Monday, December 24, 2012

 

کمپوچیا سے ویت نام




دسمبر تءیس، دو ہزار بارہ


ایک فکر کے سلسلے کا کالم

کالم شمار ایک سو سترہ




 کمپوچیا سے ویت نام


بارڈر کراسنگ، کمپوچیا سے ویت نام براستہ میکانگ
انسانی زندگی کا انحصار پانی پہ ہے۔ ہوا کے بعد پانی انسانی زندگی کے لیے سب سے اہم عنصر ہے۔ ہر علاقے کا بادشاہ ایک دریا ہوتا ہے۔ اس علاقے میں بسنے والے تمام لوگ اس دریا کے غلام  ہوتے ہیں۔ وہ لوگ دریا کی 'دریا دلی' سے فیضیاب ہوتے ہیں۔ اسی دریا کا پانی پیتے ہیں، اور دریا کے پانی ہی سے اپنے لیے غذا کا انتظام کرتے ہیں۔  تاریخ میں کءی بار ایسا ہوا ہے کہ دریا نے اپنا رخ بدلا تو بڑی بڑی بادشاہتیں اکھڑ گءیں۔ علاقے کے لوگ نقل مکانی پہ مجبور ہوءے۔ یہ ملک، یہ ریاستیں، یہ سرحدیں، نءے معاملات ہیں۔ دریا ان سیاسی بندشوں کو نہیں سمجھتے اور اسی لیے وہ تمام لوگ جو ایک مخصوص دریا سے مستفید ہوتے ہیں، ان کے لیے ضروری ہے کہ وہ آپس میں ایک دوسرے سے اچھے تعلقات رکھیں۔ دریا بلندی سے پستی تک، یعنی پہاڑ سے سمندر تک بہتے ہیں۔ جو لوگ دریا کے ساتھ جتنی بلندی پہ رہتے ہیں ان کا اتنا ہی فرض ہے کہ وہ دریا سے فیضیاب تو ہوں مگر اس پانی کو آلودہ نہ کریں کہ اس پانی کو ابھی پستی کی طرف بہتے ہوءے بہت سے اور لوگوں تک پہنچنا ہے۔ دریاءے میکانگ تبت سے نکلتا ہے اور چین سے ہوتا ہوا برما، تھاءی لینڈ، اور پھر لاءوس میں داخل ہوتا ہے۔ لاءوس میں داخل ہونے کے بعد میکانگ شمال سے جنوب کی طرف بہتا ہے۔ پھر یہ ایک اور سرحد پار کرتا ہے اور کمپوچیا میں داخل ہوجاتا ہے۔ کمپوچیا میں میکانگ شمال مغرب سے جنوب مشرق کی طرف چلتا ہوا ویت نام کی طرف بڑھتا ہے۔ ویت نام میں داخل ہونے کے بعد یہ دریا مزید جنوب مشرق کی طرف بہتا ہوا بالاخر بحیرہ جنوبی چین میں مل جاتا ہے۔ بہت سال پہلے میں نے میکانگ پہ لاءوس کے اندر سفر کیا ہے۔ اس حالیہ سفر میں میکانگ پہ بہاءو کے ساتھ چلتے ہوءے کمپوچیا اور ویت نام کی سرحد پار کرنا تھی۔ ہمیں جس روز دریا پہ سفر کرنا تھا اس سے ایک روز پہلے ہی ہم کشتی چلنے کے اوقات معلوم کر آءے تھے۔ پھنوم پین میں ہوٹل کا کمرہ چھوڑنے کے بعد جب ہم ٹک ٹک میں آکر بیٹھے تو ہوٹل کا ایک نماءندہ بھاگتا ہوا آیا۔ اس نے خالی کیا جانے والا کمرہ دیکھا تھا اور اسے ٹی وی کا ریموٹ نہیں مل رہا تھا۔ ہم نے اسے یقین دلایا کہ ہم ریموٹ اپنے ساتھ ویت نام نہیں لیے جا رہے تھے بلکہ ریموٹ کمرے ہی میں تھا۔ کشتی میں سوار ہونے سے پہلے ایک اہم کام ڈاکخانے سے ڈاک کے ٹکٹ لے کر دو پوسٹ کارڈ حوالہ ڈاک کرنے کا تھا۔  ٹک ٹک جب ڈاکخانے کے قریب پہنچی تو دفعتا ہمیں خیال آیا کہ وہ تو اتوار کا روز تھا، ڈاکخانہ تو بند ہوگا۔ مگر حیرت انگیز طور پہ ایسا نہ تھا۔ ڈاکخانہ کھلا ہوا تھا۔ ہم نے جلدی سے ٹکٹ خریدے، انہیں پوسٹ کارڈ پہ لگایا اور پوسٹ کارڈ ڈاکے کے ڈبے میں ڈال دیے۔ کسی زمانے میں ہم سفر میں یہ تین کام ضرور کیا کرتے تھے: ہر نءے ملک سے پوسٹ کارڈ روانہ کرنا، اس ملک کا ایک اخبار جمع کرنا، اور اس ملک میں سب سے زیادہ مقبول موسیقی کا ایک کیسیٹ خریدنا۔ مگر رفتہ رفتہ احساس ہوا کہ سوغاتیں جمع کرتے کرتے ہمارے پاس کافی 'کوڑا' جمع ہوگیا ہے چنانچہ اب کبھی کبھار پوسٹ کارڈ ہی روانہ کر دیتے ہیں اور اکثر و بیشتر محض تصاویر کھینچ کر 'سوغات' جمع کرنے کی خواہش پوری کر لیتے ہیں۔ پھنوم پین سے ویت نام کے قصبے چاءو ڈوک تک جانے والی کشتی میں ہم چار کے علاوہ محض ایک اور مسافر تھا۔ اس مسافر نے اپنا تعارف کرایا کہ وہ آسٹریلیا سے تھا اور چاءو ڈوک کے قریب ایک قصبے میں انگریزی پڑھا رہا تھا۔ حالانکہ وہ بہت گہرے آسٹریلین لہجے میں انگریزی بول رہا تھا مگر شکل و صورت سے وہ شخص دیسی ہی نظر آتا تھا۔  ہم نے قیاس کیا کہ وہ یا اس کے والدین فجی سے آسٹریلیا منتقل ہوءے تھے۔ ایک وقت تھا کہ ہم لوگوں سے ان کی شناخت سے متعلق اپنا قیاس بیان کر دیتے تھے مگر اب سیکھ گءے ہیں کہ اکثر لوگ یہ پسند نہیں کرتے کہ انہیں کھول کر بتا دیا جاءے کہ ہم کیا سمجھے ہیں کہ وہ اصل میں کون ہیں۔ کشتی کا ٹکٹ لینے کے بعد جب ہم کشتی میں سوار ہونے کے لیے چلے تو پہلی نظر ایک بہت بڑے بحری جہاز پہ پڑی جو سامنے ہی لنگر انداز تھا۔ اس جہاز میں سینکڑوں مسافروں کی گنجاءش تھی۔ ہم نے دل میں سوچا کہ پانچ مسافروں کے لیے اتنے بڑے جہاز کا استعمال فضول خرچی تھی مگر اس کے ساتھ اطمینان ہوا کہ بڑے جہاز میں سفر آرام دہ گزرے گا۔ مگر بڑے جہاز تک پہنچنے سے پہلے ہی ہمارا راہ نما داءیں طرف مڑ گیا۔ وہاں سامنے ایک بڑی کشتی کھڑی نظر آءی۔ اس بڑی کشتی میں لگ بھگ سو لوگ باآسانی سوار ہو سکتے تھے۔ ایک بار پھر پانچ لوگوں کے لیے سو لوگوں کی کشتی کا استعمال فضول خرچی معلوم ہوءی۔ مگر بڑی کشتی تک پہنچنے سے پہلے ہی ہمارا راہ نما ایک پھر داءیں طرف مڑ گیا۔ اب سامنے ایک چھوٹی کشتی کو کھڑا پایا۔ اس کشتی میں محض سات لوگوں کے بیٹھنے کی جگہ تھی۔ یہی کشتی ہمیں ویت نام لے جا رہی تھی۔ کشتی میں ہمارا مختصر سامان کشتی کے پچھلے حصے میں ڈھیر کیا گیا اور ہمارے سوار ہونے کے بعد کشتی جنوب کی طرف چلنا شروع ہوءی۔ دھوپ نکلی ہوءی تھی مگر درجہ حرارت معتدل تھا۔  ہم کشتی میں دریا کے بہاءو کے ساتھ ساتھ چلتے رہے۔ اسی بہاءو سے دریا کے ساتھ چلنے والے دریاءی پودے اور جھاڑ جھنکاڑ بھی بہے جا رہا تھا۔ کشتی میں بیٹھے بیٹھے ہمیں جان کیری کا خیال آیا کہ انہوں نے بھی اس دریا پہ ایک جنگی کشتی میں سفر کیا ہے؛ گو کہ بہت سے لوگوں کی راءے میں جان کیری نے اپنی اس فوجی سروس کو مصالحے لگا کر مبالغہ آراءی سے بیان کیا ہے۔ میکانگ پہ چلتے جب ہم کشتی میں بیٹھے بیٹھے عاجز آگءے تو کشتی کمپوچیا کی سرحدی چوکی پہ جا لگی۔ چوکی دریا کے ساتھ اونچاءی پہ تھی اور وہاں پہنچنے کے لیے بانس کی ایک سیڑھی چڑھنا تھی۔ چوکی ویران پڑی تھی۔ وہاں ہمارے پاسپورٹ جانچے گءے اور ان میں خروج کی مہر لگا دی گءی۔ کشتی ایک دفعہ پھر چلنا شروع ہوءی اور تھوڑی سی مسافت میں کمپوچیا اور ویت نام کی باہمی سرحد پار کرنے کے بعد ویت نام کی سرحدی چوکی پہ رکی۔ ویت نام کی چوکی کمپوچیا کی چوکی سے بہتر حالت میں صاف ستھری نظر آءی؛ وہاں ایک چھوٹا سا ریستوراں بھی تھا۔ اس چوکی پہ ہمارا سامنا امیگریشین افسر سے نہ ہوا۔ کشتی کا ناخدا ہمارے پاسپورٹ لے کر چوکی کے اندرونی دفتر میں گھس گیا اور کچھ دیر میں ہمارے پاسپورٹ پہ آمد کی مہر لگوا کر باہر آیا۔ کشتی ایک بار پھر چلنا شروع ہوءی۔ اب دریا کے دونوں طرف آبادی نظر آرہی تھی۔ چاءو ڈوک کے قریب پہنچنے پہ کشتی ایک جزیرے کے سامنے سے مڑی اور قریبا الٹی سمت چلنا شروع ہوءی۔ چاءو ڈوک میں ہمیں ایک ساحلی ریستوراں پہ چھوڑ دیا گیا۔ ہم ریستوراں سے باہر نکلے تو ساءکل رکشے والے ہمیں ہوٹل تک چھوڑنے کی پیشکش کرنے لگے مگر ہمیں اندازہ تھا کہ ہم نے جس ہوٹل میں ریزرویشن کرواءی تھی وہ بہت زیادہ فاصلے پہ نہ تھا۔ ہم پیدل چلتے ہوءے اپنے ہوٹل تک پہنچ گءے۔

