Monday, March 25, 2013

 

چھ وعدے


مارچ چوبیس، دو ہزار تیرہ


ایک فکر کے سلسلے کا کالم

کالم شمار ایک سو تیس



چھ وعدے


نہ جانے کس واءرس کا حملہ تھا کہ جمعرات سے بستر پہ پڑا تھا۔ کل رات سوتے میں پسینہ آنے کے ساتھ بخار اترا ہے اور اب اس قابل ہوا ہوں کہ کچھ دیر کمپیوٹر کے سامنے بیٹھ سکوں۔ مگر موجودہ عہد کا کمال ہے کہ بستر پہ پڑے پڑے بھی پاکستان کی خبروں پہ نظر رکھنے کی سہولت موجود تھی۔ علالت کے ان دنوں کی سب سے بڑی خبرعمران خان کا تءیس مارچ کا جلسہ تھا۔  اس جلسے میں عمران خان نے زوردار بارش کے دوران اپنے حامیوں سے چھ وعدے کیے۔ تحریک انصاف کے کارکنان ان وعدوں کو تاریخی چھ نکات کے طور پہ پیش کر رہے ہیں۔ جب کہ سچ یہ ہے کہ عمران خان کے یہ چھ وعدے انتہاءی غیر تاریخِی، پھسپھسے اور بے جان تھے۔ عمران خان اپنی دولت ملک کے اندر رکھیں یا باہر، پاکستان میں بسنے والوں کو اس بات سے کیا فرق پڑتا ہے۔ پاکستان کا ووٹر تو اس وقت عمران خان اور دوسرے سیاستدانوں سے وہ وعدے چاہتا ہے جن کا اثر نہ صرف یہ کہ براہ راست عوام پہ پڑے بلکہ عوام کو یہ اثر پڑتا ہوا نظر بھی آءے۔ کتنا ہی اچھا ہوتا کہ عمران خان قوم سے درج ذیل چھ وعدے کرتے۔
۱۔ میں آپ سے وعدہ کرتا ہوں کہ نوے دن میں امن عامہ کی صورتحال بہتر کروں گا۔  نوے دن مکمل ہوتے ہوتے ٹارگٹ کلنگ کی وارداتیں اکا دکا ہی رہ جاءیں گی اور دہشت گردی کی وارداتوں میں بھی واضح کمی ہوگی۔
یہ وعدہ کرنے کے بعد عمران خان مجمع کو سمجھاتے کہ وہ ملک کے مختلف علاقوں میں جراءم پہ قابو پانے کے لیے کیا تدابیر کریں گے۔
۲۔ میں آپ سے وعدہ کرتا ہوں کہ اقتدار میں آنے کے بعد بجلی اور گیس کی ترسیل میں آسانی لاءوں گا۔
یہ وعدہ کرنے کے بعد عمران خان مجمع کو سمجھاتے کہ ملک میں کتنی بجلی بنتی ہے، اس کی کھپت کتنی ہے، اور کتنے فی صد بجلی چوری ہوتی ہے۔ پھر عمران خان بتاتے کہ وہ بجلی کی پیداوار میں اضافہ کس طرح کریں گے اور بجلی کے چھوٹے اور بڑے چوروں کو کس طرح بل دینے پہ مجور کریں گے۔ اسی طرح عمران خان ملک میں نکلنے والی قدرتی گیس کے بارے میں بتاتے اور لوگوں کو یہ بھی سمجھاتے کہ کونسا صوبہ کتنی گیس پیدا کرتا ہے اور گیس کے صارف کہاں کہاں ہیں۔ گیس کی پیداوار اور کھپت سے متلعق پوری موجودہ صورتحال سمجھانے کے بعد عمران خان مجمع کو سمجھاتے کہ وہ کس طرح گیس کی لوڈ شیڈنگ کو کم کریں گے۔ معمولی پڑھا لکھا انسان بھی اچھی طرح سمجھتا ہے کہ پاکستان میں پیداوار اور کھپت کی موجودہ صورتحال میں بجلی اور گیس کی لوڈ شیڈنگ یکایک ختم کردینا مشکل نہیں ناممکن ہے اور لوڈ شیڈنگ کے ایسے کسی خاتمے کے لیے چند ماہ کی مہلت سے زیادہ کا عرصہ درکار ہے مگر لوگ یہ ضرور توقع رکھتے ہیں کہ جو سیاستدان عوام کے مساءل حل کرنے کا ٹھیکہ لے رہے ہیں وہ خود گہراءی سے ان مساءل کو سمجھتے ہیں اور انہیں حل کرنے کے لیے ایک ٹھوس حکمت عملی رکھتے ہیں۔
۳۔ میں وعدہ کرتا ہوں کہ  پورے ملک میں صاف پانی کی ترسیل کو یقینی بناءوں گا۔ دو سال کے اندر فلاں فی صد کو اور چار سال کے اندر فلاں فی صد کو پینے کا صاف پانی میسر ہوگا۔
یہ وعدہ کرنے کے بعد عمران خان پینے کا صاف پانی فراہم کرنے سے متعلق اپنی حکمت عملی عوام کے سامنے پیش کرتے۔
۴۔ میں وعدہ کرتا ہوں کہ روزگار کے مواقع بڑھاءوں گا اور اس بات کو یقینی بناءوں گا کہ دو سال میں بیروزگاری کی شرح گر کر دس فی صد سے نیچے چلی جاءے۔
یہ وعدہ کرنے کے بعد عمران خان مجمع کو سمجھاتے کہ وہ حکومتی سطح پہ کیا اقدامات کریں گے جن سے بیروزگاری میں کمی واقع ہوگی۔
۵۔ میں وعدہ کرتا ہوں کہ اقتدار میں آنے کے بعد ایسے اقدامات کروں گا جن سے ملک میں تعلیم بڑھے۔ میری پوری کوشش ہوگی کہ دو سال کے اندر پراءمری سطح پہ اسکول جانے والے بچوں کی تعداد کو بڑھا کر اسی فی صد کردوں۔
۶۔ میں وعدہ کرتا ہوں کہ حکومت بنانے کے بعد ایسے اقدامات کروں گا جن سے پورے ملک میں صحت عامہ کا ایک بہترین نظام یکسانیت سے قاءم ہو۔
یہ وعدہ کرنے کے بعد عمران خان اپنے چاہنے والوں کو اپنی حکمت عملی سمجھاتے کہ وہ کس طرح صحت عامہ کا ایک اچھا ہمہ گیر نظام ملک بھر میں قاءم کرنا چاہتے ہیں۔

