Friday, November 07, 2014
دھرنا ختم، اور طہارت کی تاریخ
نومبر دو، دو ہزار چودہ
ایک فکر کے سلسلے کا کالم
کالم شمار دو سو تیرہ
دھرنا ختم،
اور طہارت کی تاریخ
طاہر
القادری کا اسلام آباد میں دھرنا ختم ہوا اور پاکستان عوامی تحریک کے کارکنان
اسلام آباد چھوڑ کر اپنے گھروں کو روانہ ہوءے تو اپنے پیچھے کوڑا اور غلاظت چھوڑ گءے۔
ایک دفعہ پھر وہ موقع آیا کہ
ہم نے مرزا ودود بیگ کو گھیر لیا۔
ہمیں ان سے چھیڑ چھاڑ کرنے میں بہت مزا آتا ہے۔ پھر جب وہ کراچی کی بازاری زبان
میں سیاست پہ تبصرہ کرتے ہیں تو بیان کا لطف دوبالا ہوجاتا ہے۔ یار لوگوں نے پھر
مرزا ودود بیگ سے استفسار کیا کہ آخر وہ لفظ انقلاب سے کیوں بغض رکھتے ہے۔
"آپ انقلاب لا کر کیا
کریں گے؟ خرابی تو آپ کے لوگوں میں ہے۔ جب لوگ ہی ٹھیک نہ ہوں گے تو کسی قسم کی
سیاسی تبدیلی سے حالات کیا خاک تبدیل ہوں گے؟" مرزا ودود بیگ نے اطمینان سے
جواب دیا۔
یہ سن کر ایک نوجوان بھڑک
اٹھا، "کس قسم کی فضول باتیں کررہے ہیں آپ؟ آخر کیا کمی ہے ہم لوگوں میں؟ ہم
بھلا دنیا میں کس سے پیچھے ہیں؟"
مرزا ودود بیگ بھی کچھ بگڑے۔
کہنے لگے،
"ارے جانے دو صاحبزادے۔
ہگنے موتنے کی تو تمیز ہے نہیں زیادہ تر لوگوں کو۔ انقلاب سے آنے والی کونسی سیاسی
تبدیلی لوگوں کو رہنے کا بنیادی قرینہ سکھاءے گی؟ کسی بھی اوپری سیاسی تبدیلی سے
ان لوگوں میں تعلیم کیسے بڑھے گی؟ ان کو یہ تمیز کیسے آءے گی کہ صفاءی سے رہنے کے
کیا معنی ہوتے ہیں؟ انقلاب سے راتوں رات انہیں قطار بنانے کا سلیقہ کہاں سے آجاءے
گا؟"
ہم سب مرزا ودود بیگ کا منہ
دیکھتے رہے۔ بڑے میاں بات تو ٹھیک کررہے تھے۔ اس شام جب دوسرے ساتھی چلے گءے تو
میں بہت دیر تک مرزا ودود بیگ کے ساتھ ان کے استدلال کے اول پہلو پہ بات کرتا رہا،
یعنی طہارت کے موضوع پہ۔
مرزا ودود بیگ کا کہنا تھا کہ
ہم میں سے زیادہ تر لوگوں کو جدید بیت الخلا کے استعمال کا طریقہ ہی نہیں آتا۔
انہوں نے مجھ پہ زور دیا کہ میں اس موضوع پہ ایک ویڈیو بناءوں۔ اس ویڈیو کا نام
'طہارت کی تاریخ' رکھوں۔ ان کا کہنا تھا کہ، "بات زمانہ قدیم سے شروع ہو،
یعنی ارتقا کی پہلی منزل سے۔ ویڈیو میں دکھایا جاءے کہ بندر کس طرح طہارت کرتے
ہیں؟ جواب آسان ہے اور وہ یہ کہ بندر طہارت نہیں کرتے۔ وہ بیٹھ کر فارغ ہوتے ہیں
اور فارغ ہونے کے بعد، اپنی صفاءی کیے بغیر، بس اٹھ کر آگے بڑھ جاتے ہیں۔ حیرت
