Monday, December 24, 2012

 

کمپوچیا سے ویت نام




دسمبر تءیس، دو ہزار بارہ


ایک فکر کے سلسلے کا کالم

کالم شمار ایک سو سترہ




 کمپوچیا سے ویت نام


بارڈر کراسنگ، کمپوچیا سے ویت نام براستہ میکانگ
انسانی زندگی کا انحصار پانی پہ ہے۔ ہوا کے بعد پانی انسانی زندگی کے لیے سب سے اہم عنصر ہے۔ ہر علاقے کا بادشاہ ایک دریا ہوتا ہے۔ اس علاقے میں بسنے والے تمام لوگ اس دریا کے غلام  ہوتے ہیں۔ وہ لوگ دریا کی 'دریا دلی' سے فیضیاب ہوتے ہیں۔ اسی دریا کا پانی پیتے ہیں، اور دریا کے پانی ہی سے اپنے لیے غذا کا انتظام کرتے ہیں۔  تاریخ میں کءی بار ایسا ہوا ہے کہ دریا نے اپنا رخ بدلا تو بڑی بڑی بادشاہتیں اکھڑ گءیں۔ علاقے کے لوگ نقل مکانی پہ مجبور ہوءے۔ یہ ملک، یہ ریاستیں، یہ سرحدیں، نءے معاملات ہیں۔ دریا ان سیاسی بندشوں کو نہیں سمجھتے اور اسی لیے وہ تمام لوگ جو ایک مخصوص دریا سے مستفید ہوتے ہیں، ان کے لیے ضروری ہے کہ وہ آپس میں ایک دوسرے سے اچھے تعلقات رکھیں۔ دریا بلندی سے پستی تک، یعنی پہاڑ سے سمندر تک بہتے ہیں۔ جو لوگ دریا کے ساتھ جتنی بلندی پہ رہتے ہیں ان کا اتنا ہی فرض ہے کہ وہ دریا سے فیضیاب تو ہوں مگر اس پانی کو آلودہ نہ کریں کہ اس پانی کو ابھی پستی کی طرف بہتے ہوءے بہت سے اور لوگوں تک پہنچنا ہے۔ دریاءے میکانگ تبت سے نکلتا ہے اور چین سے ہوتا ہوا برما، تھاءی لینڈ، اور پھر لاءوس میں داخل ہوتا ہے۔ لاءوس میں داخل ہونے کے بعد میکانگ شمال سے جنوب کی طرف بہتا ہے۔ پھر یہ ایک اور سرحد پار کرتا ہے اور کمپوچیا میں داخل ہوجاتا ہے۔ کمپوچیا میں میکانگ شمال مغرب سے جنوب مشرق کی طرف چلتا ہوا ویت نام کی طرف بڑھتا ہے۔ ویت نام میں داخل ہونے کے بعد یہ دریا مزید جنوب مشرق کی طرف بہتا ہوا بالاخر بحیرہ جنوبی چین میں مل جاتا ہے۔ بہت سال پہلے میں نے میکانگ پہ لاءوس کے اندر سفر کیا ہے۔ اس حالیہ سفر میں میکانگ پہ بہاءو کے ساتھ چلتے ہوءے کمپوچیا اور ویت نام کی سرحد پار کرنا تھی۔ ہمیں جس روز دریا پہ سفر کرنا تھا اس سے ایک روز پہلے ہی ہم کشتی چلنے کے اوقات معلوم کر آءے تھے۔ پھنوم پین میں ہوٹل کا کمرہ چھوڑنے کے بعد جب ہم ٹک ٹک میں آکر بیٹھے تو ہوٹل کا ایک نماءندہ بھاگتا ہوا آیا۔ اس نے خالی کیا جانے والا کمرہ دیکھا تھا اور اسے ٹی وی کا ریموٹ نہیں مل رہا تھا۔ ہم نے اسے یقین دلایا کہ ہم ریموٹ اپنے ساتھ ویت نام نہیں لیے جا رہے تھے بلکہ ریموٹ کمرے ہی میں تھا۔ کشتی میں سوار ہونے سے پہلے ایک اہم کام ڈاکخانے سے ڈاک کے ٹکٹ لے کر دو پوسٹ کارڈ حوالہ ڈاک کرنے کا تھا۔  ٹک ٹک جب ڈاکخانے کے قریب پہنچی تو دفعتا ہمیں خیال آیا کہ وہ تو اتوار کا روز تھا، ڈاکخانہ تو بند ہوگا۔ مگر حیرت انگیز طور پہ ایسا نہ تھا۔ ڈاکخانہ کھلا ہوا تھا۔ ہم نے جلدی سے ٹکٹ خریدے، انہیں پوسٹ کارڈ پہ لگایا اور پوسٹ کارڈ ڈاکے کے ڈبے میں ڈال دیے۔ کسی زمانے میں ہم سفر میں یہ تین کام ضرور کیا کرتے تھے: ہر نءے ملک سے پوسٹ کارڈ روانہ کرنا، اس ملک کا ایک اخبار جمع کرنا، اور اس ملک میں سب سے زیادہ مقبول موسیقی کا ایک کیسیٹ خریدنا۔ مگر رفتہ رفتہ احساس ہوا کہ سوغاتیں جمع کرتے کرتے ہمارے پاس کافی 'کوڑا' جمع ہوگیا ہے چنانچہ اب کبھی کبھار پوسٹ کارڈ ہی روانہ کر دیتے ہیں اور اکثر و بیشتر محض تصاویر کھینچ کر 'سوغات' جمع کرنے کی خواہش پوری کر لیتے ہیں۔ پھنوم پین سے ویت نام کے قصبے چاءو ڈوک تک جانے والی کشتی میں ہم چار کے علاوہ محض ایک اور مسافر تھا۔ اس مسافر نے اپنا تعارف کرایا کہ وہ آسٹریلیا سے تھا اور چاءو ڈوک کے قریب ایک قصبے میں انگریزی پڑھا رہا تھا۔ حالانکہ وہ بہت گہرے آسٹریلین لہجے میں انگریزی بول رہا تھا مگر شکل و صورت سے وہ شخص دیسی ہی نظر آتا تھا۔  ہم نے قیاس کیا کہ وہ یا اس کے والدین فجی سے آسٹریلیا منتقل ہوءے تھے۔ ایک وقت تھا کہ ہم لوگوں سے ان کی شناخت سے متعلق اپنا قیاس بیان کر دیتے تھے مگر اب سیکھ گءے ہیں کہ اکثر لوگ یہ پسند نہیں کرتے کہ انہیں کھول کر بتا دیا جاءے کہ ہم کیا سمجھے ہیں کہ وہ اصل میں کون ہیں۔ کشتی کا ٹکٹ لینے کے بعد جب ہم کشتی میں سوار ہونے کے لیے چلے تو پہلی نظر ایک بہت بڑے بحری جہاز پہ پڑی جو سامنے ہی لنگر انداز تھا۔ اس جہاز میں سینکڑوں مسافروں کی گنجاءش تھی۔ ہم نے دل میں سوچا کہ پانچ مسافروں کے لیے اتنے بڑے جہاز کا استعمال فضول خرچی تھی مگر اس کے ساتھ اطمینان ہوا کہ بڑے جہاز میں سفر آرام دہ گزرے گا۔ مگر بڑے جہاز تک پہنچنے سے پہلے ہی ہمارا راہ نما داءیں طرف مڑ گیا۔ وہاں سامنے ایک بڑی کشتی کھڑی نظر آءی۔ اس بڑی کشتی میں لگ بھگ سو لوگ باآسانی سوار ہو سکتے تھے۔ ایک بار پھر پانچ لوگوں کے لیے سو لوگوں کی کشتی کا استعمال فضول خرچی معلوم ہوءی۔ مگر بڑی کشتی تک پہنچنے سے پہلے ہی ہمارا راہ نما ایک پھر داءیں طرف مڑ گیا۔ اب سامنے ایک چھوٹی کشتی کو کھڑا پایا۔ اس کشتی میں محض سات لوگوں کے بیٹھنے کی جگہ تھی۔ یہی کشتی ہمیں ویت نام لے جا رہی تھی۔ کشتی میں ہمارا مختصر سامان کشتی کے پچھلے حصے میں ڈھیر کیا گیا اور ہمارے سوار ہونے کے بعد کشتی جنوب کی طرف چلنا شروع ہوءی۔ دھوپ نکلی ہوءی تھی مگر درجہ حرارت معتدل تھا۔  ہم کشتی میں دریا کے بہاءو کے ساتھ ساتھ چلتے رہے۔ اسی بہاءو سے دریا کے ساتھ چلنے والے دریاءی پودے اور جھاڑ جھنکاڑ بھی بہے جا رہا تھا۔ کشتی میں بیٹھے بیٹھے ہمیں جان کیری کا خیال آیا کہ انہوں نے بھی اس دریا پہ ایک جنگی کشتی میں سفر کیا ہے؛ گو کہ بہت سے لوگوں کی راءے میں جان کیری نے اپنی اس فوجی سروس کو مصالحے لگا کر مبالغہ آراءی سے بیان کیا ہے۔ میکانگ پہ چلتے جب ہم کشتی میں بیٹھے بیٹھے عاجز آگءے تو کشتی کمپوچیا کی سرحدی چوکی پہ جا لگی۔ چوکی دریا کے ساتھ اونچاءی پہ تھی اور وہاں پہنچنے کے لیے بانس کی ایک سیڑھی چڑھنا تھی۔ چوکی ویران پڑی تھی۔ وہاں ہمارے پاسپورٹ جانچے گءے اور ان میں خروج کی مہر لگا دی گءی۔ کشتی ایک دفعہ پھر چلنا شروع ہوءی اور تھوڑی سی مسافت میں کمپوچیا اور ویت نام کی باہمی سرحد پار کرنے کے بعد ویت نام کی سرحدی چوکی پہ رکی۔ ویت نام کی چوکی کمپوچیا کی چوکی سے بہتر حالت میں صاف ستھری نظر آءی؛ وہاں ایک چھوٹا سا ریستوراں بھی تھا۔ اس چوکی پہ ہمارا سامنا امیگریشین افسر سے نہ ہوا۔ کشتی کا ناخدا ہمارے پاسپورٹ لے کر چوکی کے اندرونی دفتر میں گھس گیا اور کچھ دیر میں ہمارے پاسپورٹ پہ آمد کی مہر لگوا کر باہر آیا۔ کشتی ایک بار پھر چلنا شروع ہوءی۔ اب دریا کے دونوں طرف آبادی نظر آرہی تھی۔ چاءو ڈوک کے قریب پہنچنے پہ کشتی ایک جزیرے کے سامنے سے مڑی اور قریبا الٹی سمت چلنا شروع ہوءی۔ چاءو ڈوک میں ہمیں ایک ساحلی ریستوراں پہ چھوڑ دیا گیا۔ ہم ریستوراں سے باہر نکلے تو ساءکل رکشے والے ہمیں ہوٹل تک چھوڑنے کی پیشکش کرنے لگے مگر ہمیں اندازہ تھا کہ ہم نے جس ہوٹل میں ریزرویشن کرواءی تھی وہ بہت زیادہ فاصلے پہ نہ تھا۔ ہم پیدل چلتے ہوءے اپنے ہوٹل تک پہنچ گءے۔

Labels: , , , ,


Comments: Post a Comment



<< Home

This page is powered by Blogger. Isn't yours?