درج بالا وہ چھ وعدے ہیں جن کی توقع عمران خان سے تھی۔ ایسے واضح اور اظہر من الشمس نتاءج دکھانے والے وعدے نہ کر کے عمران خان نے ثابت کیا ہے کہ یا تو وہ خود مساءل کو نہیں سمجھتے یا ان اصل مساءل سے نبردآزما ہونے کی صلاحیت اپنے اندر نہیں پاتے۔ اقتدار میں آکر کسی سرکاری رھاءش کو لاءبریری میں تبدیل کردینا اچھا وعدہ ہے مگر یہ وہ دوا نہیں ہے جس کی اشد ضرورت اس بیمار ملک کو ہے۔


Monday, March 18, 2013

 

ان کا اسلام، ہمارا اسلام





مارچ اٹھارہ، دو ہزار تیرہ


ایک فکر کے سلسلے کا کالم

کالم شمار ایک سو انتیس





ان کا اسلام، ہمارا اسلام



پاکستان میں آپ کسی بھی موضوع پہ بات کریں کچھ دیر بعد آپ کو یہ جملہ سننے کو ضرور ملے گا کہ، "اسلام میں اس بات کی اجازت نہیں ہے" ۔ جو شخص ایسی بات کہتا ہے وہ دراصل یہ کہنا چاہتا ہے کہ 'میرے اسلام' میں اس بات کی اجازت نہیں ہے۔ آپ اس شخص سے پلٹ کر پوچھ سکتے ہیں کہ 'کیوں بھءی، قرآن میں یہ کہاں حکم ہے کہ ہم تمھیں اسلام کے ٹھیکیدار کے طور پہ قبول کریں اور تمھارے حساب سے چلیں کہ اسلام میں کس بات کی اجازت ہے اور کس بات کی نہیں؟'  پاکستان کی ریاست جس وقت سے مذہب کے معاملے میں کودی ہے اس وقت سے پاکستان نے اسلام کو بدنامی کے علاوہ کچھ نہیں دیا۔ کوءی غیرملکی اگر پاکستان جاءے اور وہاں جگہ جگہ لگے کوڑے کے ڈھیر دیکھے اور اسے سڑکوں پہ بہتے گٹر کے پانی سے گزرنا پڑے تو آپ خود خیال کر سکتے ہیں کہ وہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے نام میں جمہوریہ پاکستان کے ساتھ موجود سابقے کے بارے میں کیا خیال کرے گا۔ پاکستان میں آج اسلام کے نام پہ جو فساد مچا ہوا ہے اسے دیکھ کر کفار اگر اسلام کا نام سن کر دور بھاگیں تو کچھ بعید نہیں۔
لوگ پوچھتے ہیں کہ اگر آپ کو ان کا اسلام پسند نہیں ہے تو بتاءیے کہ آپ کا اسلام کیا ہے۔ ہمارا اسلام حقوق العباد سے شروع ہوتا ہے اور ہم اس شخص کو سب سے بہتر مسلم خیال کرتے ہیں جس کے اعمال اور افکار سے اس کے اطراف لوگ خوش ہوں۔ ہمارے اسلام میں صفاءی نصف ایمان کا مطلب یہ ہے کہ ہم جہاں رہیں صفاءی سے رہیں، ہمارے محلے میں جگہ جگہ غلاظت کے ڈھیر نہ لگے ہوں، ہمارے علاقے میں لوگ ان بیماریوں کا شکار نہ ہوں جو گندگی سے پھیلتی ہیں۔ جب کہ روایتی مولوی کے اسلام میں صفاءی نصف ایمان کا مطلب یہ ہے کہ صرف اپنے طور پہ غسل شدہ، باضو رہو، باقی سب کا بیڑا غرق بھی ہوجاءے تو کیا فرق پڑتا ہے۔ ان کا اسلام یہ ہے کہ کسی ریستوراں کے صاف ستھرے غسلخانے میں جاءو، وہاں اپنا پاءوں سنک میں ڈال کر وضو کرو اور وضو کے چھینٹوں سے پورے غسلخانے کی ایسی کی تیسی کر دو کہ غسلخانہ استعمال کرنے والا اگلا شخص وہاں جاءے تو حیران ہو کہ آخر یہ کس نے اپنے کتے کو سنک میں نہلایا تھا۔  ان کا اسلام یہ ہے کہ پیشابدان [یورینل] استعمال کرنے سے پہلے ٹاءلٹ پیپر ہاتھ میں لے کر وہاں پہنچو اور پیشابدان کے استعمال کے بعد استنجا کے لیے استعمال کیا جانے والا ٹاءلٹ پیپر پیشابدان میں پھینک دو اور اس طرح پیشابدان کے نکاسی کے پاءپ کو اڑا دو اور پیشابدان استعمال کرنے والے اگلے شخص کو حیران کرو کہ اس سے پہلے یہ پیشابدان کس جانور نے استعمال کیا تھا۔
ہمارا اسلام یہ ہے کہ غور و فکر سے اپنی راہ تلاش کرو اور اگر دوسرے کسی اور طرح کے خیالات رکھتے ہیں تو ان کو اپنے خیالات کے ساتھ جینے دو۔ جب کہ ان کا اسلام یہ ہے کہ صرف ان لوگوں کو صحیح جانو جو بالکل ان کی طرح سوچتے ہیں۔ جو اپنے عقاءد میں ذرہ برابر بھی ان سے جدا ہیں، کافر ہیں؛ ان کی جان کے درپے ہوجاءو ۔
ہمارا اسلام یہ ہے کہ جس جگہ رہو امن سے رہو۔ سب سے بااخلاق طریقے سے پیش آءو۔ جب کہ ان کا اسلام گھیراءو جلاءو کا اسلام ہے۔ ہمارا اسلام یہ ہے کہ کوءی پھبتی کسے تو اسے نظر انداز کردو۔ ان کا اسلام یہ ہے کہ پہلے انٹرنیٹ پہ وہ مواد تلاش کرو جس سے مذہبی جذبات مجروح ہوسکیں۔ پھر اس مواد کو خوب مشتہر کرو۔ پھر نماز جمعہ کے بعد ایک ہجوم کی شکل میں نعرے لگاتے مسجد سے نکلو، سڑک کے کھمبے توڑ ڈالو، اور لوگوں کی ذاتی جاءداد کو نظر آتش کردو۔
ہمارا اسلام لا اکراہ فی الدین کا اسلام ہے کہ لوگوں کو صحیح راہ ضرور دکھاءو مگر انہیں ڈنڈے کے زور پہ کسی مخصوص راہ پہ چلانے کی کوشش نہ کرو۔ لوگوں کو سمجھاءوکہ شراب پینا اور جوا کھیلنا برا ہے۔ لیکن اگر کوءی شخص یہ ہدایت قبول کرنے کو تیار نہیں ہے تو اسے اس کے حال پہ چھوڑ دو۔ جب کہ ان کا اسلام یہ ہے رمضان میں ڈنڈے کے زور پہ غیرمسلموں کو بھی فاقہ کرنے پہ مجبور کرو۔
ہمارا اسلام یہ ہے کہ اسلام کے غنڈے نہ بن جاءو کہ سب پہ دھونس چلاءو کہ ہمارے عقاءد ہی صحیح اسلام ہیں؛ اور ریاست کو کسی مخصوص گروہ کے عقاءد کے ساتھ  نہ ملاءو۔ جب کہ ان کا اسلام یہ ہے کہ اپنے آپ کو اسلام کا چوکیدار تصور کرو؛ ریاست کو مرد بچہ سمجھو اور اس کی 'ختنہ' کر کے اس کا نام اسلامی جمہوریہ فلاں فلاں رکھ دو۔ ریاست کے ساتھ اسلام کا نام چپکانے کے بعد ریاست میں اس قدر غلاظت کرو اور وہاں اس قدر فسار برپا کرو کہ لوگ اسلام کے نام سے متنفر ہوجاءیں۔

