Monday, March 21, 2011

 

ریاست اور فرد







ریاست اور فرد


موجودہ دنیا ایک بندھی، جڑی ہوءی دنیا ہے۔ اس دور میں دنیا کے بیشتر لوگ دوسرے ملکوں میں رہنے والے لوگوں کے طور طریقوں کے بارے میں جانتے ہیں۔ اس عہد میں کسی ناکام ریاست میں رہنے والے لوگ یا کسی ایسی جگہ رہنے والے لوگ جہاں کا نظام ہموار طریقے سے نہیں چل رہا ، جھنجھلاہٹ کا شکار ہو جاتے ہیں۔ آخر وہ ایک اعلی معیار زندگی کے حق دار کیوں نہیں ہیں؟ ان کے معاشرے میں بجلی، پانی، تواناءی، اور ٹریفک کا نظام اچھے طریقے سے کیوں کام نہیں کرتا؟ ان کے ملک کا نظام جاپان یا ناروے کے نظام کی طرح فعال کیوں نہیں ہے؟ وہ مستقل ایسے سوالات کرتے ہیں۔ ایسی جگہوں پہ بیشتر لوگ ریاست کی ذمہ داری کی بات کرتے ہیں کہ ریاست کو چاہیے کہ وہ رعایا کو ایسی مراعات دے، یوں آسانیاں دے۔ مگر کیا فرد اور ریاست کے اس تعلق میں فرد کی بھی کچھ ذمہ داری ہے؟ کیا ریاست کا بھی کچھ حق فرد پہ ہے؟ بالکل ہے۔ ریاست افراد ہی سے تو بنتی ہے۔ افراد اپنا حق نہیں نبھاءیں گے تو ان افراد کے مجموعے سے ایک ناکام ریاست ہی تو سامنے آءے گی۔ تو آخر کس قسم کے افراد ایک کامیاب ریاست کی ضمانت ہیں؟
بات وہاں سے شروع ہوتی ہے جب انسان نے بستیوں کی صورت میں رہنا سیکھا۔ پھر ضرورت پڑی کہ بستی کا ایک نظام ہو جو چند قوانین کے تابع ہو۔ اور پھر یہ فیصلہ کرنا پڑا کہ ایسے نظام کو کون چلاءے گا۔ اکثر صورتوں میں طاقتور نے خود آگے بڑھ کر نظام اپنے ہاتھ میں لے لیا۔ بادشاہت شروع ہوءی۔ شاہی سلسلے شروع ہوءے۔ جو لوگ پڑھے لکھے نہیں تھے ان کو یہ باور کرانا آسان تھا کہ بادشاہت خون میں ہوتی ہے۔ صرف بادشاہ کی اولاد ہی بادشاہ بننے کی اہل ہوتی ہے۔بہت عرصہ اسی طرح گزر گیا مگر پھر تعلیم عام ہوءی۔ سب کو یہ بات سمجھ میں آنے لگی کہ کسی کے خون میں کسی قسم کی بادشاہت، امارت و غربت شامل نہیں ہے۔ ایک غریب گھرانے کے لڑکے کی پرورش کسی امیر گھر میں کیجیے، وہ وہاں کے طور طریقے اختیار کر لے گا۔ کسی امیر گھرانے کے لڑکے کی پرورش مفلوک الحالی میں کیجیے، وہ غربت کے وہی انداز اختیار کر لے گا۔ بادشاہت کا دور ختم ہوا۔ حکمرانی جمہور کا دور شروع ہوا۔
اب ذمہ داری عام شہریوں پہ آگءی کہ وہ سمجھیں کہ اس معاشرے کو ہمیں تمہیں مل کر چلانا ہے۔ ہمیں اور تمہیں مل کر ہی اپنے درمیان سے چند اشخاص کا انتخاب کرنا ہے جو کچھ عرصے کے لیے اس نظام کے رکھوالے بن جاءیں۔ وہ چنیدہ اشخاص نظام کے رکھوالے تو بن جاءیں مگر اپنے آپ کو نظام کا مالک نہ تصور کریں۔ نظام کے مالک ہم سب ہیں۔ اس نظام پہ کسی کی اجارہ داری نہیں ہے۔ ان منتخب نماءندوں کو تو صرف تھوڑے عرصے کے لیے اس نظام کو چلانے کی امانت سونپی گءی ہے۔
