Tuesday, March 25, 2014
اپنی کم سن بچیوں کو اسلامی نظریاتی کونسل کے مولویوں سے بچاءیں
مارچ تءیس، دو ہزارچودہ
ایک فکر کے سلسلے کا کالم
کالم شمار ایک سو اکیاسی
اپنی کم سن
بچیوں کو اسلامی نظریاتی کونسل کے مولویوں سے بچاءیں
پاکستان میں اسلامی
نظریاتی کونسل نے حال میں اپنی [غیرپسندیدہ] موجودگی کا اظہار دو بیانات کے ساتھ
کیا ہے۔ کونسل کے چءیرمین مولانا محمد خان شیرانی صاحب کا پہلا بیان دوسری شادی سے
متعلق تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ اسلامی نظریاتی کونسل کے ممبران کے اسلام کے حساب سے
مرد کو دوسری شادی کے لیے پہلی بیوی سے اجازت لینے کی کوءی ضرورت نہیں ہے۔ ابھی
یار لوگ مولانا کے اس بیان سے سنبھل ہی رہے تھے کہ مولانا شیرانی نے دوسرا بیان
داغ دیا۔ دوسرے بیان میں فرمایا گیا کہ مولانا شیرانی اور ان کے ساتھیوں کے اسلام
کے حساب سے لڑکیوں کی شادی کی کوءی کم از کم عمر نہیں ہے، یعنی بارہ، تیرہ کیا،
آٹھ، سات، چھ سالہ لڑکیوں کو بھی رشتہ ازدواج میں باندھا جاسکتا ہے۔ کچھ لوگ
مولانا کے ان دو بیانات پہ غصے میں آگءے، مگر سچ پوچھیے تو میں ان بیانات سے بہت
خوش ہوا۔ مجھے یہ جان کر قلبی اطمینان ہوا کہ اسلامی نظریاتی کونسل دراصل اخلاقی
طور پہ دیوالیہ لوگوں کا ایک ادارہ ہے، اور یہ لوگ اپنے مضحکہ خیز بیانات سے نہ
صرف یہ ثابت کررہے ہیں کہ کونسل کے ممبران موجودہ زمانے کی اخلاقی اقدار سے بے خبر
ہیں بلکہ یہ بھی ثابت کررہے ہیں کہ ایک عام پاکستانی کے لیے ان لوگوں کے 'اسلامی
نظریات' کی کوءی اہمیت نہیں ہونی چاہیے اور جس قدر جلد ممکن ہو اسلامی نظریاتی
کونسل کو ختم کر کے ان نام نہاد اسلامی علما کو ان کے گھروں کو روانہ کیا جاءے۔
ایک ایسی
کونسل ہی جس کے پچیس ممبران میں ایک بھی عورت نہ ہو، یقینا ایسے زن مخالف نظریات
رکھ سکتی ہے۔
عمرانیات کا
کوءی بھی طالب علم دیکھ سکتا ہے کہ کس طرح وقت کے ساتھ انسانی معاشرے تبدیل ہوتے
ہیں اور لوگوں کے ذہنی رجحانات بدل جاتے ہیں۔ معاشرے کے قوانین کو ان ہی بدلتے
رجحانات کے ساتھ تبدیل ہونا ہوتا ہے۔ جہاں ایسا نہ کیا جاءے وہاں فرسودہ قوانین
محض ہنسی مذاق بن جاتے ہیں۔
آج سے چودہ
سو سال پہلے کی عورت کا مقابلہ آج کی عورت سے کیجیے۔ عورتوں سے متعلق ترقی یافتہ
معاشروں کے رجحانات بالکل بدل گءے ہیں۔ آج
سے ڈیڑھ ہزار سال پہلے کی عورت مرد کی جاگیر تھی۔ آج عورت کو بالکل مرد کے مساوی
انسان سمجھا جاتا ہے۔ اس بدلتی سوچ سے پوری دنیا میں ایک تبدیلی آءی ہے اور معاشروں
میں طاقت کا توازن بدل گیا ہے۔ نءے قوانین کے تشکیل ہی سے اس بڑی تبدیلی کا ادراک کیا
جاسکتا ہے۔
چودہ سو سال
پہلے کا اسلام اپنے وقت کے حساب سے ایک زبردست انقلابی پیغام تھا اور معاشرے کے
پسے ہوءے طبقات کے لیے ہوا کا تازہ جھونکا تھا۔ مگر ضرورت اس بات کی تھی کہ اسلام
