Tuesday, March 18, 2014

 

کوہ برومو






مارچ نو،  دو ہزارچودہ


ایک فکر کے سلسلے کا کالم

کالم شمار ایک سو اناسی


کوہ برومو

 
امید ہے کہ جب تک یہ کالم آپ کے ہاتھ میں پہنچے گا میں صحتیاب ہوچکا ہوں گا مگر اس وقت بخار کی کیفیت ہے۔ آنکھیں جل رہی ہیں اور جسم ٹوٹا ٹوٹا معلوم دیتا ہے۔ کھانسی کے ساتھ سر ہلتا ہے تو یوں لگتا ہے کہ جیسے مغز کا پچھلا حصہ کھوپڑی میں بری طرح ہل گیا ہو۔ بستر پہ لیٹے رہنے کے علاوہ کچھ کرنے کا دل نہیں چاہ رہا۔  اس حالت میں پوری تواناءی جمع کر کے ایک پرانہ قصہ ہی بیان کرسکتا ہوں۔
کچھ  بات ہو جاءے قدرت کے شاہکاروں کی اور ان سے منسوب آفت کی۔ کہتے ہیں کہ دنیا کے ماحول کو آلودہ کرنے میں انسان کے علاوہ قدرت بھی کچھ کم نہیں ہے۔ چیمورولوانگ پہنچ کر مجھے اس بیان کی صداقت کا اندازہ ہوا۔ وہاں ہوٹل کے احاطے سے کوہ برومو مع اپنی آلودگی کے نظر آرہا تھا۔ کوہ برومو ایسا آتش فشاں ہے جو ٹنوں کی مقدار میں گندھک ہرسال فضا میں اڑاتا ہے۔ میں برومو کو قریب سے دیکھنا چاہتا تھا مگر اس طرح نہیں کہ جس طرح میری سفری کتاب میں لکھا تھا۔ سفری کتاب میں ہدایت تھی کہ چیمورولوانگ میں کسی ٹورآپریٹر سے بات کریں۔ وہ لوگ آپ کو صبح چار بجے آپ کے ہوٹل سےاٹھاءیں گے اور برومو ایسے وقت پہنچاءیں گے جب آپ طلوع آفتاب کا نظارہ اس اونچاءی سے کرسکیں۔ کتاب کی ہدایت میں میرے لیے دو مساءل تھے۔ اول یہ کہ میں سارے دن کا سفر کر کے چیمورولوانگ پہنچا تھا اور مختصر نیند کر کے منہ اندھیرے اٹھنا مجھے بہت گراں معلوم ہورہا تھا۔ اور دوءم یہ کہ ٹورآپریٹر کے نرخ آسمان کو باتیں کررہے تھے۔ مجھے اندازہ تھا کہ میں کوہ برومو تک دو تین میل کا سفر کہیں کم خرچ میں کرسکتا تھا۔ اگلی صبح اپنی مرضی کے برخلاف میری آنکھ تڑکے کھل گءی۔ دراصل ساری رات مجھے سردی لگتی رہی تھی۔ ہوٹل نے جو پتلا سا کمبل اوڑھنے کے لیے دیا تھا وہ چیمورولوانگ کی سردی سے مقابلے کے لیے ناکافی تھا۔ آنکھ کھل جانے کے باوجود میں کچھ دیر گٹھری بنا بستر میں پڑا رہا۔ پھر ہمت کر کے باہر نکلا۔ اب دیکھا تو نہانے کے لیے گرم پانی ندارد۔ ایک عرصے سے صبح کے معمولات میں نہانا شامل ہے چنانچہ ٹھنڈے پانی ہی سے نہایا؛ میری قلفی جم گءی۔ وہاں سے نکل کر ریستوراں کے کسی قدر گرم ماحول میں پہنچا تو جان میں جان آءی۔ جہاں ناشتہ کمرے کے کراءے میں شامل ہو وہاں ناشتے پہ رش اور لوگوں کا جوش و جذبہ قابل رشک ہوتا ہے۔ اس ہوٹل کے ریستوراں میں ایسی ہی گھما گہمی تھی۔ پے درپے چاءے کے کءی پیالیاں حلق سے اتارنے کے بعد جسم واپس صحیح حالت میں آیا۔ ہوٹل سے باہر نکل کر قصبے کے مرکز کی طرف چلا۔ وہاں ایک موٹرساءیکل والے سے پوچھا کہ برومو تک لے جانے کے کتنے لوگے۔ اس نے مناسب نرخ بتاءے چنانچہ موٹرساءیکل پہ سوار ہوگیا۔ چمارو لوانگ سے نکل کر ہم کچھ دیر ایک ڈھلواں پہ چلے جس نے ہمیں وادی کے نشیب میں پہنچا دیا۔ وہاں جا کر موٹرساءیکل والے نے رفتار پکڑی اور کچھ ہی دیر میں برومو کے قریب اس مقام پہ پہنچا دیا جس سے آگے گاڑیوں اور موٹرساءیکلوں کا جانا منع تھا۔  برومو کی طرف بڑھتے ہوءے گندھک کی چبھتی بو فضا میں بڑھتی گءی تھی۔ وہاں موجود گھوڑے والوں نے اپنی اور اپنے گھوڑے کی خدمات مجھے پیش کیں مگر میں انہیں نظرانداز کرتا ہوا آگے بڑھ گیا۔ برومو کے دہانے کی طرف چلتے ہوءے بالاخر ایسی جگہ پہنچ گیا جہاں آگے سیڑھیاں تھیں۔ وہیں ایک طرف چھابڑی والے پانی کی بوتلیں، ابلے انڈے، اور پھولوں کی سوغات لیے بیٹھے تھے۔ برومو جزیرہ جاوا کے رہنے والے ہندوءوں کے لیے ایک مقدس مقام ہے جہاں وہ پھولوں کا چڑھاوا ڈالتے ہیں۔ اب فضا میں گندھک کی بو بہت بڑھ گءی تھی۔ یہ گندھک آنکھ کے پانی سے ملتی تو تیزاب بن کر آنکھوں میں جلن پیدا کرتی۔ میں منہ پہ رومال رکھا، آہستہ آہستہ سیڑھیاں چڑھنا شروع ہوا اور کچھ دیر میں برومو کے دہانے تک پہنچ گیا۔ وہاں دیکھنے کے لیے کچھ خاص نہ تھا کیونکہ دہانہ گندھک کے بخارات سے بھرا ہوا تھا۔ ایک ایسے آتش فشاں کو دیکھنے کی میری خواہش جو آگ کے گولے اگل رہا ہو اور یہ گولے میرے داءیں باءیں گریں ایک دفعہ پھر نامراد رہ گءی تھی۔


امیزان ڈاٹ کام سے 'خیال باری' یہاں دستیاب ہے:

امیزان ڈاٹ کام سے آڈیو سی ڈی 'ایٹم بم' اس بالا ربط پہ دستیاب ہے:

Comments: Post a Comment



<< Home

This page is powered by Blogger. Isn't yours?