Monday, April 23, 2012
قبلہ اول
اپریل نو، دو ہزار بارہ
گزشتہ سے پیوستہ
اندرون شہر یروشلم کی تنگ گلیوں میں جگہ جگہ الاقصی کے نشانات لگے ہیں۔ مسجد اقصی اور قبلہ اول یا حرم الشریف ایک ہی احاطے میں واقع ہیں۔ قبلہ اول ایک چھوٹی سی گول عمارت ہے جس کا گنبد سنہری ہے۔ اس عمارت کے بیچوں بیچ ایک چٹان ہے۔ خاتم النبیین اسی چٹان سے معراج پہ گءے تھے اور خانہ کعبہ کی طرف قبلہ تبدیل ہونے سے پہلے مسلمان اسی پتھر کی طرف منہ کر کے نماز پڑھا کرتے تھے۔ یہ چٹان جہاں مسلمانوں کے لیے قبلہ اول ہونے کی وجہ سے مقدس ہے وہیں یہودیوں کے لیے بھی سب سے اہم مذہبی مقام ہے؛ یہودی آج بھی اسی چٹان کی طرف منہ کر کے عبادت کرتے ہیں۔ قبلہ اول سے چند سو گز کے فاصلے پہ جنوب میں مسجد اقصی ہے۔ یہ عمارت بہت بعد میں تعمیر کی گءی تھی۔ مسجد اقصی کا گنبد روپہلی ہے۔ قبلہ اول اسراءیل کے قبضے میں ہونے کی وجہ سے مسلمان کم ہی تعداد میں وہاں پہنچ پاتے ہیں اور اسی وجہ سے قبلہ اول کے بارے میں بہت سے ذہنوں میں ابہام ہے؛ قبلہ اول کی تصویر دکھانی ہو تو مسجد اقصی کی تصویر دکھا دی جاتی ہے۔ اس ابہام سے یہ غلط تاثر ابھر رہا ہے کہ مسجد اقصی دراصل وہ مقدس مقام ہے جس کا حصول مسلمانوں کے لیے اہم ہے، حالانکہ مسجد اقصی تو ثانوی درجہ رکھتی ہے، اصل مقدس جگہ تو حرم الشریف ہے۔ فلسطین سے باہر رہنے والے مسلمان کم تعداد میں حرم الشریف کی زیارت کرتے ہیں مگر یہ تاثر درست نہیں ہے کہ اسراءیل کے قبضے کے بعد مسلمانوں کا وہاں داخلہ ہی ممنوع ہے یا فلسطین سے باہر رہنے والے مسلمان وہاں جاتے ہی نہیں ہیں۔ ہر سال سینکڑوں شیعہ زاءرین اردن سے اسراءیل میں داخل ہوتے ہیں اور حرم الشریف کی زیارت کرتے ہیں۔ اسی طرح مغربی ممالک میں بسنے والے مسلمان بھی اسراءیل جاتے ہیں اور وہاں موجود مقدس مقامات پہ حاضری دیتے ہیں۔ ہمارے علاقے یعنی سان فرانسسکو بے ایریا میں بہت سے کاروبار ایسے ہیں جن کے دفاتر اور کارخانے اسراءیل میں ہیں۔ ان کاروبار میں کام کرنے والے مسلمانوں بالشمول پاکستانیوں کا مستقل اسراءیل آنا جانا لگا رہتا ہے۔ جس احاطے میں حرم الشریف اور مسجد اقصی موجود ہیں اس کے اطراف اسراءیلی پولیس کا پہرا ہے۔ سیاحوں کو اس احاطے میں جانے کی اجازت نہیں ہے۔ چنانچہ جب ہم زیارت کے لیے وہاں پہنچے تو ہمارے کیمرے دیکھ کر یہ خیال کیا گیا کہ ہم سیاح ہیں، ہم سے کہہ دیا گیا کہ ہمیں اندر جانے نہیں دیا جا سکتا۔ ہم نے کہا کہ ہم مسلمان ہیں اور اندر ضرور جاءیں گے۔ اس پہ ہم سے تقاضہ کیا گیا کہ ہم سورہ فاتحہ سنا کر اپنی مسلمانیت ثابت کریں۔ ہمیں اندازہ ہوا کہ حرم الشریف پہ تعنیات ہونے والے اسراءیلی سپاہیوں کو مذہب اسلام کی بنیادی تعلیم بھی دی جاتی ہے۔ ہم نے سپاہیوں کا تقاضہ پورا کیا تو ہمیں احاطے کے اندر جانے کی اجازت ملی۔ احاطہ ایک مسلمان وقف کے زیر اثر ہے۔ احاطے کے باہر اسراءیلی سپاہیوں کا پہرہ ہے اور احاطے کے اندر وقف کے رضاکاروں کا۔ احاطے کے اندر گھسے تو وقف کے رضاکاروں نے بھی ہم سے چند سوالات کیے۔ حرم الشریف کا احاطہ ایک بڑے علاقے پہ محیط ہے۔ یہ جگہ القدس میں رہنے والے مسلمانوں کے لیے مرکزی مقام کا درجہ رکھتی ہے۔ ہم جب کبھی اس احاطے میں گءے ہم نے وہاں فلسطینی خاندانوں کو جگہ جگہ بیٹھے، آرام کرتے دیکھا۔ پرانے شہر کی تنگ گلیوں اور بھیڑ سے بیزار آجانے والوں کے لیے حرم الشریف کے احاطے کی وسیع کھلی جگہ یقینا تفریح کا مقام بھی ہے۔ میرے پاس بہت سی تصاویر ہیں جو میں نے حرم الشریف کے اندربیٹھ کر لیں، اور اسی طرح مسجد اقصی کی بھی بہت سی تصاویر ہیں۔ یہ تصاویر کراچی فوٹو بلاگ پہ موجود ہیں۔ ایک روز اسی احاطے کے اندر ایک ایسے فلسطینی نوجوان سے ملاقات ہوگءی جس نے انجینءیرنگ کی تعلیم ترکی سے حاصل کی تھی۔ ہم احاطے کی دیوار کے ساتھ ساتھ چل رہے تھے۔ اس نوجوان نے وہاں موجود مولانا محمد علی جوہر کی قبر کی نشاندہی کی۔ دیوار کے ساتھ چلتے چلتے ہم ایک ایسے دروازے تک پہنچے جس کے باہر بہت شور تھا۔ یوں لگتا تھا کہ جیسے بہت سے لوگ مل کر کچھ پڑھ رہے ہیں۔ نوجوان عبرانی جانتا تھا؛ اس نے ہمیں بتایا کہ باہر موجود لوگ یہودی زاءرین ہیں جو عبرانی کی مناجات میں کہہ رہے ہیں کہ ہم عنقریب اس احاطے کے اندر ہوں گے۔ اس وقت تک ہمارے آس پاس بہت سے فلسطینی لڑکے جمع ہو گءے تھے۔ ان میں سے ایک لڑکے نے 'یہود، یہود' کا نعرہ لگایا۔ ایک لڑکا ایک لمبی سے چھڑی لے آیا۔ اس نے وہ چھڑی دروازے کے نیچے سے باہر سرکاءی اور چھڑی کو داءیں باءیں گھما کر باہر موجود یہودی زاءرین کے پاءوں پہ مارنے لگا۔ باہر کھلبلی مچ گءی۔ یہ واقعہ ہمارے لیے اس امر کا چھوٹا سا مشاہدہ تھا کہ فلسطین پہ اسراءیل کا قبضہ ضرور ہے مگر فلسطینی ڈر کر نہیں بیٹھ گءے ہیں۔ جب موقع ملتا ہے فلسطینی کھڑے ہو کر تن کر مقابلہ کرتے ہیں۔
Labels: An Israel Diary. Jerusalem.