Monday, December 10, 2012

 

سفر ہے شرط



دسمبر تین، دو ہزار بارہ


ایک فکر کے سلسلے کا کالم

کالم شمار ایک سو چودہ


 سفر ہے شرط


اس سال بہت سے جاننے والوں نے حج کیا۔ ان تمام لوگوں کو حج مبارک ہو۔ مجھے دوسرے اراکین اسلام کے مقابلے میں حج زیادہ پسند ہے کیونکہ مذہبی راہ نماءوں نے دوسرے اراکین میں مرد و عورت کی جو تفریق پیدا کر دی ہے وہ اب تک حج میں نہیں ہے۔ مرد و عورت سب ساتھ حج کرتے ہیں اور اس درمیان میں نماز بھی ساتھ پڑھتے ہیں۔ مگر اس کے باوجود مجھے موجودہ دور کا حج کچھ عجیب معلوم دیتا ہے۔ لگتا ہے کہ اس میں کوءی بڑی کمی ہے۔ حج کا مقصد جہاں اس جگہ پہنچنا تھا جس طرف منہ کر کے آپ ساری عمر نماز پڑھتے ہیں، وہیں حج کا تعلق سفر سے بھی تھا۔ انسان جب سفر کرتا ہے تو اپنے مانوس ماحول سے باہر نکلتا ہے۔ پرانے وقتوں میں کسی دور دراز جگہ جانے کے لیے لمبا زمینی فاصلہ طے کرنا ہوتا تھا۔ اس زمینی سفر میں آپ بھانت بھانت کے لوگوں سے ملتے تھے، مختلف طرح کا جغرافیہ دیکھتے تھے۔ اور یوں یہ سفر آپ کے لیے زبردست تعلیم کا ذریعہ بنتا تھا؛ حج کا سفر آپ کو بہت کچھ سوچنے پہ مجبور کرتا تھا۔ موجودہ دور کے حج میں آپ ہواءی جہاز سے اڑ کر سیدھا جدہ پہنچ جاتے ہیں اور آپ کو راستے میں سیکھنے کو کچھ خاص نہیں ملتا۔ اسی لیے میری خواہش ہے کہ جب اللہ تعالی مجھے حج کی سعادت دے تو میں پیدل حج کروں۔
مجھے سفر کرنا اچھا لگتا ہے خاص طور پہ ایسا سفر جو زمین کے ساتھ ساتھ کیا جاءے۔ سفر پہ روانگی سے پہلے آپ سفر کی تیاری کرتے ہیں۔  آپ اپنی جگہ چھوڑ کر دور جا رہے ہوتے ہیں اس لیے اپنے ساتھ ضرورت کی خاص چیزیں رکھنا چاہتے ہیں۔ سفر کا سامان باندھتے ہوءے آپ کو اندازہ ہوتا ہے کہ زندگی گزارنے کے لیے آپ کو کس قدر کم چیزوں کی ضرورت ہے۔ اور آپ نے نہ جانے کیاکچھ اپنے پاس جمع کر رکھا ہے۔ سفر کی تیاری کرنا موت کی تیاری کرنے سے مطابق ہے۔ اس موقع پہ آپ کو اپنی زندگی کو از سر نو دیکھنے کا موقع ملتا ہے۔ آپ سوچتے ہیں کہ آپ کے لیے کوسی چیزیں اہم ہیں اور کون سی غیر اہم۔
تھاءی لینڈ میں مشرق کی طرف بڑھتے ہم بینکاک سے آگے ایسے علاقے میں آگءے جو پاکستان کی طرح تھا؛ جہاں ٹریفک کی سرخ بتی حکم نہیں ہوتی بلکہ ایک درخواست ہوتی  ہے۔ کسی نے قبول کی اور کسی نے نہ کی۔ چنانچہ ہر اشارے پہ گرچہ کہ وہ سبز ہی کیوں نہ ہو آپ کو احتیاط سے آگے بڑھنا ہوتا ہے کہ شاید دوسرے رخ سے آنے والے نے سرخ بتی کی فریاد کو نظر انداز کردیا ہو۔ بس نے ہمیں بارڈر پوسٹ پہ اتارا تو شام ہو چلی تھی۔ اندھیرا ہونے سے پہلے کمبوڈیا کے شہر سییم ریپ پہنچنے کا ارادہ دھرا کا دھرا رہ گیا تھا۔ تھاءی لینڈ-کمبوڈیا کی سرحد پہ ایک سے بڑھ کر ایک چالباز بیٹھے تھے۔ وہ سرحد تک پہنچنے سے پہلے ہی ہمیں کمبوڈیا کا ویزا بیچنا چاہتے تھے۔ ہم ان لوگوں کو نظر انداز کرتے ہوءے آگے بڑھتے رہے۔ ایک جمع غفیر تھا جو بارڈر چیک پوسٹ کی طرف بڑھ رہا تھا۔ ہم اس الگ راستے سے تھاءی بارڈر پوسٹ کی چھوٹی سی عمارت میں داخل ہوءے جوغیرملکیوں کے لیے مختص تھا ۔ دوسری جگہ ایک لمبی قطار تھی۔ تھاءی کاءونٹر پہ بیٹھی عورت نے ہمیں اشارے سے آگے بلایا۔ ہمارا پاسپورٹ دیکھا اور اس میں خروج کی مہر لگا دی۔  اس عمارت سے نکل کر وہ چھوٹا سا پل پار کیا جسے دوستی کا پل کہتے ہیں۔ سفری کتاب میں تاکید تھی کہ پل پار کرتے ہوءے نیچے مت دیکھیے گا۔ چنانچہ فورا جھانک کر نیچے دیکھا۔ نیچے ایک گندا نالہ بہہ رہا تھا جس سے اٹھنے والی بدبو اوپر تک آرہی تھی۔ یہی گندا نالہ اس مقام پہ تھاءی لینڈ اور کمبوڈیا کے درمیان سرحد کا کام دیتا ہے۔ کمبوڈیا کی سرحدی چوکی پہ پہنچ کر پہلا کام ویزا لگوانا تھا۔ ویزا کا فارم جلدی سے بھرا اور کھڑکی پہ درخواست اور پاسپورٹ تھما دیے۔ ہمارا پاسپورٹ ویزا لگنے کے لیے گیا ہی تھا کہ ایک معصوم شکل کمبوڈین افسر ہمارے لیے داخلہ کارڈ لے آیا کہ ہمیں وہ فارم بھرنا تھا۔ کارڈ ہمیں تھمانے کے بعد اس نے لجلجاتے ہوءے ہم سے دس ڈالر کی فرماءش کر دی۔ ہمارے پاس کچھ تھاءی بھات اضافی بچے تھے۔ ہم نے اسے بتایا کہ ہم دس ڈالر تو نہیں دیں گے مگر چند بھات ضرور دے دیں گے۔ چنانچہ اسے کچھ بھات دیے جو اس نے خوشی خوشی لے لیے۔
ویزا لگوانے کے بعد تھوڑا سا اور چلنا پڑا اور پھر کمبوڈیا کی سرحدی چیک پوسٹ آگءی۔ وہاں ہمارا ویزا جانچا گیا اور پھر پاسپورٹ میں داخلے کی مہر لگا دی گءی۔ دونوں سرحدی چوکیاں پار کرنے کے دوران ایک نوجوان مستقل ہمارے ساتھ ساتھ رہا تھا اور ہمیں بتاتا گیا تھا کہ اب یہاں جانا ہے، اب یہ کرنا ہے۔ ہم نے اسے کءی دفعہ ڈانٹ کر بھگانے کی کوشش کی تھی مگر وہ ثابت قدمی سے ساتھ لگا رہا تھا۔ کمبوڈیا کی سرحدی چوکی سے نکلنے کے بعد وہ پھر نمودار ہوا۔ اس نے ہمیں بتایا کہ ایک مفت شٹل ہمیں بس اسٹیشن تک لے جاسکتی ہے۔ ہم نے اس کی یہ بات غور سے سنی۔ اسے اندازہ ہو گیا کہ ہم کچھ پگھلے ہیں۔ وہ ہمارے آگے آگے چل پڑا۔ اس نے ایک وین کی طرف اشارہ کیا جو ہمیں بس اسٹیشن تک لے جاءے گی۔ ہم اس وین میں سوار ہو گءے۔ وہ بھی ساتھ آگیا۔ وین چلنا شروع ہوءی تو اس نے اپنی شکایت شروع  کی کہ ہم نے اسے ڈانٹا تو اسے بہت برا لگا تھا۔ وہ کمبوڈیا کا حکومتی اہلکار ہے اور اس کا کام ہی کمبوڈیا آنے والے سیاحوں کو مدد فراہم کرنا ہے۔ ہم نے ندامت کے احساس سے اس سے معافی مانگی۔
پوپیٹ کا بس اسٹیشن سنسان پڑا تھا۔ باہر ایک گاڑی موجود تھی۔ معلوم ہوا کہ رات کے اس وقت کوءی بس سییم ریپ کے لیے نہ تھِی۔ ہمیں ٹیکسی لینی ہوگی جو کہ اسٹیشن کے باہر موجود واحد گاڑی تھی۔ سفر پہ روانہ ہونے سے پہلے ہم نے اپنے ڈاکٹر سے معلوم کیا تھا کہ ہمیں سفر میں کن بیماریوں کی مدافعت کے لیے دوا کھانی ہوگی۔ بتایا گیا کہ کمبوڈیا میں ملیریا سے بچنے کے لیے گولیاں کھانی ہوں گی۔ ہم نے سوچا تھا کہ کمبوڈیا پہنچ کر تیل دیکھیں گے اور تیل کی دھار دیکھیں گے۔ اگر مچھر نظر آءے تو ملیریا کی گولیاں کھاءیں گے۔ مچھر نظر نہ آءے تو گولیاں کھانے کے دلدر میں نہ پڑیں گے۔ مگر کمبوڈیا کے مچھروں نے زیادہ سوچنے سمجھنے کی مہلت نہیں دی۔ ہم وین سے اترے ہی تھے کہ مچھروں کے ایک بڑے جھنڈ سے پالا پڑا جس میں سے کءی ہم پہ پل پڑے اور ہمیں اچھی طرح کاٹا۔

Labels: , , , , , ,


Comments: Post a Comment



<< Home

This page is powered by Blogger. Isn't yours?