Tuesday, March 12, 2013

 

ناکام ریاست کا عذاب




مارچ گیارہ، دو ہزار تیرہ


ایک فکر کے سلسلے کا کالم

کالم شمار ایک سو اٹھاءیس


ناکام ریاست کا عذاب



زیادہ سے زیادہ لوگوں کو یہ بات سمجھ میں آتی جا رہی ہے کہ پاکستان بڑی حد تک ایک ناکام ریاست بن چکا ہے۔ صدارتی محل اور آرمی ہیڈکوارٹر کے باہر چند ہی جگہیں بچی ہیں جہاں حکومت کی رٹ اب تک قاءم ہے۔ ورنہ قاتل، لٹیرے، اور دہشت گرد آزاد ہیں۔ جس کو چاہیں ماریں، جس کو چاہیں لوٹیں، اور جہاں چاہے دھماکہ کریں۔ آءین اور قانون معاشرے کے سب سے کمزور عوام کو طاقتور خواص کے برابر لا کھڑا کرتے ہیں۔ جب ریاست ناکام ہو جاءے تو قانون کا سایہ کمزور کے سر سے اٹھ جاتا ہے۔ اسی لیے ایک ناکام ریاست میں سب سے بڑا قہر معاشرے کے کمزور لوگوں پہ ٹوٹتا ہے۔ جسمانی طور سے معذور افراد، کم حیثیت لوگ، چھوٹے مذہبی گروہوں سے تعلق رکھنے والے افراد، ناکام ریاست کا عذاب ان ہی کمزور سروں پہ گرتا ہے۔ پاکستان میں ریاست کی ناکامی نے تین راستوں سے طواءف الملوکی کو ہوا دی ہے۔ شمار ایک وہ لوگ ہیں جو ریاست کی ناکامی کا فاءدہ اٹھاتے ہوءے لوٹ مار میں مصروف ہیں۔ ان لوگوں میں ڈاکوءوں سے لے کر اغوا براءے تاوان کے مجرم اور نشانچی قاتل [ٹارگٹ کلر] تک شامل ہیں۔ یہ جراءم پیشہ لوگ دھڑلے سے اس لیے وارداتیں کرتے ہیں کیونکہ ان کو اچھی طرح علم ہے کہ انہیں کچھ نہیں کہا جاءے گا، ان کا بال بھی بیکا نہ ہوگا۔  شمار دو اور تین وہ افراد اور گروہ ہیں جو مذہبی بہکاوے میں ہیں۔ ان میں اول الذکر گروہ وہ ہے جس کو سمجھایا گیا ہے کہ اسلام کے اصل پاسبان وہ ہیں؛ دوسرے فرقے اور بالخصوص شیعہ دین میں فساد پھیلا رہے ہیں اور اسلام کی برگزیدہ ہستیوں کی تذلیل کر رہے ہیں۔ یہ گروہ اپنا دینی فرض سمجھ کر باقی گروہوں پہ تواتر سے حملے کر رہا ہے اور اپنے تءیں ثواب کما رہا ہے۔ اس گروہ کے افراد کو بھی ریاست کی ناکامی کا اچھی طرح علم ہے چنانچہ انہیں ذرہ برابر بھی ڈر نہیں ہے کہ انہیں پکڑا جاءے گا۔ آخر الذکر گروہ وہ ہے جس میں ملک کے بیشتر مسلمان شامل ہیں۔ ماضی میں ریاست نے مذہبی معاملات میں کود کر ان لوگوں کو مذہب کے نام پہ جاری فساد کی طرف لگا دیا ہے۔ توہین رسالت جیسے جھوٹے، کالے اور مکار قوانین اب گلی کوچے کے ہر گمراہ کو اکسا رہے ہیں کہ وہ جس سے چاہے توہین رسالت کا بدلہ چکاءے اور قانون کی دھجیاں اڑا دے۔ ہفتے کے روز لاہور کی جوزف کالونی میں سینکڑوں لوگوں کے ہاتھوں ہونے والا شرمناک کام بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ اصل توہین رسالت کے مرتکب یہ لوگ بھی ریاست کی ناکامی کو سمجھتے ہیں۔ انہیں اچھی طرح پتہ ہے کہ لوٹ مار اور آگ لگانے کے دوران لی جانے والی ان کی تصاویر سوشل میڈیا کے ذریعے دنیا کے کونے کونے میں پھیل بھی گءیں تو کیا ہوا، ان کے خلاف کوءی کارواءی نہ کی جاءے گی۔
