Thursday, November 10, 2016

 

بے جنگ میں چرس کی تجارت




ایک فکر کے سلسلے کا کالم

کالم شمار تین سو چھ

 نومبر چھ، دو ہزار سولہ


بے جنگ میں چرس کی تجارت




ہوہوت سے بے جنگ پہنچنے پہ ہمیں یوں لگا کہ جیسے ہم انسانوں کے ایک سیلاب رواں کے بیچ میں پہنچ گئے تھے۔ بے جنگ اس طرح کا دارالحکومت ہے جس طرح کے دارالحکومت پرانی دنیا میں کثرت سے پائے جاتے ہیں: یعنی ملک کا سب سے بڑا اور سب سے اہم شہر۔ وہ ممالک جو یا تو غربت کی دلدل سے ابھی باہر نہیں نکلے ہیں، یا انہیں وہاں سے نکلے بہت زیادہ عرصہ نہیں ہوا، دولت کی ملک بھر میں مساوی تقسیم نہیں کرتے اور دارالحکومت پہ سب سے زیادہ رقم خرچ کرتے ہیں۔ جہاں اس قسم کی غیرمنصفانہ تقسیم ہو اور ملک کے وسائل دارالحکومت پہ زیادہ خرچ کررہے ہوں، وہاں ملک کے اندر ایک نقل مکانی شروع ہوجاتی ہے اور لوگ چھوٹے شہروں سے جوق در جوق دارالحکومت کا رخ کرتے ہیں کیونکہ  پایہ تخت میں ضروریات زندگی دوسری جگہوں کے مقابلے میں زیادہ آسانی سے میسر ہوتی ہیں۔
بے جنگ میں ہمیں قطار در قطار کثیرمنزلہ رہائشی عمارتیں نظر آئیں۔ ایسی عمارتیں ہمیں مشرقی یورپ میں بھی نظر آئی تھیں۔ یہ عمارتیں اشتراکی نظام سے وفاداری کا مظاہرہ تھیں۔ ملک کے تمام شہریوں کو بلا امتیاز رہائش فراہم کرنا ریاست کا فرض تھا اور ریاست یہ فرض بخوبی نبھانا چاہتی تھی۔ مگر کیا کیجیے کہ مساوات ایک سراب ہے۔ آپ ایک پندرہ منزلہ عمارت میں ایک رقبے کے ایک جیسے ساٹھ فلیٹ بنا سکتے ہیں۔ مگر ایک نقشے اور ایک رقبے کے ہونے کے باوجود ان سارے مکانوں میں تھوڑا تھوڑا فرق ہوگا۔ کچھ مکان کونے والے ہوں گے، کچھ اوپری منزل پہ ہوں گے، کچھ کا سامنا سڑک کا ہوگا، کچھ پیچھے کی طرف ہوں گے۔ اور جب ان فلیٹوں کو لوگوں میں تقسیم کرنے کا معاملہ آیا ہوگا تو یقینا لوگوں نے اپنی اپنی خواہش والے مکانوں کی فرمائش کی ہوگی۔ کسی نے نیچے کی منزل کا فلیٹ چاہا ہوگا؛ کسی نے کونے والے فلیٹ کی خواہش کی ہوگی، اور ایک دفعہ پھر لوگوں کی جان پہچان کام آئی ہوگی، اور عوام سے مساوی سلوک رکھنے کے خیال کو شدید دھچکا پہنچا ہوگا۔
ہم بے جنگ میں جس ہوٹل میں ٹہرے وہ غریب مغربی سیاحوں میں بہت مقبول تھا۔ وہیں ہمیں ایک چینی خاتون کے بارے میں معلوم ہوا جو سیاحوں کے لیے جعلی چینی اسٹوڈنٹ کارڈ بنانے کا کام کرتی تھی۔ اس کارڈ کی مدد سے عجائب گھر اور دوسری سیاحتی جگہوں پہ رعایتی ٹکٹ لیا جاسکتا تھا۔
ہم ہوٹل کے ریستوراں میں دوسرے سیاحوں کے ہمراہ مس پنگ سے ملے۔ اسی ملاقات میں مس پنگ نے ہمیں بتایا کہ اس کا شوہر پاکستانی ہے۔ ہم مس پنگ کی اس بات پہ چونکے مگر پھر فورا ہی بات سمجھ میں آگئی۔ نادان مس پنگ کو جعل سازی سکھانے کے لیے ایک پاکستانی دماغ چاہیے تھا۔ مس پنگ ہمیں اپنے شوہر سے ملانے کے لیے بے تاب تھی۔ اس کے شوہر کا نام شاہ تھا۔ اور دوسرے دن ہی اسی ریستوراں میں ہماری ملاقات شاہ سے ہوگئی۔ وہ بٹ نامی ایک آدمی کے ہمراہ تھا۔ اس مختصر ملاقات میں شاہ نے بتایا کہ اس کا تعلق پنڈی سے تھا اور وہ ایک عرصے سے بے جنگ میں مقیم تھا۔
’’بے جنگ میں اتنے پاکستانی نظر نہیں آتے جتنے شنجیانگ میں نظر آتے ہیں۔‘‘ میں نے شاہ سے کہا۔
’’ہاں شنجیانگ تو پاکستانیوں سےبھرا ہواہے۔ بے جنگ کم لوگ آتے ہیں۔ یہاں صرف دو نمبر والے آتے ہیں۔‘‘ شاہ نے مجھے بتایا۔
دوسری بار میں شاہ سے مس پنگ کی دکان میں ملا۔ مس پنگ اور شاہ دکان کے پیچھے ایک چھوٹے سے کمرے میں رہتے تھے۔ اس لمبی ملاقات میں مجھے شاہ کو اچھی طرح جاننے کا موقع ملا۔ شاہ نہایت صاف گو تھا اور مجھ سے کچھ چھپانا نہیں چاہتا تھا۔ وہ ایک میلے کچیلے بستر پہ لیٹا مجھ سے بات کررہا تھا۔ پھر وہ بستر سے تھوڑا سا اٹھا؛ اس نے پاس پڑی چھوٹی میز کے نیچے ہاتھ ڈال کر ایک پلاسٹک کی تھیلی نکالی اور تھیلی مجھے پکڑا دی۔ اس تھیلے کے اندر بھورے رنگ کی بڑی ڈلی تھی۔ میں نے سوالیہ نظروں سے اس کی طرف دیکھا۔
’’بھائی چرس پیتے ہیں، چرس بیچتے ہیں، اور جو بھی حلال حرام ملے کھا لیتے ہیں۔‘‘ شاہ نے وضاحت پیش کی۔ میں نے تھیلی میں موجود چرس کو اچھی طرح ٹٹولا اور پھر تھیلی میز پہ رکھ دی۔