Labels: , , , ,


 

آتشیں اسلحہ، یادداشتیں فصل دوءم


دسمبر سترہ، دو ہزار بارہ


ایک فکر کے سلسلے کا کالم

کالم شمار ایک سو سولہ


 آتشیں اسلحہ، یادداشتیں فصل دوءم


جدید دنیا میں کسی بھی مہذب معاشرے کا سب سے اہم فرض لوگوں کے جان ومال کی حفاظت کرنا ہے۔ لوگوں کی جان و مال محفوظ ہے تو معاشرہ اچھا ہے۔ وہاں رہا جا سکتا ہے، کاروبار کیا جا سکتا ہے۔ اگر کہیں جان و مال محفوظ نہیں ہے تو وہ جگہ رہنے کے قابل نہیں ہے۔ وہ جگہ کاروبار کرنے کے قابل نہیں ہے۔ واضح رہے کہ جدید دنیا میں ایک انسان کو سب سے بڑا خطرہ دوسرے انسان سے ہے۔
پہلے جانوروں کو زیر کرنے کے لیے اور پھر اپنے جیسے دوسرے انسانوں کو پچھاڑنے کے لیے آدمی نے ہتھیار بناءے اور پھر وقت کے ساتھ ساتھ ان ہتھیاروں کو مہلک سے مہلک کرتا گیا۔ پہلے تلوار کا استعمال کہ جس میں اپنے دشمن پہ وار کرنے کے لیے دشمن کے بالکل قریب ہونا ضروری تھا۔ پھر برچھی اور تیر کا استعمال کہ جس میں اپنے دشمن پہ کچھ دور سے وار کیا جاسکتا تھا۔ اور اب جدید دنیا کے ہتھیار کہ جن کا استعمال ہزاروں میل دور بیٹھ کر کیا جا سکتا ہے اور دشمن محض ایک نقطے کی صورت میں کسی اسکرین پہ ہدف نظر آتا ہے۔ شکر ہے کہ ٹیکنالوجی وہاں نہیں پہنچی ہے جہاں ایسے مہلک ہتھیار انفرادی طور پہ لوگوں کے پاس ہوں۔ وسیع پیمانے پہ تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کا استعمال اب تک محض ریاست کا حق ہے۔ مگر انفرادی طور پہ ایسے آتشیں ہتھیار لوگوں کے پاس ضرور موجود ہیں جن کے استعمال سے وہ ذرا سی دیر میں بہت سے افراد کو مار سکتے ہیں۔ مسلح افراد کا ایک چھوٹا گروہ بہت بڑے غیر مسلح گروہ کو قابو میں کر سکتا ہے۔ اس آخری نکتے کو سمجھتے ہوءے ہی جرح کی جاتی ہے کہ معاشرے میں ہر شخص کے پاس آتشیں اسلحہ ہونا چاہیے تاکہ کبھی کوءی گروہ زبردستی بندوق کے زور پہ لوگوں پہ حاوی نہ ہوجاءے۔ پھر یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اگر اسلحہ حاصل کرنا جرم ٹہرایا گیا تو صرف جراءم پیشہ افراد مسلح ہوں گے اور یہ بہت خظرناک بات ہوگی۔
مگر کیا کیجیے کہ انسان کا مزاج مستقل بدلتا رہتا ہے۔ کیا آپ پہ ایسا وقت نہیں آیا کہ آپ کو کسی پہ شدید غصہ آیا ہو اور اس غصے میں آپ قریبا پاگل ہی ہو گءے ہوں؟ اگر کمزوری کے ایسے لمحے میں آپ کے پاس آتشیں اسلحہ ہوتا تو آپ کیا کرتے؟  پھر کچھ لوگ ذہنی بیمار بھی تو ہوتے ہیں۔ ایسے نفسیاتی مریض اپنی بیماری میں بہت سے لوگوں کو مار سکتے ہیں۔ ایک  عرصے سے امریکہ میں ایسی وارداتیں ہو رہی ہیں جن میں کسی طالب علم نے اپنے اسکول یا یونیورسٹی پہنچ کر بہت سے لوگوں کو گولی سے اڑا دیا۔ پھر کچھ کچھ دنوں بعد ایک مجذوب آتشیں اسلحے سے لیس معصوم لوگوں کے گروہ میں داخل ہوتا ہے اور اسلحہ چلا کر دسیوں کو ذرا سی دیر میں ڈھیر کر دیتا ہے۔ ایسا ذہنی مریض اس حملے کے آخر میں یا تو خود اپنے آپ کو ہلاک کر لیتا ہے یا پولیس اسے مار ڈالتی ہے۔ سانپ نکل جاتا ہے اور لوگ لکیر پیٹتے رہ جاتے ہیں۔ اسی نوعیت کا تازہ واقعہ ریاست کنیٹی کٹ کا ہے جہاں ایک نوجوان نے چھوٹے بچوں کے اسکول میں داخل ہو کر بیس بچوں کو گولیوں سے بھون ڈالا۔  ہر اس طرح کے واقعے کے بعد یہ بحث زور پکڑ جاتی ہے کہ کیا آتشیں اسلحے پہ پابندی ہونی چاہیے۔ کیا امریکی آءین کی اس ترمیم کو تبدیل کیا جاءے جس کے رو سے ہر شہری کو اسلحہ رکھنے کا حق حاصل ہے؟  اس لکھنے والے کی راءے میں اس مسءلے کو سیاہ و سفید کی شکل میں دیکھنا مناسب نہیں ہے۔ اسلحہ رکھنے پہ مکمل پابندی اور اسلحہ رکھنے کی کھلی چھوٹ کے درمیان ایک راہ موجود ہے۔  ہم یقینا آتشیں اسلحے پہ پابندی نہیں دیکھنا چاہتے کہ ایسی پابندی کا نفاذ نہ صرف یہ کہ قریبا ناممکن ہے بلکہ ایسی پابندی معاشرے کے بڑے حصے کے لیے نقصان دہ ہوسکتی ہے۔ کیوں نہ ایسے قوانین تشکیل دیے جاءیں جو ہر فرد کو اسلحہ حاصل کرنے کی آزادی تو دیں مگر اسلحے کو حفاظت سے رکھنے کی ذمہ داری اس فرد سے وابستہ بہت سے لوگوں کی ہو؟  قوانین اس نوعیت کے ہو سکتے ہیں جن میں اٹھارہ سے چالیس سال کے لوگوں پہ پابندی ہو کہ وہ تیزی سے فاءر کرنے والا خودکار اسلحہ نہیں رکھ سکتے۔ اسلحہ رکھنے والے کے متعلقین کو ایسے قوانین سے پابند کیا جاءے جن کی رو سے کسی اسلحہ رکھنے والے کا خراب ذہنی توازن فوری طور پہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے علم میں لایا جاءے تاکہ اس شخص سے اسلحہ ضبط کیا جا سکے۔  پھر ایسے قوانین ہوں جو اسلحہ لے کر چلنے پہ پابندی لگاءیں اور لوگوں کو مجبور کریں کہ وہ اسلحہ گھر پہ یا کام کی جگہ پہ مقفل حالت میں رکھیں۔
بات قتل و غارت گری کی ہورہی ہے تو کمپوچیا کے حکمراں پول پاٹ کا ذکر ہوجاءے جس کے دور حکومت میں لاکھوں کی تعداد میں اس کے مخالفین قتل کیے گءے۔
پھنوم پین میں قیام کے دوران چوینگیک نامی اس کیمپ میں جانے کا اتفاق ہوا جہاں خمیر روج کے مخالفین ہزاروں کی تعداد میں قتل کیے گءے۔ یہ کیمپ بہت وحشت ناک جگہ ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اب بھی بارشوں کے موسم میں قتل کیے جانے والے افراد کی ہڈیاں اور دانت زمین سے نکل کر اوپر آجاتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ یہاں پول پاٹ کے مخالفین ٹرک میں بھر کر لاءے جاتے تھے اور پھر انہیں ڈنڈوں سے مار کر ہلاک کیا جاتا تھا۔ چھوٹے بچوں کو ٹانگوں سے پکڑ کر درخت سے مار مار کر ختم کیا جاتا تھا۔ بندوق کی گولیاں مہنگی تھیں اس لیے لوگوں کو مارنے کے یہ اذیت ناک طریقے اختیار کیے جاتے تھے۔ اور اس طرح کے قتل کے دوران ملی نغمے زور زور سے بجاءے جاتے جس کی آواز میں مارے جانے والے فرد کی چیخیں دب جاتیں۔ آپ چوینگیک میں داخل ہوں تو آپ کو ایک آڈیو ٹیپ دیا جاتا ہے۔ آپ کانوں پہ ہیڈ سیٹ لگا کر آڈیو سنتے جاتے ہیں اور منزل در منزل آگے بڑھتے رہتے ہیں۔ اسی آڈیو کے آخر میں کہا گیا کہ دنیا بھر کے لوگوں کے لیے کمپوچیا کی تاریخ کا یہ سیاہ باب جاننا ضروری ہے کیونکہ اس طرح کا ظلم دنیا میں آج بھی کہیں بھی ہو سکتا ہے۔ چوینگیک سے واپس آنے کے بعد میں سوچتا رہا کہ کیا واقعی ایسا ظلم آج بھی ہو سکتا ہے۔ آج کی دنیا تیزترین مواصلات کی وجہ سے آپس میں بندھی ہوءی ہے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ کسی جگہ ایک دیوانہ شخص حکومت کرنے لگے اور اپنے مخالفین کو پکڑ پکڑ کر قتل کرنا شروع کر دے، اور باہر کی دنیا کو اس کی خبر ہی نہ ہو؟  کہیں ایسا تو نہیں کہ یہ ٹی وی، یہ انٹرنیٹ دنیا کی بڑی آبادی کے لیے تو دستیاب ہیں مگر سب کے لیے نہیں، اور اس وجہ سے دنیا کے کسی چھپے کونے کھدرے میں اس طرح کا ظلم آج بھی ممکن ہے اور شاید ہو بھی رہا ہو؟

