Sunday, June 23, 2013

 

نانگا پربت قتل عام، اصل وجہ


جون تءیس، دو ہزار تیرہ
ایک فکر کے سلسلے کا کالم
کالم شمار ایک سو تینتالیس

نانگا پربت قتل عام، اصل وجہ

یوں تو کسی بھی صحیح الدماغ شخص کی طرح مجھے بھی قتل و غارت گری پسند نہیں ہے لیکن اگر کہیں کوءی سیاح مارا جاءے تو مجھے خاص قلق ہوتا ہے۔ اور اس کی وجہ یہ ہے کہ مجھے خود جہاں نوردی کا شوق ہے اور میں ہر مسافر میں اپنے آپ کو دیکھ سکتا ہوں۔ اور اسی وجہ سے ہفتے کی رات نانگا پربت جانے والے راستے میں دس سیاحوں کے قتل پہ میں تڑپ اٹھا۔ وہ دس لوگ جو مختلف ممالک سے پاکستان پہنچے تھے، اونچی چوٹی سر کرنے کے شوق میں نانگا پربت کی طرف چلے جا رہے تھے۔ یقینا پاکستان آنے سے پہلے جب ان کوہ پیماءوں نے اپنے چاہنے والوں کو بتایا ہوگا کہ وہ پہاڑ چڑھنے پاکستان جا رہے ہیں تو لوگوں نے انہیں حیرت سے دیکھا ہوگا۔ ان کے  خیرخواہوں نے یقینا  انہیں مشورہ دیا ہوگا کہ وہ پاکستان ہرگز نہ جاءیں کہ وہاں تو روز دھماکے ہورہے ہیں، لوگ خودکش حملوں میں ہلاک ہورہے ہیں۔ پر میرے قبیلے کے ان لوگوں نے یہ کہہ کر اپنے خیرخواہوں کو مطمءن کردیا ہوگا کہ پاکستان کا وہ شمالی علاقہ جو افغانستان سے نہیں لگتا ہرگز خطرناک نہیں ہے؛ کہ وہاں شیعہ آبادی کا تناسب زیادہ ہے اور ان لوگوں کا القاعدہ یا طالبان سے دور کا بھی واسطہ نہیں؛ اور اسی وجہ سے وہ جگہ محفوظ ہے۔ کوہ پیماءی کے یہ دلدادہ یقینا پاکستان پہنچ کر سیدھا گلت یا اسکردو پہنچے ہوں گے اور پھر وہاں سے نانگا پربت کی طرف نکل گءے ہوں گے۔ یہ لوگ جب ان راستوں پہ پہنچے ہوں گے جہاں کوءی گاڑی نہیں جاتی اور راستہ پیدل طے کیا جاتا ہے تو انہیں اطمینان ہوگیا ہوگا کہ سیاحوں کا یہ قافلہ اب محفوظ ہے۔ اس دوردراز علاقے میں انہیں مارنے بھلا کون آءے گا؟ اور یہی بات طالبان اور ان کے حامیوں کو نہیں بھارہی تھی۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ شمالی علاقہ جات کے ایک کونے میں فوج کشی ہورہی ہو، ڈرون حملے ہورہے ہوں، بم برس رہے ہوں، روز لوگ مر رہے ہوں اور انہیں شمالی علاقوں میں دوسری طرف لوگ آرام سے بلند چوٹیاں سر کر رہے ہوں۔ جن لوگوں کو یہ بات پسند نہیں تھی ان میں سے چند لوگوں نے یہ مشقت اٹھاءی کہ اپنے ہتھیاروں کے ساتھ میلوں فاصلہ پیدل طے کیا اور راتوں رات سیاحوں کو موت کے گھاٹ اتار کر فرار ہوگءے۔ اب ان قتل کیے جانے والے کوہ پیماءوں کے لواحقین دیر تک یہ گتھی سلجھاتے رہیں گے کہ ان کے چاہنے والوں کو کیوں قتل کیا گیا۔ وہ شاید سوال کریں کہ آیا طالبان نے یہ الٹی میٹم دیا تھا کہ کوءی سیاح پاکستان کا رخ نہ کرے؛ کسی بے گناہ پہ یوں چھپ کر وار کرنا کہاں کا ا انصاف ہے؟ کیا کوءی ان لوگوں کو یہ بتاءے گا کہ نانگا پربت جانے والے سیاحوں کے قتل عام کی وجہ کچھ اور ہے؟ اس واردات کا اصل ہدف اس علاقے کی شیعہ آبادی ہے۔ ایسا کام کیا گیا ہے کہ اس علاقے کے رہنے والے لوگ سیاحوں کی آمدنی سے محروم ہوجاءیں؛ اس مقامی آبادی کا معاشی طور پہ ناطقہ بند کیا جاءے۔ اور یقینا طالبان یہ ہدف پانے میں کامیاب ہوگءے ہیں۔ تازہ ترین قتل عام کے بعد شاید ہی کوءی سیاح ان علاقوں کا رخ کرے۔
دہشت گردی کے ہر واقعے کے بعد لوگوں کا خیال ہوتا ہے کہ بس اب بہت ہوگیا، اب پاکستان کی حکومتی مشینری حرکت میں آجاءے گی۔ فورا ہی سیاسی اور فوجی قیادت کا ایک اجلاس منعقد ہوگا جس میں امن عامہ سے متعلق اہم فیصلے کیے جاءیں گے اور پھر اس حکمت عملی کے تحت اقدامات کیے جاءیں گے۔ مگر ہر دفعہ عوام مایوس ہی ہوتے ہیں۔ ہر دہشت گردی کی واردات ایک دو دن اخبارات کی زینت بنتی ہے، منتخب نماءندے مذمت کے بیانات جاری کرتے ہیں۔ دن یوں ہی گزرتے رہتے ہیں اور کوءی عملی قدم نہیں اٹھایا جاتا، حتی کہ دہشت گردی کی ایک نءی واردات ہوجاتی ہے۔ اس دفعہ بھی ایسا ہی ہوگا۔ اور اس کی پیش گوءی ہمیں وزیر داخلہ چوہدری نثار کے بیان سے ملتی ہے۔  محترم وزیر کا کہنا ہے کہ 'معیتیں متعلقہ ممالک بھیجی جا رہی ہیں؛ سرکردہ پارلیمینٹیرینز بھی ساتھ روانہ ہوں گے۔' میری طرح آپ بھی اندازہ کرسکتے ہیں کہ زیادہ تر سرکردہ پارلیمینٹیرینز کی دلچسپی لاشوں کے ساتھ یوکرین جانے میں ہوگی۔ اس صورت میں بہت سے مبصرین کا یہ خیال صحیح معلوم دیتا ہے کہ پاکستان میں اسی طرح لاقانونیت بڑھتی رہے گی، حکومت کی رٹ سکڑتی رہے گی، حتی کہ مختلف علاقوں کے طاقتور لوگ اور گروہ اپنے علاقوں کا انتظام سنبھال کر اپنی آزادی کا اعلان کردیں گے۔

