Monday, June 10, 2013

 

خطرناک ہتھیاروں سے لیس دنیا



جون دس، دو ہزار تیرہ
ایک فکر کے سلسلے کا کالم
کالم شمار ایک سو چالیس
  
خطرناک ہتھیاروں سے لیس دنیا

ہر روز سونے سے پہلے میں پورے دن کا مختصر حال ایکسیل کی ایک فاءل میں لکھتا ہوں۔  سالوں سے ایسا کرنے کی وجہ سے اب یہ آسانی ہے کہ دیکھنا ہو کہ کوءی گزرا دن میں نے کیسے گزارا تھا تو ذرا سی دیر میں یہ تجزیہ ممکن ہوپاتا ہے۔ جب میں نے امریکی فوجی رابرٹ بیلز کی قتل و غارت گری کے بارے میں پڑھا تو فورا اپنی مءی دس، دو ہزار بارہ کی ڈاءری دیکھی۔ وہ مءی دس سنیچر کا روز تھا۔ میں نے وہ دن چھوٹے موٹے کاموں میں گزارا۔ دوپہر کے کسی وقت جب میں گملوں میں سبزیوں کے بیج ڈال کر انہیں پانی دے رہا تھا تو اس وقت افغانستان میں مءی گیارہ کی علی الصبح تھی۔ سارجنٹ رابرٹ بیلز قندہار سے کچھ فاصلے پہ اپنے فوجی کیمپ میں ساری رات جاگتے رہنے کے ساتھ شراب پیتا رہا تھا۔ پھر اسے نہ جانے کیا سوجھی کہ وہ رات کی تاریکی میں کیمپ سے نکلا اور پیدل چلتا ہوا قریبی گاءوں پہنچ گیا۔ پورا گاءوں سو رہا تھا۔ رابرٹ بیلز نے ایک جگہ مورچہ بنایا اور مٹی کے گھروں پہ فاءرنگ شروع کر دی۔ ذرا سی دیر میں فضا آہ و بکا سے بھر گءی۔ رابرٹ بیلز کی چلاءی ہوءی لگاتار گولیاں گھروں کی دیواروں سے گزرتی ہوءی لوگوں کو لگ رہیں تھیں اور انہیں ڈھیر کیے دے رہی تھیں۔ جو بچ گءے تھے وہ تاریکی میں کیے گءے اس وار سے بچنے کی کوشش کر رہے تھے مگر انہیں کوءی خبر نہیں تھی کہ ان کو اس طرح کیوں مارا جا رہا تھا اور کون ایسا کر رہا تھا۔ پھر رابرٹ بیلز رک گیا۔ غالبا اس کے ہتھیار میں گولیاں ختم ہوگءیں تھیں۔ وہ کیمپ کی طرف پلٹ گیا۔ وہاں دوسرے سپاہی اب تک سوتے پڑے تھے۔ رابرٹ نے تازہ ہتھیار اٹھاءے اور پھر ایک دوسرے گاءوں کی طرف روانہ ہوگیا۔ یہاں بھی لوگ خواب خرگوش کے مزے لوٹ رہے تھے۔ رابرٹ بیلز نے ایک دفعہ پھر مورچہ بنایا اور اس دوسرے گاءوں کے گھروں پہ فاءرنگ شروع کر دی۔ ایک دفعہ پھر گھاءل لوگوں کی چیخوں سے فضا مکدر ہوگءی۔ رابرٹ بیلز ان آوازوں کو نظرانداز کرتا ہوا فاءرنگ کرتا رہا اور گولیاں ختم ہونے پہ واپس کیمپ کی طرف لوٹ گیا۔ دو گاءوں پہ رابرٹ بیلز کی اس وحشیانہ کارواءی میں سولہ افراد ہلاک ہوءے جن میں اکثریت عورتوں اور بچوں کی تھی۔ رابرٹ بیلز کی اس قتل و غارت گری کے اور کءی درندہ انداز پہلو ہیں جن میں گولیوں کی بوچھاڑ کے علاوہ لوگوں کو خنجر سے مارنا اور مر جانے والوں کی لاشوں کو جلانا بھی شامل ہیں۔  عام افغانوں کے ساتھ کرزی کی نیم جان حکومت نے اس واقعے پہ شدید احتجاج کیا۔ رابرٹ بیلز پہ مقدمہ چلانے کے لیے اسے امریکہ لایا گیا۔ رابرٹ نے بہانہ بنایا کہ افغانستان میں قتل عام کے وقت اس کی ذہنی حالت ٹھیک نہ تھی۔ ماہرین نفسیات داں کی ایک ٹیم نے رابرٹ بیلز کا نفسیاءی معاءنہ کیا اور فیصلہ دیا کہ رابرٹ ذہنی طور پہ کسی بھی عام شخص کی طرح ہے اور مجذوب نہیں ہے۔ حال میں رابرٹ بیلز نے اس شرط پہ اقرار جرم کیا ہے کہ اسے موت کی سزا نہ دی جاءے بلکہ سولہ افراد کے قتل میں عمر قید کیا جاءے۔ ظاہر ہے کہ افغانوں کے علاوہ بہت سے لوگ اس سمجھوتے پہ خوش نہیں ہیں۔ مگر اس سے قطع نظر کہ امریکی فوج رابرٹ بیلز کے ساتھ کیا سلوک کرتی ہے کیا یہ بات قابل تشویش نہیں ہےکہ ہماری اس دنیا میں بہت سے لوگوں کے ہاتھوں میں بے انتہا خطرناک ہتھیار ہیں اور ان لوگوں کو قریبا مکمل آزادی ہے کہ وہ ان ہتھیاروں کا جس طرح چاہے استعمال کریں۔ کیا پتہ کہ کب کس کا دماغ پھر جاءے اور اپنے ہتھیار کا غلط استعمال شروع کردے؟ پاکستان نے امریکہ کو کھلی چھوٹ دی ہوءی ہے کہ وہ افغانستان سے ملحق علاقوں میں جس پہ چاہے اپنے ڈرون سے میزاءل داغے۔ کیا یہ ممکن نہیں ہے کہ ڈرون چلانے والے فوجی کا دماغ پھر جاءے اور وہ اسلام آباد پہ، لاہور پہ یا پاکستان کے کسی اور شہر پہ ڈرون سے میزاءل کا حملہ کردے؟ ایسا ہونے کے بعد آپ بہت شور مچاسکتے ہیں، مگر آپ کے شور مچانے سے کیا فرق پڑے گا؟



Comments: Post a Comment



<< Home

This page is powered by Blogger. Isn't yours?