Labels: , , , , , ,


Tuesday, December 11, 2012

 

یاد داشتیں



دسمبر دس، دو ہزار بارہ


ایک فکر کے سلسلے کا کالم

کالم شمار ایک سو پندرہ



 یادداشتیں


لونلی پلانٹ کے عنوان سے لکھی جانے والی سیاحی کتابوں کا مالک ٹونی وہیلر کراچی میں پلا بڑھا ہے ۔ ٹونی وہیلر نے ستر کی دہاءی میں ہند چینی علاقے میں سیاحت پہ کتاب لکھ کر دنیا بھر کے مسافروں کو رعایتی سفر [بجٹ ٹریولنگ] کا راستہ دکھایا۔ آج ہزاروں لوگ لونلی پلانٹ کی کتابیں پڑھ کر دنیا کے چپے چپے کا سفر کرتے ہیں۔ مگر میں نے اپنے سامنے رعایتی سفر کا انداز بدلتے دیکھا ہے۔ نوے کی دہاءی کے اواءل میں سفر کرنے والے رعایتی مسافر فون کے ذریعے اگلے شہر کے ہاسٹل یا ہوٹل کی بکنگ کرواتے تھے۔ میرے جیسے بہت سے بے منتظم رعایتی مسافر بس منہ اٹھا کر نءے شہر پہنچ جاتے تھے اور پھر سفری کتاب میں دیے گءے اس شہر کے رعایتی ہوٹلوں کا دورہ کرتے اور کءی در کھٹکھٹانے کے بعد رات بسر کرنے کی جگہ تلاش کرپاتے۔ انٹرنیٹ کی آمد کے بعد ہوٹلوں کی ریزرویشن کا کام انٹرنیٹ سے کیا جانے لگا۔ مگر قباحت یہ تھی کہ آربٹز، ایکسپیڈیا، ہاٹ واءر، یا پراءس لاءن جیسی ویب ساءٹ صرف تین، چار، اور پنچ ستارہ ہوٹلوں کی ریزرویشن کرتی تھیں۔ اب میدان میں آءی ہیں بکنگ ڈاٹ کام اور اگوڈا۔ یہ دو ویب ساءٹ رعایتی ہوٹلوں کے پتے دیتی ہیں اور ان کو استعمال کرتے ہوءے آپ باآسانی نہایت کم نرخ ہوٹلوں میں بکنگ کروا سکتے ہیں۔۔
انٹرنیٹ پہ ہوٹل اور سواری کے متعلق تحقیق کرتے ہوءے سب سے اہم چیز دوسرے مسافروں کے تبصروں کا مطالعہ ہوتا ہے۔ ان تبصروں کو پڑھ کر آپ زیر تحقیق موضوع کے بارے میں بہت کچھ جان سکتے ہیں۔ مگر بعض تبصرہ کار ایسے بھی ہوتے ہیں جو بات کا بتنگڑ بنا کر پیش کرتے ہیں۔ سان فرانسسکو ہواءی اڈے کے رینٹل کار سینٹر کے متعلق لوگوں کے منفی تبصرے پڑھ کر ہم چوکنا ہو گءے  تھے۔ کراءے کی گاڑی ایک روز پہلے سان ہوزے ہواءی اڈے سے حاصل کر لی تھی۔ اسے سان فرانسسکو ہواءی اڈے پہ چھوڑ کر جہاز میں سوار ہوجانا تھا۔ رینٹل کار سینٹر سے متعلق منفی تبصرے پڑھ کر گاڑی واپس کرنے کے عمل کے لیے کافی وقت رکھ لیا تھا۔ مگر وہاں کام اس قدر سرعت سے ہوا کہ طبیعت خوش ہو گءی۔ ہم نے گاڑی لا کر کھڑی کی۔ اس گاڑی کا ایک منٹ میں معاءنہ ہوا اور رسید ہمیں تھما دی گءی کہ آپ کے کریڈٹ کارڈ پہ رقم چارج کی جا چکی ہے، آپ جا سکتے ہیں۔
