Wednesday, December 07, 2016

 

سرحد کی طرف دوڑ، چنگدو سے کنمنگ






ایک فکر کے سلسلے کا کالم

کالم شمار تین سو دس

 دسمبر چار، دو ہزار سولہ


سرحد کی طرف دوڑ، چنگدو سے کنمنگ



چنگدو سے کنمنگ تک کا ریل کا سفر بھی چوبیس گھنٹے کا تھا۔ کنمنگ جانے والی ٹرین میدانی علاقے سے نکل کر پہاڑیوں کو سرنگ در سرنگ چیرتی پھاڑتی آگے بڑھ رہی تھی۔ وہاں پہاڑوں کی چوٹیوں کو چومتے بادل تھے، مٹی سے آلودہ دریا، اور بانس کے جھنڈ۔ کھیتوں میں فصل کی کٹائی کے بعد تنکوں کے گچھے سکھانے اور پھر جلانے کے لیے رکھے نظر آتے تھے۔ ہم جس ہند چینی علاقے کی طرف بڑھ رہے تھے اس کی پہلی نشانی ہمیں ایک بھینس کی صورت میں نظر آئی۔ بالکل اس شکل کی کالی بھینس جیسی پاکستان میں نظر آتی ہے۔
کن منگ میں جب ہم اپنے ہوٹل پہنچے تو وہاں جھگڑا ہورہا تھا۔ ایک طرف ایک امریکی جوڑا تھا اور دوسری طرف ہوٹل کی انتظامیہ۔  نوجوان امریکی جوڑا ہوٹل والوں سے اپنی رقم وصول کرنا چاہتا تھا۔ وہ دونوں ہم سے کچھ دیر پہلے ہی وہاں پہنچے تھے۔ نوجوان کا کہنا تھا کہ ان دونوں سے غلطی یہ ہوئی کہ انہوں نے کمرہ دیکھے بغیر کرائے کی رقم ادا کردی۔ جب وہ کمرے میں پہنچے تو انہوں نے اس کمرے کو بے حد گندہ پایا۔ اب وہ اس ہوٹل میں کسی قیمت پہ ٹہرنے کے لیے تیار نہ تھے اور رقم کی واپسی کا تقاضہ کررہے تھے۔ آدمی سخت غصے میں تھا اور اپنی رواں انگریزی کا جواب انگریزی ہی میں چاہتا تھا۔ نوجوان کا کہنا تھا کہ وہ ٹریول رائٹر ہے اور وہ لکھے گا کہ اس ہوٹل کا عملہ کس قدر بدتمیز ہے۔ دوسری طرف ہوٹل کا عملہ آپس میں چینی زبان میں گفتگو کررہا تھا اور کبھی کبھار ایک آدھ جملہ انگریزی میں ادا کردیتا تھا۔ انگریزی زبان کے اس مقابلے میں ہوٹل کا عملہ ہار رہا تھا۔ ہم نے مینیجر کو کسی قدر دھیمے لہجے میں سمجھایا کہ اس ساری ہنگامہ آرائی سے بہتر ہے کہ وہ ان لوگوں کی رقم واپس کردے۔ اور یوں ہی ہوا؛ اس جوڑے کی رقم واپس کردی گئی مگر ہوٹل کا عملہ اس بات سے ہرگز خوش نہ تھا۔ استقبالیے پہ موجود خاتون نے اس لڑائی جھگڑے کو اپنی ذاتی بے عزتی خیال کیا تھا۔ وہ مستقل بڑبڑا رہی تھی۔ اور اسی بڑبڑانے کے دوران اس نے ہمیں کمرے کی چابی دے دی۔ ہمارا کمرہ چینی معیار سے صاف ستھرا تھا مگر وہاں دوسرا مسئلہ تھا۔  حمام کمرے سے کسی قدر فاصلے پہ تھا اور بیت الخلا میں نکاسی ایک کھلی نالی کی مدد سے کی جارہی تھی۔ شاید یہی انتظام امریکی جوڑے کو گندا معلوم دیا تھا۔ چین کے جو علاقے بے جنگ سے جس قدر دور تھے اسی قدر پسماندہ تھے۔
کن منگ دلچسپ جگہ معلوم ہوئی۔ وہاں بھانت بھانت کی شکلوں کے لوگ نظر آرہے تھے؛ یہ لوگ واضح طور پہ ہان لوگوں سے مختلف تھے۔ مگر ہان نسل کے لوگ تعداد میں اس قدر زیادہ ہیں کہ چین کے اقلیتی نسلی گروہ ہان آبادی کے زور سے رفتہ رفتہ ختم ہوتے جارہے ہیں۔
ہم اس جغرافیائی علاقے میں تھے جہاں ہندی ساختمانی تختی [انڈئین ٹیکٹونک پلیٹ] یوریشیائی ساختمانی تختی سے ٹکرا رہی ہے۔ وہ بن باراں [رین فارسٹ] کا علاقہ تھا اور اسی مناسبت سے وہاں کئی دلچسپ پھل نظر آئے۔ چھابڑی فروش فٹ پاتھ کے ساتھ تختوں پہ گنا اور چکوترے سے ملتا جلتا کوئی پھل رکھے بیٹھے نظر آئے۔ گنا تو چوسنے میں بالکل ایسا تھا جیسا گنے کو ہونا چاہیے مگر چکوترے جیسا پھل اندر سے بے حد سخت نکلا۔ یہ ذائقے میں کڑوا تھا۔ 
کن منگ کے آس پاس گھومنے پھرنے کی کئی جگہیں تھیں مگر ہم جلد از جلد لائوس کی سرحد پہ اپنی قسمت آزمانا چاہتے تھے۔ کن منگ سے مزید جنوب میں جنگ ھانگ کی طرف جاتے ہوئے ٹرین کی پٹری نہیں تھی۔ وہاں پہنچتے پہنچتے جدید چین ختم ہوگیا تھا۔ آگے بسوں کا سفر تھا۔  ہماری سفری کتاب میں چین اور لائوس کی سرحد کے بارے میں کچھ تحریر نہ تھا۔ ہم پاکستانی پاسپورٹ کی کمزوری سے واقف تھے۔ ہمیں ڈر تھا کہ کہیں لائوس کی سرحد پر پہنچنے پہ ہمیں وہاں سے واپس نہ کردیا جائے۔ اس صورت میں ہمیں برما میں داخل ہونا تھا اور ایسا اپنا ویزا ختم ہونے سے پہلے کرنا تھا۔ اب بس سے جنگ ھانگ جانے کی تیاری شروع ہوگئی۔


Labels: , , , , , ,


Comments: Post a Comment



<< Home

This page is powered by Blogger. Isn't yours?