Monday, March 25, 2013

 

چھ وعدے


مارچ چوبیس، دو ہزار تیرہ


ایک فکر کے سلسلے کا کالم

کالم شمار ایک سو تیس



چھ وعدے


نہ جانے کس واءرس کا حملہ تھا کہ جمعرات سے بستر پہ پڑا تھا۔ کل رات سوتے میں پسینہ آنے کے ساتھ بخار اترا ہے اور اب اس قابل ہوا ہوں کہ کچھ دیر کمپیوٹر کے سامنے بیٹھ سکوں۔ مگر موجودہ عہد کا کمال ہے کہ بستر پہ پڑے پڑے بھی پاکستان کی خبروں پہ نظر رکھنے کی سہولت موجود تھی۔ علالت کے ان دنوں کی سب سے بڑی خبرعمران خان کا تءیس مارچ کا جلسہ تھا۔  اس جلسے میں عمران خان نے زوردار بارش کے دوران اپنے حامیوں سے چھ وعدے کیے۔ تحریک انصاف کے کارکنان ان وعدوں کو تاریخی چھ نکات کے طور پہ پیش کر رہے ہیں۔ جب کہ سچ یہ ہے کہ عمران خان کے یہ چھ وعدے انتہاءی غیر تاریخِی، پھسپھسے اور بے جان تھے۔ عمران خان اپنی دولت ملک کے اندر رکھیں یا باہر، پاکستان میں بسنے والوں کو اس بات سے کیا فرق پڑتا ہے۔ پاکستان کا ووٹر تو اس وقت عمران خان اور دوسرے سیاستدانوں سے وہ وعدے چاہتا ہے جن کا اثر نہ صرف یہ کہ براہ راست عوام پہ پڑے بلکہ عوام کو یہ اثر پڑتا ہوا نظر بھی آءے۔ کتنا ہی اچھا ہوتا کہ عمران خان قوم سے درج ذیل چھ وعدے کرتے۔
۱۔ میں آپ سے وعدہ کرتا ہوں کہ نوے دن میں امن عامہ کی صورتحال بہتر کروں گا۔  نوے دن مکمل ہوتے ہوتے ٹارگٹ کلنگ کی وارداتیں اکا دکا ہی رہ جاءیں گی اور دہشت گردی کی وارداتوں میں بھی واضح کمی ہوگی۔
یہ وعدہ کرنے کے بعد عمران خان مجمع کو سمجھاتے کہ وہ ملک کے مختلف علاقوں میں جراءم پہ قابو پانے کے لیے کیا تدابیر کریں گے۔
۲۔ میں آپ سے وعدہ کرتا ہوں کہ اقتدار میں آنے کے بعد بجلی اور گیس کی ترسیل میں آسانی لاءوں گا۔
یہ وعدہ کرنے کے بعد عمران خان مجمع کو سمجھاتے کہ ملک میں کتنی بجلی بنتی ہے، اس کی کھپت کتنی ہے، اور کتنے فی صد بجلی چوری ہوتی ہے۔ پھر عمران خان بتاتے کہ وہ بجلی کی پیداوار میں اضافہ کس طرح کریں گے اور بجلی کے چھوٹے اور بڑے چوروں کو کس طرح بل دینے پہ مجور کریں گے۔ اسی طرح عمران خان ملک میں نکلنے والی قدرتی گیس کے بارے میں بتاتے اور لوگوں کو یہ بھی سمجھاتے کہ کونسا صوبہ کتنی گیس پیدا کرتا ہے اور گیس کے صارف کہاں کہاں ہیں۔ گیس کی پیداوار اور کھپت سے متلعق پوری موجودہ صورتحال سمجھانے کے بعد عمران خان مجمع کو سمجھاتے کہ وہ کس طرح گیس کی لوڈ شیڈنگ کو کم کریں گے۔ معمولی پڑھا لکھا انسان بھی اچھی طرح سمجھتا ہے کہ پاکستان میں پیداوار اور کھپت کی موجودہ صورتحال میں بجلی اور گیس کی لوڈ شیڈنگ یکایک ختم کردینا مشکل نہیں ناممکن ہے اور لوڈ شیڈنگ کے ایسے کسی خاتمے کے لیے چند ماہ کی مہلت سے زیادہ کا عرصہ درکار ہے مگر لوگ یہ ضرور توقع رکھتے ہیں کہ جو سیاستدان عوام کے مساءل حل کرنے کا ٹھیکہ لے رہے ہیں وہ خود گہراءی سے ان مساءل کو سمجھتے ہیں اور انہیں حل کرنے کے لیے ایک ٹھوس حکمت عملی رکھتے ہیں۔
۳۔ میں وعدہ کرتا ہوں کہ  پورے ملک میں صاف پانی کی ترسیل کو یقینی بناءوں گا۔ دو سال کے اندر فلاں فی صد کو اور چار سال کے اندر فلاں فی صد کو پینے کا صاف پانی میسر ہوگا۔
یہ وعدہ کرنے کے بعد عمران خان پینے کا صاف پانی فراہم کرنے سے متعلق اپنی حکمت عملی عوام کے سامنے پیش کرتے۔
۴۔ میں وعدہ کرتا ہوں کہ روزگار کے مواقع بڑھاءوں گا اور اس بات کو یقینی بناءوں گا کہ دو سال میں بیروزگاری کی شرح گر کر دس فی صد سے نیچے چلی جاءے۔
یہ وعدہ کرنے کے بعد عمران خان مجمع کو سمجھاتے کہ وہ حکومتی سطح پہ کیا اقدامات کریں گے جن سے بیروزگاری میں کمی واقع ہوگی۔
۵۔ میں وعدہ کرتا ہوں کہ اقتدار میں آنے کے بعد ایسے اقدامات کروں گا جن سے ملک میں تعلیم بڑھے۔ میری پوری کوشش ہوگی کہ دو سال کے اندر پراءمری سطح پہ اسکول جانے والے بچوں کی تعداد کو بڑھا کر اسی فی صد کردوں۔
۶۔ میں وعدہ کرتا ہوں کہ حکومت بنانے کے بعد ایسے اقدامات کروں گا جن سے پورے ملک میں صحت عامہ کا ایک بہترین نظام یکسانیت سے قاءم ہو۔
یہ وعدہ کرنے کے بعد عمران خان اپنے چاہنے والوں کو اپنی حکمت عملی سمجھاتے کہ وہ کس طرح صحت عامہ کا ایک اچھا ہمہ گیر نظام ملک بھر میں قاءم کرنا چاہتے ہیں۔

درج بالا وہ چھ وعدے ہیں جن کی توقع عمران خان سے تھی۔ ایسے واضح اور اظہر من الشمس نتاءج دکھانے والے وعدے نہ کر کے عمران خان نے ثابت کیا ہے کہ یا تو وہ خود مساءل کو نہیں سمجھتے یا ان اصل مساءل سے نبردآزما ہونے کی صلاحیت اپنے اندر نہیں پاتے۔ اقتدار میں آکر کسی سرکاری رھاءش کو لاءبریری میں تبدیل کردینا اچھا وعدہ ہے مگر یہ وہ دوا نہیں ہے جس کی اشد ضرورت اس بیمار ملک کو ہے۔


Comments: Post a Comment



<< Home

This page is powered by Blogger. Isn't yours?