Tuesday, December 11, 2012

 

یاد داشتیں



دسمبر دس، دو ہزار بارہ


ایک فکر کے سلسلے کا کالم

کالم شمار ایک سو پندرہ



 یادداشتیں


لونلی پلانٹ کے عنوان سے لکھی جانے والی سیاحی کتابوں کا مالک ٹونی وہیلر کراچی میں پلا بڑھا ہے ۔ ٹونی وہیلر نے ستر کی دہاءی میں ہند چینی علاقے میں سیاحت پہ کتاب لکھ کر دنیا بھر کے مسافروں کو رعایتی سفر [بجٹ ٹریولنگ] کا راستہ دکھایا۔ آج ہزاروں لوگ لونلی پلانٹ کی کتابیں پڑھ کر دنیا کے چپے چپے کا سفر کرتے ہیں۔ مگر میں نے اپنے سامنے رعایتی سفر کا انداز بدلتے دیکھا ہے۔ نوے کی دہاءی کے اواءل میں سفر کرنے والے رعایتی مسافر فون کے ذریعے اگلے شہر کے ہاسٹل یا ہوٹل کی بکنگ کرواتے تھے۔ میرے جیسے بہت سے بے منتظم رعایتی مسافر بس منہ اٹھا کر نءے شہر پہنچ جاتے تھے اور پھر سفری کتاب میں دیے گءے اس شہر کے رعایتی ہوٹلوں کا دورہ کرتے اور کءی در کھٹکھٹانے کے بعد رات بسر کرنے کی جگہ تلاش کرپاتے۔ انٹرنیٹ کی آمد کے بعد ہوٹلوں کی ریزرویشن کا کام انٹرنیٹ سے کیا جانے لگا۔ مگر قباحت یہ تھی کہ آربٹز، ایکسپیڈیا، ہاٹ واءر، یا پراءس لاءن جیسی ویب ساءٹ صرف تین، چار، اور پنچ ستارہ ہوٹلوں کی ریزرویشن کرتی تھیں۔ اب میدان میں آءی ہیں بکنگ ڈاٹ کام اور اگوڈا۔ یہ دو ویب ساءٹ رعایتی ہوٹلوں کے پتے دیتی ہیں اور ان کو استعمال کرتے ہوءے آپ باآسانی نہایت کم نرخ ہوٹلوں میں بکنگ کروا سکتے ہیں۔۔
انٹرنیٹ پہ ہوٹل اور سواری کے متعلق تحقیق کرتے ہوءے سب سے اہم چیز دوسرے مسافروں کے تبصروں کا مطالعہ ہوتا ہے۔ ان تبصروں کو پڑھ کر آپ زیر تحقیق موضوع کے بارے میں بہت کچھ جان سکتے ہیں۔ مگر بعض تبصرہ کار ایسے بھی ہوتے ہیں جو بات کا بتنگڑ بنا کر پیش کرتے ہیں۔ سان فرانسسکو ہواءی اڈے کے رینٹل کار سینٹر کے متعلق لوگوں کے منفی تبصرے پڑھ کر ہم چوکنا ہو گءے  تھے۔ کراءے کی گاڑی ایک روز پہلے سان ہوزے ہواءی اڈے سے حاصل کر لی تھی۔ اسے سان فرانسسکو ہواءی اڈے پہ چھوڑ کر جہاز میں سوار ہوجانا تھا۔ رینٹل کار سینٹر سے متعلق منفی تبصرے پڑھ کر گاڑی واپس کرنے کے عمل کے لیے کافی وقت رکھ لیا تھا۔ مگر وہاں کام اس قدر سرعت سے ہوا کہ طبیعت خوش ہو گءی۔ ہم نے گاڑی لا کر کھڑی کی۔ اس گاڑی کا ایک منٹ میں معاءنہ ہوا اور رسید ہمیں تھما دی گءی کہ آپ کے کریڈٹ کارڈ پہ رقم چارج کی جا چکی ہے، آپ جا سکتے ہیں۔
سان فرانسسکو سے ہانگ کانگ کی لمبی پرواز آپ کو بس مار ہی دیتی ہے۔ جہاز میں چھ گھنٹے گزارنے کے بعد آپ کا دل چاہتا ہے کہ آپ ٹانگ اڑا کر آتی جاتی کسی اءیرہوسٹس کو گرا دیں۔ آٹھ گھنٹے کے بعد دل کرتا ہے کہ آپ ساتھی مسافروں سے لڑنا شروع ہوجاءیں اور کسی کانگڑی مسافر کی اچھی طرح سے پھینٹی لگا دیں۔ اور جہاز میں دس گھنٹے گزارنے کے بعد دل کرتا ہے کہ آپ کاک پٹ میں پہنچ کر جہاز اغوا کر لیں اور کپتان سے کہیں کہ وہ جہاز کو جلد از جلد کہیں نہ کہیں اتار دے۔ جہاز میں بیٹھے بیٹھے بارہ گھنٹے سے زاءد ہو جاءیں تو دل کرتا ہے کہ پورے جہاز کو آگ ہی لگا دی جاءے کہ نہ رہے گا بانس اور نہ بجے گی بانسری۔