Labels: , , , , ,


Monday, June 17, 2013

 

بامیان، زیارت اور بولان


جون پندرہ، دو ہزار تیرہ
ایک فکر کے سلسلے کا کالم
کالم شمار ایک سو بیالیس


بامیان، زیارت اور بولان

بلوچستان کے بارے میں پاکستان کے لوگ کم ہی جانتے ہیں۔  چنانچہ کل بلوچستان میں ہونے والے دہشت گردی کے تین واقعات نے پاکستان کے لوگوں کو حیران پریشان کردیا۔ پہلے واقعے میں مسلح لوگوں نے کوءٹہ سے کچھ فاصلے پہ زیارت میں موجود محمد علی جناح کے تاریخی تعطیلی گھر کو تباہ و برباد کر دیا۔ دہشت گردی کا دوسرا واقعہ کوءٹہ کی ایک ایسی بس میں ہوا جو طالبات کو بہادر خان خاتون یونیورسٹی لے جا رہی تھی۔ بس میں دھماکے سے چودہ طالبات ہلاک ہوگءیں۔ تیسرے واقعے میں ایک خودکش حملہ آور بولان اسپتال کے ایمرجنسی وارڈ میں پہنچ کر پھٹ گیا؛ جب کہ دوسرے حملہ آوروں نے اسپتال کے اندر گھس کر لوگوں کو یرغمال بنایا۔ ان دہشت گردوں کے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں سے مقابلے میں سولہ افراد ہلاک ہوءے۔  بلوچستان کے بارے میں کم آگہی رکھنے کی وجہ سے ایک عام پاکستانی کو یہ سمجھنے میں مشکل ہوءی کہ زیارت میں جناح کی رہاءش گاہ تباہ کرنے والے حملہ آور بلوچ علیحدگی پسند تھے جب کہ طالبات کی بس میں دھماکہ اور پھر اسپتال پہ حملہ لشکرجھنگوی کے لوگوں نے کیا۔ یہ دونوں گروہ نہ صرف یہ کہ بالکل علیحدہ ہیں بلکہ ان کے مقاصد بھی بالکل جدا ہیں۔ بلوچ علیحدگی پسندوں نے ایک تاریخی عمارت پہ کیوں حملہ کیا؟ یہ حملہ بالکل اس وجہ سے کیا گیا جس وجہ سے سنہ دو ہزار ایک میں طالبان کی حکومت نے بامیان کے تاریخی بدھ مجسموں کو بارود سے اڑایا تھا۔ یہ ناپسندیدہ تاریخ سے نفرت کے اظہار کا ایک طریقہ ہے۔ ہم سب اپنی اپنی تاریخ سے یوں جڑے ہیں کہ اس تاریخ کو کھرچ کر اپنے ماضی سے نکالنا ہمارے لیے ناممکن ہے۔ نادان ہیں وہ لوگ جو کسی وجہ سے اپنی ناپسندیدہ تاریخ کو بم دھماکے سے اڑانا چاہتے ہیں۔ وہ نہیں سمجھتے کہ تاریخ کا کوءی باب اگر ناپسند ہو بھی تو اسے سنبھال کر رکھنا برا سودا نہیں ہے۔ کیا ہوا کہ اگر بلوچ علیحدگی پسندوں کو محمد علی جناح اور ان کی تخلیق پاکستان پسند نہیں ہے؟ بلوچستان کا مستقبل کچھ بھی ہو کیا بلوچستان کبھی جناح کو اور پاکستان کو اپنی تاریخ سے نکال کر پھینک سکتا ہے؟  جس طرح بامیان کے مجسمے سیاحوں کی دلچسپی کا مرکز ہونے کی وجہ سے مقامی لوگوں کی آمدنی کا ذریعہ تھے، اسی طرح زیارت میں جناح کی تاریخی رہاءش بھی سیاحوں کے توسط سے زیارت کے لوگوں کے لیے آمدنی کا ایک ذریعہ تھی؟ کیا لوگوں سے ان کا رزق چھیننا کوءی احسن کام ہے؟
ناپسندیدہ تاریخ سے نفرت کا ایک اظہار برلن میں بھی کیا گیا تھا۔ مشرقی اور مغربی المانیہ کے اتحاد میں جب دیوار برلن کی ضرورت نہ رہی تو پرجوش جوانوں نے اس دیوار کی اینٹ سے اینٹ بجا دی اور جب دیوار اپنی جگہ سے قریبا پوری طرح غاءب ہوگءی تو پھر دیوار برلن کی اینٹوں کے ٹکڑے سیاحوں کو بیچے جانے لگے۔ کیا ہی اچھا ہوتا اگر المانوی ہوش سے کام لیتے اور دیوار کا وسیع تر حصہ جوں کا توں قاءم رکھتے۔ کیا ایسی دیوار سیاحوں سے بہتر آمدنی کا ذریعہ نہ بن جاتی؟
واپس کوءٹہ کے واقعات کی طرف چلتے ہیں۔ کیا آپ سوچ سکتے ہیں کہ کوءٹہ میں رہنے والے ہزارہ کس ذہنی تناءو سے گزر رہے ہوں گے؟ لشکر جھنگوی کے پے درپے حملوں کے بعد ہزارہ اپنے علاقوں میں محصور ہو کر رہ گءے ہیں۔ وہ کم ہی ان علاقوں سے باہر نکلتے ہیں۔ علم کی جستجو میں کبھی وہ اپنے علاقے سے باہر نکلیں تو انہیں مستقل ڈر لگا رہتا ہے کہ کہیں کوءی انہیں پہچان کر ان پہ حملہ نہ کر دے۔ اور کل کے واقعے میں ایسے حملے کے خدشات صحیح ثابت ہوءے۔ لشکر جھنگوی کے جنونی ہرقیمت پہ شیعہ پہ بالعموم اور ہزارہ پہ بالخصوص حملہ کرنا چاہتے ہیں۔ ان جنونیوں کا خیال ہے کہ یہ شیعہ کو مار کر جنت حاصل کر لیں گےاور یہ جنت کے اس حصول میں اپنی جان کی قربانی دینے کے لیے تیار ہیں۔ نواز شریف جب تک پاکستان کے سیاہ و سفید کے مالک نہ تھے وہ اس قماش کے جنونیوں کو ساتھ لے کر چل سکتے تھے۔ مگر اب معاملہ دوسرا ہے۔ نواز شریف پورے پاکستان کے وزیر اعظم ہیں۔ وہ ہزارہ کے بھی وزیر اعظم ہیں۔ اپنی امان میں رہنے والے ان لوگوں کی حفاظت کے لیے انہیں مذہبی جنونیوں سے جنگ کرنی ہوگی۔


