Monday, April 23, 2012

 

قبلہ اول



اپریل نو، دو ہزار بارہ


گزشتہ سے پیوستہ
اندرون شہر یروشلم کی تنگ گلیوں میں جگہ جگہ الاقصی کے نشانات لگے ہیں۔ مسجد اقصی اور قبلہ اول یا حرم الشریف ایک ہی احاطے میں واقع ہیں۔ قبلہ اول ایک چھوٹی سی گول عمارت ہے جس کا گنبد سنہری ہے۔ اس عمارت کے بیچوں بیچ ایک چٹان ہے۔ خاتم النبیین اسی چٹان سے معراج پہ گءے تھے اور خانہ کعبہ کی طرف قبلہ تبدیل ہونے سے پہلے مسلمان اسی پتھر کی طرف منہ کر کے نماز پڑھا کرتے تھے۔ یہ چٹان جہاں مسلمانوں کے لیے قبلہ اول ہونے کی وجہ سے مقدس ہے وہیں یہودیوں کے لیے بھی سب سے اہم مذہبی مقام ہے؛ یہودی آج بھی اسی چٹان کی طرف منہ کر کے عبادت کرتے ہیں۔ قبلہ اول سے چند سو گز کے فاصلے پہ جنوب میں مسجد اقصی ہے۔ یہ عمارت بہت بعد میں تعمیر کی گءی تھی۔ مسجد اقصی کا گنبد روپہلی ہے۔ قبلہ اول اسراءیل کے قبضے میں ہونے کی وجہ سے مسلمان کم ہی تعداد میں وہاں پہنچ پاتے ہیں اور اسی وجہ سے قبلہ اول کے بارے میں بہت سے ذہنوں میں ابہام ہے؛ قبلہ اول کی تصویر دکھانی ہو تو مسجد اقصی کی تصویر دکھا دی جاتی ہے۔ اس ابہام سے یہ غلط تاثر ابھر رہا ہے کہ مسجد اقصی دراصل وہ مقدس مقام ہے جس کا حصول مسلمانوں کے لیے اہم ہے، حالانکہ مسجد اقصی تو ثانوی درجہ رکھتی ہے، اصل مقدس جگہ تو حرم الشریف ہے۔ فلسطین سے باہر رہنے والے مسلمان کم تعداد میں حرم الشریف کی زیارت کرتے ہیں مگر یہ تاثر درست نہیں ہے کہ اسراءیل کے قبضے کے بعد مسلمانوں کا وہاں داخلہ ہی ممنوع ہے یا فلسطین سے باہر رہنے والے مسلمان وہاں جاتے ہی نہیں ہیں۔ ہر سال سینکڑوں شیعہ زاءرین اردن سے اسراءیل میں داخل ہوتے ہیں اور حرم الشریف کی زیارت کرتے ہیں۔ اسی طرح مغربی ممالک میں بسنے والے مسلمان بھی اسراءیل جاتے ہیں اور وہاں موجود مقدس مقامات پہ حاضری دیتے ہیں۔ ہمارے علاقے یعنی سان فرانسسکو بے ایریا میں بہت سے کاروبار ایسے ہیں جن کے دفاتر اور کارخانے اسراءیل میں ہیں۔ ان کاروبار میں کام کرنے والے مسلمانوں بالشمول پاکستانیوں کا مستقل اسراءیل آنا جانا لگا رہتا ہے۔ جس احاطے میں حرم الشریف اور مسجد اقصی موجود ہیں اس کے اطراف اسراءیلی پولیس کا پہرا ہے۔ سیاحوں کو اس احاطے میں جانے کی اجازت نہیں ہے۔ چنانچہ جب ہم زیارت کے لیے وہاں پہنچے تو ہمارے کیمرے دیکھ کر یہ خیال کیا گیا کہ ہم سیاح ہیں، ہم سے کہہ دیا گیا کہ ہمیں اندر جانے نہیں دیا جا سکتا۔ ہم نے کہا کہ ہم مسلمان ہیں اور اندر ضرور جاءیں گے۔ اس پہ ہم سے تقاضہ کیا گیا کہ ہم سورہ فاتحہ سنا کر اپنی مسلمانیت ثابت کریں۔ ہمیں اندازہ ہوا کہ حرم الشریف پہ تعنیات ہونے والے اسراءیلی سپاہیوں کو مذہب اسلام کی بنیادی تعلیم بھی دی جاتی ہے۔ ہم نے سپاہیوں کا تقاضہ پورا کیا تو ہمیں احاطے کے اندر جانے کی اجازت ملی۔ احاطہ ایک مسلمان وقف کے زیر اثر ہے۔ احاطے کے باہر اسراءیلی سپاہیوں کا پہرہ ہے اور احاطے کے اندر وقف کے رضاکاروں کا۔ احاطے کے اندر گھسے تو وقف کے رضاکاروں نے بھی ہم سے چند سوالات کیے۔ حرم الشریف کا احاطہ ایک بڑے علاقے پہ محیط ہے۔ یہ جگہ القدس میں رہنے والے مسلمانوں کے لیے مرکزی مقام کا درجہ رکھتی ہے۔ ہم جب کبھی اس احاطے میں گءے ہم نے وہاں فلسطینی خاندانوں کو جگہ جگہ بیٹھے، آرام کرتے دیکھا۔ پرانے شہر کی تنگ گلیوں اور بھیڑ سے بیزار آجانے والوں کے لیے حرم الشریف کے احاطے کی وسیع کھلی جگہ یقینا تفریح کا مقام بھی ہے۔ میرے پاس بہت سی تصاویر ہیں جو میں نے حرم الشریف کے اندربیٹھ کر لیں، اور اسی طرح مسجد اقصی کی بھی بہت سی تصاویر ہیں۔ یہ تصاویر کراچی فوٹو بلاگ پہ موجود ہیں۔ ایک روز اسی احاطے کے اندر ایک ایسے فلسطینی نوجوان سے ملاقات ہوگءی جس نے انجینءیرنگ کی تعلیم ترکی سے حاصل کی تھی۔ ہم احاطے کی دیوار کے ساتھ ساتھ چل رہے تھے۔ اس نوجوان نے وہاں موجود مولانا محمد علی جوہر کی قبر کی نشاندہی کی۔ دیوار کے ساتھ چلتے چلتے ہم ایک ایسے دروازے تک پہنچے جس کے باہر بہت شور تھا۔ یوں لگتا تھا کہ جیسے بہت سے لوگ مل کر کچھ پڑھ رہے ہیں۔ نوجوان عبرانی جانتا تھا؛ اس نے ہمیں بتایا کہ باہر موجود لوگ یہودی زاءرین ہیں جو عبرانی کی مناجات میں کہہ رہے ہیں کہ ہم عنقریب اس احاطے کے اندر ہوں گے۔ اس وقت تک ہمارے آس پاس بہت سے فلسطینی لڑکے جمع ہو گءے تھے۔ ان میں سے ایک لڑکے نے 'یہود، یہود' کا نعرہ لگایا۔ ایک لڑکا ایک لمبی سے چھڑی لے آیا۔ اس نے وہ چھڑی دروازے کے نیچے سے باہر سرکاءی اور چھڑی کو داءیں باءیں گھما کر باہر موجود یہودی زاءرین کے پاءوں پہ مارنے لگا۔ باہر کھلبلی مچ گءی۔ یہ واقعہ ہمارے لیے اس امر کا چھوٹا سا مشاہدہ تھا کہ فلسطین پہ اسراءیل کا قبضہ ضرور ہے مگر فلسطینی ڈر کر نہیں بیٹھ گءے ہیں۔ جب موقع ملتا ہے فلسطینی کھڑے ہو کر تن کر مقابلہ کرتے ہیں۔