شاہ کے چہرے پہ موجود تاثرات ظاہر کررہے تھے کہ اس وقت بھی اس نے چرس پی ہوئی تھی۔ اس نشے میں وہ ساری دنیا کی محبت میں گرفتار تھا اور اپنے راز میں سب کو شریک کرنا چاہتا تھا۔

’’یہاں میرے جیسے جو لوگ چرس کا کام کرتے ہیں وہ دراصل شیر کے منہ سے نکال کر کھاتے ہیں۔‘‘ شاہ نے یہ بات کہتے ہوئے دایاں ہاتھ ہوا میں بڑھایا اور پھر دائیں ہاتھ کی مٹھی بنا کر ہاتھ واپس کھینچ لیا۔
’’بھائی کوئی آسان کام نہیں ہے یہ۔ بس بہن بھائیوں کی دعائیں ہوتی ہیں، ان لوگوں کے پیچھے۔ آپ نے شاید اخبار نہیں پڑھا۔ تین روز پہلے ایک پاکستانی کو سزائے موت ہوئی ہے یہاں؛ اسے گولی مار کر ہلاک کیا گیا۔ اس کی بیوی جاپانی تھی۔ وہ اپنی بیوی کے ساتھ یہاں سے جاپان جارہا تھا۔ تلاشی لینے پہ اس کے پاس سے چرس پائوڈر نکل آیا۔‘‘
شاہ نے بتایا کہ اس کے گیارہ بہن بھائی تھے مگر اس وقت اس کا ان میں سے کسی سے رابطہ نہ تھا۔ شاہ کا کہنا تھا کہ اس نے حلال کمائی کی کوشش کی مگر اسے ایسا کرنے کا موقع نہیں دیا گیا۔ ایک دفعہ وہ چین سے بجلی کے آلات لے کر پاکستان گیا تھا مگر اسے ہوائی اڈے پہ ہی پکڑ لیا گیا اور اسے کسٹم کی لمبی چوڑی رقم بھرنے کو کہا گیا۔
شاہ مستقل بولتا رہا اور میں ادھر ادھر کی باتیں سوچتا رہا۔ میں نے مس پنگ سے اس کے تعلقات کے بارے میں بھی غور کیا۔ جدید دنیا کے تعصبات سے متاثر ہو کرمشرق بعید کی بہت سی عورتیں یورپی نقوش والے مرد تلاش کرتی ہیں۔ جب انہیں یورپ کا آدمی نہیں ملتا تو وہ اس سے ملتا جلتا کوئی شخص ڈھونڈ لیتی ہیں اور یوں کبھی کسی عرب کا، کسی ایرانی کا، یا کسی جنوبی ایشیا کے شخص کا دائو لگ جاتا ہے۔
کثیرالاطفال خاندان سے تعلق رکھنے کی وجہ سے شاہ کو بچپن میں جو توجہ نہیں ملی تھی، ویسی ہی عدم توجہ پاکستان کی اپنے عوام کی طرف ہے۔ پاکستان ایک ایسی پھوہڑ ماں ہے جو اپنے بچوں کی تعلیم کی طرف توجہ نہیں دیتی اور یہ بچے ذرا بڑے ہوں تو یا مشرق وسطی، مشرق بعید، اورمغرب کی ’دکانوں‘ میں چھوٹے کے طور پہ بھرتی ہوجاتے ہیں یا اپنے لیے جرائم پیشہ زندگی کا انتخاب کرتے ہیں۔

Labels: , ,


Comments: Post a Comment



<< Home

This page is powered by Blogger. Isn't yours?