Tuesday, April 17, 2012

 

آزادی، خواہشات اور ضروریات


مارچ انیس، دو ہزار بارہ




آزادی۔ کتنا خوب صورت لفظ ہے۔ یہ خیال دل کو کتنا لبھاتا ہے۔ یہ خیال کہ آپ بغیر کسی کے دباءو کے، اپنی مرضی سے اپنی زندگی بسر کر سکیں، آزادی کے ساتھ۔ مگر غور کریں تو انسان خود اپنی آزادی سلب کرانے کے انتظامات کرتا ہے۔ اور ایسا خواہشات کے ہاتھوں ہوتا ہے اور خاص طور پہ ان خواہشات کے ہاتھوں جن کو پورا کرنے کے لیے دوسروں کا سہارا لینا پڑے۔
کسی سیانے کا قول ہے کہ اپنی ضروریات پہ دھیان دو اور خواہشات کو کم کرو؛ ضرورت تو فقیر کی بھی پوری ہوتی ہے اور خواہشات بادشاہوں کی بھی ادھوری رہ جاتی ہیں۔ خواہشات اور ناامیدی کے درمیان تعلق سیدھا سادھا ہے۔ جسیے جیسے خواہشات بڑھتی جاءیں گی ویسے ویسے اس بات کا امکان بڑھتا جاءے گا کہ آپ بعض خواہشات پوری نہ ہونے پہ ناامید ہوں گے۔ لوگ خواہشات کے ہاتھوں مجبور ہوجاتے ہیں کیونکہ وہ نہ چاہتے ہوءے بھی زمانے کی دوڑ میں بھاگنے لگتے ہیں۔ وہ اور لوگوں کی دیکھا دیکھی بڑے گھر کی، چمکدار گاڑی کی خواہش کرتے ہیں، اور اس دوڑ کی کوءی حد نہیں ہے۔ اور یہ بات یقینا ہر شخص کے اختیار میں ہے کہ وہ مادی اشیا کے حصول کی اندھا دھند دوڑ میں بھاگنے سے انکار کر دے۔ وہ صاف کہہ دے کہ 'میں چل تو رہا ہوں مگر دوڑ میں شامل نہیں ہوں۔' اور شاید یہی انسان کی جیت ہے کہ وہ ایسے کام نہ کرے جو محض دنیا والوں کو دکھانے کے لیے ہوں اور کسی سے مقابلے پہ کیے جاءیں۔ بلکہ انسان وہ کام کرے جو وہ واقعی کرنا چاہتا ہے، بغیر زمانے والوں کے انعام و اکرام اور لعن طعن کی پرواہ کیے۔ آزادی کا مطلب یہ ہے کہ آپ کی زندگی آپ کے اختیار میں ہو۔ اور اکثر لوگ شعور کی ایک منزل پہ پہنچ کر دینا والوں کی طرف سے تھوپی گءی خواہشات سے کنارہ کشی کرتے ہیں۔ میرا شمار بھی ان فقیروں میں کیا جا سکتا ہے جنہوں نے خواہشات کا راستہ بہت پہلے ترک کردیا ہے۔ خواہشات کو ایک طرف رکھ دیا جاءے تو پھر انسان کی ضروریات بچتی ہیں۔ ایسی ضروریات جن کے بغیر زندگی کا تصور ممکن نہی ہے۔ ہوا، پانی، غذا، تن ڈھانپنے کے لیے کپڑے، اور سر چھپانے کے لیے ٹھکانہ۔ نءے دور کی دنیا میں انسان کی بیشتر ضروریات بھی دوسروں سے پوری ہوتی ہیں۔ ایک دفعہ پھر ہم اپنی آزادی سلب کرانے کا انتظام کرتے ہیں۔ اس ضمن میں غذا کی مثال لیں۔ جدید دنیا میں اکثر لوگ اس مرکزی نظام کا حصہ ہیں جس میں ان کی غذا ان سے بہت دور اگاءی جاتی ہے۔ ہم اس کسان کو جانتے بھی نہیں جو ہماری خوراک اگاتا ہے۔ ہماری یہ بہت بڑی ضرورت اس پیچیدہ نظام کے توسط سے پوری ہوتی ہے جس کا مرکزی پہیہ پیسہ ہے۔ ہم کام کرتے ہیں، پیسہ کماتے ہیں اور اس پیسے سے اپنی ضرورت کی چیزیں حاصل کرتے ہیں۔ لیکن اگر کسی وجہ سے پیسے کا نظام یک دم بیٹھ جاءے تو کیا ہو؟ جنگ اور آفت کے زمانے میں ایسا ہی ہوتا آیا ہے۔ ایسا بہت دفعہ ہوا کہ کرنسی نوٹوں کی قیمت کسی بھی چھپے ہوءے کاغذ جتنی رہ گءی۔ یہ بہت خطرناک صورتحال ہے کہ ہم اپنی ایک بہت اہم ضرورت پوری کرنے کے لیے ایسے پیچیدہ نظام کا سہارا لیں جس کا بھٹا ذرا سی دیر میں بیٹھ سکتا ہے۔ یہ چیلنج ہر کمیونٹی کے سامنے ہے کہ جہاں خوراک اگتی ہو وہ جگہ اس کمیونٹی کے قریب ہو، اور اس جگہ پہ اس کمیونٹی کا اختیار ہو۔ خوراک کے معاملے میں اختیار ہونے کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ ہر شخص کو یہ حق حاصل ہے کہ اسے اطمینان ہو کہ وہ جو خوراک استعمال کر رہا ہے اس میں ایسی مضر صحت اشیا شامل نہیں ہیں جو طویل دورانیے میں اس کو نقصان پہنچا سکتی ہیں۔ کیونکہ پیسے کے نظام میں جہاں انسان ایک چابی والے کھلونے کی طرح ہے اور چابی لالچ کا جذبہ ہے، اس بات کا عین امکان ہے کہ لالچ سے مجبور ہو کر خوراک اگانے والا زیادہ سے زیادہ پیداوار جلد سے جلد حاصل کرنے کے لیے ایسے اقدامات کرے جن سے یا تو ماحولیاتی مساءل جنم لیں یا خوراک کا معیار متاثر ہو۔ صنعتی انقلاب کے بعد دیہات سے شہروں کی طرف نقل مکانی موجودہ دور کا اہم عنصر ہے مگر اس نقل مکانی سے بہت سی خرابیوں نے جنم لیا ہے۔ خوراک اگانے اور خوراک کھانے والے میں دوری بھی ایسی ہی ایک خرابی ہے۔ ہم جنوبی ایشیا میں ایسے مستقبل کا خواب دیکھتے ہیں جہاں لوگ چھوٹی آبادیوں میں رہتے ہوں اور ہر آبادی اپنی بنیادی ضروریات یعنی پانی، خوراک، اور بجلی کا انتظام خود اپنے طور پہ کر سکے۔

Labels:


Comments: Post a Comment



<< Home

This page is powered by Blogger. Isn't yours?