 ہانگ کانگ کے ہواءی اڈے کے متعلق میرا خیال ہے کہ وہاں ہمیشہ سیلن کی بو آتی ہے۔ ہانگ کانگ سے بینکاک جانے والی پرواز کی آخر منزل بمبءی تھی۔ جہاز میرے جیسے چند مسافروں کو بینکاک میں اتارنے کے لیے وہاں رکا تھا۔ جہاز سے نکلتے وقت ایک اءیرہوسٹس نے مجھے خداحافظ کہا اور ساتھ ہی کہہ دیا کہ، 'بینکاک'۔ اس یک لفظی جملے میں پیغام تھا کہ، 'یہ بینکاک ہے۔ تمھیں بینکاک ہی اترنا ہے نا؟ تمھاری شکل سے تو لگتا ہے کہ تمھیں بمبءی جانا تھا۔'  میں نے جواب میں کہا، 'بامبے' یعنی 'یہ بمبءی ہے اور مجھے یہیں جانا تھا'۔ یہ کہہ کر میں آگے بڑھ گیا۔ میرے جواب کے جواب میں اءیرہوسٹس کی لمبی 'آں' اس شکل میں نکل گءی جس شکل میں چینیوں کی حیرت کی 'آءیں' نکلتی ہے۔ میں نے مڑ کر کہا کہ میں مذاق کر رہا تھا جس پہ وہ بہت زور سے ہنسی۔
بینکاک خط استوا سے بہت قریب ہے۔ شاید اسی وجہ سے نومبر کے آخیر میں بھی وہاں آم کے درختوں پہ کیریاں لگی تھیں، کوءل کوک رہی تھی، اور خوانچے والیوں کے پاس اور استواءی پھلوں کے ساتھ آم بھی دستیاب تھے۔
ویت نام کی جنگ کے اختتام پہ ساءیگون کا نام بدل کر ویت نام کے کمیونسٹ لیڈر ہو چی من کے نام پہ ہوچی من سٹی رکھا گیا تھا مگر ساءیگون والے اپنے شہر کو اب تک ساءیگون ہی کہتے ہیں۔ ساءیگون کو اگر موٹرساءیکلوں کا شہر کہا جاءے تو غلط نہ ہوگا۔ گاڑیوں کے مقابلے میں یہاں موٹرساءیکلیں کثیر تعداد میں ہیں۔ موٹرساءیکلوں کا جمع غفیر ہر سڑک پہ موجزن رہتا ہے اور اگر کہیں ٹریفک پھنس جاءے تو موٹرساءیکل چلانے والے جیالے موٹرساءیکلیں فٹ پاتھ پہ چلانا شروع  کر دیتے ہیں۔ پیادہ خواتین و حضرات فٹ پاتھ پہ سکڑ کر چلتے ہیں اور ان موٹرساءیکل سواروں کو راستہ دیتے ہیں کیونکہ یہاں طاقت کی حکمرانی تسلیم ہے۔ موٹرساءیکل چلانے والا پیادہ سے افضل، گاڑی چلانے والا موٹرساءیکل چلانے والے سے افضل، اور بڑی گاڑی چلانے والا چھوٹی گاڑی چلانے والے پہ برتری رکھتا ہے۔ مختصرا یہ کہ پاکستان والا حال ہے۔ فرق اتنا ہے کہ یہاں عورتیں بہت زیادہ نظر آتی ہیں اور خود کش حملہ آور موجود نہیں ہیں۔ ساءیگون جانے والے رعایتی سیاح ساءیگون کے ڈسٹرکٹ شمار ایک میں قیام کرتے ہیں۔ یہاں جگہ جگہ ٹریول ایجنسیاں ہیں اور یہاں سے چلنے والی بسیں دور دراز کے شہروں بشمول ہانگ کانگ تک جاتی ہیں۔


Labels: , , , , , ,


Comments: Post a Comment



<< Home

This page is powered by Blogger. Isn't yours?