Monday, December 24, 2012
آتشیں اسلحہ، یادداشتیں فصل دوءم
دسمبر سترہ، دو ہزار بارہ
ایک فکر کے سلسلے کا کالم
کالم شمار ایک سو سولہ
آتشیں اسلحہ،
یادداشتیں فصل دوءم
جدید
دنیا میں کسی بھی مہذب معاشرے کا سب سے اہم فرض لوگوں کے جان ومال کی حفاظت کرنا
ہے۔ لوگوں کی جان و مال محفوظ ہے تو معاشرہ اچھا ہے۔ وہاں رہا جا سکتا ہے، کاروبار
کیا جا سکتا ہے۔ اگر کہیں جان و مال محفوظ نہیں ہے تو وہ جگہ رہنے کے قابل نہیں
ہے۔ وہ جگہ کاروبار کرنے کے قابل نہیں ہے۔ واضح رہے کہ جدید دنیا میں ایک انسان کو
سب سے بڑا خطرہ دوسرے انسان سے ہے۔
پہلے
جانوروں کو زیر کرنے کے لیے اور پھر اپنے جیسے دوسرے انسانوں کو پچھاڑنے کے لیے
آدمی نے ہتھیار بناءے اور پھر وقت کے ساتھ ساتھ ان ہتھیاروں کو مہلک سے مہلک کرتا
گیا۔ پہلے تلوار کا استعمال کہ جس میں اپنے دشمن پہ وار کرنے کے لیے دشمن کے بالکل
قریب ہونا ضروری تھا۔ پھر برچھی اور تیر کا استعمال کہ جس میں اپنے دشمن پہ کچھ
دور سے وار کیا جاسکتا تھا۔ اور اب جدید دنیا کے ہتھیار کہ جن کا استعمال ہزاروں
میل دور بیٹھ کر کیا جا سکتا ہے اور دشمن محض ایک نقطے کی صورت میں کسی اسکرین پہ
ہدف نظر آتا ہے۔ شکر ہے کہ ٹیکنالوجی وہاں نہیں پہنچی ہے جہاں ایسے مہلک ہتھیار
انفرادی طور پہ لوگوں کے پاس ہوں۔ وسیع پیمانے پہ تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کا
استعمال اب تک محض ریاست کا حق ہے۔ مگر انفرادی طور پہ ایسے آتشیں ہتھیار لوگوں کے
پاس ضرور موجود ہیں جن کے استعمال سے وہ ذرا سی دیر میں بہت سے افراد کو مار سکتے
ہیں۔ مسلح افراد کا ایک چھوٹا گروہ بہت بڑے غیر مسلح گروہ کو قابو میں کر سکتا ہے۔
اس آخری نکتے کو سمجھتے ہوءے ہی جرح کی جاتی ہے کہ معاشرے میں ہر شخص کے پاس آتشیں
اسلحہ ہونا چاہیے تاکہ کبھی کوءی گروہ زبردستی بندوق کے زور پہ لوگوں پہ حاوی نہ
ہوجاءے۔ پھر یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اگر اسلحہ حاصل کرنا جرم ٹہرایا گیا تو صرف
جراءم پیشہ افراد مسلح ہوں گے اور یہ بہت خظرناک بات ہوگی۔
مگر
کیا کیجیے کہ انسان کا مزاج مستقل بدلتا رہتا ہے۔ کیا آپ پہ ایسا وقت نہیں آیا کہ
آپ کو کسی پہ شدید غصہ آیا ہو اور اس غصے میں آپ قریبا پاگل ہی ہو گءے ہوں؟ اگر
کمزوری کے ایسے لمحے میں آپ کے پاس آتشیں اسلحہ ہوتا تو آپ کیا کرتے؟ پھر کچھ لوگ ذہنی بیمار بھی تو ہوتے ہیں۔ ایسے
نفسیاتی مریض اپنی بیماری میں بہت سے لوگوں کو مار سکتے ہیں۔ ایک عرصے سے امریکہ میں ایسی وارداتیں ہو رہی ہیں
جن میں کسی طالب علم نے اپنے اسکول یا یونیورسٹی پہنچ کر بہت سے لوگوں کو گولی سے
اڑا دیا۔ پھر کچھ کچھ دنوں بعد ایک مجذوب آتشیں اسلحے سے لیس معصوم لوگوں کے گروہ
میں داخل ہوتا ہے اور اسلحہ چلا کر دسیوں کو ذرا سی دیر میں ڈھیر کر دیتا ہے۔ ایسا
ذہنی مریض اس حملے کے آخر میں یا تو خود اپنے آپ کو ہلاک کر لیتا ہے یا پولیس اسے
مار ڈالتی ہے۔ سانپ نکل جاتا ہے اور لوگ لکیر پیٹتے رہ جاتے ہیں۔ اسی نوعیت کا
تازہ واقعہ ریاست کنیٹی کٹ کا ہے جہاں ایک نوجوان نے چھوٹے بچوں کے اسکول میں داخل
ہو کر بیس بچوں کو گولیوں سے بھون ڈالا۔
ہر اس طرح کے واقعے کے بعد یہ بحث زور پکڑ جاتی ہے کہ کیا آتشیں اسلحے پہ
پابندی ہونی چاہیے۔ کیا امریکی آءین کی اس ترمیم کو تبدیل کیا جاءے جس کے رو سے ہر
شہری کو اسلحہ رکھنے کا حق حاصل ہے؟ اس