پاکستان میں اتنا طویل عرصہ آمریت رہی ہےکہ لوگ جمہوریت کی طاقت نہیں سمجھتے۔ وہ یہ نہیں سمجھتے کہ جن لوگوں کو منتخب کر کے عوام نے ایوانوں میں بھیجا ہے وہ منتخب نماءندے دراصل عوام کے نوکر ہیں اور ہر موقع پہ عوام کو جوابدہ ہیں۔ لوگ یہ نہیں سمجھتے کہ وہ اپنے منتخب نماءندوں سے مل کر پوچھ سکتے ہیں کہ، 'بتاءو، یہ سب کچھ کیا ہورہا ہے۔ ہمارے علاقے میں فلاں فلاں جرم کی واردات ہوءی تو تمھاری ماتحت پولیس نے کیا تفتیش کی۔'
اس مضمون کے آخری حصے میں موضوع بدلتے ہیں۔ سان فرانسسکو بے ایریا میں اتنی بڑی تعداد میں دیسی رہتے ہیں کہ ہر اختتام ہفتہ پہ عام دلچسپی کے کءی پروگرام ہو رہے ہوتے ہیں۔ اتوار، مارچ دس بھی ایک ایسا ہی روز تھا۔ اس روز صبح دس بجے آرگناءزیشن آف پاکستانی پروفیشنلز یعنی اوپن کا ایک پروگرام ڈاکٹر  خورشید قریشی کے اعزاز میں تھا۔ خورشید قریشی صاحب مشی گن میں رہتے ہیں مگر ہر سال اپنی تنظیم ڈاءس کے توسط سے پاکستان کی کسی ایک جامعہ میں ایسی نماءش کا اہتمام کرتے ہیں جس میں طلبا اپنی نت نءی ایجادات لوگوں کے سامنے پیش کرتے ہیں۔ اوپن کی تقریب میں خورشید قریشی نے کہا کہ ان کی خواہش ہے کہ پاکستان میں صنعتوں کا جامعات سے کچھ اس طرح کا رشتہ بن جاءے کہ طلبا کی طرف سے پیش کی جانے والی کوءی بھی کارآمد ٹیکنالوجی فوری طور پہ استعمال کی جا سکے اور صارفین کے کام آءے۔
اتوار کے روز ہی سان فرانسسکو بے ایریا کے مایہ ناز صحافی عبدالستار غزالی صاحب کی کتاب 'اسلام اینڈ مسلمز ان پوسٹ ناءن الیون امریکہ' کی تقریب رونماءی تھی۔ مغرب میں اسلام کو بہت پہلے سے شک کی نظر سے دیکھا جاتا رہا ہے مگر نو گیارہ کے واقعے کے بعد تو سارے تکلفات اٹھ چکے ہیں۔ یہ بھی عجیب واقعہ ہے کہ دوسری جنگ عظیم کے دوران اس ملک کے جاپانی شہریوں کے لیے نظربندی کیمپ قاءم کیے گءے تھے اور ان کیمپوں کی دردناک یادیں اب تک بہت سے لوگوں کے دلوں میں ہیں۔ اگر دوسری جنگ عظیم کے دوران جاپانی امریکیوں کو اس طرح ظلم کا نشانہ نہ بنایا  جاتا تو نو گیارہ کے بعد بہت امکان تھا کہ مسلمان امریکیوں کو ہراستی کیمپوں میں بند کرنے کا کام کیا گیا ہوتا۔
اتوار کی رات مہران ریستوراں میں تحریک انصاف کی ایک تقریب تھی۔ اس تقریب کی مہمان خصوصی تحریک انصاف کی قاءد فوزیہ قصوری صاحبہ تھیں۔ فوزیہ قصوری نے اپنی تقریر میں کہا کہ چند ماہ میں آنے والے پاکستانی انتخابات اس بات کا فیصلہ کریں گے کہ کیا پاکستان صحیح راستے پہ چلنا شروع ہوگا یا مستقل پستی کی طرف ہی جاتا رہے گا۔ فوزیہ قصوری کی تقریر کے بعد عمران خان کے دستخط شدہ کرکٹ بلوں اور گیندوں کی فروخت ہوءی۔

