Monday, November 26, 2012

 

موت، چچی، کاوس جی




نومبر چھبیس، دو ہزار بارہ


ایک فکر کے سلسلے کا کالم

کالم شمار ایک سو تیرہ


 موت، چچی، کاوس جی


موت اس دنیا کی بہت بڑی حقیقت ہے۔ اتنی بڑی کہ اس کے سامنے زندگی کی حقیقت ہیچ معلوم دیتی ہے۔ موت  زندگی کے مختصر وجود کے دونوں طرف دور تک پھیلی ہوءی ہے۔ ہم موت کی آغوش میں اس وقت بھی تھے جب ہم پیدا نہ ہوءے تھے اور پھر اپنی زندگی ختم کرنے کے بعد دوبارہ موت کی آغوش میں چلے جاتے ہیں۔ موت سے میرا قریبی  تعارف لڑکپن میں ہوا۔ میں بہت افسردہ ہوا اور سوچتا رہا کہ انسان کے لیے آخر مرنا کیوں ضروری ہے۔ مجھے یہ بات بہت بعد میں سمجھ میں آءی کہ انسان ساری عمر جو محسوسات، تعصبات، اور دنیا کو دیکھنے کا ڈھنگ اپنے ذہن میں جمع کر لیتا ہے، وہ موت سے ختم ہوجاتے ہیں۔ وقت کے ساتھ لوگ پرانے ہو جاتے ہیں اور زمانہ بدل جاتا ہے۔ مگر پرانے لوگ وہی پرانے انداز سے نءے زمانے کو دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ ان پرانے لوگوں کی موت سے پرانی سوچ ختم ہوجاتی ہے۔ پھر نئے لوگ پیدا ہوتے ہیں۔ بچے جو معصوم ہوتے ہیں، جن کے ذہن کوری تختی کی طرح خالی ہوتے ہیں۔ ان کوری تختیوں پہ نءے زمانے کے نءے خیالات لکھے جاتے ہیں۔  زمانہ اسی طرح پرانے لوگوں کا جمود ختم کرکے آگے بڑھتا رہتا ہے۔
 چوبیس نومبر کو دنیا بھر میں جو ہزاروں لوگ اس دنیا سے گزر گءے ان میں سے دو لوگ میرے شناسا تھے؛ ایک سے شناساءی زیادہ تھی اور دوسرے سے کم، ایک میری چچی اور دوسرے آردیشر کاوس جی۔ میں اپنی چچی کو اس وقت سے دیکھ رہا تھا جب وہ دلہن بن کر ہمارے گھر آءیں تھیں کہ اس وقت ہمارے چچا ہمارے ساتھ ہی رہتے تھے۔ انسانی رشتے وقت کے ساتھ بدلتے رہتے ہیں۔ آپ اپنے بزرگوں کو اپنے بچپن اور لڑکپن میں ایک طرح دیکھتے ہیں اور پھر بڑے ہونے کے بعد ایک دوسری طرح۔ بڑے ہونے کا ایک نقصان یہ ہے کہ آپ وہ بہت ساری باتیں سوچنے لگتے ہیں جن سے آپ کا ذہن بچپن میں آزاد ہوتا ہے۔ آپ کسی سے شناسا ہو کو سوال کرتے ہیں کہ آیا وہ شخص زندگی سے خوش ہے۔ کہ وہ شخص دنیا کو کس نظر سے دیکھتا ہے؟ کہ زندگی کے کن رنگوں، کن حوادث نے اس کی شخصیت بناءی ہے؟ کہ وہ شخص کس طرح سے مرنا چاہے گا؟ اور یہ آخری سوال اہم ہے کہ اس کے جواب سے دوسرے سوالات کے جوابات مل جاتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ سوالات آپ اپنے بزرگوں سے نہیں پوچھ سکتے۔ مگر یہ آخری سوال میں دوستوں سے ضرور پوچھ لیتا ہوں۔ ان میں سے بہت سے ساتھی یہ سوال سن کر چونک جاتے ہیں کہ انہوں نے کبھی اپنی موت کے بارے میں سوچا ہی نہیں ہوتا۔ بات کہاں کی کہاں نکل گءی۔ چچی کے ساتھ اول دنوں کی یایں کچھ دھندھلی ہیں کہ اس وقت میری عمر زیادہ نہ تھی مگر یہ اچھی طرح یاد ہے کہ اس شادی کے بعد ہمارے وسیع خاندان میں چچی کے بھاءیوں اور بہنوں کا اضافہ ہو گیا۔ پھر ان دنوں کی یادیں ہیں جب چچا، چچی، اور ان کے تین بچے دبءی، سعودی عرب، اور پھر مصر میں قیام کے دوران پاکستان چھٹیوں میں آتے تھے ۔ ہر دفعہ جب چچی کراچی آتیں تو ہمارے لیے تحفے ضرور لاتیں۔ کراچی میں قیام کے دوران گھر گھر دعوتوں کا سلسلہ جاری رہتا اور چچی کے چکر درزی کی دکان پہ لگتے۔ ہمارے لیے چچی کی ایک بڑی افادیت یہ تھی کہ کبھی ہمیں چچا سے کوءی بات منوانی ہوتی تو اس کی سفارش چچی سے کرواتے۔ چچا بی سی سی آءی میں کام کرتے تھے چنانچہ جب وہ بینک بیٹھا تو چچا اور چچی اپنے بچوں کے ساتھ مستقلا کراچی آگءے۔ پھر میں دنیا کو جاننے کے لیے گھر سے نکل کھڑا ہوا۔  میں کراچی جاتا تو چچی سے ملاقات رہتی۔ چچی فرمان فتح پوری کی شاگرد رہیں تھیں اور شاعری کا اچھا ذوق رکھتی تھیں۔  میں نے ایک دفعہ ان کو وین ڈاءیر کی ایک کتاب دی تھی جسے انہوں نے شوق سے پڑھا تھا۔ وہ شادی بیاہ کے معاملات میں میری راءے ضرور لیتیں۔ عمر گزرنے کے ساتھ جب میرے پاگل پن میں بتدریج اضافہ ہوتا گیا تو وہ میری باتیں غور سے سنتیں اور ان باتوں میں فلسفہ تلاش کرنے کی ناکام کوشش کرتیں۔ گردے کی کمزوری کا مرض چچی کو اپنی والدہ سے وراثت میں ملا تھا۔ عمر گزرنے کے ساتھ  وہ عارضہ ان کو جسمانی طور پہ کمزور کرتا گیا۔ وہ ذرا سا چلتی پھرتیں تو تھک جاتیں۔ ہمارے گھر آتیں تو نقاہت سے لیٹ جاتیں؛ ان کے لیے فورا ٹھنڈا پانی لایا جاتا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ان کے گردے جواب دیتے گءے اور پھر ان کو باقاعدگی سے ڈاءلیسس کروانا پڑتا۔ قریبا دو ہفتے پہلے ان کی حالت بہت خراب ہوگءی۔ وہ بہت کمزور ہو گءیں تھیں۔ انہیں اسپتال میں انتہاءی نگہداشت میں رکھا گیا اور نومبر چوبیس کو وہ دنیا سے رخصت ہو گءیں۔ جہاں مجھے چچی سے بچھڑنے کا غم ہے کہ وہ مجھ سے بہت محبت کرتی تھیں وہیں مجھے چچا کا خیال ہے کہ ان کی بڑی مصروفیت چچی کی تیمارداری سے متعلق تھی۔ اب چچا کے پاس وقت بہت زیادہ ہوگا اور صبح و شام ساتھ رہنے والے لوگ کم۔
بہت عرصہ اخبارات میں کاوس جی کی تحریریں پڑھنے کے بعد جب میں ان سے بہ نفس نفیس ملا تو کاوس جی کے ذہن کو پڑھنے کی کوشش کرتا رہا۔ آردیشر کاوس جی نے اس کراچی میں آنکھ کھولی جو چھوٹا سا قصبہ تھا۔ بمبءی کی طرح کراچی کو بھی انگریزوں نے ایک جدید بندرگاہ قصبے کے روپ میں ڈھالا تھا۔ مطمع نظر سمندری تجارت تھا۔ اٹھارہ سو ستاون کے غدر کے بعد انگریزوں کا  اعتبار مسلمان اشرافیہ پہ سے اٹھ گیا۔ اسی خلا میں پارسی سماج تیزی سے آگے بڑھا۔ کاوس جی نے اس کراچی میں آنکھ کھولی جو ایک صاف ستھرا چھوٹا سا قصبہ تھا اور جہاں کاوس جی کا خاندان اہم اور متمول تھا۔ نوآبادیاتی نظام ہمارے لیے ایک بڑا عذاب تھا مگر اس بات میں کوءی شک نہیں کہ انگریز کو حکومت چلانے کا ڈھنگ آتا تھا۔ معاشرے میں نیچے کی سطح پہ لوگوں کو انصاف میسر تھا۔ اکیس سال کی عمر تک کاوس جی کو وہ ماحول ملا جس میں واحد قباحت بدیسی حکمراں تھے؛ ورنہ گھر میں خوشحالی تھی اور گھر سے باہر انصاف۔ پاکستان بننے کے بعد یہ حالات بدلتے گءے۔ ایک سے بڑھ کر ایک نااہل حکمران نے پاکستان پہ حکومت کی اور کیا انصاف اور کیا امن و امان سب عنقا ہوتا گیا۔ کاوس جی کی تحریروں میں اسی تلخ تبدیلی کا ماتم نظر آتا ہے۔ کاوس جی سے پہلی ملاقات کے بعد بناءی جانے والی ایک مختصر ویڈیو یہاں ملاحظہ فرماءیں:

 


Tuesday, November 20, 2012

 

مختصر، مختصر



نومبر انیس، دو ہزار بارہ


ایک فکر کے سلسلے کا کالم

کالم شمار ایک سو بارہ


 مختصر، مختصر




بال ٹھاکرے کی موت
سنہ سینتالیس میں نوآبادیاتی نظام کے عذاب سے نکلنے کے بعد آج تک جنوبی ایشیا کے لوگ ایک منصف، اچھی حکومت کی تلاش میں ہیں۔ ظلم یہ ہے کہ جب کبھی لوگ راءج معاملات سے تنگ آ کر اچھی حکومت کی تلاش میں نکلتے ہیں، وہ تلاش کسی نہ کسی نفرت کے نعرے میں بدل جاتی ہے۔ ایک گروہ اپنے کسی نہ کسی اختلاف کی بنیاد پہ دوسرے گروہ سے لڑ جاتا ہے۔ الزام آتا ہے کہ ساری خرابی دوسرے گروہ کی وجہ سے ہے۔ ان اختلافات کو خرابی کی وجہ بتانے والے نیتا، نفرت کی سیاست کرنے والے سیاست داں جگہ جگہ پاءے جاتے ہیں۔ کچے ذہن کے لوگ ان کی جذباتی تقاریر سن کر متاثر ہوتے ہیں اور ان قاءدین کا لب و لہجہ اپنا لیتے ہیں۔ مگر نہ جانے یہ لوگ یہ بات کیوں بھول جاتے ہیں کہ ایک دن مرنا بھی تو ہے۔ جو شخص بھی زندگی کی بے ثباتی کو اور موت کی حقیقت کو گہراءی سے سمجھتا ہو وہ بھلا کسی سے نفرت کیسے کر سکتا ہے؟
غزا میں ایک اور قیامت
مشرق سے اسراءیل میں داخل ہونے کی کوشش کی ناکامی کے بعد میں مغرب سے اسراءیل پہنچا تھا۔ یروشلم میں قیام کے دوران مغربی کنارے کی فلسطینی بستی بیت الحم تک جانا مشکل نہ تھا اس لیے وہاں چلا گیا مگر اسراءیل میں وقت کم تھا اس لیے غزا نہ جا سکا۔ مغربی کنارے کے فلسطینی مکمل طور سے اسراءیل کے تسلط میں ہیں۔ اس بات کا کوءی امکان نہیں کہ ان علاقوں میں رہنے والا کوءی فلسطینی اسراءیل پہ راکٹ سے حملہ کرے۔ مگر غزا کا جغرافیہ مختلف ہے۔ غزا کی سرحد مصر سے لگتی ہے۔ اس سرحد پہ یقینا اسراءیل کا پہرا ہے مگر فلسطینیوں کو زیر زمیں سرنگیں بنانے کا فن آتا ہے۔ غزا میں رہنے والے فلسطینیوں تک اسلحہ انہیں سرنگوں کے ذریعے پہنچتا ہے۔ سنہ دو ہزار آٹھ میں امریکہ کا صدر بننے سے پہلے باراک اوباما نے اسراءیل کا ایک دورہ کیا تھا۔ اس دورے میں انہوں نے کہا تھا کہ اگر میرے گھر پہ جہاں میری دو بچیاں سو رہی ہوں کوءی راکٹ برساءے تو میں ضرور بدلہ لوں گا؛ اور اسی طرح میں سمجھ سکتا ہوں کہ اسراءیل بھی اس طرح کی جارحیت کا جواب دے گا۔ کاش کوءی اوباما کو یہ سمجھاتا کہ اگر تمھیں ایک ایسا گھر کراءے پہ دیا جاءے جس کے اصل مالک کو نکال باہر کیا گیا تھا اور اب وہ اصل مالک غصے میں آکر اس گھر پہ راکٹ برسا رہا ہے، تو تمھیں چاہیے کہ تم حالیہ مکان مالک سے لڑو کہ اس نے تمھیں ایسا گھر کیوں کراءے پہ دیا جو دراصل کسی اور کی ملکیت ہے؟ افسوس کہ اوباما کو یہ منطقی بات سمجھانے والا کوءی نہیں۔ اور افسوس کہ غزا کے فلسطینی اسی طرح مارے جاتے رہیں گے جس طرح اس وقت مارے جا رہے ہیں۔ دنیا نے تہذیب کا جو پیراہن اوڑھ رکھا ہے وہ بہت باریک ہے، اس کے نیچے وہی پرانی درندگی ہے۔ جس کی لاٹھی اس کی بھینس والا معاملہ ہے۔ طاقتور جب چاہے کمزور کو دبا لیتا ہے۔ طاقتور سے رحم کی اپیل کرنا فضول ہے۔ ظلم سے بچنے کا صرف ایک طریقہ ہے اور وہ یہ کہ خود طاقتور بنا جاءے۔
کراچی میں جاری خوں ریزی
دو روز قبل کراچی کےعباس ٹاءون میں امام بارگاہ مصطفی پہ موٹرساءیکل میں نصب بم پھٹنے سے تین افراد ہلاک ہو گءے۔ آخری خبریں آنے تک پولیس تفتیش کر رہی تھی مگر کوءی واضح بات سامنے نہیں آءی تھی کہ یہ کام کس نے کیا۔ کس قدر باعث اطمینان ہے یہ بات قاتلوں اور دیگر جراءم پیشہ لوگوں کے لیے۔ یہ مجرم کراچی میں بلا خوف و خطر دندناتے پھرتے ہیں۔ انہیں اچھی طرح معلوم ہے کہ کوءی ان کا کچھ نہ بگاڑ پاءے گا۔ وہ بار بار دہشت گردی کی وارداتیں کریں گے اور بار بار باآسانی چھپ پاءیں گے۔ حکومت اس قدر کمزور ہے کہ جب وہ مجرموں کی سرکوبی نہیں کر سکتی تو جراءم روکنے کے لیے موٹرساءیکل چلانے پہ پابندی لگا دیتی ہے؛ موباءل فون بند کر دیے جاتے ہیں۔ اگر لاکھوں لوگ ان پابندیوں سے متاثر ہو 
رہے ہیں تو کیا ہوا، چند جراءم پیشہ لوگوں کے منصوبے تو دھرے کے دھرے رہ گءے۔

