Monday, March 21, 2011
انصاف نہیں ہوا
انصاف نہیں ہوا
مستقل سننے میں آتا ہے کہ پاکستان کی مذہبی جماعتیں قابو سے باہر ہیں، وہ ایسا کر سکتی ہیں، ویسا کر سکتی ہیں، بہت اودھم مچا سکتی ہیں، ملک کو تباہی سے دو چار کر سکتی ہیں۔ مگر ایک دفعہ پھر مذہبی جماعتوں کا ہوا بے بنیاد ثابت ہوا۔ امریکی حکومت نہایت صفاءی سے ریمنڈ ڈیوس کو پاکستانی جیل سے نکال کر لے گءی اور کوءی خاص شور شرابا نہ ہوا۔ خیال تھا کہ رے ڈیوس کو پاکستان سے چھڑا کر لے جانے پہ ایک طوفان اٹھے گا اور مذہبی جماعتیں پاکستانی حکومت کا ناطقہ بند کر دیں گی۔ مگر ایسا کچھ نہ ہوا۔ اور وجہ یہ تھی کہ امریکی حکومت نے اس رہاءی کے سلسلے میں تیاری اچھی کی تھی۔
تیاری کا پہلا حصہ تو سیاسی طور پہ میدان ہموار کرنا تھا۔ پی پی پی تو حکومت میں ہے ہی، لگتا ہے کہ امریکی انتظامیہ نے مسلم لیگ نون اور ایم کیو ایم کو بھی قابو میں کیا کہ جب ریمنڈ ڈیوس کو چھڑا کر لے جایا جاءے اور مذہبی جماعتیں جمعے کے روز ہڑتال کی کال دیں تو ایسی کسی ہڑتال کی تاءید نہ کرنا۔ واضح رہے کہ مذہبی جماعتیں ہمیشہ جمعے کے روز ہڑتال کی کال دیتی ہیں کیونکہ جمعے کی نماز کے اجتماعات بڑے ہوتے ہیں اور پھر مسجد میں جمع ہوءے ان لوگوں کو جلوس کی شکل میں کہیں لے کر جانا نسبتا آسان ہوتا ہے۔ امریکہ کی حکمت عملی کامیاب رہی۔ بدھ کے روز ریمنڈ ڈیوس کو سرعت سے پاکستان سے نکالنے پہ مذہبی جماعتیں غصے سے تلملا گءیں اور توقع کے عین مطابق انہوں نے جمعے کے روز ہڑتال کی کال دی۔ اس ہڑتال میں ان کی تاءید عمران خان کی تحریک انصاف کے علاوہ کسی بڑی سیاسی جماعت نے نہیں کی۔ چنانچہ جمعے کے روز کچھ نہ ہوا اور چند افراد کا سارا غصہ ٹاءیں ٹاءیں فش ہو گیا۔ امریکی انتظامیہ کے لیے مسلم لیگ نون اور ایم کیو ایم کو قابو کرنا آسان کیوں تھا؟ اس لیے کیونکہ جن جماعتوں کے مالی اور افرادی اثاثے مغربی حکومتوں کے رحم و کرم کے محتاج ہوں انہیں قابو میں کرنا کونسا مشکل کام ہے؟
پھر امریکی حکمت عملی کا دوسرا حصہ بھی کامیاب رہا۔ اور وہ حصہ ریمنڈ ڈیوس کی رہاءی کے لیے شرعی قانون کا سہارا لینا تھا۔ میں شرعی قوانین کے بارے میں واجبی علم رکھتا ہوں مگر یوں سمجھ میں آتا ہے کہ ان قوانین کے تحت خون بہا ادا کر کے قتل معاف کروایا جا سکتا ہے۔ امریکی حکومت نے پاکستانی حکومت کے توسط سے مقتولین کے ورثا کو دیت ادا کی اور اپنا آدمی چھڑا کر لے گءی۔ اور یوں مذہبی جماعتوں کو شریعت کی مار ماری گءی۔ اب اگر مذہبی جماعتیں مظاہرے اور ہڑتالیں کرتی ہیں تو دراصل وہ شریعت کے خلاف مظاہرہ کر رہی ہیں۔