لکھنے والے کی راءے میں اس مسءلے کو سیاہ و سفید کی شکل میں دیکھنا مناسب نہیں ہے۔
اسلحہ رکھنے پہ مکمل پابندی اور اسلحہ رکھنے کی کھلی چھوٹ کے درمیان ایک راہ موجود
ہے۔ ہم یقینا آتشیں اسلحے پہ پابندی نہیں
دیکھنا چاہتے کہ ایسی پابندی کا نفاذ نہ صرف یہ کہ قریبا ناممکن ہے بلکہ ایسی
پابندی معاشرے کے بڑے حصے کے لیے نقصان دہ ہوسکتی ہے۔ کیوں نہ ایسے قوانین تشکیل
دیے جاءیں جو ہر فرد کو اسلحہ حاصل کرنے کی آزادی تو دیں مگر اسلحے کو حفاظت سے
رکھنے کی ذمہ داری اس فرد سے وابستہ بہت سے لوگوں کی ہو؟ قوانین اس نوعیت کے ہو سکتے ہیں جن میں اٹھارہ
سے چالیس سال کے لوگوں پہ پابندی ہو کہ وہ تیزی سے فاءر کرنے والا خودکار اسلحہ
نہیں رکھ سکتے۔ اسلحہ رکھنے والے کے متعلقین کو ایسے قوانین سے پابند کیا جاءے جن
کی رو سے کسی اسلحہ رکھنے والے کا خراب ذہنی توازن فوری طور پہ قانون نافذ کرنے
والے اداروں کے علم میں لایا جاءے تاکہ اس شخص سے اسلحہ ضبط کیا جا سکے۔ پھر ایسے قوانین ہوں جو اسلحہ لے کر چلنے پہ
پابندی لگاءیں اور لوگوں کو مجبور کریں کہ وہ اسلحہ گھر پہ یا کام کی جگہ پہ مقفل
حالت میں رکھیں۔
بات
قتل و غارت گری کی ہورہی ہے تو کمپوچیا کے حکمراں پول پاٹ کا ذکر ہوجاءے جس کے دور
حکومت میں لاکھوں کی تعداد میں اس کے مخالفین قتل کیے گءے۔
پھنوم پین میں قیام کے دوران چوینگیک نامی اس کیمپ میں جانے
کا اتفاق ہوا جہاں خمیر روج کے مخالفین ہزاروں کی تعداد میں قتل کیے گءے۔ یہ کیمپ
بہت وحشت ناک جگہ ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اب بھی بارشوں کے موسم میں قتل کیے جانے والے
افراد کی ہڈیاں اور دانت زمین سے نکل کر اوپر آجاتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ یہاں پول
پاٹ کے مخالفین ٹرک میں بھر کر لاءے جاتے تھے اور پھر انہیں ڈنڈوں سے مار کر ہلاک
کیا جاتا تھا۔ چھوٹے بچوں کو ٹانگوں سے پکڑ کر درخت سے مار مار کر ختم کیا جاتا
تھا۔ بندوق کی گولیاں مہنگی تھیں اس لیے لوگوں کو مارنے کے یہ اذیت ناک طریقے
اختیار کیے جاتے تھے۔ اور اس طرح کے قتل کے دوران ملی نغمے زور زور سے بجاءے جاتے
جس کی آواز میں مارے جانے والے فرد کی چیخیں دب جاتیں۔ آپ چوینگیک میں داخل ہوں تو
آپ کو ایک آڈیو ٹیپ دیا جاتا ہے۔ آپ کانوں پہ ہیڈ سیٹ لگا کر آڈیو سنتے جاتے ہیں
اور منزل در منزل آگے بڑھتے رہتے ہیں۔ اسی آڈیو کے آخر میں کہا گیا کہ دنیا بھر کے
لوگوں کے لیے کمپوچیا کی تاریخ کا یہ سیاہ باب جاننا ضروری ہے کیونکہ اس طرح کا
ظلم دنیا میں آج بھی کہیں بھی ہو سکتا ہے۔ چوینگیک سے واپس آنے کے بعد میں سوچتا
رہا کہ کیا واقعی ایسا ظلم آج بھی ہو سکتا ہے۔ آج کی دنیا تیزترین مواصلات کی وجہ
سے آپس میں بندھی ہوءی ہے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ کسی جگہ ایک دیوانہ شخص حکومت کرنے
لگے اور اپنے مخالفین کو پکڑ پکڑ کر قتل کرنا شروع کر دے، اور باہر کی دنیا کو اس
کی خبر ہی نہ ہو؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ یہ
ٹی وی، یہ انٹرنیٹ دنیا کی بڑی آبادی کے لیے تو دستیاب ہیں مگر سب کے لیے نہیں،
اور اس وجہ سے دنیا کے کسی چھپے کونے کھدرے میں اس طرح کا ظلم آج بھی ممکن ہے اور
شاید ہو بھی رہا ہو؟
Labels: Cambodia, Connecticut School shooting, Gun control, Khmer Rouge, Killing fields of Choeung Ek, Phnom Penh, Pol Pat