Monday, November 05, 2012

 

طالبان بمقابلہ ایم کیو ایم




نومبر پانچ، دو ہزار بارہ


ایک فکر کے سلسلے کا کالم

کالم شمار ایک سو دس



 طالبان بمقابلہ ایم کیو ایم


ایک عرصے سے ایم کیو ایم کے قاءدین بالخصوص لندن میں بیٹھے الطاف حسین طالبان کے خلاف بیانات دے رہے ہیں۔ کچھ لوگوں کی نظروں میں ایم کیو ایم وہ واحد سیاسی جماعت ہے جو کھل کر طالبان اور انتہا پسندی کے خلاف بول رہی ہے۔ ملالہ یوسف زءی پہ طالبان کے حملے کے بعد الطاف حسین نے اپنے ٹیلی فونی خطاب میں طالبان کو خوب کھری کھری سناءیں تھی۔ پھر جب شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن کی بات آءی تو ایم کیو ایم نے اس تجویز کی کھل کر حمایت کی۔ اور اب ایم کیو ایم ایک ملک گیر ریفرنڈم کروانا چاہتی ہے جس میں لوگ فیصلہ کریں کہ آیا وہ طالبان کا پاکستان چاہتے ہیں یا محمد علی جناح کا پاکستان۔
احسان اللہ احسان اپنے نام سے تو شاعر معلوم دیتے ہیں مگر ہر دفعہ ان کا نام طالبان کے ترجمان کے طور پہ سننے میں آتا ہے۔ احسان اللہ احسان صاحب پاکستان کے سیاسی حالات پہ گہری نظر رکھتے ہیں اور وقتا فوقتا  نامعلوم مقام سے فون کر طالبان کی طرف سے بیانات اخبارات میں شاءع کرواتے ہیں۔ یہ کہنا مشکل ہے کہ آیا یہ ایک ہی آدمی ہے جو طالبان کا ترجمان بن کر فون کرتا ہے یا کءی لوگ ہیں اور کسی دن کوءی اور کسی دن کوءی اور احسان اللہ احسان کے نام سے فون کرتا ہے۔ پھر یہ کیسے یقین کیا جاءے  کہ فون واقعی احسان اللہ احسان صاحب کر رہے ہیں۔ کوءی بھی اپنا نام احسان اللہ احسان بتا کر طالبان کے نام سے ایک بیان جاری کر سکتا ہے۔ آپ خود بھی یہ تجربہ کر کے دیکھ سکتے ہیں کہ پاکستان میں کسی اخبار کے دفتر فون کریں اور کہیں کہ، "مجھے ایک اہم بیان دینا ہے۔ میں نامعلوم مقام سے تحریک طالبان پاکستان کا نماءندہ احسان اللہ احسان بول رہا ہوں۔ میرے برابر میں ملا عمر بیٹھے ہیں۔ چاءے پی رہے ہیں اور آپ کو سلام کہہ رہے ہیں۔ اہم بیان یہ ہے کہ۔۔۔"
خیر مذاق کی بات ایک طرف۔ ہوا یوں کہ احسان اللہ احسان صاحب ایک عرصے سے ایم کیو ایم کے طالبان کے خلاف جاری ہونے والے بیانات اخبارات میں پڑھ رہے تھے۔ اب ان سے رہا نہ گیا۔ جمعے کے روز انہوں نے نامعلوم مقام سے فون کر اپنا یہ بیان ریکارڈ کرایا ہے کہ تحریک طالبان پاکستان ایم کیو ایم سے سختی نمٹے گی اور کسی قسم کی رعایت نہ کرے گی۔ ہم، کراچی سے تعلق رکھنے والے لوگ، احسان اللہ احسان صاحب کا بیان پڑھ کر سخت تشویش میں پڑ گءے۔ ہمارے شہر کراچی کے حالات ویسے ہی خراب رہتے ہیں، کیا اب وہاں یہ ایک نءی جنگ شروع ہو جاءے گی؟
تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایم کیو ایم کے قاءد تحریک الطاف حسین صاحب نے لندن کی محفوظ فضا میں سانس لیتے ہوءے طالبان کے خلاف یہ شور و غوغا کیوں بلند کیا اور کراچی میں موجود اپنے کارکنوں کو کیوں خطرے میں ڈال دیا۔ اس سوال کے کءی جوابات ممکن ہیں۔ ایک جواب تو یہ ہو سکتا ہے کہ الطاف حسین صاحب حق بات کہنا چاہتے ہیں، وہ طالبان کے فساد سے تنگ ہیں، اور اسی لیے کھل کر بات کر رہے ہیں۔ چند اور لوگوں کا یہ خیال ہو سکتا  ہے کہ الطاف حسین وہ زبان بول رہے ہیں جو ان کے انگریز آقا سننا چاہتے ہیں۔ پھر کچھ لوگ بات کو یوں بھی سمجھ رہے ہیں کہ الطاف حسین فون سے خطاب کرتے ہوءے پاکستان کے تازہ ترین سیاسی حالات پہ بات کرتے ہیں؛ ان کو کچھ نہ کچھ تو کہنا ہوتا ہے، اور آج کل پاکستان کے میڈیا میں طالبان کا چرچا ہے چنانچہ الطاف حسین نے بھی طالبان کو موضوع سخن بنایا۔ اور آخر میں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو الطاف حسین کے بیانات میں نہ جانے کیا کچھ تلاش کر رہے ہیں۔ ان لوگوں کے خیال میں کراچی کی بڑھتی ہوءی پٹھان آبادی کے ساتھ کراچی ایم کیو ایم کے ہاتھوں سے نکل رہا ہے۔ پھر اس کے ساتھ تحریک انصاف کی مقبولیت میں بھی اضافہ ہوا ہے چنانچہ ایم کیو ایم کو ایسا کام کرنا ہے کہ اس کا مہاجر ووٹ اس کے پاس رہے۔
ایم کیو ایم کی طالبان کو للکارنے کی وجہ کچھ بھی ہو یہ بات واضح ہے کہ ایم کیو ایم نے اپنے جارحانہ بیانات سے کراچی کو خانہ جنگی کے دہانے پہ لا کھڑا کیا ہے۔ اگر واقعی طالبان ایم کیو ایم کی قیادت کے خلاف کارواءی کرتے ہیں تو ان کے لیے ایسا کرنا اس لیے آسان ہوگا کہ ایم کیو ایم کی قیادت واضح ہے؛ اس کے مقابلے میں طالبان ایک کالعدم تنظیم ہے جس کا نہ تو کوءی دفتر ہے اور نہ ہی کسی کو اس کے قاءدین کے بارے میں معلوم ہے۔

Labels: , , , ,


Comments: Post a Comment



<< Home

This page is powered by Blogger. Isn't yours?