مگر آج کی دنیا میں اپنے آپ کو دوسروں سے زیادہ سیانا دکھانے کی کوشش کرنے کی بھی الگ قیمت ہے۔ امریکی حکومت چالاکی سے ریمنڈ ڈیوس کو پاکستانی جیل سے چھڑا کر لے جانے میں تو کامیاب ہو گءی مگر اس پورے عمل میں لوگوں کے ذہنوں کو صاف نہ کر پاءی۔ عام آدمی کےذہن میں اس کیس سے متعلق جو شکوک و شبہات تھے وہ اپنی جگہ قاءم رہے۔ ریمنڈ ڈیوس کی پاکستان میں گرفتاری کے فورا بعد امریکی وزارت خارجہ نے کہا تھا کہ ریمنڈ ڈیوس کو سفارتی استثنا حاصل ہے اس لیے پاکستانی حکومت ڈیوس کو فورا چھوڑے؛ امریکہ ریمنڈ ڈیوس کو اپنی تحویل میں لینے کے بعد ڈیوس پہ خود مقدمہ چلا کر معاملے کی تہ تک پہنچے گا کہ جنوری ستاءیس کو کیا ہوا تھا۔ اب ریمنڈ ڈیوس امریکہ کی تحویل میں آگیا ہے، کیا ڈیوس پہ اب امریکہ میں مقدمہ چلے گا؟ کوءی شخص اگر امریکی حکومت کی طرف سے ریمنڈ ڈیوس پہ مقدمہ داءر ہوتا دیکھنے کا خواب دیکھ رہا ہے تو وہ شخص یقینا احمقوں کی جنت میں رہتا ہے۔ ستاءیس جنوری کے واقعے میں صرف ریمنڈ ڈیوس کے ہاتھوں دو قتل نہیں ہوءے تھے، ریمنڈ ڈیوس کی مدد کے لیے آنے والی امریکی قونصل خانے کی گاڑی نے بھی ایک موٹرساءیکل سوار کو ہلاک کیا تھا۔ قونصل خانے کی گاڑی چلانے والے اس ڈراءیور کو چپ چاپ پاکستان سے نکال کر امریکہ پہنچا دیا گیا۔ اس ڈراءیور پہ غفلت سے ایک شخص کو ہلاک کرنے کا مقدمہ چلانا تو درکنار ہمیں اور آپ کو آج تک اس ڈراءیور کا نام بھی نہیں بتایا گیا۔
قصہ مختصر یہ کہ ریمنڈ ڈیوس کے معاملے میں انصاف نہیں ہوا ہے۔ آپ کا اور میرا جیسا ایک عام آدمی تو صرف یہ جاننا چاہتا ہے کہ ستاءیس جنوری کے روز کیا ہوا تھا۔ اس بات کا عین امکان ہے کہ عدالتی کارواءی میں امریکی حکومت کا موقف صحیح ثابت ہو کہ فیضان اور فہیم ریمنڈ ڈیوس کو پستول کے زور پہ لوٹنا چاہتے تھے یا اسے اغوا کرنا چاہتے تھے اور ریمنڈ ڈیوس نے اپنے دفع میں ان دونوں کو قتل کیا۔ مگر اس بات کا سب پہ واضح ہونا ضروری ہے تاکہ ریمنڈ ڈیوس کی بے گناہی دنیا پہ ثابت ہو جاءے۔ یوں بالا بالا خون بہا ادا کر کے ایک شخص کو قانون کے چنگل سے چھڑا کر لے جانا امریکی حکومت کی طویل مدتی ساکھ کے لیے اچھا نہیں ہے۔
ریمنڈ ڈیوس کو پاکستان سے تو نکال لیا گیا مگر اس کیس میں انصاف حاصل کرنے کے راستے ابھی باقی ہیں۔ عام قوانین پاکستان شریعت کے حساب سے وضع نہیں ہیں۔ ان قوانین میں چوری کی سزا قطع ید نہیں ہے بلکہ جیل ہے۔ اگر خون بہا حاصل کرنے پہ مقتولین کے ورثا نے پاکستانی عدالت سے اپنا مقدمہ واپس لے بھی لیا ہے تو شہریوں کی ایک جماعت اپنے طور پہ عدالت کا دروازہ کھٹکھٹا سکتی ہے اور اس مقدمے کو دوبارہ سے کھول سکتی ہے۔ انصاف حاصل کرنے کا ایک دوسرا راستہ امریکہ میں ہے۔ یہاں امریکہ میں بھی شہریوں کی ایک جماعت ریمنڈ ڈیوس پہ بیرون ملک قتل کا مقدمہ داءر کر سکتی ہے۔ امریکی حکومت ہماری آپ کی ٹیکس کی رقم ہی سے تو چل رہی ہے۔ کیا ہمیں یہ حق حاصل نہیں ہے کہ جانیں کہ ٹیکس کی مد میں ہم سے لی جانے والی رقم کس طور سے استعمال ہو رہی ہے؟
