Thursday, April 19, 2012
ایک سفر اسراءیل کا
مارچ پچیس، دو ہزار بارہ
اسراءیل جانے کا فیصلہ کرنا آسان نہیں ہے۔ آپ بھلا ایسے ملک میں کیوں جانا چاہیں گے جو مذہب کی بنیاد پہ اپنے شہریوں پہ ظلم کرتا ہو، جو مستقل فلسطینیوں کی زمینیں ہتھیا کر وہاں باہر سے لانے والے لوگوں کو بسا رہا ہو، جو عموما ایک پسندیدہ ملک نہ تصور کیا جاءے؟ لیکن کسی بھی لکھنے والے کے لیے یہ مشکل کام ہے کہ وہ موجودہ دنیا کے سب سے بڑے تنازعے کو بہ چشم خود دیکھے بغیر اس کے متعلق راءے قاءم کرے اور اس پہ لکھے۔ اسراءیل میں گھسنے کی میری پہلی کوشش اس وقت ناکام ہوءی جب اردن کے دارالحکومت عمان میں اسراءیلی سفارت خانے نے ویزا درخواست پہ ہفتہ بھر غور کرنے کے بعد مجھے ٹکا سا جواب دے دیا۔ اس واقعے کے بعد کءی سال گزر گءے۔ اسراءیل جانے کی دوسری کوشش اس طرح کامیاب رہی کہ پاکستان سے واپسی میں ہم لندن ٹہرے اور وہاں سے ٹرکش اءیرلاءنز سے اڑ کر تل ابیب پہنچے۔ ہم اس صبح
ہم منہ اندھیرے ہیتھرو پہنچے تھے۔ دو بچوں کو بہت مشکل سے اتنی صبح تیار کیا تھا۔ وہ ٹیکسی میں دودھ پیتے ہوءے ہواءی اڈے پہنچے تھے۔ ہمیں اور ہمارے سامان کو ہواءی اڈے پہ اتارنے کے بعد ٹیکسی ڈراءیور نے جھانک کر پچھلی سیٹ کو دیکھا اور نیچے غالیچے پہ ٹپک جانے والے دودھ کو دیکھ برا منہ بنایا۔ اس نے غالیچہ نکال کر باہر جھاڑا، ہم سے رقم لے کر گنی اور تیور چڑھاءے روانہ ہو گیا۔ باہر اندھیرا تھا مگر ہواءی اڈے کے اندر خوب رونق تھی۔ لندن سے استنبول جانے والی پرواز میں زیادہ تر مسافر سوٹ پہنے ہوءے تھے۔ ٹرکش اءیرلاءنز کی وہ پرواز صبح ہی ہیتھرو سے روانہ ہوءی۔ یہ پرواز ان لوگوں کے لیے کارآمد تھی جو کاروباری سلسلے میں استنبول جانا چاہیں اور دن بھر استنبول میں کام کر کے شام کو واپس لندن پلٹنا چاہیں۔ ہم یورپ کے مغربی سرے سے مشرقی سرے کی طرف جا رہے تھے۔ جہاز میں ایک حجابی نہایت سرخ و سپید خاتون نظر آءیں۔ انہوں نے ہمارے بچے کو دیکھ کر زور سے ماشاءاللہ کہا۔ یہ خاتون ہم سے اگلی نشست پہ بیٹھی تھیں۔ بعد میں ان کی باآواز گفتگو سے معلوم ہوا کہ یہ برطانوی خاتون ایک ترک آدمی سے نکاح میں تھیں۔ ترک مرد کو انگلستان لانے کی کوشش کی جارہی تھی۔ استنبول کے ہواءی اڈے پہ اسراءیل جانے والی پرواز کے لیے خاص حفاظتی اقدامات کیے گءے تھے۔ مسافر اضافی اسکینر سے گزرتے ہوءے اس جگہ میں داخل ہوتے تھے جہاں تل ابیب جانے والی پرواز کا گیٹ تھا۔ آپ کو اچھی طرح اندازہ ہوجاتا تھا کہ آپ کسی خاص جگہ جا رہے ہیں۔ واضح رہے کہ اسراءیل سے اڑنے والی ہر پرواز اسراءیل ہی سے شروع ہوتی ہے اور اسراءیل پہنچنے والی ہر پرواز اسراءیل میں ہی ختم ہو جاتی ہے، یعنی ایسا ممکن نہیں ہے کہ آپ کہیں جاتے ہوءے اسراءیل میں ٹرانزٹ مسافر کے طور پہ اتر جاءیں۔