معاشرے کی صورت میں رہنے میں لوگوں کا ایک دوسرے سے جو سماجی معاہدہ ہے وہ لکھاءی میں ہے۔ اسے آءین کہا جاتا ہے۔ تو اگر کوءی شخص پڑھنا ہی نہیں جانتا تو وہ معاشرے کے دوسرے افراد سے اپنے سماجی معاہدے کو کیسے پہچانے گا؟ بادشاہت اور آمریت میں تو ناخواندہ افراد بہت بڑی نعمت ہیں مگر جمہوریت میں ایسے لوگ معاشرے پہ بوجھ ہیں۔
ایک ڈاکٹر کا دفتر ہے۔ دفتر میں داخل ہوں تو دروازے کے ساتھ ایک تختی پہ لکھا ہے، "اپنے نام کا اندراج کاءونٹر پہ پڑے رجسٹر میں کیجیے اور پھر آرام سے تشریف رکھ کر اپنی باری کا انتظار کیجیے۔" فرض کریں کہ ڈاکٹر کا یہ دفتر جنوبی کوریا میں ہے۔ کوریا میں خواندگی کی شرح نناوے فی صد ہے۔ وہاں اس دفتر میں داخل ہونے والے سو لوگوں میں سے نناوے لوگ یہ تختی پڑھ کر سیدھا کاءونٹر پہ جاءیں گے اور اپنا نام لکھ کر بیٹھ جاءیں گے۔ صرف ایک شخص ایسا ہوگا جو دفتر میں داخل ہونے کے بعد حیرت سے ادھر ادھر دیکھے گا۔ اسے معلوم نہ ہو گا کہ کیا کرنا ہے کیونکہ اپنی ناخواندگی کی وجہ سے وہ تختی پڑھنے سے قاصر ہوگا۔ پھر جو لوگ پہلے سے بیٹھے ہوں گے وہ ناخواندہ شخص کو بتاءیں گے کہ اسے کاءونٹر پہ پہلے اپنا نام درج کرنا ہے۔ پھر وہ جاہل اس اندراج کے لیے کسی پڑھے لکھے شخص کا سہارا لے گا۔
اب فرض کریں کہ یہی دفتر پاکستان میں ہو جہاں خواندگی کی شرح مشکل سے چون فی صد ہے۔ اس دفتر میں داخل ہونے والے سو میں سے چھیالیس لوگ حیرت سے ادھر ادھر دیکھیں گے۔ پھر وہ بقیہ چون لوگوں کی مدد حاصل کریں گے کہ وہ پڑھے لکھے لوگ ان کے نام کے اندراج میں ناخواندہ لوگوں کی مدد کریں۔
خواندگی خودکاری یا آٹومیشن کی ایک شکل ہے۔ نءے دور کے معاشرے میں جہاں ریاست کے ہر فرد کو ریاست سے اپنا تعلق اور معاہدہ سمجھنا ہے وہاں ہر شخص کا خواندہ ہونا بہت ضروری ہے۔ کسی بھی منتظم معاشرے کا مکمل انحصار سو فی صد شرح خواندگی پہ نہیں ہے، اور عوامل بھی ہیں جو معاشرے کو فعال بنانے میں مدد کرتے ہیں ہیں مگر سو فی صد خواندگی ان عوامل میں ایک بڑا حصہ ہے۔


تصویر بشکریہ

http://www.r4e.org/education/Organisations/education_awareness_and_community_health_pakistan.htm


Labels:


Comments: Post a Comment



<< Home

This page is powered by Blogger. Isn't yours?