اخبارات کی خبروں سے معلوم ہوا ہے فیضان اور فہیم کے ورثا کو خون بہا ادا کرنے کے علاوہ انہیں امریکہ میں آباد کرنے کی مراعات بھی دی گءی ہیں۔ اگر ایسا ہے تو امید ہےکہ یہ ورثا اتنی جراءت کا مظاہرہ کریں گے کہ امریکہ پہنچ کر ریمنڈ ڈیوس پہ نءے سرے سے ایک مقدمہ داءر کریں جو اب کی دفعہ امریکی عدالت میں چلے گا اور دنیا کے سامنے مزنگ لاہور میں جنوری ستاءیس کو ہونے والے واقعات کی تفصیلات کھل کر سامنے آ جاءیں گی۔
تصویر بشکریہ اے ایف پی
Labels: CIA contractor Raymond Davis, Mazang Lahore, Murder of Faizan and Faheem
ریاست اور فرد
ریاست اور فرد
موجودہ دنیا ایک بندھی، جڑی ہوءی دنیا ہے۔ اس دور میں دنیا کے بیشتر لوگ دوسرے ملکوں میں رہنے والے لوگوں کے طور طریقوں کے بارے میں جانتے ہیں۔ اس عہد میں کسی ناکام ریاست میں رہنے والے لوگ یا کسی ایسی جگہ رہنے والے لوگ جہاں کا نظام ہموار طریقے سے نہیں چل رہا ، جھنجھلاہٹ کا شکار ہو جاتے ہیں۔ آخر وہ ایک اعلی معیار زندگی کے حق دار کیوں نہیں ہیں؟ ان کے معاشرے میں بجلی، پانی، تواناءی، اور ٹریفک کا نظام اچھے طریقے سے کیوں کام نہیں کرتا؟ ان کے ملک کا نظام جاپان یا ناروے کے نظام کی طرح فعال کیوں نہیں ہے؟ وہ مستقل ایسے سوالات کرتے ہیں۔ ایسی جگہوں پہ بیشتر لوگ ریاست کی ذمہ داری کی بات کرتے ہیں کہ ریاست کو چاہیے کہ وہ رعایا کو ایسی مراعات دے، یوں آسانیاں دے۔ مگر کیا فرد اور ریاست کے اس تعلق میں فرد کی بھی کچھ ذمہ داری ہے؟ کیا ریاست کا بھی کچھ حق فرد پہ ہے؟ بالکل ہے۔ ریاست افراد ہی سے تو بنتی ہے۔ افراد اپنا حق نہیں نبھاءیں گے تو ان افراد کے مجموعے سے ایک ناکام ریاست ہی تو سامنے آءے گی۔ تو آخر کس قسم کے افراد ایک کامیاب ریاست کی ضمانت ہیں؟
بات وہاں سے شروع ہوتی ہے جب انسان نے بستیوں کی صورت میں رہنا سیکھا۔ پھر ضرورت پڑی کہ بستی کا ایک نظام ہو جو چند قوانین کے تابع ہو۔ اور پھر یہ فیصلہ کرنا پڑا کہ ایسے نظام کو کون چلاءے گا۔ اکثر صورتوں میں طاقتور نے خود آگے بڑھ کر نظام اپنے ہاتھ میں لے لیا۔ بادشاہت شروع ہوءی۔ شاہی سلسلے شروع ہوءے۔ جو لوگ پڑھے لکھے نہیں تھے ان کو یہ باور کرانا آسان تھا کہ بادشاہت خون میں ہوتی ہے۔ صرف بادشاہ کی اولاد ہی بادشاہ بننے کی اہل ہوتی ہے۔بہت عرصہ اسی طرح گزر گیا مگر پھر تعلیم عام ہوءی۔ سب کو یہ بات سمجھ میں آنے لگی کہ کسی کے خون میں کسی قسم کی بادشاہت، امارت و غربت شامل نہیں ہے۔ ایک غریب گھرانے کے لڑکے کی پرورش کسی امیر گھر میں کیجیے، وہ وہاں کے طور طریقے اختیار کر لے گا۔ کسی امیر گھرانے کے لڑکے کی پرورش مفلوک الحالی میں کیجیے، وہ غربت کے وہی انداز اختیار کر لے گا۔ بادشاہت کا دور ختم ہوا۔ حکمرانی جمہور کا دور شروع ہوا۔