انگیز طور پہ بہت سے انسان بھی ایسا ہی کرتے ہیں۔ تو پہلے مرحلے میں تو آپ کو ان
انسان نما جانوروں کو انسان بنانا ہوگا۔ ان کو بتانا ہوگا کہ فارغ ہونے کے بعد اپنی
صفاءی کرنا کیوں ضروری ہے۔ یہ بتانا ہوگا کہ طہارت اول خود اپنے لیے فاءدہ مند ہے کہ
اگر آپ اپنی صفاءی نہ کریں تو آپ بیمار پڑ سکتے ہیں؛ دوءم، طہارت کی ضرورت اس لیے
ہے کہ آپ کے پاس سے بدبو نہ آتی رہے۔
"اب سوال یہ پیدا ہوتا
ہے کہ تاریخی طور پہ اپنی صفاءی کرنے کے کونسے طریقے راءج رہے ہیں۔ فارغ ہونے کے
بعد اپنے جسم سے غلاظت کو صاف کرنے کے لیے انسان نے اپنے ماحول کے حساب سے طریقے
اپناءے ہیں۔ سرد علاقوں میں لوگوں نے پتوں سے صفاءی کا کام لیا۔ گرم علاقوں میں
جہاں پانی وافر دستیاب تھا، انسان نے پانی کو طہارت کے لیے استعمال کیا۔ ریگستان
میں اور ان جگہوں پہ جہاں پانی بمشکل میسر تھا انسان نے ریت اور پتھروں سے اپنی
صفاءی کی۔ قرون وسطی میں یورپ میں عوام صفاءی کے لیے پتے استعمال کرتے تھے اور
بادشاہ اور خواص اون کا استعمال کرتے تھے۔ جب چین کی دریافت، کاغذ یورپ پہنچا اور
بہت بعد میں بڑے پیمانے پہ بننا شروع ہوا تو سرد علاقوں کے لوگ طہارت کے لیے کاغذ
استعمال کرنے لگے۔ چنانچہ آج کی دنیا میں صفاءی کے یہی دو طریقے راءج ہیں، کاغذ سے
صفاءی، یا پانی سے صفاءی۔ ظاہر ہے کہ پاکستان میں ہماری تربیت ایسی ہوءی ہے کہ
ہمیں پانی سے صفاءی، کاغذی کارواءی سے افضل معلوم دیتی ہے۔"
اپنی بات یہاں تک مکمل کرنے
کے بعد مرزا ودود بیگ نے سمجھایا کہ مجھے طہارت سے متعلق اپنے تعلیمی ویڈیو میں
بیت الخلا کی تاریخ بھی بتانی ہوگی۔ یہ بتانا ہوگا کہ جدید بیت الخلا ارتقا کے کن
مراحل سے گزرا ہے۔ "انگریز کے جنوبی ایشیا آنے سے پہلے ہمارے شہری علاقوں میں
کھڈیوں کا رواج تھا۔ یہ کھڈیاں ایک بیت الخلا میں بیرونی دیوار کے ساتھ بنی ہوتی
تھیں۔ ان کھڈیوں پہ اکڑوں بیٹھ کر فارغ
ہوا جاتا تھا۔ صفاءی کے لیے پانی سے بھرا لوٹا ساتھ رکھا جاتا تھا۔ فارغ ہونے کے
بعد لوٹے کو داءیں ہاتھ میں پکڑ کر پانی ٹونٹی سے آہستہ آہستہ ڈالا جاتا تھا اور
باءیں ہاتھ سے صفاءی کی جاتی تھی۔ اسی مناسبت سے پانی اور ہاتھ کے اس باہمی عمل کو
آبدست کہا جاتا ہے اور صفاءی کا یہ طریقہ آج بھی راءج ہے۔ اچھی طرف صفاءی کرنے کے
بعد مزید پانی سے فضلے کو بیرونی دیوار میں موجود سوراخ کے ذریعے دیوار کے دوسری