سان فرانسسکو سے ہانگ کانگ کی لمبی پرواز آپ کو بس مار ہی دیتی ہے۔ جہاز میں چھ گھنٹے گزارنے کے بعد آپ کا دل چاہتا ہے کہ آپ ٹانگ اڑا کر آتی جاتی کسی اءیرہوسٹس کو گرا دیں۔ آٹھ گھنٹے کے بعد دل کرتا ہے کہ آپ ساتھی مسافروں سے لڑنا شروع ہوجاءیں اور کسی کانگڑی مسافر کی اچھی طرح سے پھینٹی لگا دیں۔ اور جہاز میں دس گھنٹے گزارنے کے بعد دل کرتا ہے کہ آپ کاک پٹ میں پہنچ کر جہاز اغوا کر لیں اور کپتان سے کہیں کہ وہ جہاز کو جلد از جلد کہیں نہ کہیں اتار دے۔ جہاز میں بیٹھے بیٹھے بارہ گھنٹے سے زاءد ہو جاءیں تو دل کرتا ہے کہ پورے جہاز کو آگ ہی لگا دی جاءے کہ نہ رہے گا بانس اور نہ بجے گی بانسری۔
 ہانگ کانگ کے ہواءی اڈے کے متعلق میرا خیال ہے کہ وہاں ہمیشہ سیلن کی بو آتی ہے۔ ہانگ کانگ سے بینکاک جانے والی پرواز کی آخر منزل بمبءی تھی۔ جہاز میرے جیسے چند مسافروں کو بینکاک میں اتارنے کے لیے وہاں رکا تھا۔ جہاز سے نکلتے وقت ایک اءیرہوسٹس نے مجھے خداحافظ کہا اور ساتھ ہی کہہ دیا کہ، 'بینکاک'۔ اس یک لفظی جملے میں پیغام تھا کہ، 'یہ بینکاک ہے۔ تمھیں بینکاک ہی اترنا ہے نا؟ تمھاری شکل سے تو لگتا ہے کہ تمھیں بمبءی جانا تھا۔'  میں نے جواب میں کہا، 'بامبے' یعنی 'یہ بمبءی ہے اور مجھے یہیں جانا تھا'۔ یہ کہہ کر میں آگے بڑھ گیا۔ میرے جواب کے جواب میں اءیرہوسٹس کی لمبی 'آں' اس شکل میں نکل گءی جس شکل میں چینیوں کی حیرت کی 'آءیں' نکلتی ہے۔ میں نے مڑ کر کہا کہ میں مذاق کر رہا تھا جس پہ وہ بہت زور سے ہنسی۔
بینکاک خط استوا سے بہت قریب ہے۔ شاید اسی وجہ سے نومبر کے آخیر میں بھی وہاں آم کے درختوں پہ کیریاں لگی تھیں، کوءل کوک رہی تھی، اور خوانچے والیوں کے پاس اور استواءی پھلوں کے ساتھ آم بھی دستیاب تھے۔
ویت نام کی جنگ کے اختتام پہ ساءیگون کا نام بدل کر ویت نام کے کمیونسٹ لیڈر ہو چی من کے نام پہ ہوچی من سٹی رکھا گیا تھا مگر ساءیگون والے اپنے شہر کو اب تک ساءیگون ہی کہتے ہیں۔ ساءیگون کو اگر موٹرساءیکلوں کا شہر کہا جاءے تو غلط نہ ہوگا۔ گاڑیوں کے مقابلے میں یہاں موٹرساءیکلیں کثیر تعداد میں ہیں۔ موٹرساءیکلوں کا جمع غفیر ہر سڑک پہ موجزن رہتا ہے اور اگر کہیں ٹریفک پھنس جاءے تو موٹرساءیکل چلانے والے جیالے موٹرساءیکلیں فٹ پاتھ پہ چلانا شروع  کر دیتے ہیں۔ پیادہ خواتین و حضرات فٹ پاتھ پہ سکڑ کر چلتے ہیں اور ان موٹرساءیکل سواروں کو راستہ دیتے ہیں کیونکہ یہاں طاقت کی حکمرانی تسلیم ہے۔ موٹرساءیکل چلانے والا پیادہ سے افضل، گاڑی چلانے والا موٹرساءیکل چلانے والے سے افضل، اور بڑی گاڑی چلانے والا چھوٹی گاڑی چلانے والے پہ برتری رکھتا ہے۔ مختصرا یہ کہ پاکستان والا حال ہے۔ فرق اتنا ہے کہ یہاں عورتیں بہت زیادہ نظر آتی ہیں اور خود کش حملہ آور موجود نہیں ہیں۔ ساءیگون جانے والے رعایتی سیاح ساءیگون کے ڈسٹرکٹ شمار ایک میں قیام کرتے ہیں۔ یہاں جگہ جگہ ٹریول ایجنسیاں ہیں اور یہاں سے چلنے والی بسیں دور دراز کے شہروں بشمول ہانگ کانگ تک جاتی ہیں۔


Labels: , , , , , ,


Monday, December 10, 2012

 

