Monday, March 21, 2011

 

نقل ٹپو انقلابات







فروری ستاءیس

نقل ٹپو انقلابات



عرب دنیا میں نقل ٹپو انقلابات کا سلسلہ جاری ہے۔ پہلے تیونس میں سیاسی اکھاڑ پچھاڑ ہوءی، پھر مصر کافی عرصہ خبروں کی زینت بنا رہا حتی کہ حسنی مبارک اقتدار سے رخصت ہوءے، اور اب دنیا بھر کی توجہ لیبیا پہ ہے جہاں انقلابیوں اور قذافی کے حامیوں کے درمیان محاذ آراءی جاری ہے۔ ٹی وی دیکھنے والے ناظرین کی آسانی کے لیے یہ انقلابات ایک کے بعد ایک یوں روپذیر ہو رہے ہیں کہ آپ کو بیک وقت کءی ممالک کے انقلابات پہ توجہ دینے کی زحمت نہ کرنی پڑے، بلکہ آپ ایک وقت میں ایک ملک کے انقلاب پہ پوری توجہ مبذول کریں۔ جب وہ انقلاب اپنے منطقی انجام تک پہنچ جاءے گا تو پھر دوسرے ملک کا انقلاب شروع ہوگا۔
چودہ سو سال پہلے عربی زبان جزیرہ نما عرب کے مشرقی علاقے تک محدود تھی۔ بلاد الشام یعنی جزیرہ نما عرب کا وہ علاقہ جو بحیرہ روم سے لگتا ہے، میں عبرانی، آرامی اور دوسری زبانیں بولی جاتی تھیں۔ اسلام کے آنے کے بعد حجاز سے فوجیں نکلیں اور پورے جزیرہ نما عرب پہ قبضے کے بعد شمالی افریقہ کے مغربی کنارے تک پہنچ گءیں۔ اس پورے علاقے کی زبان عربی ہوگءی۔ اور اب چودہ سو سال بعد تیز ترین مواصلات نے ایک زبان بولنے والے اس وسیع علاقے کے تمام لوگوں کو ایک دوسرے سے ملا دیا۔ الجزیرہ ٹی وی اس پوری عرب دنیا میں دیکھا جاتا ہے۔ اور اسی برق رفتار مواصلات کی وجہ سے نقل ٹپو انقلابات کی راہ کھلی۔ تیونس کے انقلاب کا تعلق غیر جمہوری حکومت سے عوام کی مایوسی کے ساتھ عالمی معیشت کی کساد بازاری سے تھا۔ پھر ایک دفعہ تیونس سے انقلاب کا سلسلہ شروع ہو ا تو وہ عرب دنیا کے دوسرے علاقوں تک پھیل گیا۔ اس پورے علاقے میں مطلق العنان حکمراں کثرت سے پاءے جاتے ہیں۔ اب بہت سے لوگ امید لگاءے بیٹھے ہیں کہ نقل ٹپو انقلابات کی یہ لہر سعودی عرب اور خلیجی ریاستوں تک بھی پہنچے گی اور حجاز اور خلیج فارس میں بھی حکومتیں بدل جاءیں گی۔ ایسا ہونے کا امکان دو وجوہات کی وجہ سے کم نظر آتا ہے۔ اول یہ کہ زیر غور ممالک میں سے بیشتر بہت خوشحال ہیں۔ پیٹ بھرے لوگوں کو مظاہرے اور احتجاج کے لیے چوراہے پہ لانا آسان کام نہیں ہے۔ دوءم یہ کہ ان ممالک میں بہت بڑی تعداد میں ایسے غیرملکی رہتے ہیں جو کام کرنے کے لیے یہاں آءے ہوءے ہیں۔ مثلا عرب امارات میں غیر ملکی افراد آبادی کا اسی فی صد ہیں۔ ان بے چارے غیر ملکیوں کو اپنے اقامے کے لالے پڑے رہتے ہیں، یہ کسی مظاہرے کے لیے کیوں سامنے آءیں گے؟ ہاں اگر شیخ ان غیر ملکیوں کو مظاہرین پہ ڈنڈے برسانے کے لیے کہے گا تو یہ لوگ کوءی چوں چراں کیے بغیر یہ کام فورا کریں گے۔ جیسا کہ بحرین کے پاکستانی پولیس والے مظاہرین کے ساتھ کر رہے ہیں۔
اب رہا سوال یہ کہ ان پے درپے انقلابات سے جو سیاسی اکھاڑ پچھاڑ ہو رہی ہے اس میں عوام کا بھی کچھ بھلا ہوگا یا نہیں، تو یہ معاملہ واقعی غور طلب ہے۔ آمریت ختم ہو کر جمہوریت آجاءے، یہ بات تو دل کو لگتی ہے مگر عالمی معیشت کی دگرگوں حالت کے دوران لوگوں کے پسند کے راہ نما برسر اقتدار آنے کے بعد کیا تیر مار لیں گے، یہ سمجھ میں نہیں آتا۔ دو ہزار آٹھ کے امریکی انتخابات میں اوباما بھاری اکثریت سے کامیاب ہوءے مگر کیا برسر اقتدار آنے کے بعد انہوں نے گرتی ہوءی امریکی معیشت کو تھام لیا؟ ایسا نظر نہیں آتا۔ تیونس، مصر، اور لیبیا کے لوگوں کی مایوسی اس وقت عروج پہ ہو گی جب تمام تگ و دو کے بعد واقع ہونے والی حکومت کی تبدیلی ان کے معاشی حالات میں واضح تبدیلی نہیں لاءے گی۔ تو پھر لوگوں کے معاشی حالات میں تبدیلی کیسے آءے گی؟ اس موضوع پہ ہم اگلے کالم میں بات کریں گے۔

تصویر بشکریہ اے پی

Labels:


Comments: Post a Comment



<< Home

This page is powered by Blogger. Isn't yours?