Labels: , , ,


Monday, November 12, 2012

 

متفرق موضوعات



نومبر بارہ، دو ہزار بارہ


ایک فکر کے سلسلے کا کالم

کالم شمار ایک سو گیارہ


 متفرق موضوعات


امریکی انتخابات
نومبر چھ کو ہونے والے امریکی انتخابات میں امریکی صدر باراک حسین اوباما ایک دفعہ پھر کامیاب ہوءے۔ ان کی کامیابی اس قدر تعجب کی بات نہیں ہے جس قدر اچھنبے کی بات یہ ہے کہ ان کے مخالف صدارتی امیدوار مٹ رومنی کو سینتالیس فی صد سے اوپر ووٹ کیسے ملے۔ لگتا ہے کہ یہ ووٹ رومنی کو اس لیے نہیں ملے کہ رومنی بہت سے لوگوں کو پسند تھے بلکہ رومنی کو ووٹ باراک اوباما سے بدظن ہو کر دیے گءے۔ اوباما سے عناد رکھنے والے لوگ دو طرح کے ہیں۔ ایک تو وہ ہیں جو نسل پرست ہیں اور اوباما سے ان کی نسلیت کی وجہ سے اللہ واسطے کا بیر رکھتے ہیں۔ ان لوگوں کا کچھ نہیں کیا جا سکتا۔ اوباما مخالف دوسرا گروہ وہ ہے جو نءی معیشت کی مار کھاءے ہوے ہے اور ہر اس شخص کو اس کی گدی سےاکھاڑ پھینکنا چاہتا ہے جو معیشت کو راتوں رات بدل کر ان کے معاشی حالات نہ صحیح کردے۔ کاش ان لوگوں کو کوءی سمجھاءے کہ اگر اوباما کی جگہ رومنی جیت جاتے تو وہ معیشت کا مزید بیڑا غرق کرنے کی صلاحیت رکھتے تھے۔ پاکستان میں جو لوگ امریکی فوجی جارحیت سے تنگ ہیں ان میں سے بھی بہت سے اوباما کو ہارتا دیکھنا چاہتے تھے، یہ جانے بغیر کہ اوباما کے مقابلے میں رومنی کس قسم کی فوجی جارحیت کے خیالات رکھتے ہیں۔
جنرل پیٹریس کا استعفی
سنہ ۲۰۰۳ میں عراق پہ امریکی فوجی یلغار کے وقت جب ہمسفر صحافی [انگریزی میں ایمبیڈڈ جرنلسٹ] کی اصطلاح ان صحافیوں کے لیے استعمال کی گءی جو امریکی فوجی دستے کے ساتھ ساتھ چل رہے تھے، کھارہے تھے، پی رہے تھے، اور سو رہے تھے تو اس لکھاری نے شور کیا کہ یہ لوگ ہمسفر صحافی نہیں بلکہ ہمبستر صحافی ہیں [ایمبڈڈ نہیں بلکہ ان-بیڈ جرنلسٹ ہیں]۔ اور یہ شور یہ سمجھ کر کیا گیا کہ رفاقت، آزادی صحافت میں خلل انداز ہوتی ہے۔ ایسا کیونکر ممکن ہے کہ آپ ایک مخصوص گروہ کے ساتھ اٹھیں بیٹھیں، اور کھانا کھاءیں اور آخر میں ان لوگوں پہ تنقیدی مضمون لکھ دیں؟  اپنی صحافیانہ ذمہ داری نبھانے کے لیے آپ کو یقینا موضوع کو قریب سے دیکھنا ہوتا ہے مگر اچھا نہیں ہے کہ آپ قربت کی اس آرزو میں موضوع سے بالکل شیر و شکر ہو جاءیں۔  ظاہر ہے کہ ہمسفر صحافیوں پہ یہ تنقید نقار خانے میں طوطی کی آواز ثابت ہوءی۔ بھلا ہو پالا بروڈویل کا جنہوں نے اب اچھی طرح ثابت کر دیا ہے کہ ہمسفر صحافی دراصل ہمبستر صحافی ہی ہوتا ہے۔ جس وقت جنرل پیٹریس افغانستان میں امریکی فوج کے کمانڈر کے طور پہ تعنیات تھے، پالا بروڈویل ہمسفر صحافی کے طور پہ ان کے ساتھ ساتھ رہیں۔ پالا بروڈویل دراصل جنرل پیٹریس پہ کتاب لکھنے کی وجہ سے جنرل کے ساتھ تھیں۔ افغانستان سے واپس آنے کے بعد بھی پیٹریس کا معاشقہ پالا بروڈویل کے ساتھ چلتا رہا حتی کہ بات کھل گءی اور جنرل پیٹریس کو سی آءی کے ڈاءریکٹر کے عہدے سے استعفی دینا پڑا۔
