Sunday, June 23, 2013

 

نانگا پربت قتل عام، اصل وجہ


جون تءیس، دو ہزار تیرہ
ایک فکر کے سلسلے کا کالم
کالم شمار ایک سو تینتالیس

نانگا پربت قتل عام، اصل وجہ

یوں تو کسی بھی صحیح الدماغ شخص کی طرح مجھے بھی قتل و غارت گری پسند نہیں ہے لیکن اگر کہیں کوءی سیاح مارا جاءے تو مجھے خاص قلق ہوتا ہے۔ اور اس کی وجہ یہ ہے کہ مجھے خود جہاں نوردی کا شوق ہے اور میں ہر مسافر میں اپنے آپ کو دیکھ سکتا ہوں۔ اور اسی وجہ سے ہفتے کی رات نانگا پربت جانے والے راستے میں دس سیاحوں کے قتل پہ میں تڑپ اٹھا۔ وہ دس لوگ جو مختلف ممالک سے پاکستان پہنچے تھے، اونچی چوٹی سر کرنے کے شوق میں نانگا پربت کی طرف چلے جا رہے تھے۔ یقینا پاکستان آنے سے پہلے جب ان کوہ پیماءوں نے اپنے چاہنے والوں کو بتایا ہوگا کہ وہ پہاڑ چڑھنے پاکستان جا رہے ہیں تو لوگوں نے انہیں حیرت سے دیکھا ہوگا۔ ان کے  خیرخواہوں نے یقینا  انہیں مشورہ دیا ہوگا کہ وہ پاکستان ہرگز نہ جاءیں کہ وہاں تو روز دھماکے ہورہے ہیں، لوگ خودکش حملوں میں ہلاک ہورہے ہیں۔ پر میرے قبیلے کے ان لوگوں نے یہ کہہ کر اپنے خیرخواہوں کو مطمءن کردیا ہوگا کہ پاکستان کا وہ شمالی علاقہ جو افغانستان سے نہیں لگتا ہرگز خطرناک نہیں ہے؛ کہ وہاں شیعہ آبادی کا تناسب زیادہ ہے اور ان لوگوں کا القاعدہ یا طالبان سے دور کا بھی واسطہ نہیں؛ اور اسی وجہ سے وہ جگہ محفوظ ہے۔ کوہ پیماءی کے یہ دلدادہ یقینا پاکستان پہنچ کر سیدھا گلت یا اسکردو پہنچے ہوں گے اور پھر وہاں سے نانگا پربت کی طرف نکل گءے ہوں گے۔ یہ لوگ جب ان راستوں پہ پہنچے ہوں گے جہاں کوءی گاڑی نہیں جاتی اور راستہ پیدل طے کیا جاتا ہے تو انہیں اطمینان ہوگیا ہوگا کہ سیاحوں کا یہ قافلہ اب محفوظ ہے۔ اس دوردراز علاقے میں انہیں مارنے بھلا کون آءے گا؟ اور یہی بات طالبان اور ان کے حامیوں کو نہیں بھارہی تھی۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ شمالی علاقہ جات کے ایک کونے میں فوج کشی ہورہی ہو، ڈرون حملے ہورہے ہوں، بم برس رہے ہوں، روز لوگ مر رہے ہوں اور انہیں شمالی علاقوں میں دوسری طرف لوگ آرام سے بلند چوٹیاں سر کر رہے ہوں۔ جن لوگوں کو یہ بات پسند نہیں تھی ان میں سے چند لوگوں نے یہ مشقت اٹھاءی کہ اپنے ہتھیاروں کے ساتھ میلوں فاصلہ پیدل طے کیا اور راتوں رات سیاحوں کو موت کے گھاٹ اتار کر فرار ہوگءے۔ اب ان قتل کیے جانے والے کوہ پیماءوں کے لواحقین دیر تک یہ گتھی سلجھاتے رہیں گے کہ ان کے چاہنے والوں کو کیوں قتل کیا گیا۔ وہ شاید سوال کریں کہ آیا طالبان نے یہ الٹی میٹم دیا تھا کہ کوءی سیاح پاکستان کا رخ نہ کرے؛ کسی بے گناہ پہ یوں چھپ کر وار کرنا کہاں کا ا انصاف ہے؟ کیا کوءی ان لوگوں کو یہ بتاءے گا کہ نانگا پربت جانے والے سیاحوں کے قتل عام کی وجہ کچھ اور ہے؟ اس واردات کا اصل ہدف اس علاقے کی شیعہ آبادی ہے۔ ایسا کام کیا گیا ہے کہ اس علاقے کے رہنے والے لوگ سیاحوں کی آمدنی سے محروم ہوجاءیں؛ اس مقامی آبادی کا معاشی طور پہ ناطقہ بند کیا جاءے۔ اور یقینا طالبان یہ ہدف پانے میں کامیاب ہوگءے ہیں۔ تازہ ترین قتل عام کے بعد شاید ہی کوءی سیاح ان علاقوں کا رخ کرے۔
دہشت گردی کے ہر واقعے کے بعد لوگوں کا خیال ہوتا ہے کہ بس اب بہت ہوگیا، اب پاکستان کی حکومتی مشینری حرکت میں آجاءے گی۔ فورا ہی سیاسی اور فوجی قیادت کا ایک اجلاس منعقد ہوگا جس میں امن عامہ سے متعلق اہم فیصلے کیے جاءیں گے اور پھر اس حکمت عملی کے تحت اقدامات کیے جاءیں گے۔ مگر ہر دفعہ عوام مایوس ہی ہوتے ہیں۔ ہر دہشت گردی کی واردات ایک دو دن اخبارات کی زینت بنتی ہے، منتخب نماءندے مذمت کے بیانات جاری کرتے ہیں۔ دن یوں ہی گزرتے رہتے ہیں اور کوءی عملی قدم نہیں اٹھایا جاتا، حتی کہ دہشت گردی کی ایک نءی واردات ہوجاتی ہے۔ اس دفعہ بھی ایسا ہی ہوگا۔ اور اس کی پیش گوءی ہمیں وزیر داخلہ چوہدری نثار کے بیان سے ملتی ہے۔  محترم وزیر کا کہنا ہے کہ 'معیتیں متعلقہ ممالک بھیجی جا رہی ہیں؛ سرکردہ پارلیمینٹیرینز بھی ساتھ روانہ ہوں گے۔' میری طرح آپ بھی اندازہ کرسکتے ہیں کہ زیادہ تر سرکردہ پارلیمینٹیرینز کی دلچسپی لاشوں کے ساتھ یوکرین جانے میں ہوگی۔ اس صورت میں بہت سے مبصرین کا یہ خیال صحیح معلوم دیتا ہے کہ پاکستان میں اسی طرح لاقانونیت بڑھتی رہے گی، حکومت کی رٹ سکڑتی رہے گی، حتی کہ مختلف علاقوں کے طاقتور لوگ اور گروہ اپنے علاقوں کا انتظام سنبھال کر اپنی آزادی کا اعلان کردیں گے۔

Labels: , , , , ,


Comments: Post a Comment



<< Home

This page is powered by Blogger. Isn't yours?