوٹل کے احاطے سے کوہ برومو مع اپنی آلودگی کے نظر آرہا تھا۔ کوہ برومو ایسا آتش فشاں ہے جو ٹنوں کی مقدار میں گندھک ہرسال فضا میں اڑاتا ہے۔ میں برومو کو قریب سے دیکھنا چاہتا تھا مگر اس طرح نہیں کہ جس طرح میری سفری کتاب میں لکھا تھا۔ سفری کتاب میں ہدایت تھی کہ چیمورولوانگ میں کسی ٹورآپریٹر سے بات کریں۔ وہ لوگ آپ کو صبح چار بجے آپ کے ہوٹل سےاٹھاءیں گے اور برومو ایسے وقت پہنچاءیں گے جب آپ طلوع آفتاب کا نظارہ اس اونچاءی سے کرسکیں۔ کتاب کی ہدایت میں میرے لیے دو مساءل تھے۔ اول یہ کہ میں سارے دن کا سفر کر کے چیمورولوانگ پہنچا تھا اور مختصر نیند کر کے منہ اندھیرے اٹھنا مجھے بہت گراں معلوم ہورہا تھا۔ اور دوءم یہ کہ ٹورآپریٹر کے نرخ آسمان کو باتیں کررہے تھے۔ مجھے اندازہ تھا کہ میں کوہ برومو تک دو تین میل کا سفر کہیں کم خرچ میں کرسکتا تھا۔ اگلی صبح اپنی مرضی کے برخلاف میری آنکھ تڑکے کھل گءی۔ دراصل ساری رات مجھے سردی لگتی رہی تھی۔ ہوٹل نے جو پتلا سا کمبل اوڑھنے کے لیے دیا تھا وہ چیمورولوانگ کی سردی سے مقابلے کے لیے ناکافی تھا۔ آنکھ کھل جانے کے باوجود میں کچھ دیر گٹھری بنا بستر میں پڑا رہا۔ پھر ہمت کر کے باہر نکلا۔ اب دیکھا تو نہانے کے لیے گرم پانی ندارد۔ ایک عرصے سے صبح کے معمولات میں نہانا شامل ہے چنانچہ ٹھنڈے پانی ہی سے نہایا؛ میری قلفی جم گءی۔ وہاں سے نکل کر ریستوراں کے کسی قدر گرم ماحول میں پہنچا تو جان میں جان آءی۔ جہاں ناشتہ کمرے کے کراءے میں شامل ہو وہاں ناشتے پہ رش اور لوگوں کا جوش و جذبہ قابل رشک ہوتا ہے۔ اس ہوٹل کے ریستوراں میں ایسی ہی گھما گہمی تھی۔ پے درپے چاءے کے کءی پیالیاں حلق سے اتارنے کے بعد جسم واپس صحیح حالت میں آیا۔ ہوٹل سے باہر نکل کر قصبے کے مرکز کی طرف چلا۔ وہاں ایک موٹرساءیکل والے سے پوچھا کہ برومو تک لے جانے کے کتنے لوگے۔ اس نے مناسب نرخ بتاءے چنانچہ موٹرساءیکل پہ سوار ہوگیا۔ چمارو لوانگ سے نکل کر ہم کچھ دیر ایک ڈھلواں پہ چلے جس نے ہمیں وادی کے نشیب میں پہنچا دیا۔ وہاں جا کر موٹرساءیکل والے نے رفتار پکڑی اور کچھ ہی دیر میں برومو کے قریب اس مقام پہ پہنچا دیا جس سے آگے گاڑیوں اور موٹرساءیکلوں کا جانا منع تھا۔  برومو کی طرف بڑھتے ہوءے گندھک کی چبھتی بو فضا میں بڑھتی گءی تھی۔ وہاں موجود گھوڑے والوں نے اپنی اور اپنے گھوڑے کی خدمات مجھے پیش کیں مگر میں انہیں نظرانداز کرتا ہوا آگے بڑھ گیا۔ برومو کے دہانے کی طرف چلتے ہوءے بالاخر ایسی جگہ پہنچ گیا جہاں آگے سیڑھیاں تھیں۔ وہیں ایک طرف چھابڑی والے پانی کی بوتلیں، ابلے انڈے، اور پھولوں کی سوغات لیے بیٹھے تھے۔ برومو جزیرہ جاوا کے رہنے والے ہندوءوں کے لیے ایک مقدس مقام ہے جہاں وہ پھولوں کا چڑھاوا ڈالتے ہیں۔ اب فضا میں گندھک کی بو بہت بڑھ گءی تھی۔ یہ گندھک آنکھ کے پانی سے ملتی تو تیزاب بن کر آنکھوں میں جلن پیدا کرتی۔ میں منہ پہ رومال رکھا، آہستہ آہستہ سیڑھیاں چڑھنا شروع ہوا اور کچھ دیر میں برومو کے دہانے تک پہنچ گیا۔ وہاں دیکھنے کے لیے کچھ خاص نہ تھا کیونکہ دہانہ گندھک کے بخارات سے بھرا ہوا تھا۔ ایک ایسے آتش فشاں کو دیکھنے کی میری خواہش جو آگ کے گولے اگل رہا ہو اور یہ گولے میرے داءیں باءیں گریں ایک دفعہ پھر نامراد رہ گءی تھی۔


