Monday, June 17, 2013
بامیان، زیارت اور بولان
جون پندرہ، دو ہزار تیرہ
ایک فکر کے سلسلے کا کالم
کالم شمار ایک سو بیالیس
بامیان، زیارت اور بولان
بلوچستان کے بارے میں پاکستان کے لوگ کم ہی جانتے
ہیں۔ چنانچہ کل بلوچستان میں ہونے والے
دہشت گردی کے تین واقعات نے پاکستان کے لوگوں کو حیران پریشان کردیا۔ پہلے واقعے
میں مسلح لوگوں نے کوءٹہ سے کچھ فاصلے پہ زیارت میں موجود محمد علی جناح کے تاریخی
تعطیلی گھر کو تباہ و برباد کر دیا۔ دہشت گردی کا دوسرا واقعہ کوءٹہ کی ایک ایسی
بس میں ہوا جو طالبات کو بہادر خان خاتون یونیورسٹی لے جا رہی تھی۔ بس میں دھماکے
سے چودہ طالبات ہلاک ہوگءیں۔ تیسرے واقعے میں ایک خودکش حملہ آور بولان اسپتال کے
ایمرجنسی وارڈ میں پہنچ کر پھٹ گیا؛ جب کہ دوسرے حملہ آوروں نے اسپتال کے اندر گھس
کر لوگوں کو یرغمال بنایا۔ ان دہشت گردوں کے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے
اہلکاروں سے مقابلے میں سولہ افراد ہلاک ہوءے۔
بلوچستان کے بارے میں کم آگہی رکھنے کی وجہ سے ایک عام پاکستانی کو یہ
سمجھنے میں مشکل ہوءی کہ زیارت میں جناح کی رہاءش گاہ تباہ کرنے والے حملہ آور
بلوچ علیحدگی پسند تھے جب کہ طالبات کی بس میں دھماکہ اور پھر اسپتال پہ حملہ
لشکرجھنگوی کے لوگوں نے کیا۔ یہ دونوں گروہ نہ صرف یہ کہ بالکل علیحدہ ہیں بلکہ ان
کے مقاصد بھی بالکل جدا ہیں۔ بلوچ علیحدگی پسندوں نے ایک تاریخی عمارت پہ کیوں
حملہ کیا؟ یہ حملہ بالکل اس وجہ سے کیا گیا جس وجہ سے سنہ دو ہزار ایک میں طالبان
کی حکومت نے بامیان کے تاریخی بدھ مجسموں کو بارود سے اڑایا تھا۔ یہ ناپسندیدہ
تاریخ سے نفرت کے اظہار کا ایک طریقہ ہے۔ ہم سب اپنی اپنی تاریخ سے یوں جڑے ہیں کہ
اس تاریخ کو کھرچ کر اپنے ماضی سے نکالنا ہمارے لیے ناممکن ہے۔ نادان ہیں وہ لوگ
جو کسی وجہ سے اپنی ناپسندیدہ تاریخ کو بم دھماکے سے اڑانا چاہتے ہیں۔ وہ نہیں
سمجھتے کہ تاریخ کا کوءی باب اگر ناپسند ہو بھی تو اسے سنبھال کر رکھنا برا سودا
نہیں ہے۔ کیا ہوا کہ اگر بلوچ علیحدگی پسندوں کو محمد علی جناح اور ان کی تخلیق
پاکستان پسند نہیں ہے؟ بلوچستان کا مستقبل کچھ بھی ہو کیا بلوچستان کبھی جناح کو
اور پاکستان کو اپنی تاریخ سے نکال کر پھینک سکتا ہے؟ جس طرح بامیان کے مجسمے سیاحوں کی دلچسپی کا
مرکز ہونے کی وجہ سے مقامی لوگوں کی آمدنی کا ذریعہ تھے، اسی طرح زیارت میں جناح
کی تاریخی رہاءش بھی سیاحوں کے توسط سے زیارت کے لوگوں کے لیے آمدنی کا ایک ذریعہ
تھی؟ کیا لوگوں سے ان کا رزق چھیننا کوءی احسن کام ہے؟
ناپسندیدہ تاریخ سے نفرت کا ایک اظہار برلن میں بھی
کیا گیا تھا۔ مشرقی اور مغربی المانیہ کے اتحاد میں جب دیوار برلن کی ضرورت نہ رہی
تو پرجوش جوانوں نے اس دیوار کی اینٹ سے اینٹ بجا دی اور جب دیوار اپنی جگہ سے
قریبا پوری طرح غاءب ہوگءی تو پھر دیوار برلن کی اینٹوں کے ٹکڑے سیاحوں کو بیچے
جانے لگے۔ کیا ہی اچھا ہوتا اگر المانوی ہوش سے کام لیتے اور دیوار کا وسیع تر حصہ
جوں کا توں قاءم رکھتے۔ کیا ایسی دیوار سیاحوں سے بہتر آمدنی کا ذریعہ نہ بن جاتی؟
واپس کوءٹہ کے واقعات کی طرف چلتے ہیں۔ کیا آپ سوچ
سکتے ہیں کہ کوءٹہ میں رہنے والے ہزارہ کس ذہنی تناءو سے گزر رہے ہوں گے؟ لشکر
جھنگوی کے پے درپے حملوں کے بعد ہزارہ اپنے علاقوں میں محصور ہو کر رہ گءے ہیں۔ وہ
کم ہی ان علاقوں سے باہر نکلتے ہیں۔ علم کی جستجو میں کبھی وہ اپنے علاقے سے باہر
نکلیں تو انہیں مستقل ڈر لگا رہتا ہے کہ کہیں کوءی انہیں پہچان کر ان پہ حملہ نہ
کر دے۔ اور کل کے واقعے میں ایسے حملے کے خدشات صحیح ثابت ہوءے۔ لشکر جھنگوی کے
جنونی ہرقیمت پہ شیعہ پہ بالعموم اور ہزارہ پہ بالخصوص حملہ کرنا چاہتے ہیں۔ ان
جنونیوں کا خیال ہے کہ یہ شیعہ کو مار کر جنت حاصل کر لیں گےاور یہ جنت کے اس حصول
میں اپنی جان کی قربانی دینے کے لیے تیار ہیں۔ نواز شریف جب تک پاکستان کے سیاہ و
سفید کے مالک نہ تھے وہ اس قماش کے جنونیوں کو ساتھ لے کر چل سکتے تھے۔ مگر اب
معاملہ دوسرا ہے۔ نواز شریف پورے پاکستان کے وزیر اعظم ہیں۔ وہ ہزارہ کے بھی وزیر
اعظم ہیں۔ اپنی امان میں رہنے والے ان لوگوں کی حفاظت کے لیے انہیں مذہبی جنونیوں
سے جنگ کرنی ہوگی۔