Monday, June 10, 2013

 

خطرناک ہتھیاروں سے لیس دنیا



جون دس، دو ہزار تیرہ
ایک فکر کے سلسلے کا کالم
کالم شمار ایک سو چالیس
  
خطرناک ہتھیاروں سے لیس دنیا

ہر روز سونے سے پہلے میں پورے دن کا مختصر حال ایکسیل کی ایک فاءل میں لکھتا ہوں۔  سالوں سے ایسا کرنے کی وجہ سے اب یہ آسانی ہے کہ دیکھنا ہو کہ کوءی گزرا دن میں نے کیسے گزارا تھا تو ذرا سی دیر میں یہ تجزیہ ممکن ہوپاتا ہے۔ جب میں نے امریکی فوجی رابرٹ بیلز کی قتل و غارت گری کے بارے میں پڑھا تو فورا اپنی مءی دس، دو ہزار بارہ کی ڈاءری دیکھی۔ وہ مءی دس سنیچر کا روز تھا۔ میں نے وہ دن چھوٹے موٹے کاموں میں گزارا۔ دوپہر کے کسی وقت جب میں گملوں میں سبزیوں کے بیج ڈال کر انہیں پانی دے رہا تھا تو اس وقت افغانستان میں مءی گیارہ کی علی الصبح تھی۔ سارجنٹ رابرٹ بیلز قندہار سے کچھ فاصلے پہ اپنے فوجی کیمپ میں ساری رات جاگتے رہنے کے ساتھ شراب پیتا رہا تھا۔ پھر اسے نہ جانے کیا سوجھی کہ وہ رات کی تاریکی میں کیمپ سے نکلا اور پیدل چلتا ہوا قریبی گاءوں پہنچ گیا۔ پورا گاءوں سو رہا تھا۔ رابرٹ بیلز نے ایک جگہ مورچہ بنایا اور مٹی کے گھروں پہ فاءرنگ شروع کر دی۔ ذرا سی دیر میں فضا آہ و بکا سے بھر گءی۔ رابرٹ بیلز کی چلاءی ہوءی لگاتار گولیاں گھروں کی دیواروں سے گزرتی ہوءی لوگوں کو لگ رہیں تھیں اور انہیں ڈھیر کیے دے رہی تھیں۔ جو بچ گءے تھے وہ تاریکی میں کیے گءے اس وار سے بچنے کی کوشش کر رہے تھے مگر انہیں کوءی خبر نہیں تھی کہ ان کو اس طرح کیوں مارا جا رہا تھا اور کون ایسا کر رہا تھا۔ پھر رابرٹ بیلز رک گیا۔ غالبا اس کے ہتھیار میں گولیاں ختم ہوگءیں تھیں۔ وہ کیمپ کی طرف پلٹ گیا۔ وہاں دوسرے سپاہی اب تک سوتے پڑے تھے۔ رابرٹ نے تازہ ہتھیار اٹھاءے اور پھر ایک دوسرے گاءوں کی طرف روانہ ہوگیا۔ یہاں بھی لوگ خواب خرگوش کے مزے لوٹ رہے تھے۔ رابرٹ بیلز نے ایک دفعہ پھر مورچہ بنایا اور اس دوسرے گاءوں کے گھروں پہ فاءرنگ شروع کر دی۔ ایک دفعہ پھر گھاءل لوگوں کی چیخوں سے فضا مکدر ہوگءی۔ رابرٹ بیلز ان آوازوں کو نظرانداز کرتا ہوا فاءرنگ کرتا رہا اور گولیاں ختم ہونے پہ واپس کیمپ کی طرف لوٹ گیا۔ دو گاءوں پہ رابرٹ بیلز کی اس وحشیانہ کارواءی میں سولہ افراد ہلاک ہوءے جن میں اکثریت عورتوں اور بچوں کی تھی۔ رابرٹ بیلز کی اس قتل و غارت گری کے اور کءی درندہ انداز پہلو ہیں جن میں گولیوں کی بوچھاڑ کے علاوہ لوگوں کو خنجر سے مارنا اور مر جانے والوں کی لاشوں کو جلانا بھی شامل ہیں۔  عام افغانوں کے ساتھ کرزی کی نیم جان حکومت نے اس واقعے پہ شدید احتجاج کیا۔ رابرٹ بیلز پہ مقدمہ چلانے کے لیے اسے امریکہ لایا گیا۔ رابرٹ نے بہانہ بنایا کہ افغانستان میں قتل عام کے وقت اس کی ذہنی حالت ٹھیک نہ تھی۔ ماہرین نفسیات داں کی ایک ٹیم نے رابرٹ بیلز کا نفسیاءی معاءنہ کیا اور فیصلہ دیا کہ رابرٹ ذہنی طور پہ کسی بھی عام شخص کی طرح ہے اور مجذوب نہیں ہے۔ حال میں رابرٹ بیلز نے اس شرط پہ اقرار جرم کیا ہے کہ اسے موت کی سزا نہ دی جاءے بلکہ سولہ افراد کے قتل میں عمر قید کیا جاءے۔ ظاہر ہے کہ افغانوں کے علاوہ بہت سے لوگ اس سمجھوتے پہ خوش نہیں ہیں۔ مگر اس سے قطع نظر کہ امریکی فوج رابرٹ بیلز کے ساتھ کیا سلوک کرتی ہے کیا یہ بات قابل تشویش نہیں ہےکہ ہماری اس دنیا میں بہت سے لوگوں کے ہاتھوں میں بے انتہا خطرناک ہتھیار ہیں اور ان لوگوں کو قریبا مکمل آزادی ہے کہ وہ ان ہتھیاروں کا جس طرح چاہے استعمال کریں۔ کیا پتہ کہ کب کس کا دماغ پھر جاءے اور اپنے ہتھیار کا غلط استعمال شروع کردے؟ پاکستان نے امریکہ کو کھلی چھوٹ دی ہوءی ہے کہ وہ افغانستان سے ملحق علاقوں میں جس پہ چاہے اپنے ڈرون سے میزاءل داغے۔ کیا یہ ممکن نہیں ہے کہ ڈرون چلانے والے فوجی کا دماغ پھر جاءے اور وہ اسلام آباد پہ، لاہور پہ یا پاکستان کے کسی اور شہر پہ ڈرون سے میزاءل کا حملہ کردے؟ ایسا ہونے کے بعد آپ بہت شور مچاسکتے ہیں، مگر آپ کے شور مچانے سے کیا فرق پڑے گا؟