امیزان ڈاٹ کام سے 'خیال باری' یہاں دستیاب ہے:

امیزان ڈاٹ کام سے آڈیو سی ڈی 'ایٹم بم' اس بالا ربط پہ دستیاب ہے:

Monday, March 17, 2014

 

رقص کی ایک خوب صورت شام





مارچ دو،  دو ہزارچودہ


ایک فکر کے سلسلے کا کالم

کالم شمار ایک سو اٹہتر

رقص کی ایک خوب صورت شام


 
اسلام آباد کی ضلعی عدالت پہ ہونے والے حملے میں ہلاک ہونے والوں کی خبر میرے سامنے ہے مگر میں اس افسوسناک واقعے سے چشم پوشی کرتے ہوءے آپ کو رقص کی ایک خوب صورت شام کے بارے میں بتاءوں گا۔ یہ یادگار محفل ملپیٹس میں واقع انڈیا کمیونٹی سینٹر میں آج اتوار، مارچ دو کے روز منعقد ہوءی۔ اس محفل کا اہتمام ٹی سی ایف نامی فلاحی ادارے نے کیا تھا۔ واضح رہے کہ پاکستان میں قاءم سینکڑوں کی تعداد میں متحرک فلاحی اداروں میں سٹیزن فاءونڈیشن یا ٹی سی ایف ایک قابل ذکر اور قابل فخر نام ہے کہ یہ ادارہ تعلیم کے شعبے میں وہ کام کررہا ہے جس سے کءی علاقوں کے حالات تبدیل ہوتے نظر آرہے ہیں۔ اتوار کی محفل کا مقصد لوگوں کو ٹی سی ایف کی کاوشوں کے بارے میں بتانا تھا۔ اس پروگرام کی نظامت سعیدہ سیوج نے کی۔ پروگرام کے آغاز میں سعیدہ سیوج نے حاضرین کو بتایا کہ ٹی سی ایف سنہ پچانوے سے کام کررہی ہے اور ان کے والدین [محترم امجد نورانی اور محترمہ نجمہ نورانی] ٹی سی ایف سے سنہ ننانوے میں وابستہ ہوءے۔ اس وقت، یعنی سنہ ننانوے تک، ٹی سی ایف پینتیس اسکول بنا چکی تھی جن میں تین ہزار طلبا تعلیم حاصل کررہے تھے۔ جب کہ اب تک، یعنی سنہ ۲۰۱۴، تک ٹی سی ایف کی طرف سے تعمیر کیے جانے والے اسکولوں کی تعداد نوسو دس تک پہنچ چکی ہے اور ٹی سی ایف کے ان اسکولوں میں ایک لاکھ چھبیس ہزار لڑکیاں اور لڑکے تعلیم حاصل کررہے ہیں۔ اس موقع پہ 'کلوزنگ دا گیپ' نامی ایک مختصر ویڈیو رپورٹ دکھاءی گءی۔ بنگلور میں پیدا ہونے والے ممتاز امریکی صحافی فریڈ ڈے سام لزارو کی اس رپورٹ میں ٹی سی ایف کی کامیابیوں کے بارے میں بتایا گیا ہے۔ اس موقع پہ ماءدہ چغتاءی، فراز، اور لءیق چغتاءی نے بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ ماءدہ نے بتایا کہ وہ حال میں پاکستان میں ٹی سی ایف کے ایک اسکول بغیر کسی اطلاع کے پہنچیں تھیں اور وہ اسکول کے عملے کے کام سے متاثر ہوءے بغیر نہ رہ سکیں۔ فراز نے بھی حال میں کراچی میں موجود ٹی سی ایف کے ایک اسکول کا دورہ کیا تھا۔ انہوں نے لوگوں پہ زور دیا کہ وہ جب کبھی پاکستان جاءیں تو ٹی سی ایف کے اسکولوں کا معاءنہ کر کے خود دیکھیں کہ ٹی سی ایف کس معیار کا کام کر رہی ہے۔ لءیق چغتاءی نے حاضرین کو بتایا کہ ایک سال پہلے سلیکن ویلی کے مخیر حضرات نے چندے کی جو رقم ٹی سی ایف کو دی تھی اس رقم سے گمبٹ، سندھ میں تین اسکول تعمیر ہورہے ہیں جو اس سال کام شروع کردیں گے۔ ان مختصر تقاریر کے بعد اصل پروگرام شروع ہوا جس کا مرکزی کردار فرح یاسمین شیخ تھیں۔ فرح پنڈت چترش داس کی شاگردہ ہیں اور ایک عرصے سے کتھک رقص کا مظاہرہ امریکہ کے مختلف شہروں میں کررہی ہیں۔ رقص کے ساتھ موسیقی کے لیے طبلے پہ افغان نژاد امریکی نادر سالار تھے، اور سرود پہ بین کونن تھے۔ پہلے مرحلے کے رقص کے مظاہرے کے بعد دونوں موسیقار اسٹیج سے روانہ ہوگءے اور فرح نے ہارمونیم سنبھال لیا۔ اب وہی موسیقار تھیں اور وہی رقاصہ۔ پروگرام کا اگلا حصہ 'سوال جواب' کا تھا جس میں موسیقار اپنی دھن سے رقاصہ کو چیلنج کرتے ہیں اور رقاصہ اپنے فن سے نہ صرف اس چیلنج کا جواب دیتی ہے بلکہ رقص کی تھاپ سے موسیقار کو اپنا فن سنوارنے پہ اکساتی ہے۔ پروگرام کا آخری حصہ رقص کے ذریعے مشہور مصنفہ اندو سندارسن کی لکھی کہانی 'بیسویں بیوی' [دا ٹوءنٹیتھ واءف] کے چیدہ چیدہ حصے بیان کرنے کا تھا۔ اندو سندارسن بھارت کی نسیم حجازی ہیں۔ وہ مشہور تاریخی واقعات کو اپنے تخیل کی پرواز سے کہانی کا روپ دیتی ہیں۔ سندارسن کی ناول 'بیسویں بیوی' مغل بادشاہ جہانگیر اور مہرالنساء کی اول ملاقات سے شادی تک، اور مہرالنساء کے حکومتی معاملات سنبھال لینے کی کہانی ہے۔ یہ کہانی اس وقت سے شروع ہوتی ہے جب فارسی تاجر غیاث بیگ اپنی سولہ سالہ لڑکی مہرالنساء کے ساتھ مغل بادشاہ اکبر کے دربار میں پہنچتا ہے۔ مہرالنسا کی دلچسپی شہزادہ سلیم میں ہے مگر غیاث بیگ بادشاہ کی ہدایت پہ اپنی لڑکی کی سگاءی علی قلی کے ساتھ کردیتا ہے۔ شہزادہ سلیم چاہتا ہے کہ اس کا باپ اس منگنی کو ختم کروا کر مہرالنساء کی شادی سلیم کے ساتھ کروادے مگر بادشاہ ایسا کرنے پہ راضی نہیں ہوتا۔ اس کہانی میں پھر کءی نشیب و فراز ہیں۔ قصہ مختصر یہ کہ بہت سالوں بعد، جب شہزادہ سلیم تاجپوش ہوکر مغل بادشاہ جہانگیر بن جاتا ہے تو ایک دفعہ پھر اس کی ملاقات مہرالنساء سے ہوتی ہے جو اس وقت تک بیوہ ہوچکی ہوتی ہے۔ دونوں دلوں میں ایک دفعہ پھر محبت جاگتی ہےاور جہانگیر مہرالنساء کو اپنی بیسویں بیوی کے طور پہ اپنے نکاح میں لے لیتا ہے۔ سندارسن کی کہانی کا چیدہ چیدہ حصہ ارم مشرف نے پڑھ کر سنایا اور فرح یاسمین شیخ نے کہانی کے ہرکردار کی بیتی رقص کی صورت میں بیان کی۔

تصاویر بشکریہ دیپک پلانا۔
 

امیزان ڈاٹ کام سے 'خیال باری' یہاں دستیاب ہے:

امیزان ڈاٹ کام سے آڈیو سی ڈی 'ایٹم بم' اس بالا ربط پہ دستیاب ہے:


This page is powered by Blogger. Isn't yours?