Labels:


Saturday, April 21, 2012

 

تل ابیب سے القدس



اپریل ۱، دو ہزار بارہ


گزشتہ سے پیوستہ
تل ابیب ایک نیا شہر ہے۔ آج کے تل ابیب میں تاریخی شہر یوفا کو بھی شمار کیا جاتا ہے جو تل ابیب کے جنوب میں واقع ہے۔ سن اڑتالیس تک یوفا میں عرب اکثریت میں تھے مگر اسراءیل کے قیام کے بعد عرب آبادی کو بے دخل کرنے کا کام ہورہا ہے اور آج یوفا میں عرب یہودیوں کے مقابلے میں کم ہیں۔ یوفا جاکر وہاں کی عرب آبادی کا مشاہدہ کرنا اچھا تجربہ ہوتا مگر ہمارے پاس وقت کم تھا اس لیے ہم تل ابیب میں دو رات کے قیام کے بعد القدس کے لیے روانہ ہوگءے۔ تل ابیب سے القدس ایک سپاٹ راستہ ہے، القدس سے وہ پہاڑیاں شروع ہوتی ہیں جو دریاءے اردن کو سمندر تک آنے سے روکتی ہیں۔ دریاءے اردن پہاڑیوں کے درمیان موجود ایک کھاءی میں دم توڑتا ہے۔ یہ جھیل بحر مردار کہلاتی ہے۔ بحر مردار اور دریاءے اردن اسراءیل اور اردن کے درمیان سرحد کا کام دیتے ہیں۔ اسراءیل کی تو خواہش ہے کہ تمام عرب یہ جگہ چھوڑ کر دریاءے اردن کے اس پار چلے جاءیں مگر اس خواہش کے باوجود دریاءے اردن کے اس طرف یعنی دریا کے مغربی کنارے پہ عربوں کی ایک بڑی آبادی ہے۔ یہ تقریبا مستقل آبادی دریا کے کنارے سے القدس تک ہے۔ یروشلم یعنی القدس پہ قبضے کے بعد اسراءیل نے اپنا دارالحکومت القدس منتقل کر دیا مگر دنیا اب تک القدس کو متنازعہ علاقہ مانتی ہے اور جن ملکوں کے اسراءیل سے سفارتی تعلقات ہیں ان کے سفارت خانے تل ابیب ہی میں ہیں۔ جو وین ہمیں تل ابیب کے مرکزی بس اڈے سے یروشلم لے گءی اس نے ہمیں مغربی یروشلم میں اتارا۔ مغربی یروشلم نیا علاقہ ہے اور القدس پہ اسراءیل کے قبضے کے بعد اس کی آبادی میں مستقل اضافہ ہوا ہے۔ ہم پرانے یروشلم میں قیام کرنا چاہتے تھے۔ وین کے ڈراءیور سے دریافت کیا کہ مغربی یروشلم سے پرانے شہر تک کیسے جاءیں۔ اس نے ہاتھ کے اشارے سے بتایا کہ پرانے شہر تک فاصلہ بہت زیادہ نہیں ہے، ہم پیدل چلتے ہوءے وہاں پہنچ سکتے ہیں۔ ہم پیدل چلنا شروع ہوءے تو کچھ ہی دیر بعد پرانے شہر کی دیوار نظر آنا شروع ہو گءی۔ پرانا شہر جیسے جیسے قریب آتا جا رہا تھا اس طرف جانے والے لوگوں کا رش بڑھتا جا رہا تھا۔ جب تک ہم پرانے یروشلم کے یوفا دروازے تک پہنچے اس وقت تک ہم ایک جمع غفیر کا حصہ بن چکے تھے۔ یوفا دروازے سے پرانے شہر میں داخل ہونا ایک عجیب روحانی تجربہ تھا۔ پتھر کی اونچی فصیل، اندرون شہر میں سرخ اینٹوں کی سڑکیں، جوق در جوق چلنے والے مختلف مذاہب کے جتھے، اور اوپر سے ذہن پہ تاریخ کا زور کہ یہ جگہ ہزاروں سال پرانی ہے، یہاں عالی رتبہ پیغمبر گزرے ہیں اور بڑے بڑے حکمرانوں نے فوجی کارواءی کی ہے؛ یہ محسوسات آپ کی روح میں اتر کر آپ کو ایک عجیب کیفیت میں لے جاتے ہیں۔ میں یوفا دروازے سے اندرون شہر پہنچ کر دیوانوں کی طرح ادھر ادھر دیکھ رہا تھا۔ سامنے ہی ایک چھابڑی والا نظر آیا جو فلافل بیچ رہا تھا۔ میں نے اشتیاق میں بہت سے فلافل خریدے اور ان کو تیزی سے کھانا شروع کیا۔ ذرا سی دیر میں فلافل گلے سے نیچے پھنس گءے۔ میں تکلیف میں ادھر ہی بیٹھ گیا۔ پانی پی کر پھنسے ہوءے فلافل کو نیچے اتارنے کی کوشش کر سکتا تھا مگر دل تھا کہ کچھ نہ کروں اور قدرت کو اپنا کام کرنے دوں ۔ کچھ دیر بعد فلافل خود بخود آنت میں نیچے اترا تو جان میں جان آءی۔ اندرون شہر یروشلم چار حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے: مسلمان ربع، یہودی ربع، عیساءی ربع، اور آرمینی ربع۔ یوفا دروازے سے پرانے شہر میں داخل ہوں تو داءیں طرف آرمینی ربع ہے اور باءیں طرف عیساءی ربع۔ دن ڈھلنے میں ابھی بہت وقت تھا اس لیے سوچا کہ ٹہرنے کے لیے جگہ آرام سے تلاش کی جاءے۔ تنگ گلیوں میں چلتے ہوءے مسلمان ربع میں پہنچے۔ وہاں کم نرخ ہوٹل بھر چکے تھے اور جو دستیاب تھے وہ ہمیں پسند نہ آءے۔ مسلمان ربع میں چلتے چلتے ہم دمشق دروازے سے گزرتے پرانے یروشلم سے باہر نکل گءے۔ دمشق دروازے سے باہر مشرقی یروشلم ہے جو مسلمان اکثریت علاقہ ہے۔ وہاں اکا دکا ہوٹل تھے اور سب کے کراءے آسمان سے باتیں کر رہے تھے۔ ہم ہیروڈ دروازے سے دوبارہ اندرون شہر میں داخل ہو گءے اور چلتے چلتے پھر یوفا دروازے تک پہنچ گءے۔ اب کی بار ہوٹل کی تلاش میں آرمینی ربع کا رخ کیا۔ وہاں بالکل شروع ہی میں یوفا گیٹ ہوسٹل نامی مسافر خانہ مل گیا۔ اس ہوسٹل کو چلانے والا ایک نوجوان فلسطینی تھا۔ نرخ مناسب تھے، ہم نے وہاں کمرہ حاصل کر لیا۔ اس وقت تک شام ہو چلی تھی۔ مختصر آرام کے بعد کمرے سے نکلے اور آرمینی ربع میں یہودی ربع کی طرف چلنا شروع ہوءے۔ یہودی ربع اندروش شہر کے دوسرے علاقوں کے مقابلے میں زیادہ صاف ستھرا اور چمکیلا نظر آیا۔ ہم اس طرف چلنا شروع ہو گءے جس طرف زیادہ تر لوگ جا رہے تھے۔ کچھ ہی دیر میں ہم ایسی جگہ پہنچ گءے جہاں سے نیچے ایک بہت بڑا میدان نظر آتا تھا۔ اس میدان کے ایک طرف دیوار کے ساتھ لوگ قطار سے کھڑے تھے۔ ہم دراصل دیوار گریہ تک پہنچ چکے تھے۔ نیچے میدان میں اترنے سے پہلے ہم بہت دیر تک اس اونچے مقام سے اس منظر کو غور سے دیکھتے رہے۔ پھر سیڑھیوں سے نیچے اترے تو ہمیں ایک اسکینر سے گزارا گیا۔ تلاشی کے عمل سے کامیابی سے گزرنے کے بعد ہم دیوار گریہ تک پہنچ گءے۔ وہاں عورتوں اور مردوں کے لیے الگ الگ عبادت کی جگہ تھی۔ کچھ کچھ فاصلے پہ یرموک کے ڈھیر لگے تھے۔ ہم نے بھی ایک یرموک اٹھاءی اور اس چھوٹی سی ٹوپی کو سر پہ بمشکل ٹکا کر دیوار گریہ تک پہنچ گءے۔ عبادت گزار یہودی دیوار پہ ہاتھ ٹکاءے، ہل ہل کر پڑھتے جاتے تھے اور روتے جاتے تھے۔ ہمیں معلوم نہ تھا کہ دریاءے گریہ پہ پہنچ کر کیا پڑھنا ہے، یونہی کھڑے کھڑے دیوار کو دیکھتے رہے اور کچھ دیر بعد الٹے قدموں واپس پلٹ آءے۔

