Monday, March 21, 2011

 

خوشحالی کی عالمگیریت







خوشحالی کی عالمگیریت



آہ، شہباز بھٹی۔ ندامت سے ہمارے سر جھکے جاتے ہیں۔ اب منہ سے مذمت کے کلمات نکالتے ہوءے بھی شرم آتی ہے۔ شہباز بھٹی کے بہیمانہ قتل پہ ہماری مذمت سے کیا ہوجانا ہے؟ ہمارے جیسے لوگوں کے احتجاج، مظاہرے، قرار داد ہاءے مذمت، سب بے معنی ہیں کیونکہ ایک طرف مکار مگر با عمل لوگ ہیں جو باتیں کم کرتے ہیں اور کام زیادہ کرتے ہیں، اور دوسری طرف امن کی وہ معصوم فاختاءیں ہیں جو مستقل باتیں بناتی رہتی ہیں۔ نتیجتا مکار، پرتشدد لوگ جیت رہے ہیں۔
بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ موجودہ عالمی کساد بازاری میں اس جنگ کا بھی دخل ہے جو عراق، افغانستان، اور پاکستان میں زور شور کے ساتھ اور مشرق وسطی اور شمالی افریقہ کے کءی ممالک میں کم شدت کے ساتھ لڑی جا رہی ہے۔ شاید ایسا براہ راست نہیں ہے کیونکہ عالمی معیشت میں مذکورہ ممالک کی کوءی خاص معاشی اہمیت نہیں ہے، مگر بلاواسطہ ایسا ممکن ہے کیونکہ معیشت کا گہرا تعلق لوگوں کی نفسیات سے ہے اور 'دہشت گردی کے خلاف جنگ' دنیا بھر کے لوگوں کی نفسیات پہ منفی طور سے اثر انداز ہو رہی ہے۔
اس ملک کے وہ کرتا دھرتا جو معیشت اور نفسیات کے باہمی تعلق کو سمجھتے ہیں کچھ کچھ عرصے بعد ہمیں معیشت سے متعلق اچھی خبریں سناتے رہتے ہیں۔ ٹی وی بتاتا ہے کہ بے روزگاری کی شرح میں اتنے فی صد کمی واقع ہوگءی ہے، وفاقی حکومت نے اتنے لوگوں کو نوکریاں دی ہیں، وغیرہ، وغیرہ۔ مگر یہ ساری خبریں ذراءع مواصلات پہ ہی چکاچوند کرتی نظر آتی ہیں۔ زمینی حقاءق کچھ اور ہی نقشہ پیش کرتے ہیں۔ اور زمینی حقاءق یہ ہیں کہ ہم سب کی جان پہچان میں ایسے بہت سے لوگ ہیں جو ایک عرصے سے بے روزگار ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ بہت بڑی تعداد میں ایسے لوگ ہیں جو مستقبل کی طرف سے سخت ناامید ہیں۔ ایسے لوگ ہیں جو بہت مشکل سے اپنے گھر کے اوپر قرضے کی ماہانہ رقم دے پا رہے ہیں۔ اچھی تنخواہ دینے والی نوکریاں خال خال نظر آتی ہیں۔ البتہ کم ترین اجرت پہ آپ سے کام کروانے کے لیے بہت سے لوگ تیار ہیں۔
موجودہ عالمی کساد بازاری کا براہ راست تعلق انٹرنیٹ کے انقلاب سے ہے۔ چھاپہ خانہ سنہ چودہ سو انتالیس میں ایجاد ہوا تھا۔ یہ ایک زبردست انقلاب تھا جس نے لکھنے پڑھنے کی ٹیکنالوجی اشرافیہ سے نکال کر عام لوگوں تک پہنچا دی۔ چھاپہ خانے کی ایجاد کے بعد بہت طویل عرصے تک دنیا سیاسی طور پہ لرزتی رہی۔ یورپ میں ساءنسی ایجادات کی لہر،یورپیوں کا مسلمانوں کو اسپانیہ سے نکال باہر کرنا، امریکہ کی جنگ آزادی اور انقلاب فرانس جیسے تمام اہم تاریخی واقعات کا تانہ بانہ چھاپہ خانے کی ایجاد سے جوڑا جا سکتا ہے۔ کتابوں کی ارزانی سے پہلے سوچنے سمجھنے کا کام بادشاہ، مذہبی راہ نما، اور اشرافیہ کے چند لوگوں کی اساس تھا۔ رعایا کا کام سر جھکا کر کام کرنا اور بادشاہ اور مذہبی راہ نما کی اطاعت کرنا تھا۔ خیالات خیالات کو جنم دیتے ہیں۔ لکھنا پڑھنا عام ہوا تو عام لوگ بھی سوچنے سمجھنے لگے۔ عوام نے سب سے پہلے بادشاہت کو چیلنج کیا۔ بادشاہ کا گریبان پکڑ کر پوچھا کہ تم کہاں سے ہمارے سر پہ سوار ہو گءے، ہم خود بادشاہ بننے کے اہل ہیں۔ جس جگہ بہت بڑی تعداد میں لوگ اپنے آپ کو بادشاہت کا اہل سمجھیں وہاں صرف جمہوریت ہی نظام حکومت بن کر پنپ سکتی ہے۔
قریبا چھ سو سال پہلے چھاپہ خانے نے جس عالم گیر شعور کی بنیاد رکھی، سنہ انیس سو پچانوے میں انٹرنیٹ نے اس شعور کو ایک نءی جہت بخشی۔ انٹرنیٹ نے پوری دنیا کو اچھی طرح باندھ دیا۔ ہم نے اب تک زبان کی عالمگیریت دیکھی ہے کہ کس طرح انگریزی پوری دنیا کی کاروباری زبان بن گءی۔ ہم نے رہن سہن کی عالمگیریت دیکھی ہے کہ کس طرح شہری زندگی، ذاتی گاڑی، اور تیز کھانوں کا تصور پوری دنیا میں پھیل گیا ہے۔ معیشت کی اس عالمی کساد بازاری میں اب ہم خوشحالی کی عالمگیریت دیکھیں گے۔ یعنی اب یہ ممکن نہ ہو پاءے گا کہ دنیا کا ایک خطہ تو بے حد خوشحال ہو اور دوسری جگہ لوگ سیاسی استحکام کے ساتھ بدحالی میں زندگی گزار رہے ہوں۔ کاروبار اور زر خود بخود اس طرف چلیں گے جہاں کم قیمت میں کام کروایا جا سکے۔ جب تک چین اور ہندوستان اور مشرق بعید کے بہت سے ممالک جہاں سیاسی استحکام ہے اس معاشی سطح پہ نہیں آجاتے جہاں جاپان اور مغربی دنیا کے ممالک آج موجود ہیں اس وقت تک عالمی کساد بازاری اسی طرح چلتی رہے گی۔

تصویر بشکریہ
http://www.berkeleydailyplanet.com
جسٹن ڈی فریٹس
Justin DeFreitas


Labels:


Comments: Post a Comment



<< Home

This page is powered by Blogger. Isn't yours?