Monday, March 04, 2013

 

عباس ٹاءون کراچی



مارچ چار، دو ہزار تیرہ


ایک فکر کے سلسلے کا کالم

کالم شمار ایک سو ستاءیس



عباس ٹاءون، کراچی



مارچ تین سے چند روز پہلے میں نے فیس بک کی ویب ساءٹ کھولی تو حسب معمول وہی سوال سامنے آیا کہ ، "آپ کیا سوچ رہے ہیں؟" کوءٹہ کے دھماکے کو چند ہفتے گزر چکے تھے اور میڈیا مرنے والوں کو اور مرنے والوں کے لواحقین کو بھول چکا تھا۔ میں سوچ رہا تھا کہ اب پاکستان میں شیعہ آبادی کا اگلا قتل عام کب ہوگا۔ فیس بک کے سوال کے جواب میں کہ آپ کیا سوچ رہے ہیں میں یہی بات لکھنا چاہتا تھا مگر پھر میں ٹہر گیا۔ یہ سوچ کر کہ شاید فروری سولہ کو کوءٹہ کا قتل عام شیعہ خون ریزی کا آخری واقعہ تھا۔ کہ شاید اب حکومتی مشینری اور فوج حرکت میں آچکے ہیں اور ملک بھر میں خفیہ طور پہ لشکر جھنگوی کے دہشت گردوں کے خلاف کارواءیاں ہورہی ہیں۔ مگر کراچی کے عباس ٹاءون میں تین مارچ کو ہونے والے دھماکے نے ثابت کیا کہ میں غلطی پہ تھا۔ آج اگر دنیا پاکستان کو ایک ناکام ریاست کہہ رہی تو غلط نہیں کہہ رہی۔ ایٹمی ہتھیاروں سے لیس اس ناکام ریاست سے متعلق بین الاقوامی تشویش بھی بے جا نہیں ہے۔ پاکستانی حکومت اور فوج ملک کے اندر دہشت گردی کی وارداتوں کو روکنے میں مستقل ناکام رہے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ دہشت گرد اتنے طاقتور ہیں کہ فوج اور حکومت میں شامل لوگ اور باہر بیٹھے سیاستدان ان دہشت گردوں سے ڈرتے ہیں۔ ایک ناکام ریاست وہ ہوتی ہے جو ریاستی اثر صرف کمزور پہ استعمال کر سکے۔ پاکستان آج ایک ایسی ہی ناکام ریاست ہے۔ اگر آپ پاکستان میں رہتے ہیں اور کمزور ہیں تو آپ پہ تمام قوانین لاگو ہوتے ہیں اور کسی بھی قانون کو توڑنے پہ آپ کو فورا جیل میں بند کردیا جاءے گا۔ لیکن اگر آپ طاقتور ہیں تو جو چاہیں کریں، لوٹ مار بھی کریں اور قتل و غارت گری بھی کریں، آپ کو کوءی نہ پوچھے گا۔
تین مارچ کے قتل عام کے بعد ایک دفعہ پھر پاکستانی اخبارات تبصروں سے بھر گءے ہیں۔ ٹی وی مبصرین بھی اپنی اپنی دکانیں چمکا رہے ہیں۔  مگر اہل تشیع میڈیا کے اس راگ کے بہلاوے میں نہ آءیں۔ اسی طرح گانے والوں کے کسی بینڈ نے اگر شیعہ قتل عام پہ ایک دلدوز گانا بنا بھی دیا  تو کیا ہوا؟ ان تبصروں سے، ہمدردی کے ان کلمات سے، ان غمگین گانوں سے اہل تشیع پہ ہونے والا حملے نہیں رکیں گے۔  