اب ذمہ داری عام شہریوں پہ آگءی کہ وہ سمجھیں کہ اس معاشرے کو ہمیں تمہیں مل کر چلانا ہے۔ ہمیں اور تمہیں مل کر ہی اپنے درمیان سے چند اشخاص کا انتخاب کرنا ہے جو کچھ عرصے کے لیے اس نظام کے رکھوالے بن جاءیں۔ وہ چنیدہ اشخاص نظام کے رکھوالے تو بن جاءیں مگر اپنے آپ کو نظام کا مالک نہ تصور کریں۔ نظام کے مالک ہم سب ہیں۔ اس نظام پہ کسی کی اجارہ داری نہیں ہے۔ ان منتخب نماءندوں کو تو صرف تھوڑے عرصے کے لیے اس نظام کو چلانے کی امانت سونپی گءی ہے۔
معاشرے کی صورت میں رہنے میں لوگوں کا ایک دوسرے سے جو سماجی معاہدہ ہے وہ لکھاءی میں ہے۔ اسے آءین کہا جاتا ہے۔ تو اگر کوءی شخص پڑھنا ہی نہیں جانتا تو وہ معاشرے کے دوسرے افراد سے اپنے سماجی معاہدے کو کیسے پہچانے گا؟ بادشاہت اور آمریت میں تو ناخواندہ افراد بہت بڑی نعمت ہیں مگر جمہوریت میں ایسے لوگ معاشرے پہ بوجھ ہیں۔
ایک ڈاکٹر کا دفتر ہے۔ دفتر میں داخل ہوں تو دروازے کے ساتھ ایک تختی پہ لکھا ہے، "اپنے نام کا اندراج کاءونٹر پہ پڑے رجسٹر میں کیجیے اور پھر آرام سے تشریف رکھ کر اپنی باری کا انتظار کیجیے۔" فرض کریں کہ ڈاکٹر کا یہ دفتر جنوبی کوریا میں ہے۔ کوریا میں خواندگی کی شرح نناوے فی صد ہے۔ وہاں اس دفتر میں داخل ہونے والے سو لوگوں میں سے نناوے لوگ یہ تختی پڑھ کر سیدھا کاءونٹر پہ جاءیں گے اور اپنا نام لکھ کر بیٹھ جاءیں گے۔ صرف ایک شخص ایسا ہوگا جو دفتر میں داخل ہونے کے بعد حیرت سے ادھر ادھر دیکھے گا۔ اسے معلوم نہ ہو گا کہ کیا کرنا ہے کیونکہ اپنی ناخواندگی کی وجہ سے وہ تختی پڑھنے سے قاصر ہوگا۔ پھر جو لوگ پہلے سے بیٹھے ہوں گے وہ ناخواندہ شخص کو بتاءیں گے کہ اسے کاءونٹر پہ پہلے اپنا نام درج کرنا ہے۔ پھر وہ جاہل اس اندراج کے لیے کسی پڑھے لکھے شخص کا سہارا لے گا۔
اب فرض کریں کہ یہی دفتر پاکستان میں ہو جہاں خواندگی کی شرح مشکل سے چون فی صد ہے۔ اس دفتر میں داخل ہونے والے سو میں سے چھیالیس لوگ حیرت سے ادھر ادھر دیکھیں گے۔ پھر وہ بقیہ چون لوگوں کی مدد حاصل کریں گے کہ وہ پڑھے لکھے لوگ ان کے نام کے اندراج میں ناخواندہ لوگوں کی مدد کریں۔
خواندگی خودکاری یا آٹومیشن کی ایک شکل ہے۔ نءے دور کے معاشرے میں جہاں ریاست کے ہر فرد کو ریاست سے اپنا تعلق اور معاہدہ سمجھنا ہے وہاں ہر شخص کا خواندہ ہونا بہت ضروری ہے۔ کسی بھی منتظم معاشرے کا مکمل انحصار سو فی صد شرح خواندگی پہ نہیں ہے، اور عوامل بھی ہیں جو معاشرے کو فعال بنانے میں مدد کرتے ہیں ہیں مگر سو فی صد خواندگی ان عوامل میں ایک بڑا حصہ ہے۔
تصویر بشکریہ
http://www.r4e.org/education/Organisations/education_awareness_and_community_health_pakistan.htm