طرف موجود نکاسی کی نالی میں دھکیل دیا جاتا تھا۔ جب اٹھارویں صدی میں ایسٹ انڈیا
کمپنی نے جنوبی ایشیا پہ اپنا تسلط قاءم کرنا شروع کیا تو نءے دور کا برتن، جسے اب
ڈبلیو سی یا واٹر کلوزٹ، کہتے ہیں اپنے ارتقاءی عمل کے اول دور میں تھا۔ مگر صدی
بھر میں یہ فرق آیا کہ صنعتی انقلاب نے زور پکڑا؛ پاءپ بڑے پیمانے پہ بننے لگے؛
صاف پانی کی فراہمی اور گندے پانی کی نکاسی کے لیے پاءپ کا استعمال عام ہوا؛ اور
بیت الخلا کا برتن ارتقا کے مراحل طے کرتا ہوا وہ روپ اختیارکرگیا جسے فلش ٹاءلٹ کے
نام سے جانا جاتا ہے۔"
اس موقع پہ ذرا سا رک کر مرزا
ودود بیگ نے مجھ سے سوال کیا کہ میں شمالی امریکہ سے کراچی جانے کے لیے کونسا
راستہ اختیار کرتا ہوں۔ میں نے منمنا کر کہا کہ مشرق یا مغرب جس راستے سے مناسب
ٹکٹ مل جاءے، اس راستے سے چلا جاتا ہوں۔ اس پہ بیگ صاحب نے مجھ سے پوچھا کہ،
"آپ نے کبھی اپنے آپ سے سوال کیا کہ لندن سے دبءی کی سات گھنٹے کی پرواز میں
تو جہاز کے ٹاءلٹ صحیح کام کرتے ہیں، لیکن جب یہی جہاز دبءی سے کراچی کے لیے روانہ
ہوتا ہے تو صرف دو گھنٹے کی اس پرواز کے پہلے آدھے پون گھنٹے ہی میں ہی جہاز کے
کءی بیت الخلا کیوں خراب ہوجاتے ہیں؟"
پھر انہوں نے خود ہی اپنے
سوال کا جواب دیا کہ، "بات یہ ہے کہ ہمارے لوگوں کو جدید ٹاءلٹ کے استعمال کی
تربیت نہیں دی گءی ہے۔ مسافروں میں سے بیشتر ایسے ہوتے ہیں جو کھڈیوں سے اٹھ کر
سیدھا نءے دور کے ٹاءلٹ تک پہنچ گءے ہیں اور انہیں اس جدید مشین کو استعمال کرنے
کا طریقہ نہیں آتا۔"
بیگ صاحب کا کہنا تھا کہ میں
اپنے تعلیمی ویڈیو میں بیت الخلا کی تاریخ بیان کرنے کے ساتھ، ناظر کو جدید دور کے
ٹاءلٹ کو استعمال کرنے کا طریقہ بھی بتاءوں۔ ان کا کہنا تھا کہ ناظر کو پہلا کلیدی
نکتہ یہ سمجھایا جاءے کہ آپ کو ٹاءلٹ جس صاف حالت میں ملا ہے، آپ کو اسے استعمال
کرنے کے بعد اسی صاف حالت میں یا اس سے بہتر صاف حالت میں اگلے شخص کے استعمال کے
لیے چھوڑنا ہے۔
"جدید دور کے بیت الخلا
کے کءی لوازمات ہیں۔ اکثر جگہ آپ کو بیت الخلا میں یہ چیزیں ملیں گی:برتن، نشست
پوش، صفاءی کاغذ، اور صفاءی برش۔ اکثر جگہ آپ کو صفاءی کے لیے پانی نہیں ملے گا
اور پانی کا انتظام آپ کو خود کرنا ہوگا۔
سب سے پہلے برتن کے متعلق
بتاءیے کہ جدید بیت الخلا میں برتن کرسی کی شکل کا ہوتا ہے۔ اس برتن پہ اوپر چڑھ
