Monday, November 12, 2012

 

متفرق موضوعات



نومبر بارہ، دو ہزار بارہ


ایک فکر کے سلسلے کا کالم

کالم شمار ایک سو گیارہ


 متفرق موضوعات


امریکی انتخابات
نومبر چھ کو ہونے والے امریکی انتخابات میں امریکی صدر باراک حسین اوباما ایک دفعہ پھر کامیاب ہوءے۔ ان کی کامیابی اس قدر تعجب کی بات نہیں ہے جس قدر اچھنبے کی بات یہ ہے کہ ان کے مخالف صدارتی امیدوار مٹ رومنی کو سینتالیس فی صد سے اوپر ووٹ کیسے ملے۔ لگتا ہے کہ یہ ووٹ رومنی کو اس لیے نہیں ملے کہ رومنی بہت سے لوگوں کو پسند تھے بلکہ رومنی کو ووٹ باراک اوباما سے بدظن ہو کر دیے گءے۔ اوباما سے عناد رکھنے والے لوگ دو طرح کے ہیں۔ ایک تو وہ ہیں جو نسل پرست ہیں اور اوباما سے ان کی نسلیت کی وجہ سے اللہ واسطے کا بیر رکھتے ہیں۔ ان لوگوں کا کچھ نہیں کیا جا سکتا۔ اوباما مخالف دوسرا گروہ وہ ہے جو نءی معیشت کی مار کھاءے ہوے ہے اور ہر اس شخص کو اس کی گدی سےاکھاڑ پھینکنا چاہتا ہے جو معیشت کو راتوں رات بدل کر ان کے معاشی حالات نہ صحیح کردے۔ کاش ان لوگوں کو کوءی سمجھاءے کہ اگر اوباما کی جگہ رومنی جیت جاتے تو وہ معیشت کا مزید بیڑا غرق کرنے کی صلاحیت رکھتے تھے۔ پاکستان میں جو لوگ امریکی فوجی جارحیت سے تنگ ہیں ان میں سے بھی بہت سے اوباما کو ہارتا دیکھنا چاہتے تھے، یہ جانے بغیر کہ اوباما کے مقابلے میں رومنی کس قسم کی فوجی جارحیت کے خیالات رکھتے ہیں۔
جنرل پیٹریس کا استعفی
سنہ ۲۰۰۳ میں عراق پہ امریکی فوجی یلغار کے وقت جب ہمسفر صحافی [انگریزی میں ایمبیڈڈ جرنلسٹ] کی اصطلاح ان صحافیوں کے لیے استعمال کی گءی جو امریکی فوجی دستے کے ساتھ ساتھ چل رہے تھے، کھارہے تھے، پی رہے تھے، اور سو رہے تھے تو اس لکھاری نے شور کیا کہ یہ لوگ ہمسفر صحافی نہیں بلکہ ہمبستر صحافی ہیں [ایمبڈڈ نہیں بلکہ ان-بیڈ جرنلسٹ ہیں]۔ اور یہ شور یہ سمجھ کر کیا گیا کہ رفاقت، آزادی صحافت میں خلل انداز ہوتی ہے۔ ایسا کیونکر ممکن ہے کہ آپ ایک مخصوص گروہ کے ساتھ اٹھیں بیٹھیں، اور کھانا کھاءیں اور آخر میں ان لوگوں پہ تنقیدی مضمون لکھ دیں؟  اپنی صحافیانہ ذمہ داری نبھانے کے لیے آپ کو یقینا موضوع کو قریب سے دیکھنا ہوتا ہے مگر اچھا نہیں ہے کہ آپ قربت کی اس آرزو میں موضوع سے بالکل شیر و شکر ہو جاءیں۔  ظاہر ہے کہ ہمسفر صحافیوں پہ یہ تنقید نقار خانے میں طوطی کی آواز ثابت ہوءی۔ بھلا ہو پالا بروڈویل کا جنہوں نے اب اچھی طرح ثابت کر دیا ہے کہ ہمسفر صحافی دراصل ہمبستر صحافی ہی ہوتا ہے۔ جس وقت جنرل پیٹریس افغانستان میں امریکی فوج کے کمانڈر کے طور پہ تعنیات تھے، پالا بروڈویل ہمسفر صحافی کے طور پہ ان کے ساتھ ساتھ رہیں۔ پالا بروڈویل دراصل جنرل پیٹریس پہ کتاب لکھنے کی وجہ سے جنرل کے ساتھ تھیں۔ افغانستان سے واپس آنے کے بعد بھی پیٹریس کا معاشقہ پالا بروڈویل کے ساتھ چلتا رہا حتی کہ بات کھل گءی اور جنرل پیٹریس کو سی آءی کے ڈاءریکٹر کے عہدے سے استعفی دینا پڑا۔