Labels: ,


Thursday, April 19, 2012

 

ایک سفر اسراءیل کا



مارچ پچیس، دو ہزار بارہ



اسراءیل جانے کا فیصلہ کرنا آسان نہیں ہے۔ آپ بھلا ایسے ملک میں کیوں جانا چاہیں گے جو مذہب کی بنیاد پہ اپنے شہریوں پہ ظلم کرتا ہو، جو مستقل فلسطینیوں کی زمینیں ہتھیا کر وہاں باہر سے لانے والے لوگوں کو بسا رہا ہو، جو عموما ایک پسندیدہ ملک نہ تصور کیا جاءے؟ لیکن کسی بھی لکھنے والے کے لیے یہ مشکل کام ہے کہ وہ موجودہ دنیا کے سب سے بڑے تنازعے کو بہ چشم خود دیکھے بغیر اس کے متعلق راءے قاءم کرے اور اس پہ لکھے۔ اسراءیل میں گھسنے کی میری پہلی کوشش اس وقت ناکام ہوءی جب اردن کے دارالحکومت عمان میں اسراءیلی سفارت خانے نے ویزا درخواست پہ ہفتہ بھر غور کرنے کے بعد مجھے ٹکا سا جواب دے دیا۔ اس واقعے کے بعد کءی سال گزر گءے۔ اسراءیل جانے کی دوسری کوشش اس طرح کامیاب رہی کہ پاکستان سے واپسی میں ہم لندن ٹہرے اور وہاں سے ٹرکش اءیرلاءنز سے اڑ کر تل ابیب پہنچے۔ ہم اس صبح
ہم منہ اندھیرے ہیتھرو پہنچے تھے۔ دو بچوں کو بہت مشکل سے اتنی صبح تیار کیا تھا۔ وہ ٹیکسی میں دودھ پیتے ہوءے ہواءی اڈے پہنچے تھے۔ ہمیں اور ہمارے سامان کو ہواءی اڈے پہ اتارنے کے بعد ٹیکسی ڈراءیور نے جھانک کر پچھلی سیٹ کو دیکھا اور نیچے غالیچے پہ ٹپک جانے والے دودھ کو دیکھ برا منہ بنایا۔ اس نے غالیچہ نکال کر باہر جھاڑا، ہم سے رقم لے کر گنی اور تیور چڑھاءے روانہ ہو گیا۔ باہر اندھیرا تھا مگر ہواءی اڈے کے اندر خوب رونق تھی۔ لندن سے استنبول جانے والی پرواز میں زیادہ تر مسافر سوٹ پہنے ہوءے تھے۔ ٹرکش اءیرلاءنز کی وہ پرواز صبح ہی ہیتھرو سے روانہ ہوءی۔ یہ پرواز ان لوگوں کے لیے کارآمد تھی جو کاروباری سلسلے میں استنبول جانا چاہیں اور دن بھر استنبول میں کام کر کے شام کو واپس لندن پلٹنا چاہیں۔ ہم یورپ کے مغربی سرے سے مشرقی سرے کی طرف جا رہے تھے۔ جہاز میں ایک حجابی نہایت سرخ و سپید خاتون نظر آءیں۔ انہوں نے ہمارے بچے کو دیکھ کر زور سے ماشاءاللہ کہا۔ یہ خاتون ہم سے اگلی نشست پہ بیٹھی تھیں۔ بعد میں ان کی باآواز گفتگو سے معلوم ہوا کہ یہ برطانوی خاتون ایک ترک آدمی سے نکاح میں تھیں۔ ترک مرد کو انگلستان لانے کی کوشش کی جارہی تھی۔ استنبول کے ہواءی اڈے پہ اسراءیل جانے والی پرواز کے لیے خاص حفاظتی اقدامات کیے گءے تھے۔ مسافر اضافی اسکینر سے گزرتے ہوءے اس جگہ میں داخل ہوتے تھے جہاں تل ابیب جانے والی پرواز کا گیٹ تھا۔ آپ کو اچھی طرح اندازہ ہوجاتا تھا کہ آپ کسی خاص جگہ جا رہے ہیں۔ واضح رہے کہ اسراءیل سے اڑنے والی ہر پرواز اسراءیل ہی سے شروع ہوتی ہے اور اسراءیل پہنچنے والی ہر پرواز اسراءیل میں ہی ختم ہو جاتی ہے، یعنی ایسا ممکن نہیں ہے کہ آپ کہیں جاتے ہوءے اسراءیل میں ٹرانزٹ مسافر کے طور پہ اتر جاءیں۔