اصغر خان کیس
پچھلے ہفتے پاکستان سپریم کورٹ نے سولہ سال کے بعد اصغر خان کی درخواست کے جواب میں اپنا فیصلہ سنا دیا۔ واضح رہے کہ سنہ ۱۹۹۴ میں ایوان میں اس وقت کے وزیر داخلہ نصیراللہ بابر نے بیان دیا کہ سنہ ۱۹۹۰ کے انتخابات میں شدید دھاندلی ہوءی تھی اور پاکستانی فوج نے پیپلز پارٹی کے امیداواروں کو ہرانے کے لیے مخالف سیاستدانوں میں بھاری رقوم تقسیم کیں تھیں۔ جن سیاستدانوں کی جیبیں بھری گءیں ان میں نواز شریف سر فہرست تھے۔ یاد رہے کہ سنہ  ۱۹۸۸  میں فوجی حکمراں ضیاالحق کی موت کے بعد جو انتخابات ہوءے ان میں پیپلز پارٹی نے نمایاں کامیابی حاصل کی اور اپنی حکومت بناءی۔ مگر صرف دو سال بعد صدر غلام اسحاق خان نے نااہلی اور رشوت ستانی کے الزام میں بے نظیر بھٹو حکومت کو چلتا کیا۔ پھر سنہ ۱۹۹۰ کے انتخابات ہوءے۔ کہا جاتا ہے کہ انہیں انتخابات میں غلام اسحاق خان نے فوج اور مہران بینک کی مدد سے پیپلز پارٹی مخالف امیدواروں میں بھاری رقوم تقسیم کیں۔ سنہ ۱۹۹۰ کے انتخابات میں تحریک استقلال کے قاءد اصغرخان لاہور سے قومی اسمبلی کے امیدوار تھے۔ وہ یہ چناءو ہار گءے۔ جب سنہ ۱۹۹۴ میں یہ بات سامنے آءی کہ ۱۹۹۰ کے انتخابات میں نواز شریف کی جیب بھری گءی تھی تو اصغرخان نے عدالت عظمی میں درخواست جمع کی کہ وہ ان الزامات کی چھان بین کرے۔ اصغر خان کی درخواست عدالت کے کاغذات میں ادھر سے ادھر ہوتی رہی حتی کہ سنہ ۲۰۱۲ آگیا۔ پھر اچانک عدالت حرکت میں آءی اور چھان بین شروع ہوءی۔ جنرل درانی سنہ ۱۹۹۰ میں آءی ایس آءی کے چیف تھے۔ جنرل درانی نے اپنا بیان عدالت میں جمع کرایا کہ ہاں واقعی انہوں نے جنرل اسلم بیگ کے کہنے پہ رقوم سیاستدانوں میں تقسیم کیں تھیں۔ اسی بیان کی روشنی میں عدالت عظمی نے اپنا فیصلہ سنایا  کہ جنرل اسلم بیگ اور جنرل درانی سنہ ۱۹۹۰ میں سیاستدانوں میں رقوم تقسیم کرنے کے غیرآءینی کام میں ملوث تھے۔ اب یہ کام حکومت وقت کا ہے وہ ان سابقہ فوجیوں کو عدالت کے کٹہرے میں کھڑا کرے کہ انہوں نے ایسا غیرآءینی کام کیوں کیا۔ اس سلسلے میں کءی سوالات ہیں۔ عدالت نے اس مقدمے کا فیصلہ سولہ سال بعد اس موقع پہ کیوں کیا؟  کیا یہ فیصلہ پاکستانی فوج کو عدلیہ کا ایک چیلنج ہے؟ کیا پاکستانی فوج یہ برداشت کرے گی کہ اس کے سابقہ عہدیداران عدالت کے کٹہرے میں کھڑے ہوں؟ ہم ان سوالات کے جوابات اگلے کالم میں تلاش کریں گے۔