اصغر خان کیس
پچھلے ہفتے پاکستان سپریم کورٹ نے سولہ سال کے بعد اصغر خان کی درخواست کے جواب میں اپنا فیصلہ سنا دیا۔ واضح رہے کہ سنہ ۱۹۹۴ میں ایوان میں اس وقت کے وزیر داخلہ نصیراللہ بابر نے بیان دیا کہ سنہ ۱۹۹۰ کے انتخابات میں شدید دھاندلی ہوءی تھی اور پاکستانی فوج نے پیپلز پارٹی کے امیداواروں کو ہرانے کے لیے مخالف سیاستدانوں میں بھاری رقوم تقسیم کیں تھیں۔ جن سیاستدانوں کی جیبیں بھری گءیں ان میں نواز شریف سر فہرست تھے۔ یاد رہے کہ سنہ  ۱۹۸۸  میں فوجی حکمراں ضیاالحق کی موت کے بعد جو انتخابات ہوءے ان میں پیپلز پارٹی نے نمایاں کامیابی حاصل کی اور اپنی حکومت بناءی۔ مگر صرف دو سال بعد صدر غلام اسحاق خان نے نااہلی اور رشوت ستانی کے الزام میں بے نظیر بھٹو حکومت کو چلتا کیا۔ پھر سنہ ۱۹۹۰ کے انتخابات ہوءے۔ کہا جاتا ہے کہ انہیں انتخابات میں غلام اسحاق خان نے فوج اور مہران بینک کی مدد سے پیپلز پارٹی مخالف امیدواروں میں بھاری رقوم تقسیم کیں۔ سنہ ۱۹۹۰ کے انتخابات میں تحریک استقلال کے قاءد اصغرخان لاہور سے قومی اسمبلی کے امیدوار تھے۔ وہ یہ چناءو ہار گءے۔ جب سنہ ۱۹۹۴ میں یہ بات سامنے آءی کہ ۱۹۹۰ کے انتخابات میں نواز شریف کی جیب بھری گءی تھی تو اصغرخان نے عدالت عظمی میں درخواست جمع کی کہ وہ ان الزامات کی چھان بین کرے۔ اصغر خان کی درخواست عدالت کے کاغذات میں ادھر سے ادھر ہوتی رہی حتی کہ سنہ ۲۰۱۲ آگیا۔ پھر اچانک عدالت حرکت میں آءی اور چھان بین شروع ہوءی۔ جنرل درانی سنہ ۱۹۹۰ میں آءی ایس آءی کے چیف تھے۔ جنرل درانی نے اپنا بیان عدالت میں جمع کرایا کہ ہاں واقعی انہوں نے جنرل اسلم بیگ کے کہنے پہ رقوم سیاستدانوں میں تقسیم کیں تھیں۔ اسی بیان کی روشنی میں عدالت عظمی نے اپنا فیصلہ سنایا  کہ جنرل اسلم بیگ اور جنرل درانی سنہ ۱۹۹۰ میں سیاستدانوں میں رقوم تقسیم کرنے کے غیرآءینی کام میں ملوث تھے۔ اب یہ کام حکومت وقت کا ہے وہ ان سابقہ فوجیوں کو عدالت کے کٹہرے میں کھڑا کرے کہ انہوں نے ایسا غیرآءینی کام کیوں کیا۔ اس سلسلے میں کءی سوالات ہیں۔ عدالت نے اس مقدمے کا فیصلہ سولہ سال بعد اس موقع پہ کیوں کیا؟  کیا یہ فیصلہ پاکستانی فوج کو عدلیہ کا ایک چیلنج ہے؟ کیا پاکستانی فوج یہ برداشت کرے گی کہ اس کے سابقہ عہدیداران عدالت کے کٹہرے میں کھڑے ہوں؟ ہم ان سوالات کے جوابات اگلے کالم میں تلاش کریں گے۔

Labels: , , , , , , , , ,


Comments: Post a Comment



<< Home

This page is powered by Blogger. Isn't yours?