Saturday, April 21, 2012
تل ابیب سے القدس
اپریل ۱، دو ہزار بارہ
گزشتہ سے پیوستہ
تل ابیب ایک نیا شہر ہے۔ آج کے تل ابیب میں تاریخی شہر یوفا کو بھی شمار کیا جاتا ہے جو تل ابیب کے جنوب میں واقع ہے۔ سن اڑتالیس تک یوفا میں عرب اکثریت میں تھے مگر اسراءیل کے قیام کے بعد عرب آبادی کو بے دخل کرنے کا کام ہورہا ہے اور آج یوفا میں عرب یہودیوں کے مقابلے میں کم ہیں۔ یوفا جاکر وہاں کی عرب آبادی کا مشاہدہ کرنا اچھا تجربہ ہوتا مگر ہمارے پاس وقت کم تھا اس لیے ہم تل ابیب میں دو رات کے قیام کے بعد القدس کے لیے روانہ ہوگءے۔ تل ابیب سے القدس ایک سپاٹ راستہ ہے، القدس سے وہ پہاڑیاں شروع ہوتی ہیں جو دریاءے اردن کو سمندر تک آنے سے روکتی ہیں۔ دریاءے اردن پہاڑیوں کے درمیان موجود ایک کھاءی میں دم توڑتا ہے۔ یہ جھیل بحر مردار کہلاتی ہے۔ بحر مردار اور دریاءے اردن اسراءیل اور اردن کے درمیان سرحد کا کام دیتے ہیں۔ اسراءیل کی تو خواہش ہے کہ تمام عرب یہ جگہ چھوڑ کر دریاءے اردن کے اس پار چلے جاءیں مگر اس خواہش کے باوجود دریاءے اردن کے اس طرف یعنی دریا کے مغربی کنارے پہ عربوں کی ایک بڑی آبادی ہے۔ یہ تقریبا مستقل آبادی دریا کے کنارے سے القدس تک ہے۔ یروشلم یعنی القدس پہ قبضے کے بعد اسراءیل نے اپنا دارالحکومت القدس منتقل کر دیا مگر دنیا اب تک القدس کو متنازعہ علاقہ مانتی ہے اور جن ملکوں کے اسراءیل سے سفارتی تعلقات ہیں ان کے سفارت خانے تل ابیب ہی میں ہیں۔ جو وین ہمیں تل ابیب کے مرکزی بس اڈے سے یروشلم لے گءی اس نے ہمیں مغربی یروشلم میں اتارا۔ مغربی یروشلم نیا علاقہ ہے اور القدس پہ اسراءیل کے قبضے کے بعد اس کی آبادی میں مستقل اضافہ ہوا ہے۔ ہم پرانے یروشلم میں قیام کرنا چاہتے تھے۔ وین کے ڈراءیور سے دریافت کیا کہ مغربی یروشلم سے پرانے شہر تک کیسے جاءیں۔ اس نے ہاتھ کے اشارے سے بتایا کہ پرانے شہر تک فاصلہ بہت زیادہ نہیں ہے، ہم پیدل چلتے ہوءے وہاں پہنچ سکتے ہیں۔ ہم پیدل چلنا شروع ہوءے تو کچھ ہی دیر بعد پرانے شہر کی دیوار نظر آنا شروع ہو گءی۔ پرانا شہر جیسے جیسے قریب آتا جا رہا تھا اس طرف جانے والے لوگوں کا رش بڑھتا جا رہا تھا۔ جب تک ہم پرانے یروشلم کے یوفا دروازے تک پہنچے اس وقت تک ہم ایک جمع غفیر کا حصہ بن چکے تھے۔ یوفا دروازے سے پرانے شہر میں داخل ہونا ایک عجیب روحانی تجربہ تھا۔ پتھر کی اونچی فصیل، اندرون شہر میں سرخ اینٹوں کی سڑکیں، جوق در جوق چلنے والے مختلف مذاہب کے جتھے، اور اوپر سے ذہن پہ تاریخ کا زور کہ یہ جگہ ہزاروں سال پرانی ہے، یہاں عالی رتبہ پیغمبر گزرے ہیں اور بڑے بڑے حکمرانوں نے فوجی کارواءی کی ہے؛ یہ محسوسات آپ کی روح میں اتر کر آپ کو ایک عجیب کیفیت میں لے جاتے ہیں۔ میں یوفا دروازے سے اندرون شہر پہنچ کر دیوانوں کی طرح ادھر ادھر دیکھ رہا تھا۔ سامنے ہی ایک چھابڑی والا نظر آیا جو فلافل بیچ رہا تھا۔ میں نے اشتیاق میں بہت سے فلافل خریدے اور ان کو تیزی سے کھانا شروع کیا۔ ذرا سی دیر میں فلافل گلے سے نیچے پھنس گءے۔ میں تکلیف میں ادھر ہی بیٹھ گیا۔ پانی پی کر پھنسے ہوءے فلافل کو نیچے اتارنے کی کوشش کر سکتا تھا مگر دل تھا کہ کچھ نہ کروں اور قدرت کو اپنا کام کرنے دوں ۔ کچھ دیر بعد فلافل خود بخود آنت میں نیچے اترا تو جان میں جان آءی۔ اندرون شہر یروشلم چار حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے: مسلمان ربع، یہودی ربع، عیساءی ربع، اور آرمینی ربع۔ یوفا دروازے سے پرانے شہر میں داخل ہوں تو داءیں طرف آرمینی ربع ہے اور باءیں طرف عیساءی ربع۔ دن ڈھلنے میں ابھی بہت وقت تھا اس لیے سوچا کہ ٹہرنے کے لیے جگہ آرام سے تلاش کی جاءے۔ تنگ گلیوں میں چلتے ہوءے مسلمان ربع میں پہنچے۔ وہاں کم نرخ ہوٹل بھر چکے تھے اور جو دستیاب تھے وہ ہمیں پسند نہ آءے۔ مسلمان ربع میں چلتے چلتے ہم دمشق دروازے سے گزرتے پرانے یروشلم سے باہر نکل گءے۔ دمشق دروازے سے باہر مشرقی یروشلم ہے جو مسلمان اکثریت علاقہ ہے۔ وہاں اکا دکا ہوٹل تھے اور سب کے کراءے آسمان سے باتیں کر رہے تھے۔ ہم ہیروڈ دروازے سے دوبارہ اندرون شہر میں داخل ہو گءے اور چلتے چلتے پھر یوفا دروازے تک پہنچ گءے۔ اب کی بار ہوٹل کی تلاش میں آرمینی ربع کا رخ کیا۔ وہاں بالکل شروع ہی میں یوفا گیٹ ہوسٹل نامی مسافر خانہ مل گیا۔ اس ہوسٹل کو چلانے والا ایک نوجوان فلسطینی تھا۔ نرخ مناسب تھے، ہم نے وہاں کمرہ حاصل کر لیا۔ اس وقت تک شام ہو چلی تھی۔ مختصر آرام کے بعد کمرے سے نکلے اور آرمینی ربع میں یہودی ربع کی طرف چلنا شروع ہوءے۔ یہودی ربع اندروش شہر کے دوسرے علاقوں کے مقابلے میں زیادہ صاف ستھرا اور چمکیلا نظر آیا۔ ہم اس طرف چلنا شروع ہو گءے جس طرف زیادہ تر لوگ جا رہے تھے۔ کچھ ہی دیر میں ہم ایسی جگہ پہنچ گءے جہاں سے نیچے ایک بہت بڑا میدان نظر آتا تھا۔ اس میدان کے ایک طرف دیوار کے ساتھ لوگ قطار سے کھڑے تھے۔ ہم دراصل دیوار گریہ تک پہنچ چکے تھے۔ نیچے میدان میں اترنے سے پہلے ہم بہت دیر تک اس اونچے مقام سے اس منظر کو غور سے دیکھتے رہے۔ پھر سیڑھیوں سے نیچے اترے تو ہمیں ایک اسکینر سے گزارا گیا۔ تلاشی کے عمل سے کامیابی سے گزرنے کے بعد ہم دیوار گریہ تک پہنچ گءے۔ وہاں عورتوں اور مردوں کے لیے الگ الگ عبادت کی جگہ تھی۔ کچھ کچھ فاصلے پہ یرموک کے ڈھیر لگے تھے۔ ہم نے بھی ایک یرموک اٹھاءی اور اس چھوٹی سی ٹوپی کو سر پہ بمشکل ٹکا کر دیوار گریہ تک پہنچ گءے۔ عبادت گزار یہودی دیوار پہ ہاتھ ٹکاءے، ہل ہل کر پڑھتے جاتے تھے اور روتے جاتے تھے۔ ہمیں معلوم نہ تھا کہ دریاءے گریہ پہ پہنچ کر کیا پڑھنا ہے، یونہی کھڑے کھڑے دیوار کو دیکھتے رہے اور کچھ دیر بعد الٹے قدموں واپس پلٹ آءے۔
Labels: An Israel Diary, Part II. Al-Quds. Jerusalem.