Monday, March 21, 2011

 

انصاف نہیں ہوا







انصاف نہیں ہوا

مستقل سننے میں آتا ہے کہ پاکستان کی مذہبی جماعتیں قابو سے باہر ہیں، وہ ایسا کر سکتی ہیں، ویسا کر سکتی ہیں، بہت اودھم مچا سکتی ہیں، ملک کو تباہی سے دو چار کر سکتی ہیں۔ مگر ایک دفعہ پھر مذہبی جماعتوں کا ہوا بے بنیاد ثابت ہوا۔ امریکی حکومت نہایت صفاءی سے ریمنڈ ڈیوس کو پاکستانی جیل سے نکال کر لے گءی اور کوءی خاص شور شرابا نہ ہوا۔ خیال تھا کہ رے ڈیوس کو پاکستان سے چھڑا کر لے جانے پہ ایک طوفان اٹھے گا اور مذہبی جماعتیں پاکستانی حکومت کا ناطقہ بند کر دیں گی۔ مگر ایسا کچھ نہ ہوا۔ اور وجہ یہ تھی کہ امریکی حکومت نے اس رہاءی کے سلسلے میں تیاری اچھی کی تھی۔
تیاری کا پہلا حصہ تو سیاسی طور پہ میدان ہموار کرنا تھا۔ پی پی پی تو حکومت میں ہے ہی، لگتا ہے کہ امریکی انتظامیہ نے مسلم لیگ نون اور ایم کیو ایم کو بھی قابو میں کیا کہ جب ریمنڈ ڈیوس کو چھڑا کر لے جایا جاءے اور مذہبی جماعتیں جمعے کے روز ہڑتال کی کال دیں تو ایسی کسی ہڑتال کی تاءید نہ کرنا۔ واضح رہے کہ مذہبی جماعتیں ہمیشہ جمعے کے روز ہڑتال کی کال دیتی ہیں کیونکہ جمعے کی نماز کے اجتماعات بڑے ہوتے ہیں اور پھر مسجد میں جمع ہوءے ان لوگوں کو جلوس کی شکل میں کہیں لے کر جانا نسبتا آسان ہوتا ہے۔ امریکہ کی حکمت عملی کامیاب رہی۔ بدھ کے روز ریمنڈ ڈیوس کو سرعت سے پاکستان سے نکالنے پہ مذہبی جماعتیں غصے سے تلملا گءیں اور توقع کے عین مطابق انہوں نے جمعے کے روز ہڑتال کی کال دی۔ اس ہڑتال میں ان کی تاءید عمران خان کی تحریک انصاف کے علاوہ کسی بڑی سیاسی جماعت نے نہیں کی۔ چنانچہ جمعے کے روز کچھ نہ ہوا اور چند افراد کا سارا غصہ ٹاءیں ٹاءیں فش ہو گیا۔ امریکی انتظامیہ کے لیے مسلم لیگ نون اور ایم کیو ایم کو قابو کرنا آسان کیوں تھا؟ اس لیے کیونکہ جن جماعتوں کے مالی اور افرادی اثاثے مغربی حکومتوں کے رحم و کرم کے محتاج ہوں انہیں قابو میں کرنا کونسا مشکل کام ہے؟
پھر امریکی حکمت عملی کا دوسرا حصہ بھی کامیاب رہا۔ اور وہ حصہ ریمنڈ ڈیوس کی رہاءی کے لیے شرعی قانون کا سہارا لینا تھا۔ میں شرعی قوانین کے بارے میں واجبی علم رکھتا ہوں مگر یوں سمجھ میں آتا ہے کہ ان قوانین کے تحت خون بہا ادا کر کے قتل معاف کروایا جا سکتا ہے۔ امریکی حکومت نے پاکستانی حکومت کے توسط سے مقتولین کے ورثا کو دیت ادا کی اور اپنا آدمی چھڑا کر لے گءی۔ اور یوں مذہبی جماعتوں کو شریعت کی مار ماری گءی۔ اب اگر مذہبی جماعتیں مظاہرے اور ہڑتالیں کرتی ہیں تو دراصل وہ شریعت کے خلاف مظاہرہ کر رہی ہیں۔
مگر آج کی دنیا میں اپنے آپ کو دوسروں سے زیادہ سیانا دکھانے کی کوشش کرنے کی بھی الگ قیمت ہے۔ امریکی حکومت چالاکی سے ریمنڈ ڈیوس کو پاکستانی جیل سے چھڑا کر لے جانے میں تو کامیاب ہو گءی مگر اس پورے عمل میں لوگوں کے ذہنوں کو صاف نہ کر پاءی۔ عام آدمی کےذہن میں اس کیس سے متعلق جو شکوک و شبہات تھے وہ اپنی جگہ قاءم رہے۔ ریمنڈ ڈیوس کی پاکستان میں گرفتاری کے فورا بعد امریکی وزارت خارجہ نے کہا تھا کہ ریمنڈ ڈیوس کو سفارتی استثنا حاصل ہے اس لیے پاکستانی حکومت ڈیوس کو فورا چھوڑے؛ امریکہ ریمنڈ ڈیوس کو اپنی تحویل میں لینے کے بعد ڈیوس پہ خود مقدمہ چلا کر معاملے کی تہ تک پہنچے گا کہ جنوری ستاءیس کو کیا ہوا تھا۔ اب ریمنڈ ڈیوس امریکہ کی تحویل میں آگیا ہے، کیا ڈیوس پہ اب امریکہ میں مقدمہ چلے گا؟ کوءی شخص اگر امریکی حکومت کی طرف سے ریمنڈ ڈیوس پہ مقدمہ داءر ہوتا دیکھنے کا خواب دیکھ رہا ہے تو وہ شخص یقینا احمقوں کی جنت میں رہتا ہے۔ ستاءیس جنوری کے واقعے میں صرف ریمنڈ ڈیوس کے ہاتھوں دو قتل نہیں ہوءے تھے، ریمنڈ ڈیوس کی مدد کے لیے آنے والی امریکی قونصل خانے کی گاڑی نے بھی ایک موٹرساءیکل سوار کو ہلاک کیا تھا۔ قونصل خانے کی گاڑی چلانے والے اس ڈراءیور کو چپ چاپ پاکستان سے نکال کر امریکہ پہنچا دیا گیا۔ اس ڈراءیور پہ غفلت سے ایک شخص کو ہلاک کرنے کا مقدمہ چلانا تو درکنار ہمیں اور آپ کو آج تک اس ڈراءیور کا نام بھی نہیں بتایا گیا۔
قصہ مختصر یہ کہ ریمنڈ ڈیوس کے معاملے میں انصاف نہیں ہوا ہے۔ آپ کا اور میرا جیسا ایک عام آدمی تو صرف یہ جاننا چاہتا ہے کہ ستاءیس جنوری کے روز کیا ہوا تھا۔ اس بات کا عین امکان ہے کہ عدالتی کارواءی میں امریکی حکومت کا موقف صحیح ثابت ہو کہ فیضان اور فہیم ریمنڈ ڈیوس کو پستول کے زور پہ لوٹنا چاہتے تھے یا اسے اغوا کرنا چاہتے تھے اور ریمنڈ ڈیوس نے اپنے دفع میں ان دونوں کو قتل کیا۔ مگر اس بات کا سب پہ واضح ہونا ضروری ہے تاکہ ریمنڈ ڈیوس کی بے گناہی دنیا پہ ثابت ہو جاءے۔ یوں بالا بالا خون بہا ادا کر کے ایک شخص کو قانون کے چنگل سے چھڑا کر لے جانا امریکی حکومت کی طویل مدتی ساکھ کے لیے اچھا نہیں ہے۔
ریمنڈ ڈیوس کو پاکستان سے تو نکال لیا گیا مگر اس کیس میں انصاف حاصل کرنے کے راستے ابھی باقی ہیں۔ عام قوانین پاکستان شریعت کے حساب سے وضع نہیں ہیں۔ ان قوانین میں چوری کی سزا قطع ید نہیں ہے بلکہ جیل ہے۔ اگر خون بہا حاصل کرنے پہ مقتولین کے ورثا نے پاکستانی عدالت سے اپنا مقدمہ واپس لے بھی لیا ہے تو شہریوں کی ایک جماعت اپنے طور پہ عدالت کا دروازہ کھٹکھٹا سکتی ہے اور اس مقدمے کو دوبارہ سے کھول سکتی ہے۔ انصاف حاصل کرنے کا ایک دوسرا راستہ امریکہ میں ہے۔ یہاں امریکہ میں بھی شہریوں کی ایک جماعت ریمنڈ ڈیوس پہ بیرون ملک قتل کا مقدمہ داءر کر سکتی ہے۔ امریکی حکومت ہماری آپ کی ٹیکس کی رقم ہی سے تو چل رہی ہے۔ کیا ہمیں یہ حق حاصل نہیں ہے کہ جانیں کہ ٹیکس کی مد میں ہم سے لی جانے والی رقم کس طور سے استعمال ہو رہی ہے؟
اخبارات کی خبروں سے معلوم ہوا ہے فیضان اور فہیم کے ورثا کو خون بہا ادا کرنے کے علاوہ انہیں امریکہ میں آباد کرنے کی مراعات بھی دی گءی ہیں۔ اگر ایسا ہے تو امید ہےکہ یہ ورثا اتنی جراءت کا مظاہرہ کریں گے کہ امریکہ پہنچ کر ریمنڈ ڈیوس پہ نءے سرے سے ایک مقدمہ داءر کریں جو اب کی دفعہ امریکی عدالت میں چلے گا اور دنیا کے سامنے مزنگ لاہور میں جنوری ستاءیس کو ہونے والے واقعات کی تفصیلات کھل کر سامنے آ جاءیں گی۔

تصویر بشکریہ اے ایف پی

Labels: , ,


Comments: Post a Comment



<< Home

This page is powered by Blogger. Isn't yours?