Labels: Relationship between a modern state and its people
خوشحالی کی عالمگیریت
خوشحالی کی عالمگیریت
آہ، شہباز بھٹی۔ ندامت سے ہمارے سر جھکے جاتے ہیں۔ اب منہ سے مذمت کے کلمات نکالتے ہوءے بھی شرم آتی ہے۔ شہباز بھٹی کے بہیمانہ قتل پہ ہماری مذمت سے کیا ہوجانا ہے؟ ہمارے جیسے لوگوں کے احتجاج، مظاہرے، قرار داد ہاءے مذمت، سب بے معنی ہیں کیونکہ ایک طرف مکار مگر با عمل لوگ ہیں جو باتیں کم کرتے ہیں اور کام زیادہ کرتے ہیں، اور دوسری طرف امن کی وہ معصوم فاختاءیں ہیں جو مستقل باتیں بناتی رہتی ہیں۔ نتیجتا مکار، پرتشدد لوگ جیت رہے ہیں۔
بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ موجودہ عالمی کساد بازاری میں اس جنگ کا بھی دخل ہے جو عراق، افغانستان، اور پاکستان میں زور شور کے ساتھ اور مشرق وسطی اور شمالی افریقہ کے کءی ممالک میں کم شدت کے ساتھ لڑی جا رہی ہے۔ شاید ایسا براہ راست نہیں ہے کیونکہ عالمی معیشت میں مذکورہ ممالک کی کوءی خاص معاشی اہمیت نہیں ہے، مگر بلاواسطہ ایسا ممکن ہے کیونکہ معیشت کا گہرا تعلق لوگوں کی نفسیات سے ہے اور 'دہشت گردی کے خلاف جنگ' دنیا بھر کے لوگوں کی نفسیات پہ منفی طور سے اثر انداز ہو رہی ہے۔
اس ملک کے وہ کرتا دھرتا جو معیشت اور نفسیات کے باہمی تعلق کو سمجھتے ہیں کچھ کچھ عرصے بعد ہمیں معیشت سے متعلق اچھی خبریں سناتے رہتے ہیں۔ ٹی وی بتاتا ہے کہ بے روزگاری کی شرح میں اتنے فی صد کمی واقع ہوگءی ہے، وفاقی حکومت نے اتنے لوگوں کو نوکریاں دی ہیں، وغیرہ، وغیرہ۔ مگر یہ ساری خبریں ذراءع مواصلات پہ ہی چکاچوند کرتی نظر آتی ہیں۔ زمینی حقاءق کچھ اور ہی نقشہ پیش کرتے ہیں۔ اور زمینی حقاءق یہ ہیں کہ ہم سب کی جان پہچان میں ایسے بہت سے لوگ ہیں جو ایک عرصے سے بے روزگار ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ بہت بڑی تعداد میں ایسے لوگ ہیں جو مستقبل کی طرف سے سخت ناامید ہیں۔ ایسے لوگ ہیں جو بہت مشکل سے اپنے گھر کے اوپر قرضے کی ماہانہ رقم دے پا رہے ہیں۔ اچھی تنخواہ دینے والی نوکریاں خال خال نظر آتی ہیں۔ البتہ کم ترین اجرت پہ آپ سے کام کروانے کے لیے بہت سے لوگ تیار ہیں۔
موجودہ عالمی کساد بازاری کا براہ راست تعلق انٹرنیٹ کے انقلاب سے ہے۔ چھاپہ خانہ سنہ چودہ سو انتالیس میں ایجاد ہوا تھا۔ یہ ایک زبردست انقلاب تھا جس نے لکھنے پڑھنے کی ٹیکنالوجی اشرافیہ سے نکال کر عام لوگوں تک پہنچا دی۔ چھاپہ خانے کی ایجاد کے بعد بہت طویل عرصے تک دنیا سیاسی طور پہ لرزتی رہی۔ یورپ میں ساءنسی ایجادات کی لہر،یورپیوں کا مسلمانوں کو اسپانیہ سے نکال باہر کرنا، امریکہ کی جنگ آزادی اور انقلاب فرانس جیسے تمام اہم تاریخی واقعات کا تانہ بانہ چھاپہ خانے کی ایجاد سے جوڑا جا سکتا ہے۔ کتابوں کی ارزانی سے پہلے سوچنے سمجھنے کا کام بادشاہ، مذہبی راہ نما، اور اشرافیہ کے چند لوگوں کی اساس تھا۔ رعایا کا کام سر جھکا کر کام کرنا اور بادشاہ اور مذہبی راہ نما کی اطاعت کرنا تھا۔ خیالات خیالات کو جنم دیتے ہیں۔ لکھنا پڑھنا عام ہوا تو عام لوگ بھی سوچنے سمجھنے لگے۔ عوام نے سب سے پہلے بادشاہت کو چیلنج کیا۔ بادشاہ کا گریبان پکڑ کر پوچھا کہ تم کہاں سے ہمارے سر پہ سوار ہو گءے، ہم خود بادشاہ بننے کے اہل ہیں۔ جس جگہ بہت بڑی تعداد میں لوگ اپنے آپ کو بادشاہت کا اہل سمجھیں وہاں صرف جمہوریت ہی نظام حکومت بن کر پنپ سکتی ہے۔
قریبا چھ سو سال پہلے چھاپہ خانے نے جس عالم گیر شعور کی بنیاد رکھی، سنہ انیس سو پچانوے میں انٹرنیٹ نے اس شعور کو ایک نءی جہت بخشی۔ انٹرنیٹ نے پوری دنیا کو اچھی طرح باندھ دیا۔ ہم نے اب تک زبان کی عالمگیریت دیکھی ہے کہ کس طرح انگریزی پوری دنیا کی کاروباری زبان بن گءی۔ ہم نے رہن سہن کی عالمگیریت دیکھی ہے کہ کس طرح شہری زندگی، ذاتی گاڑی، اور تیز کھانوں کا تصور پوری دنیا میں پھیل گیا ہے۔ معیشت کی اس عالمی کساد بازاری میں اب ہم خوشحالی کی عالمگیریت دیکھیں گے۔ یعنی اب یہ ممکن نہ ہو پاءے گا کہ دنیا کا ایک خطہ تو بے حد خوشحال ہو اور دوسری جگہ لوگ سیاسی استحکام کے ساتھ بدحالی میں زندگی گزار رہے ہوں۔ کاروبار اور زر خود بخود اس طرف چلیں گے جہاں کم قیمت میں کام کروایا جا سکے۔ جب تک چین اور ہندوستان اور مشرق بعید کے بہت سے ممالک جہاں سیاسی استحکام ہے اس معاشی سطح پہ نہیں آجاتے جہاں جاپان اور مغربی دنیا کے ممالک آج موجود ہیں اس وقت تک عالمی کساد بازاری اسی طرح چلتی رہے گی۔
تصویر بشکریہ
http://www.berkeleydailyplanet.com
جسٹن ڈی فریٹس
Justin DeFreitas
Labels: How long will this recession last?
نقل ٹپو انقلابات
فروری ستاءیس
نقل ٹپو انقلابات
عرب دنیا میں نقل ٹپو انقلابات کا سلسلہ جاری ہے۔ پہلے تیونس میں سیاسی اکھاڑ پچھاڑ ہوءی، پھر مصر کافی عرصہ خبروں کی زینت بنا رہا حتی کہ حسنی مبارک اقتدار سے رخصت ہوءے، اور اب دنیا بھر کی توجہ لیبیا پہ ہے جہاں انقلابیوں اور قذافی کے حامیوں کے درمیان محاذ آراءی جاری ہے۔ ٹی وی دیکھنے والے ناظرین کی آسانی کے لیے یہ انقلابات ایک کے بعد ایک یوں روپذیر ہو رہے ہیں کہ آپ کو بیک وقت کءی ممالک کے انقلابات پہ توجہ دینے کی زحمت نہ کرنی پڑے، بلکہ آپ ایک وقت میں ایک ملک کے انقلاب پہ پوری توجہ مبذول کریں۔ جب وہ انقلاب اپنے منطقی انجام تک پہنچ جاءے گا تو پھر دوسرے ملک کا انقلاب شروع ہوگا۔