بن گوریان اءیرپورٹ پہ امیگریشن کے کاءونٹر پہ یہ سوچ کر پاسپورٹ دیا کہ اب آڑھے ترچھے سوالات ہوں گے مگر اس وقت خوش گوار حیرت ہوءی جب پاسپورٹ میں ایک پرچہ رکھ کر اشارہ کر دیا گیا کہ بس جاءو۔ اس پرچے پر انگریزی میں گیٹ پاس لکھا تھا۔ دل میں اطمینان ہوا کہ اس پرچے کی وجہ سے بس اب نکلتے چلے جاءیں گے۔ آگے جا کر چند باوردی لوگوں نے پاسپورٹ دیکھے اور گیٹ پاس والا پرچہ دیکھ کر ہمیں ایک طرف کھڑے ہوجانے کا اشارہ کیا۔ معلوم ہوا کہ ہر اس مسافر کو تفتیش کے لیے روکا جا رہا تھا جس کے پرچے میں گیٹ پاس والا پرچہ رکھا تھا۔ ہم اسراءیلیوں کی شاطری کے قاءل ہو گءے۔ پھر معاملہ یہ ہوا کہ ہم سے آگے ایک فلسطینی نژاد امریکی لڑکی تھی جس کو اسراءیلی حکام کی پوچھ گچھ سخت ناگوار گزر رہی تھی۔ اس نے زور زور سے چیخنا چلانا شروع کر دیا کہ میرے امریکی پاسپورٹ کے باوجود تم مجھ سے امتیازی سلوک اس لیے کر رہے ہو کیونکہ میں فسلطینی ہوں۔ فلسطینی لڑکی کے ہنگامے کے ساتھ ہم بھی تھے، دو چھوٹے بچوں کے ساتھ۔ افسر اعلی نے بچوں پہ ایک نظر ڈالی اور پھر ہمیں روکنے والے سپاھی کو ٹھوڑی سے اشارہ کیا کہ کیا میرا وقت ضاءع کرتے ہو۔ ہمیں جانے دیا گیا۔
سامان حاصل کرنے کے بعد اگلا مرحلہ زیادہ تر سامان کو ہواءی اڈے پہ موجود مال خانے میں رکھانے کا تھا۔ مال خانے میں لوگوں کا سامان بظاہر بے ہنگم طریقے سے رکھا ہوا تھا۔ ہمیں اشارے سے بتایا گیا کہ ہم وہاں اپنا سامان رکھ دیں اور اس سامان پہ مال خانے کی طرف سے دءیے گءے اسٹکر لگا دیں۔ مال خانے میں زیادہ تر سامان چھوڑنے کے بعد ہم اپنے آپ کو ہلکا پھلکا محسوس کر رہے تھے۔ بن گوریان اءیرپورٹ تل ابیبب سے کچھ فاصلے پہ ہے اور اءیر پورٹ سے شہر کے لیے ایک ٹرین چلتی ہے۔ ہم نے شہر جانے کے لیے وہی ٹرین لی۔ تل ابیب سے پہلے ٹرین کءی چھوٹے اسٹیشنوں پہ رکی۔ ہر اسٹیشن پہ وقفے وقفے سے مسلح سپاھی چوکنا کھڑے تھے۔ تل ابیب کے اسٹیشن سے پہلے ٹرین ایک صنعتی علاقے سے گزری۔ تل ابیب کے اسٹیشن پہ بہت سے لوگ دیسی شکلوں کے نظر آءے۔ ہمارے خطے یعنی جنوبی ایشیا میں رہنے والے یہودی ستر کی دہاءی میں بڑی تعداد میں اسراءیل پہنچے ہیں۔ کراچی میں ہمارے والد کے دفتر میں بھی ایک یہودی کام کرتا تھا۔ سنہ بہتر تہتر میں وہ اور اس کے اہل خانہ اپنا وطن کراچی چھوڑ کر اسراءیل منتقل ہو گءے۔
ٹرین اسٹیشن سے نکل کر ہم ایک بس میں سوار ہوءے جس نے ہمیں اس علاقے میں پہنچا دیا جہاں ہم نے ہوٹل کی ریزرویشن کرواءی تھی۔ نءے دور کی دنیا بھی خوب ہے۔ آپ عجیب و غریب کام کر سکتے ہیں۔ تل ابیب میں ہوٹل کی ریزرویشن ہم نے کراچی میں قیام کے دوران کرواءی تھی۔ اسکاءپ استعمال کرتے ہوءے تل ابیب کے مختلف ہوٹلوں کو فون کیا اور ایک ہوٹل میں بات طے کر لی۔ اس روز شاید پورے پاکستان سے اسراءیل کی جانے والی وہ واحد فون کال ہو۔
[[[[[[[[[[[[[[[[[[[[[[[[[[[[[[[[[[[[[[[[[[[[[

