Tuesday, November 20, 2012
مختصر، مختصر
نومبر انیس، دو ہزار بارہ
ایک فکر کے سلسلے کا کالم
کالم شمار ایک سو بارہ
مختصر، مختصر
بال ٹھاکرے کی موت
سنہ سینتالیس میں نوآبادیاتی نظام کے عذاب سے نکلنے
کے بعد آج تک جنوبی ایشیا کے لوگ ایک منصف، اچھی حکومت کی تلاش میں ہیں۔ ظلم یہ ہے
کہ جب کبھی لوگ راءج معاملات سے تنگ آ کر اچھی حکومت کی تلاش میں نکلتے ہیں، وہ
تلاش کسی نہ کسی نفرت کے نعرے میں بدل جاتی ہے۔ ایک گروہ اپنے کسی نہ کسی اختلاف
کی بنیاد پہ دوسرے گروہ سے لڑ جاتا ہے۔ الزام آتا ہے کہ ساری خرابی دوسرے گروہ کی
وجہ سے ہے۔ ان اختلافات کو خرابی کی وجہ بتانے والے نیتا، نفرت کی سیاست کرنے والے
سیاست داں جگہ جگہ پاءے جاتے ہیں۔ کچے ذہن کے لوگ ان کی جذباتی تقاریر سن کر متاثر
ہوتے ہیں اور ان قاءدین کا لب و لہجہ اپنا لیتے ہیں۔ مگر نہ جانے یہ لوگ یہ بات
کیوں بھول جاتے ہیں کہ ایک دن مرنا بھی تو ہے۔ جو شخص بھی زندگی کی بے ثباتی کو
اور موت کی حقیقت کو گہراءی سے سمجھتا ہو وہ بھلا کسی سے نفرت کیسے کر سکتا ہے؟
غزا میں ایک اور قیامت
مشرق سے اسراءیل میں داخل ہونے کی کوشش کی ناکامی کے
بعد میں مغرب سے اسراءیل پہنچا تھا۔ یروشلم میں قیام کے دوران مغربی کنارے کی
فلسطینی بستی بیت الحم تک جانا مشکل نہ تھا اس لیے وہاں چلا گیا مگر اسراءیل میں
وقت کم تھا اس لیے غزا نہ جا سکا۔ مغربی کنارے کے فلسطینی مکمل طور سے اسراءیل کے
تسلط میں ہیں۔ اس بات کا کوءی امکان نہیں کہ ان علاقوں میں رہنے والا کوءی فلسطینی
اسراءیل پہ راکٹ سے حملہ کرے۔ مگر غزا کا جغرافیہ مختلف ہے۔ غزا کی سرحد مصر سے
لگتی ہے۔ اس سرحد پہ یقینا اسراءیل کا پہرا ہے مگر فلسطینیوں کو زیر زمیں سرنگیں
بنانے کا فن آتا ہے۔ غزا میں رہنے والے فلسطینیوں تک اسلحہ انہیں سرنگوں کے ذریعے
پہنچتا ہے۔ سنہ دو ہزار آٹھ میں امریکہ کا صدر بننے سے پہلے باراک اوباما نے
اسراءیل کا ایک دورہ کیا تھا۔ اس دورے میں انہوں نے کہا تھا کہ اگر میرے گھر پہ
جہاں میری دو بچیاں سو رہی ہوں کوءی راکٹ برساءے تو میں ضرور بدلہ لوں گا؛ اور اسی
طرح میں سمجھ سکتا ہوں کہ اسراءیل بھی اس طرح کی جارحیت کا جواب دے گا۔ کاش کوءی
اوباما کو یہ سمجھاتا کہ اگر تمھیں ایک ایسا گھر کراءے پہ دیا جاءے جس کے اصل مالک
کو نکال باہر کیا گیا تھا اور اب وہ اصل مالک غصے میں آکر اس گھر پہ راکٹ برسا رہا
ہے، تو تمھیں چاہیے کہ تم حالیہ مکان مالک سے لڑو کہ اس نے تمھیں ایسا گھر کیوں
کراءے پہ دیا جو دراصل کسی اور کی ملکیت ہے؟ افسوس کہ اوباما کو یہ منطقی بات
سمجھانے والا کوءی نہیں۔ اور افسوس کہ غزا کے فلسطینی اسی طرح مارے جاتے رہیں گے
جس طرح اس وقت مارے جا رہے ہیں۔ دنیا نے تہذیب کا جو پیراہن اوڑھ رکھا ہے وہ بہت
باریک ہے، اس کے نیچے وہی پرانی درندگی ہے۔ جس کی لاٹھی اس کی بھینس والا معاملہ
ہے۔ طاقتور جب چاہے کمزور کو دبا لیتا ہے۔ طاقتور سے رحم کی اپیل کرنا فضول ہے۔ ظلم
سے بچنے کا صرف ایک طریقہ ہے اور وہ یہ کہ خود طاقتور بنا جاءے۔
کراچی میں جاری خوں ریزی
دو روز قبل کراچی کےعباس ٹاءون میں امام بارگاہ
مصطفی پہ موٹرساءیکل میں نصب بم پھٹنے سے تین افراد ہلاک ہو گءے۔ آخری خبریں آنے
تک پولیس تفتیش کر رہی تھی مگر کوءی واضح بات سامنے نہیں آءی تھی کہ یہ کام کس نے
کیا۔ کس قدر باعث اطمینان ہے یہ بات قاتلوں اور دیگر جراءم پیشہ لوگوں کے لیے۔ یہ
مجرم کراچی میں بلا خوف و خطر دندناتے پھرتے ہیں۔ انہیں اچھی طرح معلوم ہے کہ کوءی
ان کا کچھ نہ بگاڑ پاءے گا۔ وہ بار بار دہشت گردی کی وارداتیں کریں گے اور بار بار
باآسانی چھپ پاءیں گے۔ حکومت اس قدر کمزور ہے کہ جب وہ مجرموں کی سرکوبی نہیں کر
سکتی تو جراءم روکنے کے لیے موٹرساءیکل چلانے پہ پابندی لگا دیتی ہے؛ موباءل فون
بند کر دیے جاتے ہیں۔ اگر لاکھوں لوگ ان پابندیوں سے متاثر ہو
رہے ہیں تو کیا ہوا،
چند جراءم پیشہ لوگوں کے منصوبے تو دھرے کے دھرے رہ گءے۔
Labels: Abbas Town bomb blast, Bal Thackeray, Balasaheb Keshav Thackeray, Gaza