کر نہیں بیٹھنا بلکہ اس طرح بیٹھنا ہے جس طرح کرسی پہ بیٹھا جاتا ہے۔ ممکن ہے آپ
کا خیال ہو کہ اس کرسی کی نشست [سیٹ] صاف نہیں ہے۔ سیٹ کو ایک صارف سے دوسرے صارف
کے درمیان صاف رکھنے کے لیے عموما نشست پوش [سیٹ کور] مہیا کیے جاتے ہیں۔ اگر کاغذ
کے نشست پوش موجود ہیں تو نشست پوش کو نشست پہ بچھاءیے اور پھریوں بیٹھ جاءیے جس
طرح کرسی پہ بیٹھا جاتا ہے۔ اگر نشست پوش موجود نہیں ہیں تو صفاءی کاغذ [ٹاءلٹ
رول] سے نشست کو صاف کیجیے اور پھر نشست پہ بیٹھیے۔ نشست پہ پاءوں رکھ کر، اوپر
چڑھ کر ہرگز نہ بیٹھیں۔ اگر آپ ایسا کرتے ہیں تو کءی مساءل پیدا ہوتے ہیں۔ اول، آپ
کا پاءوں پھسل سکتا ہے، آپ کو چوٹ آسکتی ہے، اور ہڈی بھی ٹوٹ سکتی ہے۔ دوءم، اس
طرح اوپر چڑھ کر بیٹھنے سے آپ کی طہارت متاثر ہوسکتی ہے۔ اتنی اونچاءی سے فضلہ
گرنے پہ چھینٹے اڑ کر آپ پہ آسکتے ہیں۔ اور سوءم یہ کہ اس طرح اوپر چڑھ کر بیٹھنے
سے آپ نشست کو گندا کر کے اگلے صارف کے لیے مشکل پیدا کریں گے۔
"فارغ ہونے کے بعد پانی
سے اپنے آپ کو صاف کیجیے اور احتیاط کیجیے کہ تمام پانی برتن کے اندر ہی گرے، باہر
فرش پہ نہ گرے۔ پھر نشست سے اٹھنے کے بعد برتن کو فلش کیجیے۔ فلش کرنے سے برتن میں
موجود فضلہ اور گندا پانی خارج ہوجاءے گا اور اس کی جگہ صاف پانی بھر جاءے گا۔
برتن فلش کرنے کے بعد یہ اطمینان کرنا ضروری ہے کہ تمام گندگی برتن سے خارج ہوگءی
ہے۔ اگر کسی وجہ سے کچھ گندگی رہ گءی ہے تو برتن کو دوبارہ فلش کیجیے۔ جدید برتن
اس طرح بناءے گءے ہیں کہ فلش کرنے پہ جو تازہ پانی برتن کے اندر آتا ہے وہ برتن کی
دیواروں کو دھوتا ہوا اندر گرتا ہے اور اس طرح برتن کی دیواروں پہ لگی غلاظت صاف
ہوجاتی ہے۔ مگر اس بات کا امکان رہتا ہے کہ آپ کے استعمال کے بعد برتن کی دیواروں
پہ لگی تمام غلاظت صاف نہ ہو بلکہ فلش کرنے کے بعد بھی کچھ غلاظت برتن کی دیوار پہ
لگی رہ جاءے۔ اس مسءلے سے نمٹنے کے لیے جدید بیت الخلا میں صفاءی برش رکھا جاتا
ہے۔ اس برش کو استعمال کرتے ہوءے برتن کو صاف کریں اور پھر فلش کے دوران آنے والے
تازہ پانی سے برش کو صاف کرنے کے بعد برش کو واپس اپنی جگہ پہ رکھیں۔ اگر بیت
الخلا میں برش موجود نہیں ہے تو صفاءی کاغذ کی مدد سے برتن پہ موجود غلاظت صاف کر
کے کاغذ برتن میں ڈال دیں اور پھر فلش کریں۔ صفاءی کاغذ کی جگہ پانی کی دھار سے
بھی برتن کی دیوار پہ لگی غلاظت کو صاف کرنے کا کام کیا جاسکتا ہے۔ غرض کہ یہ