اہل تشیع تو یہ فکر کریں کہ وہ اپنے اوپر ہونے والے اگلے حملے سے کیسے بچیں کہ جس کا منصوبہ اس وقت بنایا جا رہا ہے، جس کے لیے دھماکہ خیز مواد بھی موجود ہے اور خود کش حملہ آور بھی۔ اور اہل تشیع جان لیں کہ ان پہ حملہ کرنے والے لوگ بہت سفاک ہیں اور اپنے تءیں مذہبی فرض کے تحت اہل تشیع پہ حملے کر رہے ہیں۔ یہ بھٹکے ہوءے لوگ سمجھتے ہیں کہ وہ اہل تشیع کو مار کر جو ثواب کما سکتے ہیں وہ شاید حج کر کے بھی نہیں کما سکتے۔ ایسے سفاک اور پرعزم دشمن کے حملے سے بچنے کے لیے بہت تدبیر کی ضرورت ہے۔ پاکستان میں رہنے والے اہل تشیع کو اس وقت ایسے اداروں کی ضرورت ہے جن کا اہتمام عموما ریاست کرتی ہے۔ ایسی تنظیم جو اہل تشیع کے علاقوں میں حفاظت کا ذمہ لے سکے۔ اس تنظیم کے لوگ جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے اپنے علاقے میں ہونے والی مشتبہ سرگرمیوں پہ نظر رکھیں۔  فوج اور پولیس سے فارغ ہونے والے اہل تشیع افراد کے ایسے گروہ جو جاسوسی کا کام کریں اور ان جگہوں تک پہنچ جاءیں جہاں اہل تشیع پہ ہونے والے حملوں کی منصوبہ بندی ہوتی ہے اور کارواءی کے انتظامات کیے جاتے ہیں۔ جرم کی ہر واردات اپنے پیچھے متعدد سراغ چھوڑ جاتی ہے۔ پاکستان کی ناکام ریاست شیعہ قتل عام کے ہر واقعے کے بعد جاءے واردات پہ موجود سراغوں کو نظر انداز کر دیتی ہے۔ اہل تشیع کے اندر سے اٹھنے والے گروہ اس بات کی یقین دہانی کریں گے کہ ہر سراغ کا پیچھا کیا جاءے گا اور معاملے کی تہہ تک پہنچا جاءے گا۔ واردات میں کونسا دھماکہ خیز مواد استعمال کیا گیا، یہ مواد کہاں بنتا ہے اور دہشت گردوں تک کیسے پہنچتا ہے؟ دہشت گردی میں استعمال کی جانے والی گاڑی یا ٹرک کہاں سے حاصل کیا گیا؟ دہشت گردی کی واردات میں کون لوگ ملوث تھے اور کون ان کو احکامات جاری کر رہے تھے؟ سراغ رسانی میں ایسی دیدہ ریزی کے ذریعے دہشت گرد تنظیموں کے اندر تک پہنچا جا سکتا ہے اور ان کا قلع قمع کرنے کی صورت نکالی جا سکتی ہے۔ اب پانی سر سے گزر چکا ہے۔ اگر اہل تشیع نے اب بھی تدبیر کے بجاءے گریہ وزاری اور داد وفریاد کا راستہ اپناءے رکھا تو قتل عام کے اگلے واقعے میں مرنے والوں کاخون اہل تشیع کے قاءدین کے ہاتھوں پہ بھی دیکھا جا سکے گا۔


This page is powered by Blogger. Isn't yours?