چودہ سو سال پہلے عربی زبان جزیرہ نما عرب کے مشرقی علاقے تک محدود تھی۔ بلاد الشام یعنی جزیرہ نما عرب کا وہ علاقہ جو بحیرہ روم سے لگتا ہے، میں عبرانی، آرامی اور دوسری زبانیں بولی جاتی تھیں۔ اسلام کے آنے کے بعد حجاز سے فوجیں نکلیں اور پورے جزیرہ نما عرب پہ قبضے کے بعد شمالی افریقہ کے مغربی کنارے تک پہنچ گءیں۔ اس پورے علاقے کی زبان عربی ہوگءی۔ اور اب چودہ سو سال بعد تیز ترین مواصلات نے ایک زبان بولنے والے اس وسیع علاقے کے تمام لوگوں کو ایک دوسرے سے ملا دیا۔ الجزیرہ ٹی وی اس پوری عرب دنیا میں دیکھا جاتا ہے۔ اور اسی برق رفتار مواصلات کی وجہ سے نقل ٹپو انقلابات کی راہ کھلی۔ تیونس کے انقلاب کا تعلق غیر جمہوری حکومت سے عوام کی مایوسی کے ساتھ عالمی معیشت کی کساد بازاری سے تھا۔ پھر ایک دفعہ تیونس سے انقلاب کا سلسلہ شروع ہو ا تو وہ عرب دنیا کے دوسرے علاقوں تک پھیل گیا۔ اس پورے علاقے میں مطلق العنان حکمراں کثرت سے پاءے جاتے ہیں۔ اب بہت سے لوگ امید لگاءے بیٹھے ہیں کہ نقل ٹپو انقلابات کی یہ لہر سعودی عرب اور خلیجی ریاستوں تک بھی پہنچے گی اور حجاز اور خلیج فارس میں بھی حکومتیں بدل جاءیں گی۔ ایسا ہونے کا امکان دو وجوہات کی وجہ سے کم نظر آتا ہے۔ اول یہ کہ زیر غور ممالک میں سے بیشتر بہت خوشحال ہیں۔ پیٹ بھرے لوگوں کو مظاہرے اور احتجاج کے لیے چوراہے پہ لانا آسان کام نہیں ہے۔ دوءم یہ کہ ان ممالک میں بہت بڑی تعداد میں ایسے غیرملکی رہتے ہیں جو کام کرنے کے لیے یہاں آءے ہوءے ہیں۔ مثلا عرب امارات میں غیر ملکی افراد آبادی کا اسی فی صد ہیں۔ ان بے چارے غیر ملکیوں کو اپنے اقامے کے لالے پڑے رہتے ہیں، یہ کسی مظاہرے کے لیے کیوں سامنے آءیں گے؟ ہاں اگر شیخ ان غیر ملکیوں کو مظاہرین پہ ڈنڈے برسانے کے لیے کہے گا تو یہ لوگ کوءی چوں چراں کیے بغیر یہ کام فورا کریں گے۔ جیسا کہ بحرین کے پاکستانی پولیس والے مظاہرین کے ساتھ کر رہے ہیں۔
اب رہا سوال یہ کہ ان پے درپے انقلابات سے جو سیاسی اکھاڑ پچھاڑ ہو رہی ہے اس میں عوام کا بھی کچھ بھلا ہوگا یا نہیں، تو یہ معاملہ واقعی غور طلب ہے۔ آمریت ختم ہو کر جمہوریت آجاءے، یہ بات تو دل کو لگتی ہے مگر عالمی معیشت کی دگرگوں حالت کے دوران لوگوں کے پسند کے راہ نما برسر اقتدار آنے کے بعد کیا تیر مار لیں گے، یہ سمجھ میں نہیں آتا۔ دو ہزار آٹھ کے امریکی انتخابات میں اوباما بھاری اکثریت سے کامیاب ہوءے مگر کیا برسر اقتدار آنے کے بعد انہوں نے گرتی ہوءی امریکی معیشت کو تھام لیا؟ ایسا نظر نہیں آتا۔ تیونس، مصر، اور لیبیا کے لوگوں کی مایوسی اس وقت عروج پہ ہو گی جب تمام تگ و دو کے بعد واقع ہونے والی حکومت کی تبدیلی ان کے معاشی حالات میں واضح تبدیلی نہیں لاءے گی۔ تو پھر لوگوں کے معاشی حالات میں تبدیلی کیسے آءے گی؟ اس موضوع پہ ہم اگلے کالم میں بات کریں گے۔
تصویر بشکریہ اے پی
Labels: Copycat revolutions in the Arab World