سفر ہے شرط



دسمبر تین، دو ہزار بارہ


ایک فکر کے سلسلے کا کالم

کالم شمار ایک سو چودہ


 سفر ہے شرط


اس سال بہت سے جاننے والوں نے حج کیا۔ ان تمام لوگوں کو حج مبارک ہو۔ مجھے دوسرے اراکین اسلام کے مقابلے میں حج زیادہ پسند ہے کیونکہ مذہبی راہ نماءوں نے دوسرے اراکین میں مرد و عورت کی جو تفریق پیدا کر دی ہے وہ اب تک حج میں نہیں ہے۔ مرد و عورت سب ساتھ حج کرتے ہیں اور اس درمیان میں نماز بھی ساتھ پڑھتے ہیں۔ مگر اس کے باوجود مجھے موجودہ دور کا حج کچھ عجیب معلوم دیتا ہے۔ لگتا ہے کہ اس میں کوءی بڑی کمی ہے۔ حج کا مقصد جہاں اس جگہ پہنچنا تھا جس طرف منہ کر کے آپ ساری عمر نماز پڑھتے ہیں، وہیں حج کا تعلق سفر سے بھی تھا۔ انسان جب سفر کرتا ہے تو اپنے مانوس ماحول سے باہر نکلتا ہے۔ پرانے وقتوں میں کسی دور دراز جگہ جانے کے لیے لمبا زمینی فاصلہ طے کرنا ہوتا تھا۔ اس زمینی سفر میں آپ بھانت بھانت کے لوگوں سے ملتے تھے، مختلف طرح کا جغرافیہ دیکھتے تھے۔ اور یوں یہ سفر آپ کے لیے زبردست تعلیم کا ذریعہ بنتا تھا؛ حج کا سفر آپ کو بہت کچھ سوچنے پہ مجبور کرتا تھا۔ موجودہ دور کے حج میں آپ ہواءی جہاز سے اڑ کر سیدھا جدہ پہنچ جاتے ہیں اور آپ کو راستے میں سیکھنے کو کچھ خاص نہیں ملتا۔ اسی لیے میری خواہش ہے کہ جب اللہ تعالی مجھے حج کی سعادت دے تو میں پیدل حج کروں۔
مجھے سفر کرنا اچھا لگتا ہے خاص طور پہ ایسا سفر جو زمین کے ساتھ ساتھ کیا جاءے۔ سفر پہ روانگی سے پہلے آپ سفر کی تیاری کرتے ہیں۔  آپ اپنی جگہ چھوڑ کر دور جا رہے ہوتے ہیں اس لیے اپنے ساتھ ضرورت کی خاص چیزیں رکھنا چاہتے ہیں۔ سفر کا سامان باندھتے ہوءے آپ کو اندازہ ہوتا ہے کہ زندگی گزارنے کے لیے آپ کو کس قدر کم چیزوں کی ضرورت ہے۔ اور آپ نے نہ جانے کیاکچھ اپنے پاس جمع کر رکھا ہے۔ سفر کی تیاری کرنا موت کی تیاری کرنے سے مطابق ہے۔ اس موقع پہ آپ کو اپنی زندگی کو از سر نو دیکھنے کا موقع ملتا ہے۔ آپ سوچتے ہیں کہ آپ کے لیے کوسی چیزیں اہم ہیں اور کون سی غیر اہم۔
تھاءی لینڈ میں مشرق کی طرف بڑھتے ہم بینکاک سے آگے ایسے علاقے میں آگءے جو پاکستان کی طرح تھا؛ جہاں ٹریفک کی سرخ بتی حکم نہیں ہوتی بلکہ ایک درخواست ہوتی  ہے۔ کسی نے قبول کی اور کسی نے نہ کی۔ چنانچہ ہر اشارے پہ گرچہ کہ وہ سبز ہی کیوں نہ ہو آپ کو احتیاط سے آگے بڑھنا ہوتا ہے کہ شاید دوسرے رخ سے آنے والے نے سرخ بتی کی فریاد کو نظر انداز کردیا ہو۔ بس نے ہمیں بارڈر پوسٹ پہ اتارا تو شام ہو چلی تھی۔ اندھیرا ہونے سے پہلے کمبوڈیا کے شہر سییم ریپ پہنچنے کا ارادہ دھرا کا دھرا رہ گیا تھا۔ تھاءی لینڈ-کمبوڈیا کی سرحد پہ ایک سے بڑھ کر ایک چالباز بیٹھے تھے۔ وہ سرحد تک پہنچنے سے پہلے ہی ہمیں کمبوڈیا کا ویزا بیچنا چاہتے تھے۔ ہم ان لوگوں کو نظر انداز کرتے ہوءے آگے بڑھتے رہے۔ ایک جمع غفیر تھا جو بارڈر چیک پوسٹ کی طرف بڑھ رہا تھا۔ ہم اس الگ راستے سے تھاءی بارڈر پوسٹ کی چھوٹی سی عمارت میں داخل ہوءے جوغیرملکیوں کے لیے مختص تھا ۔ دوسری جگہ ایک لمبی قطار تھی۔ تھاءی کاءونٹر پہ بیٹھی عورت نے ہمیں اشارے سے آگے بلایا۔ ہمارا پاسپورٹ دیکھا اور اس میں خروج کی مہر لگا دی۔  اس عمارت سے نکل کر وہ چھوٹا سا پل پار کیا جسے دوستی کا پل کہتے ہیں۔ سفری کتاب میں تاکید تھی کہ پل پار کرتے ہوءے نیچے مت دیکھیے گا۔ چنانچہ فورا جھانک کر نیچے دیکھا۔ نیچے ایک گندا نالہ بہہ رہا تھا جس سے اٹھنے والی بدبو اوپر تک آرہی تھی۔ یہی گندا نالہ اس مقام پہ تھاءی لینڈ اور کمبوڈیا کے درمیان سرحد کا کام دیتا ہے۔ کمبوڈیا کی سرحدی چوکی پہ پہنچ کر پہلا کام ویزا لگوانا تھا۔ ویزا کا فارم جلدی سے بھرا اور کھڑکی پہ درخواست اور پاسپورٹ تھما دیے۔ ہمارا پاسپورٹ ویزا لگنے کے لیے گیا ہی تھا کہ ایک معصوم شکل کمبوڈین افسر ہمارے لیے داخلہ کارڈ لے آیا کہ ہمیں وہ فارم بھرنا تھا۔ کارڈ ہمیں تھمانے کے بعد اس نے لجلجاتے ہوءے ہم سے دس ڈالر کی فرماءش کر دی۔ ہمارے پاس کچھ تھاءی بھات اضافی بچے تھے۔ ہم نے اسے بتایا کہ ہم دس ڈالر تو نہیں دیں گے مگر چند بھات ضرور دے دیں گے۔ چنانچہ اسے کچھ بھات دیے جو اس نے خوشی خوشی لے لیے۔
ویزا لگوانے کے بعد تھوڑا سا اور چلنا پڑا اور پھر کمبوڈیا کی سرحدی چیک پوسٹ آگءی۔ وہاں ہمارا ویزا جانچا گیا اور پھر پاسپورٹ میں داخلے کی مہر لگا دی گءی۔ دونوں سرحدی چوکیاں پار کرنے کے دوران ایک نوجوان مستقل ہمارے ساتھ ساتھ رہا تھا اور ہمیں بتاتا گیا تھا کہ اب یہاں جانا ہے، اب یہ کرنا ہے۔ ہم نے اسے کءی دفعہ ڈانٹ کر بھگانے کی کوشش کی تھی مگر وہ ثابت قدمی سے ساتھ لگا رہا تھا۔ کمبوڈیا کی سرحدی چوکی سے نکلنے کے بعد وہ پھر نمودار ہوا۔ اس نے ہمیں بتایا کہ ایک مفت شٹل ہمیں بس اسٹیشن تک لے جاسکتی ہے۔ ہم نے اس کی یہ بات غور سے سنی۔ اسے اندازہ ہو گیا کہ ہم کچھ پگھلے ہیں۔ وہ ہمارے آگے آگے چل پڑا۔ اس نے ایک وین کی طرف اشارہ کیا جو ہمیں بس اسٹیشن تک لے جاءے گی۔ ہم اس وین میں سوار ہو گءے۔ وہ بھی ساتھ آگیا۔ وین چلنا شروع ہوءی تو اس نے اپنی شکایت شروع  کی کہ ہم نے اسے ڈانٹا تو اسے بہت برا لگا تھا۔ وہ کمبوڈیا کا حکومتی اہلکار ہے اور اس کا کام ہی کمبوڈیا آنے والے سیاحوں کو مدد فراہم کرنا ہے۔ ہم نے ندامت کے احساس سے اس سے معافی مانگی۔
پوپیٹ کا بس اسٹیشن سنسان پڑا تھا۔ باہر ایک گاڑی موجود تھی۔ معلوم ہوا کہ رات کے اس وقت کوءی بس سییم ریپ کے لیے نہ تھِی۔ ہمیں ٹیکسی لینی ہوگی جو کہ اسٹیشن کے باہر موجود واحد گاڑی تھی۔ سفر پہ روانہ ہونے سے پہلے ہم نے اپنے ڈاکٹر سے معلوم کیا تھا کہ ہمیں سفر میں کن بیماریوں کی مدافعت کے لیے دوا کھانی ہوگی۔ بتایا گیا کہ کمبوڈیا میں ملیریا سے بچنے کے لیے گولیاں کھانی ہوں گی۔ ہم نے سوچا تھا کہ کمبوڈیا پہنچ کر تیل دیکھیں گے اور تیل کی دھار دیکھیں گے۔ اگر مچھر نظر آءے تو ملیریا کی گولیاں کھاءیں گے۔ مچھر نظر نہ آءے تو گولیاں کھانے کے دلدر میں نہ پڑیں گے۔ مگر کمبوڈیا کے مچھروں نے زیادہ سوچنے سمجھنے کی مہلت نہیں دی۔ ہم وین سے اترے ہی تھے کہ مچھروں کے ایک بڑے جھنڈ سے پالا پڑا جس میں سے کءی ہم پہ پل پڑے اور ہمیں اچھی طرح کاٹا۔

Labels: , , , , , ,


This page is powered by Blogger. Isn't yours?