صفاءی جس طرح بھی کریں بس یہ خیال رہے کہ برتن کو اتنی صاف حالت میں، یا اس سے
زیادہ صاف حالت میں، اگلے صارف کے لیے چھوڑیں جس حالت میں وہ آپ کو ملا تھا۔
"برتن کو اپنی، استعمال
سے پہلے والی، حالت میں لوٹانے کے بعد آپ کو اپنے ہاتھ صابن سے دھونے ہیں۔
"پھر آپ لوگوں کو یہ بھی
بتاءیں کہ وہ پیشاب گاہ [یورینل] میں طہارت کا کاغذ نہ پھینکیں۔ پیشاب گاہ سے کسی
ٹھوس شے کی نکاسی نہیں ہوسکتی۔ اگر کاغذ کا استعمال اتنا ضروری سمجھیں تو بہتر
طہارت کے ساتھ دوسروں کی سہولت مدنظر رکھتے ہوءے چھوٹی حاجت کے لیے بھی عام بیت
الخلا استعمال کریں۔"
میں بہت صبر سے بیگ صاحب کی
تقریر سن رہا تھا۔ ان کی گفتگو میں وقفہ آیا تو میں نے پوچھا، "میرے لیے کوءی
اور حکم۔"
"حکم کیسا؟ آپ انقلاب کا
راستہ تلاش کرنے چلے ہیں تو میں آپ کو انقلابی لوگ تیار کرنے کا راستہ بتا رہا
ہوں۔ طہارت کی ویڈیو بنانے کے بعد آپ کو لوگوں کو قطار بنانے کی تعلیم دینے کے لیے
بھی ویڈیو بنانا ہے۔ اور اسی طرح کے ایک اور ویڈیو میں آپ کو مرد حضرات کو تعلیم
دینی ہے کہ وہ خواتین سے کیسے پیش آءیں۔ یہ تمام تعلیمی ویڈیو صبح و شام پاکستان
کے مختلف ٹی وی چینل پہ چلاءی جاءیں۔ جب اس طرح کی عمومی تعلیم معاشرے میں پھیلے
گی تو انقلاب کی راہ خود بخود ہموار ہو گی۔"
Labels: Elmustee Membership Gated Community Crime Resistant Society, Elmustee Orientation Videos, End of Imran Khan's Dharna, History of toilet, Karachi, Pakistan
Sunday, November 02, 2014
وہ ایک بچہ چار سالہ
اکتوبر ستاءیس، دو ہزار چودہ
ایک فکر کے سلسلے کا کالم
کالم شمار دو سو بارہ
وہ ایک بچہ
چار سالہ
تاریخ انسان کے انسان پہ مظالم
سے بھری پڑی ہے۔ تیمور کے متعلق مشہور ہے کہ اسے دشمنوں کی کھوپڑیوں سے مینار
بنانے کا شوق تھا۔ مگر مظالم کی ان تمام قدیم داستانوں میں ایک بہت بڑی کمی ہے۔ یہ
داستانیں بے تصویر ہیں۔ ان پرانے تاریخی واقعات کے مقابلے میں آج کچھ اور ہی
معاملہ ہے۔ کیمرے ہر جگہ ہیں اور تصویر اتارنا بہت آسان ہے۔ چنانچہ ہر جگہ
تصاویر بناءی جارہی ہیں اور زیادہ تر
خبریں باتصاویر ہوتی ہیں۔ بلکہ بات یہاں تک پہنچی ہے کہ اگر کوءی خبر بے تصویر ہو
تو اس کی صداقت پہ شبہ کیا جاتا ہے۔ موجودہ عہد کے مظالم سے متعلق چند تصاویر جو