بن گوریان اءیرپورٹ پہ امیگریشن کے کاءونٹر پہ یہ سوچ کر پاسپورٹ دیا کہ اب آڑھے ترچھے سوالات ہوں گے مگر اس وقت خوش گوار حیرت ہوءی جب پاسپورٹ میں ایک پرچہ رکھ کر اشارہ کر دیا گیا کہ بس جاءو۔ اس پرچے پر انگریزی میں گیٹ پاس لکھا تھا۔ دل میں اطمینان ہوا کہ اس پرچے کی وجہ سے بس اب نکلتے چلے جاءیں گے۔ آگے جا کر چند باوردی لوگوں نے پاسپورٹ دیکھے اور گیٹ پاس والا پرچہ دیکھ کر ہمیں ایک طرف کھڑے ہوجانے کا اشارہ کیا۔ معلوم ہوا کہ ہر اس مسافر کو تفتیش کے لیے روکا جا رہا تھا جس کے پرچے میں گیٹ پاس والا پرچہ رکھا تھا۔ ہم اسراءیلیوں کی شاطری کے قاءل ہو گءے۔ پھر معاملہ یہ ہوا کہ ہم سے آگے ایک فلسطینی نژاد امریکی لڑکی تھی جس کو اسراءیلی حکام کی پوچھ گچھ سخت ناگوار گزر رہی تھی۔ اس نے زور زور سے چیخنا چلانا شروع کر دیا کہ میرے امریکی پاسپورٹ کے باوجود تم مجھ سے امتیازی سلوک اس لیے کر رہے ہو کیونکہ میں فسلطینی ہوں۔ فلسطینی لڑکی کے ہنگامے کے ساتھ ہم بھی تھے، دو چھوٹے بچوں کے ساتھ۔ افسر اعلی نے بچوں پہ ایک نظر ڈالی اور پھر ہمیں روکنے والے سپاھی کو ٹھوڑی سے اشارہ کیا کہ کیا میرا وقت ضاءع کرتے ہو۔ ہمیں جانے دیا گیا۔
سامان حاصل کرنے کے بعد اگلا مرحلہ زیادہ تر سامان کو ہواءی اڈے پہ موجود مال خانے میں رکھانے کا تھا۔ مال خانے میں لوگوں کا سامان بظاہر بے ہنگم طریقے سے رکھا ہوا تھا۔ ہمیں اشارے سے بتایا گیا کہ ہم وہاں اپنا سامان رکھ دیں اور اس سامان پہ مال خانے کی طرف سے دءیے گءے اسٹکر لگا دیں۔ مال خانے میں زیادہ تر سامان چھوڑنے کے بعد ہم اپنے آپ کو ہلکا پھلکا محسوس کر رہے تھے۔ بن گوریان اءیرپورٹ تل ابیبب سے کچھ فاصلے پہ ہے اور اءیر پورٹ سے شہر کے لیے ایک ٹرین چلتی ہے۔ ہم نے شہر جانے کے لیے وہی ٹرین لی۔ تل ابیب سے پہلے ٹرین کءی چھوٹے اسٹیشنوں پہ رکی۔ ہر اسٹیشن پہ وقفے وقفے سے مسلح سپاھی چوکنا کھڑے تھے۔ تل ابیب کے اسٹیشن سے پہلے ٹرین ایک صنعتی علاقے سے گزری۔ تل ابیب کے اسٹیشن پہ بہت سے لوگ دیسی شکلوں کے نظر آءے۔ ہمارے خطے یعنی جنوبی ایشیا میں رہنے والے یہودی ستر کی دہاءی میں بڑی تعداد میں اسراءیل پہنچے ہیں۔ کراچی میں ہمارے والد کے دفتر میں بھی ایک یہودی کام کرتا تھا۔ سنہ بہتر تہتر میں وہ اور اس کے اہل خانہ اپنا وطن کراچی چھوڑ کر اسراءیل منتقل ہو گءے۔
ٹرین اسٹیشن سے نکل کر ہم ایک بس میں سوار ہوءے جس نے ہمیں اس علاقے میں پہنچا دیا جہاں ہم نے ہوٹل کی ریزرویشن کرواءی تھی۔ نءے دور کی دنیا بھی خوب ہے۔ آپ عجیب و غریب کام کر سکتے ہیں۔ تل ابیب میں ہوٹل کی ریزرویشن ہم نے کراچی میں قیام کے دوران کرواءی تھی۔ اسکاءپ استعمال کرتے ہوءے تل ابیب کے مختلف ہوٹلوں کو فون کیا اور ایک ہوٹل میں بات طے کر لی۔ اس روز شاید پورے پاکستان سے اسراءیل کی جانے والی وہ واحد فون کال ہو۔
[[[[[[[[[[[[[[[[[[[[[[[[[[[[[[[[[[[[[[[[[[[[[
Labels: An Israel Diary. Karachi to Tel Aviv