Monday, November 26, 2012

 

موت، چچی، کاوس جی




نومبر چھبیس، دو ہزار بارہ


ایک فکر کے سلسلے کا کالم

کالم شمار ایک سو تیرہ


 موت، چچی، کاوس جی


موت اس دنیا کی بہت بڑی حقیقت ہے۔ اتنی بڑی کہ اس کے سامنے زندگی کی حقیقت ہیچ معلوم دیتی ہے۔ موت  زندگی کے مختصر وجود کے دونوں طرف دور تک پھیلی ہوءی ہے۔ ہم موت کی آغوش میں اس وقت بھی تھے جب ہم پیدا نہ ہوءے تھے اور پھر اپنی زندگی ختم کرنے کے بعد دوبارہ موت کی آغوش میں چلے جاتے ہیں۔ موت سے میرا قریبی  تعارف لڑکپن میں ہوا۔ میں بہت افسردہ ہوا اور سوچتا رہا کہ انسان کے لیے آخر مرنا کیوں ضروری ہے۔ مجھے یہ بات بہت بعد میں سمجھ میں آءی کہ انسان ساری عمر جو محسوسات، تعصبات، اور دنیا کو دیکھنے کا ڈھنگ اپنے ذہن میں جمع کر لیتا ہے، وہ موت سے ختم ہوجاتے ہیں۔ وقت کے ساتھ لوگ پرانے ہو جاتے ہیں اور زمانہ بدل جاتا ہے۔ مگر پرانے لوگ وہی پرانے انداز سے نءے زمانے کو دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ ان پرانے لوگوں کی موت سے پرانی سوچ ختم ہوجاتی ہے۔ پھر نئے لوگ پیدا ہوتے ہیں۔ بچے جو معصوم ہوتے ہیں، جن کے ذہن کوری تختی کی طرح خالی ہوتے ہیں۔ ان کوری تختیوں پہ نءے زمانے کے نءے خیالات لکھے جاتے ہیں۔  زمانہ اسی طرح پرانے لوگوں کا جمود ختم کرکے آگے بڑھتا رہتا ہے۔
 چوبیس نومبر کو دنیا بھر میں جو ہزاروں لوگ اس دنیا سے گزر گءے ان میں سے دو لوگ میرے شناسا تھے؛ ایک سے شناساءی زیادہ تھی اور دوسرے سے کم، ایک میری چچی اور دوسرے آردیشر کاوس جی۔ میں اپنی چچی کو اس وقت سے دیکھ رہا تھا جب وہ دلہن بن کر ہمارے گھر آءیں تھیں کہ اس وقت ہمارے چچا ہمارے ساتھ ہی رہتے تھے۔ انسانی رشتے وقت کے ساتھ بدلتے رہتے ہیں۔ آپ اپنے بزرگوں کو اپنے بچپن اور لڑکپن میں ایک طرح دیکھتے ہیں اور پھر بڑے ہونے کے بعد ایک دوسری طرح۔ بڑے ہونے کا ایک نقصان یہ ہے کہ آپ وہ بہت ساری باتیں سوچنے لگتے ہیں جن سے آپ کا ذہن بچپن میں آزاد ہوتا ہے۔ آپ کسی سے شناسا ہو کو سوال کرتے ہیں کہ آیا وہ شخص زندگی سے خوش ہے۔ کہ وہ شخص دنیا کو کس نظر سے دیکھتا ہے؟ کہ زندگی کے کن رنگوں، کن حوادث نے اس کی شخصیت بناءی ہے؟ کہ وہ شخص کس طرح سے مرنا چاہے گا؟ اور یہ آخری سوال اہم ہے کہ اس کے جواب سے دوسرے سوالات کے جوابات مل جاتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ سوالات آپ اپنے بزرگوں سے نہیں پوچھ سکتے۔ مگر یہ آخری سوال میں دوستوں سے ضرور پوچھ لیتا ہوں۔ ان میں سے بہت سے ساتھی یہ سوال سن کر چونک جاتے ہیں کہ انہوں نے کبھی اپنی موت کے بارے میں سوچا ہی نہیں ہوتا۔ بات کہاں کی کہاں نکل گءی۔ چچی کے ساتھ اول دنوں کی یایں کچھ دھندھلی ہیں کہ اس وقت میری عمر زیادہ نہ تھی مگر یہ اچھی طرح یاد ہے کہ اس شادی کے بعد ہمارے وسیع خاندان میں چچی کے بھاءیوں اور بہنوں کا اضافہ ہو گیا۔ پھر ان دنوں کی یادیں ہیں جب چچا، چچی، اور ان کے تین بچے دبءی، سعودی عرب، اور پھر مصر میں قیام کے دوران پاکستان چھٹیوں میں آتے تھے ۔ ہر دفعہ جب چچی کراچی آتیں تو ہمارے لیے تحفے ضرور لاتیں۔ کراچی میں قیام کے دوران گھر گھر دعوتوں کا سلسلہ جاری رہتا اور چچی کے چکر درزی کی دکان پہ لگتے۔ ہمارے لیے چچی کی ایک بڑی افادیت یہ تھی کہ کبھی ہمیں چچا سے کوءی بات منوانی ہوتی تو اس کی سفارش چچی سے کرواتے۔ چچا بی سی سی آءی میں کام کرتے تھے چنانچہ جب وہ بینک بیٹھا تو چچا اور چچی اپنے بچوں کے ساتھ مستقلا کراچی آگءے۔ پھر میں دنیا کو جاننے کے لیے گھر سے نکل کھڑا ہوا۔  میں کراچی جاتا تو چچی سے ملاقات رہتی۔ چچی فرمان فتح پوری کی شاگرد رہیں تھیں اور شاعری کا اچھا ذوق رکھتی تھیں۔  میں نے ایک دفعہ ان کو وین ڈاءیر کی ایک کتاب دی تھی جسے انہوں نے شوق سے پڑھا تھا۔ وہ شادی بیاہ کے معاملات میں میری راءے ضرور لیتیں۔ عمر گزرنے کے ساتھ جب میرے پاگل پن میں بتدریج اضافہ ہوتا گیا تو وہ میری باتیں غور سے سنتیں اور ان باتوں میں فلسفہ تلاش کرنے کی ناکام کوشش کرتیں۔ گردے کی کمزوری کا مرض چچی کو اپنی والدہ سے وراثت میں ملا تھا۔ عمر گزرنے کے ساتھ  وہ عارضہ ان کو جسمانی طور پہ کمزور کرتا گیا۔ وہ ذرا سا چلتی پھرتیں تو تھک جاتیں۔ ہمارے گھر آتیں تو نقاہت سے لیٹ جاتیں؛ ان کے لیے فورا ٹھنڈا پانی لایا جاتا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ان کے گردے جواب دیتے گءے اور پھر ان کو باقاعدگی سے ڈاءلیسس کروانا پڑتا۔ قریبا دو ہفتے پہلے ان کی حالت بہت خراب ہوگءی۔ وہ بہت کمزور ہو گءیں تھیں۔ انہیں اسپتال میں انتہاءی نگہداشت میں رکھا گیا اور نومبر چوبیس کو وہ دنیا سے رخصت ہو گءیں۔ جہاں مجھے چچی سے بچھڑنے کا غم ہے کہ وہ مجھ سے بہت محبت کرتی تھیں وہیں مجھے چچا کا خیال ہے کہ ان کی بڑی مصروفیت چچی کی تیمارداری سے متعلق تھی۔ اب چچا کے پاس وقت بہت زیادہ ہوگا اور صبح و شام ساتھ رہنے والے لوگ کم۔
بہت عرصہ اخبارات میں کاوس جی کی تحریریں پڑھنے کے بعد جب میں ان سے بہ نفس نفیس ملا تو کاوس جی کے ذہن کو پڑھنے کی کوشش کرتا رہا۔ آردیشر کاوس جی نے اس کراچی میں آنکھ کھولی جو چھوٹا سا قصبہ تھا۔ بمبءی کی طرح کراچی کو بھی انگریزوں نے ایک جدید بندرگاہ قصبے کے روپ میں ڈھالا تھا۔ مطمع نظر سمندری تجارت تھا۔ اٹھارہ سو ستاون کے غدر کے بعد انگریزوں کا  اعتبار مسلمان اشرافیہ پہ سے اٹھ گیا۔ اسی خلا میں پارسی سماج تیزی سے آگے بڑھا۔ کاوس جی نے اس کراچی میں آنکھ کھولی جو ایک صاف ستھرا چھوٹا سا قصبہ تھا اور جہاں کاوس جی کا خاندان اہم اور متمول تھا۔ نوآبادیاتی نظام ہمارے لیے ایک بڑا عذاب تھا مگر اس بات میں کوءی شک نہیں کہ انگریز کو حکومت چلانے کا ڈھنگ آتا تھا۔ معاشرے میں نیچے کی سطح پہ لوگوں کو انصاف میسر تھا۔ اکیس سال کی عمر تک کاوس جی کو وہ ماحول ملا جس میں واحد قباحت بدیسی حکمراں تھے؛ ورنہ گھر میں خوشحالی تھی اور گھر سے باہر انصاف۔ پاکستان بننے کے بعد یہ حالات بدلتے گءے۔ ایک سے بڑھ کر ایک نااہل حکمران نے پاکستان پہ حکومت کی اور کیا انصاف اور کیا امن و امان سب عنقا ہوتا گیا۔ کاوس جی کی تحریروں میں اسی تلخ تبدیلی کا ماتم نظر آتا ہے۔ کاوس جی سے پہلی ملاقات کے بعد بناءی جانے والی ایک مختصر ویڈیو یہاں ملاحظہ فرماءیں:

 


Comments: Post a Comment



<< Home

This page is powered by Blogger. Isn't yours?