Monday, March 04, 2013

 

عباس ٹاءون کراچی



مارچ چار، دو ہزار تیرہ


ایک فکر کے سلسلے کا کالم

کالم شمار ایک سو ستاءیس



عباس ٹاءون، کراچی



مارچ تین سے چند روز پہلے میں نے فیس بک کی ویب ساءٹ کھولی تو حسب معمول وہی سوال سامنے آیا کہ ، "آپ کیا سوچ رہے ہیں؟" کوءٹہ کے دھماکے کو چند ہفتے گزر چکے تھے اور میڈیا مرنے والوں کو اور مرنے والوں کے لواحقین کو بھول چکا تھا۔ میں سوچ رہا تھا کہ اب پاکستان میں شیعہ آبادی کا اگلا قتل عام کب ہوگا۔ فیس بک کے سوال کے جواب میں کہ آپ کیا سوچ رہے ہیں میں یہی بات لکھنا چاہتا تھا مگر پھر میں ٹہر گیا۔ یہ سوچ کر کہ شاید فروری سولہ کو کوءٹہ کا قتل عام شیعہ خون ریزی کا آخری واقعہ تھا۔ کہ شاید اب حکومتی مشینری اور فوج حرکت میں آچکے ہیں اور ملک بھر میں خفیہ طور پہ لشکر جھنگوی کے دہشت گردوں کے خلاف کارواءیاں ہورہی ہیں۔ مگر کراچی کے عباس ٹاءون میں تین مارچ کو ہونے والے دھماکے نے ثابت کیا کہ میں غلطی پہ تھا۔ آج اگر دنیا پاکستان کو ایک ناکام ریاست کہہ رہی تو غلط نہیں کہہ رہی۔ ایٹمی ہتھیاروں سے لیس اس ناکام ریاست سے متعلق بین الاقوامی تشویش بھی بے جا نہیں ہے۔ پاکستانی حکومت اور فوج ملک کے اندر دہشت گردی کی وارداتوں کو روکنے میں مستقل ناکام رہے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ دہشت گرد اتنے طاقتور ہیں کہ فوج اور حکومت میں شامل لوگ اور باہر بیٹھے سیاستدان ان دہشت گردوں سے ڈرتے ہیں۔ ایک ناکام ریاست وہ ہوتی ہے جو ریاستی اثر صرف کمزور پہ استعمال کر سکے۔ پاکستان آج ایک ایسی ہی ناکام ریاست ہے۔ اگر آپ پاکستان میں رہتے ہیں اور کمزور ہیں تو آپ پہ تمام قوانین لاگو ہوتے ہیں اور کسی بھی قانون کو توڑنے پہ آپ کو فورا جیل میں بند کردیا جاءے گا۔ لیکن اگر آپ طاقتور ہیں تو جو چاہیں کریں، لوٹ مار بھی کریں اور قتل و غارت گری بھی کریں، آپ کو کوءی نہ پوچھے گا۔
تین مارچ کے قتل عام کے بعد ایک دفعہ پھر پاکستانی اخبارات تبصروں سے بھر گءے ہیں۔ ٹی وی مبصرین بھی اپنی اپنی دکانیں چمکا رہے ہیں۔  مگر اہل تشیع میڈیا کے اس راگ کے بہلاوے میں نہ آءیں۔ اسی طرح گانے والوں کے کسی بینڈ نے اگر شیعہ قتل عام پہ ایک دلدوز گانا بنا بھی دیا  تو کیا ہوا؟ ان تبصروں سے، ہمدردی کے ان کلمات سے، ان غمگین گانوں سے اہل تشیع پہ ہونے والا حملے نہیں رکیں گے۔  اہل تشیع تو یہ فکر کریں کہ وہ اپنے اوپر ہونے والے اگلے حملے سے کیسے بچیں کہ جس کا منصوبہ اس وقت بنایا جا رہا ہے، جس کے لیے دھماکہ خیز مواد بھی موجود ہے اور خود کش حملہ آور بھی۔ اور اہل تشیع جان لیں کہ ان پہ حملہ کرنے والے لوگ بہت سفاک ہیں اور اپنے تءیں مذہبی فرض کے تحت اہل تشیع پہ حملے کر رہے ہیں۔ یہ بھٹکے ہوءے لوگ سمجھتے ہیں کہ وہ اہل تشیع کو مار کر جو ثواب کما سکتے ہیں وہ شاید حج کر کے بھی نہیں کما سکتے۔ ایسے سفاک اور پرعزم دشمن کے حملے سے بچنے کے لیے بہت تدبیر کی ضرورت ہے۔ پاکستان میں رہنے والے اہل تشیع کو اس وقت ایسے اداروں کی ضرورت ہے جن کا اہتمام عموما ریاست کرتی ہے۔ ایسی تنظیم جو اہل تشیع کے علاقوں میں حفاظت کا ذمہ لے سکے۔ اس تنظیم کے لوگ جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے اپنے علاقے میں ہونے والی مشتبہ سرگرمیوں پہ نظر رکھیں۔  فوج اور پولیس سے فارغ ہونے والے اہل تشیع افراد کے ایسے گروہ جو جاسوسی کا کام کریں اور ان جگہوں تک پہنچ جاءیں جہاں اہل تشیع پہ ہونے والے حملوں کی منصوبہ بندی ہوتی ہے اور کارواءی کے انتظامات کیے جاتے ہیں۔ جرم کی ہر واردات اپنے پیچھے متعدد سراغ چھوڑ جاتی ہے۔ پاکستان کی ناکام ریاست شیعہ قتل عام کے ہر واقعے کے بعد جاءے واردات پہ موجود سراغوں کو نظر انداز کر دیتی ہے۔ اہل تشیع کے اندر سے اٹھنے والے گروہ اس بات کی یقین دہانی کریں گے کہ ہر سراغ کا پیچھا کیا جاءے گا اور معاملے کی تہہ تک پہنچا جاءے گا۔ واردات میں کونسا دھماکہ خیز مواد استعمال کیا گیا، یہ مواد کہاں بنتا ہے اور دہشت گردوں تک کیسے پہنچتا ہے؟ دہشت گردی میں استعمال کی جانے والی گاڑی یا ٹرک کہاں سے حاصل کیا گیا؟ دہشت گردی کی واردات میں کون لوگ ملوث تھے اور کون ان کو احکامات جاری کر رہے تھے؟ سراغ رسانی میں ایسی دیدہ ریزی کے ذریعے دہشت گرد تنظیموں کے اندر تک پہنچا جا سکتا ہے اور ان کا قلع قمع کرنے کی صورت نکالی جا سکتی ہے۔ اب پانی سر سے گزر چکا ہے۔ اگر اہل تشیع نے اب بھی تدبیر کے بجاءے گریہ وزاری اور داد وفریاد کا راستہ اپناءے رکھا تو قتل عام کے اگلے واقعے میں مرنے والوں کاخون اہل تشیع کے قاءدین کے ہاتھوں پہ بھی دیکھا جا سکے گا۔


Comments: Post a Comment



<< Home

This page is powered by Blogger. Isn't yours?