Labels:


Tuesday, April 17, 2012

 

ہزارہ پہ قیامت





اپریل پندرہ، دو ہزار بارہ



بہادر شاہ ظفر کے دادا شاہ عالم دوءم کے اقتدار کے لیے کہا جاتا تھا کہ، سلطنت شاہ عالم، از دلی تا پالم۔ واضح رہے کہ یہاں اسی پالم کا ذکر ہے جو آج کل دہلی کے ہواءی اڈے کے طور پہ جانا جاتا ہے۔ کہنے کو تو پاکستان میں جمہوریت ہے اور عوام کی نماءندہ حکومت اقتدار میں ہے مگر امن عامہ کے معاملے میں اس حکومت کا کوءی خاص بس نہیں چلتا۔ سلطنت شاہ عالم والا حساب ہے۔ قاتل آزاد ہے، جس کو چاہے مارے اور جب چاہے مارے۔ صوبہ بلوچستان میں بسنے والے ہزارہ لوگ قریبا ڈیڑھ صدی سے وہاں رہ رہے ہیں۔ یہ لوگ ہزارگی زبان بولتے ہیں جو فارسی سے مشابہ ہے۔ مذہبی عقاءد میں یہ لوگ اثناءے عشری یا شیعہ ہیں۔ واضح رہے کہ ان لوگوں کا صوبہ پختوانخاہ کے علاقے ہری پور ہزارہ سے کوءی تعلق نہیں جہاں کے لوگ ہندکو زبان بولتے ہیں۔ بلوچستان میں بسنے والے ہزارہ لوگوں کے متعلق قیاس ہے کہ یہ وسطی افغانستان سے بلوچستان آءے ہیں کیونکہ وسطی افغانستان میں آج بھی ہزارہ لوگوں کی ایک بڑی آبادی موجود ہے۔ پاکستان میں مذہبی منافرت بتدریج بڑھی ہے۔ جب سے جمہوریہ پاکستان کا نام اسلامی جمہوریہ پاکستان ہوا ہے، مذہبی منافرت کا جن سرکاری معاملات میں گھس آیا ہے۔ اب اسلامی جمہوریہ پاکستان کو مستقل اس فیصلے پہ مجبور کیا جاتا ہے کہ وہ بتاءے کہ کس کا اسلام صحیح اسلام ہے۔ صحیح اسلام کے متعلق فیصلہ کرنا تو مشکل ہے البتہ دین اسلام سے لوگوں کو خارج کرنا زیادہ آسان ہے۔ چنانچہ سب سے پہلے قادیانیوں کو دین اسلام سے خارج کیا گیا۔ پھر جب حکومت نے اس جھنجھٹ میں پڑنے سے انکار کیا تو مذہبی جماعتوں نے خود ہی اپنے طور پہ دوسروں پہ کفر کے لیبل لگانا شروع کر دیا۔ ضیا دور میں اور اس کے بعد بھی جن غیرفوجی گروہوں کو جہاد کے لیے تیار کیا گیا تھا، جب ان لوگوں کے دوسری جگہ جا کر جہاد کرنے کے راستے بند ہوءے تو انہوں نے گھر سے ہی اس 'نیک کام' کا آغاز کر دیا۔ ان لوگوں کی منطق میں کافر کو مارنا ثواب ہے اور ان کے مسلک کے باہر تمام لوگ کافر ہیں چنانچہ جو شخص ان کے مسلک سے جس قدر زیادہ جدا ہے، اس قدر جلد موت کا حق دار ہے۔ اس سلسلے میں شدت پسند سنی مذہبی جماعتوں کا نزلہ شیعہ پہ گر رہا ہے۔ شعیہ کافر ہیں، چنانچہ جہاں موقع لگے شیعہ افراد کو مارا جاءے۔ ایک مسلح گروہ کسی بس کو روکتا ہے، لوگوں کے شناختی کارڈ جانچے جاتے ہیں، شیعہ ناموں والے افراد کو الگ نکال کر قطار سے کھڑا کیا جاتا ہے اور ان کو گولی مار کر ختم کر دیا جاتا ہے۔ پھر یہ مسلح گروہ جاءے واردات سے غاءب ہوجاتا ہے۔ اس طرح کی وارداتیں گلگت کے علاقے میں بھی ہوءی ہیں اور بلوچستان میں بھی۔ بلوچستان میں ہزارہ لوگوں پہ قیامت ٹوٹی ہوءی ہے۔ اب تو شاید ہی کوءی ہفتہ جاتا ہو جب چار چھ ہزارہ افراد کو گولیوں سے نہ بھونا جاتا ہو۔ اور اس قیامت کے جواب میں حکومت پاکستان کے پاس کوءی دوا نہیں ہے۔ سینکڑوں ہزارہ لوگوں کے قتل کے بعد بھی آج تک کسی شخص کو ان ہلاکتوں کے سلسلے میں گرفتار نہیں کیا گیا۔ یہ کون لوگ ہیں جو اس قدر بے باکی سے ہر چند دن بعد نمودار ہوتے ہیں اور ہزارہ لوگوں کو مار کر آرام سے غاءب ہو جاتے ہیں؟ ایک راءے یہ ہے کہ ہزارہ لوگوں کے قتل کی مہم میں شدت پسند سنی مذہبی تحریکوں کا الحاق پاکستان دشمن عناصر کے ساتھ ہے۔ ہزارہ لوگوں کے قتل میں جہاں مذہبی جنونیوں کو 'ثواب' حاصل ہورہا ہے وہیں وفاق پاکستان سے وفاداری رکھنے والے لوگ بھی بلوچستان سے ختم ہو رہے ہیں؛ اس کے ساتھ اس قتل و غارت گری سے بلوچستان کا نام بھی شہ سرخیوں کی زینت بنا رہتا ہے، جس کا اپنا الگ سیاسی فاءدہ ہے۔ بہرحال، ہزارہ لوگوں کے قتل سے کوءی کسی طرح کا فاءدہ اٹھا رہا ہو، عوام تو حکومت سے جواب چاہتے ہیں۔ عوام حکومت کی امان میں رہتے ہیں۔ اپنی منتخب حکومت سے سب سے پہلی چیز جو وہ چاہتے ہیں وہ جان و مال کی حفاظت ہے۔ جس حکومت کے زیر اثر لوگوں کی جان و مال محفوظ نہ ہو، وہ کسی پذیراءی، کسی عزت کی مستحق نہیں۔ ہم ہزارہ لوگوں کے درد میں شریک ہیں اور ان سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ اپنی حفاظت کے لیے حکومت پاکستان کی طرف دیکھنا چھوڑ دیں۔ اپنی حفاظت کا انتظام خود کریں۔ اگر دو ٹکے کے مذہبی جنونی غیرقانونی اسلحہ خرید کر شریف لوگوں کو مذہب کے نام پہ قتل کر رہے ہیں تو شرفا کو خود کو مسلح کرنے کی خواہش سے روکنا حماقت ہے۔ جب لوگوں کی جان و مال محفوظ رکھنے میں حکومت ناکام ہو جاءے تو گروہوں کا یہ فرض بن جاتا ہے کہ وہ اپنی جگہ حکومت کی یہ ذمہ داری قبول کریں اور اپنے گروہ میں موجود لوگوں کی خود حفاظت کریں۔