Labels: , , , , , , , , ,


Monday, November 05, 2012

 

طالبان بمقابلہ ایم کیو ایم




نومبر پانچ، دو ہزار بارہ


ایک فکر کے سلسلے کا کالم

کالم شمار ایک سو دس



 طالبان بمقابلہ ایم کیو ایم


ایک عرصے سے ایم کیو ایم کے قاءدین بالخصوص لندن میں بیٹھے الطاف حسین طالبان کے خلاف بیانات دے رہے ہیں۔ کچھ لوگوں کی نظروں میں ایم کیو ایم وہ واحد سیاسی جماعت ہے جو کھل کر طالبان اور انتہا پسندی کے خلاف بول رہی ہے۔ ملالہ یوسف زءی پہ طالبان کے حملے کے بعد الطاف حسین نے اپنے ٹیلی فونی خطاب میں طالبان کو خوب کھری کھری سناءیں تھی۔ پھر جب شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن کی بات آءی تو ایم کیو ایم نے اس تجویز کی کھل کر حمایت کی۔ اور اب ایم کیو ایم ایک ملک گیر ریفرنڈم کروانا چاہتی ہے جس میں لوگ فیصلہ کریں کہ آیا وہ طالبان کا پاکستان چاہتے ہیں یا محمد علی جناح کا پاکستان۔
احسان اللہ احسان اپنے نام سے تو شاعر معلوم دیتے ہیں مگر ہر دفعہ ان کا نام طالبان کے ترجمان کے طور پہ سننے میں آتا ہے۔ احسان اللہ احسان صاحب پاکستان کے سیاسی حالات پہ گہری نظر رکھتے ہیں اور وقتا فوقتا  نامعلوم مقام سے فون کر طالبان کی طرف سے بیانات اخبارات میں شاءع کرواتے ہیں۔ یہ کہنا مشکل ہے کہ آیا یہ ایک ہی آدمی ہے جو طالبان کا ترجمان بن کر فون کرتا ہے یا کءی لوگ ہیں اور کسی دن کوءی اور کسی دن کوءی اور احسان اللہ احسان کے نام سے فون کرتا ہے۔ پھر یہ کیسے یقین کیا جاءے  کہ فون واقعی احسان اللہ احسان صاحب کر رہے ہیں۔ کوءی بھی اپنا نام احسان اللہ احسان بتا کر طالبان کے نام سے ایک بیان جاری کر سکتا ہے۔ آپ خود بھی یہ تجربہ کر کے دیکھ سکتے ہیں کہ پاکستان میں کسی اخبار کے دفتر فون کریں اور کہیں کہ، "مجھے ایک اہم بیان دینا ہے۔ میں نامعلوم مقام سے تحریک طالبان پاکستان کا نماءندہ احسان اللہ احسان بول رہا ہوں۔ میرے برابر میں ملا عمر بیٹھے ہیں۔ چاءے پی رہے ہیں اور آپ کو سلام کہہ رہے ہیں۔ اہم بیان یہ ہے کہ۔۔۔"