میں نے جمع کی ہیں، ان میں ایک تصویر بالخصوص دل ہلا دینے والی ہے۔ یہ تصویر ایک صحرا میں اتاری گءی ہے؛ حد نظر
چٹیل میدان نظر آتا ہے جس میں چھوٹے بڑے پتھر پڑے ہیں۔ اس تصویر کا مرکزی کردار
ایک چار سالہ لڑکا ہے۔ لڑکے نے ایک سفید جیکٹ پہنی ہوءی ہے، اس کے باءیں ہاتھ میں
ایک پلاسٹک بیگ ہے جو کافی بھاری معلوم دیتا ہے۔ اس تصویر میں اس چار سالہ لڑکے کے
علاوہ چار لوگ اور بھی ہیں، ایک عورت اور تین مرد۔ ان چاروں نے نیلے یونیفارم پہنے
ہوءے ہیں جن پہ اقوام متحدہ کے ادارے یونیسیف کہ مہر چھپی ہے۔ تصویر میں عورت کو جھک کر
چارسالہ لڑکے سے بات کرتے ہوءے دکھایا گیا ہے۔ یہ تصویر دراصل شام اور اردن کی
باہمی سرحد کے قریب کھینچی گءی ہے۔ وہ چار سالہ لڑکا اپنے گھر والوں سے کیسے بچھڑا؟ اس
لڑکے نے قتل و غارت گری کے کون کون سے رونگٹے کھڑے کردینے والے مناظر دیکھے ہیں
اور کیا یہ مناظر بھیانک خواب کا روپ دھار کر ساری عمر اس لڑکے کا پیچھا کریں گے؟
اس کالم کے
پڑھنے والو، کیا اس تصویر کا منظر پوری انسانیت کے منہ پہ ایک زوردار طمانچہ نہیں
ہے؟ کیا یہ منظر تمھیں جھنجھوڑنے کے لیے کافی نہیں ہے؟
میری خوش
قسمتی ہے کہ مجھے بارہا سفر کرنے کا موقع ملا ہے۔ میں نے یقینا دنیا نہیں دیکھی
مگر دنیا کے کءی حصے ضرور دیکھے ہیں، اور ان مختلف ممالک میں زمینی سفر کیا ہے۔ میں
دیکھ سکتا ہوں کہ آج کی دنیا دو قسم کی سیاسی شکست و ریخت کا شکار ہے۔ اول، ان
جگہوں پہ جہاں طویل عرصہ نوآبادیاتی نظام رہا اور نوآبادیاتی نظام کے خاتمے کے بعد
مقامی حکمراں برسراقتدار آگءے مگر لمبا عرصہ سیاسی نظام منجمد رہنے کی وجہ سے
مقامی لوگوں میں انصاف سے حکمرانی کا تجربہ نہ رہا۔ ان جگہوں پہ یکے بعد دیگرے آنے
والی ناکام حکومتوں کے کارن عوام کا جینا دوبھر ہوچکا ہے اور بہت سے لوگ ان جگہوں
سے نقل مکانی کرنا چاہتے ہیں۔ دوءم، وہ ممالک جنہوں نے اشتراکیت کا راستہ اپنایا۔
پھر سوویت یونین کے ٹوٹنے پہ یہ ممالک سیاسی طور پہ دیوالیہ ہوگءے۔ ان میں چند ہی
ایسے ممالک ہیں جنہوں نے تیزی سے اپنی معیشت کا رخ منہ موڑا اور عوام کو سرمایہ
داری نظام میں چلانے میں کامیاب ہوگءے۔ جب کہ اشتراکی ماضی رکھنے والے بہت سے
ممالک سرمایہ داری نظام کی راہ میں ڈگمگاتے چل رہے ہیں؛ ان جگہوں سے بھی لوگ ہجرت
کے لیے آمادہ نظر آتے ہیں، اور بہتر جگہ نقل مکانی کا موقع ہاتھ سے نہیں جانے
دیتے۔
سیاسی اکھاڑ