Tuesday, June 04, 2013

 

موت، قسمت، گجرات، اور عمران خان


جون تین، دو ہزار تیرہ
ایک فکر کے سلسلے کا کالم
کالم شمار ایک سو چالیس

موت، قسمت، گجرات، اور عمران خان

میں ماہر مرگ ہونے کا دعوی تو نہیں  کر سکتا مگر یہ ضرور کہہ سکتا ہوں کہ موت میری فکری دلچسپی کا ایک اہم موضوع ہے۔ لوگ کیسے مرتے ہیں، یہ موضوع میرے لیے بہت اہمیت رکھتا ہے۔ کسی شخص کا انتقال ہو جاءے تو میں ضرور یہ جاننے کی کوشش کرتا ہوں کہ وہ موت کیسے واقع ہوءی۔ موت کے بہت سے چہروں سے شناساءی کے بعد میرے ذہن میں موت کے مختلف خانے بن گءے ہیں۔ میں کسی نءی موت  کے بارے میں کریدوں تو وہ موت میرے ذہن میں پہلے سے موجود کسی نہ کسی خانے میں فٹ ہوجاتی ہے۔ طبعی موت کہ جب ایک لمبا عرصہ گزارنے کے بعد انسانی مشین جواب دینے لگتی ہے اور ایک دن اس کا کوءی بہت اہم حصہ بیٹھ جاتا ہے؛ ٹریفک کے حادثے کی موت ؛ پانی میں ڈوب کر واقع ہونے والی موت؛ آسمانی بجلی سے واقع ہونے والی موت، وغیرہ، وغیرہ۔ حشرات الارض سے لے کر انسان تک، زندگی کے ہر نمونے کی مستقل یہی کوشش ہوتی ہے کہ وہ کسی طرح موت کو ٹال دے۔ مگر کیا کیجیے کہ انسان کے پاس ایک خیال وارد ہوا جسےوہ  'قسمت' کے نام سےپکارتا ہے۔ جن علاقوں میں لوگ 'قسمت' پہ زیادہ یقین رکھتے ہیں وہاں بہت سے خطرناک کام یہ سوچ کر کیے جاتے ہیں کہ 'اگر قسمت میں موت لکھی ہے تو اسے کون ٹال سکتا ہے۔'  ہم جس جدید دنیا میں رہتے ہیں اس میں طرح طرح کے خطرات ہیں۔ اس جدید دنیا کے خدوخال ان لوگوں نے تشکیل دیے ہیں جو 'قسمت' پہ کم ہی بھروسا کرتے ہیں۔ تقدیر کے بجاءے تدبیر پہ بھروسا کرنے کی وجہ سے ان لوگوں نے جدید ٹیکنالوجی کے ساتھ اس کو حفاظت سے استعمال کرنے کے طریقے بھی وضع کیے ہیں۔ جدید عمارتیں کس معیار سے تعمیر کی جاءیں گی، ان میں ایمرجنسی اخرج کے دروازے کہاں کہاں ہوں گے، بجلی کے تاروں پہ کام کرنے سے پہلے اور کام کے دوران کس طرح کے حفاظتی اقدامات کیے جاءیں گے، گیس کو کس طرح کے سیلنڈروں میں رکھا جاءے گا، اور اس جیسے سینکڑوں حفاظتی اصول اور قوانین اسی لیے تشکیل دیے گءے ہیں تاکہ لوگ جدید ٹیکنالوجی سے محفوظ طریقے سے استفادہ کر سکیں۔ مگر جب یہ جدید ٹیکنالوجی ان علاقوں میں جاتی ہے جہاں 'قسمت' پہ پورا بھروسا کیا جاتا ہے تو اس ٹیکنالوجی سے وابستہ حفاظتی تراکیب ایک طرف رکھ دی جاتی ہیں۔ ایسی صورت میں جلد یا بدیر ایک خوف ناک حادثہ ضرور رونما ہوتا ہے جو بہت سہولت سے 'قسمت' کے خانے میں ڈال دیا جاتا ہے۔ سنیچر مءی پچیس کو گجرات کے قریب سترہ بچوں کا ایک اسکول وین میں جل کر مرنا اتنا ہی افسوسناک اور غیرضروری تھا جتنا عمران خان کا کانٹا لفٹ سے گرنا۔ ان دونوں حادثات میں قدر مشترک حفاظتی اقدامات سے متعلق مکمل غفلت ہے۔ اسکول کے بچے وین میں جل کر اس لیے مرے کیونکہ وین کو چلانے کے لیے جو گیس سیلنڈر استعمال کیا جارہا تھا وہ غیر معیاری تھا۔ گیس سیلنڈر پھٹا اور شعلوں نے ذرا سی دیر میں وین کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ وین میں آگ بجھانے کا سیلنڈر نہ تھا کہ آگ پہ قابو پایا جاتا۔ بچے آگ میں جلتے رہے اور ذرا سی دیر میں کوءلہ بن گءے۔ عمران خان کا کانٹا لفٹ سے گرنا بھی حفاظتی اقدامات سے بے احتیاطی کا نتیجہ تھا۔ کانٹا لفٹ سامان اٹھانے کے لیے بناءی گءی تھی، لوگوں کو پندرہ فٹ اوپر چڑھانے کے لیے نہیں۔ تعجب ہے کہ دنیا کے بہت سے ملکوں میں سفر کرنے اور مغرب میں ایک عرصہ گزارنے کے بعد بھی عمران خان اس طرح کی بے احتیاطی کرتے ہیں۔ اور قابل تشویش بات یہ بھی ہے کہ وہ اپنے ساتھ ایسے نادان لوگوں کی ٹیم رکھتے ہیں جو 'قسمت' پہ پورا بھروسا کرتے ہوءے اپنے لیڈر کو خطرناک کاموں میں دھکیل دیتی ہے۔ عمران خان کا پندرہ فٹ کی بلندی سے گرنا ایک حادثہ تھا اور لوگوں کا انہیں بازوءوں اور ٹانگوں سے اٹھا کر گاڑی تک لے کر جانا ایک دوسرا۔ عمران خان کے بے وقوف پرستاروں نے پورا انتظام کیا تھا کہ عمران خان کی جو ہڈیاں پندرہ فٹ کی بلندی سے گر کر نہ ٹوٹی ہوں انہیں اس طرح ڈنڈا ڈولی کر کے لے جانے میں ضرور ٹوٹ جاءیں۔ پاکستان کو ایسے لیڈروں کی ضرورت ہے جو تدبیر پہ بھروسا کر کے قوم کو 'تقدیر' کے جال سے نکالیں۔ اگر پاکستان کو ایسے لیڈر نہیں ملتے تو ملک اپنی 'قسمت' سے جس دلدل میں پھنسا ہے، اسی میں پھنسا رہے گا۔

 

Labels: , , ,


This page is powered by Blogger. Isn't yours?