خیر مذاق کی بات ایک طرف۔ ہوا یوں کہ احسان اللہ احسان صاحب ایک عرصے سے ایم کیو ایم کے طالبان کے خلاف جاری ہونے والے بیانات اخبارات میں پڑھ رہے تھے۔ اب ان سے رہا نہ گیا۔ جمعے کے روز انہوں نے نامعلوم مقام سے فون کر اپنا یہ بیان ریکارڈ کرایا ہے کہ تحریک طالبان پاکستان ایم کیو ایم سے سختی نمٹے گی اور کسی قسم کی رعایت نہ کرے گی۔ ہم، کراچی سے تعلق رکھنے والے لوگ، احسان اللہ احسان صاحب کا بیان پڑھ کر سخت تشویش میں پڑ گءے۔ ہمارے شہر کراچی کے حالات ویسے ہی خراب رہتے ہیں، کیا اب وہاں یہ ایک نءی جنگ شروع ہو جاءے گی؟
تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایم کیو ایم کے قاءد تحریک الطاف حسین صاحب نے لندن کی محفوظ فضا میں سانس لیتے ہوءے طالبان کے خلاف یہ شور و غوغا کیوں بلند کیا اور کراچی میں موجود اپنے کارکنوں کو کیوں خطرے میں ڈال دیا۔ اس سوال کے کءی جوابات ممکن ہیں۔ ایک جواب تو یہ ہو سکتا ہے کہ الطاف حسین صاحب حق بات کہنا چاہتے ہیں، وہ طالبان کے فساد سے تنگ ہیں، اور اسی لیے کھل کر بات کر رہے ہیں۔ چند اور لوگوں کا یہ خیال ہو سکتا  ہے کہ الطاف حسین وہ زبان بول رہے ہیں جو ان کے انگریز آقا سننا چاہتے ہیں۔ پھر کچھ لوگ بات کو یوں بھی سمجھ رہے ہیں کہ الطاف حسین فون سے خطاب کرتے ہوءے پاکستان کے تازہ ترین سیاسی حالات پہ بات کرتے ہیں؛ ان کو کچھ نہ کچھ تو کہنا ہوتا ہے، اور آج کل پاکستان کے میڈیا میں طالبان کا چرچا ہے چنانچہ الطاف حسین نے بھی طالبان کو موضوع سخن بنایا۔ اور آخر میں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو الطاف حسین کے بیانات میں نہ جانے کیا کچھ تلاش کر رہے ہیں۔ ان لوگوں کے خیال میں کراچی کی بڑھتی ہوءی پٹھان آبادی کے ساتھ کراچی ایم کیو ایم کے ہاتھوں سے نکل رہا ہے۔ پھر اس کے ساتھ تحریک انصاف کی مقبولیت میں بھی اضافہ ہوا ہے چنانچہ ایم کیو ایم کو ایسا کام کرنا ہے کہ اس کا مہاجر ووٹ اس کے پاس رہے۔
ایم کیو ایم کی طالبان کو للکارنے کی وجہ کچھ بھی ہو یہ بات واضح ہے کہ ایم کیو ایم نے اپنے جارحانہ بیانات سے کراچی کو خانہ جنگی کے دہانے پہ لا کھڑا کیا ہے۔ اگر واقعی طالبان ایم کیو ایم کی قیادت کے خلاف کارواءی کرتے ہیں تو ان کے لیے ایسا کرنا اس لیے آسان ہوگا کہ ایم کیو ایم کی قیادت واضح ہے؛ اس کے مقابلے میں طالبان ایک کالعدم تنظیم ہے جس کا نہ تو کوءی دفتر ہے اور نہ ہی کسی کو اس کے قاءدین کے بارے میں معلوم ہے۔

Labels: , , , ,


This page is powered by Blogger. Isn't yours?