 

آزادی، خواہشات اور ضروریات


مارچ انیس، دو ہزار بارہ




آزادی۔ کتنا خوب صورت لفظ ہے۔ یہ خیال دل کو کتنا لبھاتا ہے۔ یہ خیال کہ آپ بغیر کسی کے دباءو کے، اپنی مرضی سے اپنی زندگی بسر کر سکیں، آزادی کے ساتھ۔ مگر غور کریں تو انسان خود اپنی آزادی سلب کرانے کے انتظامات کرتا ہے۔ اور ایسا خواہشات کے ہاتھوں ہوتا ہے اور خاص طور پہ ان خواہشات کے ہاتھوں جن کو پورا کرنے کے لیے دوسروں کا سہارا لینا پڑے۔
کسی سیانے کا قول ہے کہ اپنی ضروریات پہ دھیان دو اور خواہشات کو کم کرو؛ ضرورت تو فقیر کی بھی پوری ہوتی ہے اور خواہشات بادشاہوں کی بھی ادھوری رہ جاتی ہیں۔ خواہشات اور ناامیدی کے درمیان تعلق سیدھا سادھا ہے۔ جسیے جیسے خواہشات بڑھتی جاءیں گی ویسے ویسے اس بات کا امکان بڑھتا جاءے گا کہ آپ بعض خواہشات پوری نہ ہونے پہ ناامید ہوں گے۔ لوگ خواہشات کے ہاتھوں مجبور ہوجاتے ہیں کیونکہ وہ نہ چاہتے ہوءے بھی زمانے کی دوڑ میں بھاگنے لگتے ہیں۔ وہ اور لوگوں کی دیکھا دیکھی بڑے گھر کی، چمکدار گاڑی کی خواہش کرتے ہیں، اور اس دوڑ کی کوءی حد نہیں ہے۔ اور یہ بات یقینا ہر شخص کے اختیار میں ہے کہ وہ مادی اشیا کے حصول کی اندھا دھند دوڑ میں بھاگنے سے انکار کر دے۔ وہ صاف کہہ دے کہ 'میں چل تو رہا ہوں مگر دوڑ میں شامل نہیں ہوں۔' اور شاید یہی انسان کی جیت ہے کہ وہ ایسے کام نہ کرے جو محض دنیا والوں کو دکھانے کے لیے ہوں اور کسی سے مقابلے پہ کیے جاءیں۔ بلکہ انسان وہ کام کرے جو وہ واقعی کرنا چاہتا ہے، بغیر زمانے والوں کے انعام و اکرام اور لعن طعن کی پرواہ کیے۔ آزادی کا مطلب یہ ہے کہ آپ کی زندگی آپ کے اختیار میں ہو۔ اور اکثر لوگ شعور کی ایک منزل پہ پہنچ کر دینا والوں کی طرف سے تھوپی گءی خواہشات سے کنارہ کشی کرتے ہیں۔ میرا شمار بھی ان فقیروں میں کیا جا سکتا ہے جنہوں نے خواہشات کا راستہ بہت پہلے ترک کردیا ہے۔ خواہشات کو ایک طرف رکھ دیا جاءے تو پھر انسان کی ضروریات بچتی ہیں۔ ایسی ضروریات جن کے بغیر زندگی کا تصور ممکن نہی ہے۔ ہوا، پانی، غذا، تن ڈھانپنے کے لیے کپڑے، اور سر چھپانے کے لیے ٹھکانہ۔ نءے دور کی دنیا میں انسان کی بیشتر ضروریات بھی دوسروں سے پوری ہوتی ہیں۔ ایک دفعہ پھر ہم اپنی آزادی سلب کرانے کا انتظام کرتے ہیں۔ اس ضمن میں غذا کی مثال لیں۔ جدید دنیا میں اکثر لوگ اس مرکزی نظام کا حصہ ہیں جس میں ان کی غذا ان سے بہت دور اگاءی جاتی ہے۔ ہم اس کسان کو جانتے بھی نہیں جو ہماری خوراک اگاتا ہے۔ ہماری یہ بہت بڑی ضرورت اس پیچیدہ نظام کے توسط سے پوری ہوتی ہے جس کا مرکزی پہیہ پیسہ ہے۔ ہم کام کرتے ہیں، پیسہ کماتے ہیں اور اس پیسے سے اپنی ضرورت کی چیزیں حاصل کرتے ہیں۔ لیکن اگر کسی وجہ سے پیسے کا نظام یک دم بیٹھ جاءے تو کیا ہو؟ جنگ اور آفت کے زمانے میں ایسا ہی ہوتا آیا ہے۔ ایسا بہت دفعہ ہوا کہ کرنسی نوٹوں کی قیمت کسی بھی چھپے ہوءے کاغذ جتنی رہ گءی۔ یہ بہت خطرناک صورتحال ہے کہ ہم اپنی ایک بہت اہم ضرورت پوری کرنے کے لیے ایسے پیچیدہ نظام کا سہارا لیں جس کا بھٹا ذرا سی دیر میں بیٹھ سکتا ہے۔ یہ چیلنج ہر کمیونٹی کے سامنے ہے کہ جہاں خوراک اگتی ہو وہ جگہ اس کمیونٹی کے قریب ہو، اور اس جگہ پہ اس کمیونٹی کا اختیار ہو۔ خوراک کے معاملے میں اختیار ہونے کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ ہر شخص کو یہ حق حاصل ہے کہ اسے اطمینان ہو کہ وہ جو خوراک استعمال کر رہا ہے اس میں ایسی مضر صحت اشیا شامل نہیں ہیں جو طویل دورانیے میں اس کو نقصان پہنچا سکتی ہیں۔ کیونکہ پیسے کے نظام میں جہاں انسان ایک چابی والے کھلونے کی طرح ہے اور چابی لالچ کا جذبہ ہے، اس بات کا عین امکان ہے کہ لالچ سے مجبور ہو کر خوراک اگانے والا زیادہ سے زیادہ پیداوار جلد سے جلد حاصل کرنے کے لیے ایسے اقدامات کرے جن سے یا تو ماحولیاتی مساءل جنم لیں یا خوراک کا معیار متاثر ہو۔ صنعتی انقلاب کے بعد دیہات سے شہروں کی طرف نقل مکانی موجودہ دور کا اہم عنصر ہے مگر اس نقل مکانی سے بہت سی خرابیوں نے جنم لیا ہے۔ خوراک اگانے اور خوراک کھانے والے میں دوری بھی ایسی ہی ایک خرابی ہے۔ ہم جنوبی ایشیا میں ایسے مستقبل کا خواب دیکھتے ہیں جہاں لوگ چھوٹی آبادیوں میں رہتے ہوں اور ہر آبادی اپنی بنیادی ضروریات یعنی پانی، خوراک، اور بجلی کا انتظام خود اپنے طور پہ کر سکے۔

Labels:


This page is powered by Blogger. Isn't yours?