پچھاڑ کے اس دنگل میں اگر کبھی جنگ چھڑ جاءے تو بات بالکل ہاتھ سے نکل جاتی ہے۔
جہاں جنگ ہوتی ہے وہاں کے لوگ بری طرح پستے ہیں۔ یوں تو کہنے کو انسان نے ایک عرصہ
ہوا آدم خوری چھوڑ دی ہے مگر جنگ دراصل آدم خوری ہی کی ایک شکل ہے۔
مگر کیا اس
ظالم دنیا پہ آنسو بہانہ ہی کافی ہے؟ ہرگز نہیں۔ اگر آپ آرام سے دو وقت کا کھانا
رہے ہیں، اور آپ کی جان کو فوری کوءی خطرہ نہیں تو آپ کو اپنے آپ سے یہ سوال ضرور
کرنا ہوگا کہ درج بالا جگہوں پہ موجود لوگوں کو ظلم کی چکی میں پسنے سے بچانے کے
لیے آپ کیا کرسکتے ہیں؟ اور آپ کو سمجھنا
ہوگا کہ ایک عرصے سے لوگ اس معمے کا حل کیسے تلاش کررہے ہیں۔ ہم دیکھ سکتے ہیں کہ
دنیا کو ایک بہتر جگہ بنانے کے لیے، کوءی تعلیم عام کرنا چاہتا ہے تو کسی کا خیال
ہے کہ معیشت کی بحالی ہی وہ نسخہ کیمیا ہے جو ترقی پذیر ممالک کی تمام خرابیوں کا
حل ہے۔ مگر دوا کوءی بھی تجویز کی جاءے، بہت سے مساءل کا شکار یہ ممالک اتنے بڑے
ہیں اور ان میں سے اکثر کی آبادی اس قدر زیادہ ہے کہ اس دوا کے کاریگر ہوتے ہوتے
بھی کءی دہاءیاں گزر جانے کا امکان ہوتا ہے۔ تو اس درمیان وہ لوگ جو آج ان جگہوں
پہ پریشانی کا شکار ہیں کیا کریں؟ بہت سے لوگوں کی طرح میں بھی قاءل ہوگیا ہوں کہ
بہت بڑے بڑے علاقوں اور کروڑوں کی آبادی کو بہتر معیار زندگی تک پہنچانے کی کوشش
بہت جلدی تھک کر بیٹھ جانے کا ایک راستہ ہے۔ زیادہ بہتر طریقہ یہ ہے کہ ایک محدود
علاقے اور ایک چھوٹی آبادی پہ کام کیا جاءے۔ چھوٹی جگہ کے مسءلے کو بہت جلد حل کیا
جاسکتا ہے اور اگر اسی طرح جگہ جگہ چھوٹے پیمانے پہ کام کیا جاءے تو یہ سارا کام
مل کر بہت بڑا کام بن سکتا ہے۔ چھوٹی جگہ پہ، کم ابادی پہ، کیسے کام کیا جاءے؟ اس
جگہ کو اپنے پاءوں پہ کھڑا کیا جاءے کہ یہ جگہ وہاں رہنے والوں کے لیے خوراک خود
اگا سکے اور اپنی تواناءی کی ضروریات خود پوری کرسکے۔ اس جگہ کے لوگ اپنی حفاظت کا خود انتظام کریں
اور خود اپنی حکومت ہوں۔ اور اس جگہ کے لوگ اپنے علاقے میں رہنے والے لوگوں کی
مستقل تعلیم کا انتظام کریں۔ خراب اور سیاسی طور پہ ناہموار جگہوں پہ جس طرح کی
چھوٹی فعال بستیوں کی ضرورت ہے، اس سے متعلق خیالات یہاں موجود ہیں۔
تصویر بشکریہ
اینڈریو ہارپر، یونیسیف، اردن
Labels: Elmustee, Elmustee Membership Gated Community Crime Resistant Society, Elmustee Orientation Videos, Refugees, Syrian war