کو اسی ترقی پسند سوچ کے ساتھ مستقل عصری
تقاضوں کے ہم آہنگ رکھا جاءے۔ افسوس کہ ایسا نہ ہوا۔ اور آج کا مولوی ہمیں جس
'اسلام' کی طرف بلاتا ہے اس سے ویسی ہی بو آتی ہے جیسی کسی چودہ سو سال پرانے باسی حلوے
سے آسکتی ہے۔ یہ وہ 'اسلام' ہے جو چودہ سو سال پہلے کے معاشرتی رجحانات کے ساتھ
چمٹا ہوا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ اگر مولونا شیرانی
سے پوچھا جاءے کہ کیا غلامی غیراسلامی ہے تو ان کا کہنا ہوگا کہ، "ہرگز نہیں۔
نبی کے زمانے میں غلام ہوتے تھے اس لیے آج بھی غلام رکھے جاسکتے ہیں۔" بالکل
اسی طرح یقینا اسلامی نظریاتی کونسل کے دقیانوسی خیالات کے حساب سے معاشرے میں کم
از کم اجرت کی بھی کوءی حد مقرر نہیں ہونی چاہیے؛ چھوٹے بچوں سے کام کرانے پہ کوءی
پابندی نہیں ہونی چاہیے؛ کسی اسلامی ملک کو بچوں کی عام تعلیم کا انتظام کرنے کی
بھی کوءی ضرورت نہیں ہونی چاہیے؛ ریاست کو صحت عامہ پہ توجہ کرنے کی بھی کوءی
اسلامی ذمہ داری نہیں ہے، وغیرہ، وغیرہ۔
سچ پوچھیے تو
پاکستان کو کسی اسلامی نظریاتی کونسل کی ضرورت نہیں ہے۔ ہمارے پیارے نبی کی وفات
کے بعد کسی شخص، کسی گروہ کو نہ یہ اختیار ہے اور نہ ہی ہونا چاہیے کہ وہ باقی
لوگوں کو بتاءے کہ صحیح اسلام کیا ہے۔
پاکستان کو
ایک جدید، اور یقینا سچی اسلامی، ریاست بنانے کے لیے ضروری ہے کہ ریاست کو جلد از
جلد مذہب کے چنگل سے آزاد کیا جاءے۔ اسلامی نظریاتی کونسل جیسے اداروں کو توڑ کر
ان میں کام کرنے والے لوگوں کو مثبت کاموں پہ لگایا جاءے جس سے یہ لوگ معاشرے کا
فعال حصہ بن سکیں نہ کہ اپنے دو ٹکے کے خیالات سے الٹا معاشرے کی ترقی کا راستہ
روکیں۔
مگر ان
مولویوں کو چلتا کرنے سے پہلے ان کو معاشرے کا کارآمد حصہ بنانے کے لیے ان کو ہاتھ
کے ہنر ضرور سکھاءے جاءیں۔ ان کی ذہنی استعداد کے حساب سے ان کو موٹر میکینک،
ریفریجریشن، الیکٹریشن وغیرہ کے ڈپلوما کورس کراءے جاسکتے ہیں۔ ان کو ہاتھ کے ہنر
سکھا کر کام پہ لگانا اس لیے ضروری ہے تاکہ یہ کونسل سے نکلنے کے بعد اپنے اپنے
علاقوں میں پہنچ کر علاقے کے سب سے جاہل اور غریب خاندانوں کی کم سن بچیوں پہ ہاتھ
ڈالنے سے باز رہیں۔۔
خیال باری کو امیزان سے حاصل کرنے کے لیے یہاں کلک کیجیے
http://www.amazon.com/Khayal-Bari-Edition-Hasan-Cemendtaur/dp/1493595318/ref=sr_1_1?ie=UTF8&qid=1395682205&sr=8-1&keywords=cemendtaur
آڈیو سی ڈی 'ملاقات' یہاں دستیاب ہے
http://www.amazon.com/Mulaqaat-Cemendtaur/dp/B00J5SKEEK/ref=sr_1_2?ie=UTF8&qid=1395682256&sr=8-2&keywords=cemendtaur
اور آڈیو سی ڈی 'ایٹم بم' یہاں
http://www.amazon.com/Atom-Bomb-Cemendtaur/dp/B00IV3GT9Y/ref=sr_1_3?ie=UTF8&qid=1395682284&sr=8-3&keywords=cemendtaur
Labels: Child wife, Council of Islamic Ideology, Second marriage