Tuesday, October 04, 2016

 

پاک چین دوستی کا امتحان


ایک فکر کے سلسلے کا کالم

کالم شمار تین سو

 ستمبر سولہ، دو ہزار سولہ


پاک چین دوستی کا امتحان

 
شاہراہ ریشم ریستوراں، فری مونٹ، کیلی فورنیا
دوپہر کا وقت ہے مگر لگتا ہے کہ ظہرانے کا مجمع چھٹ چکا ہے۔ ریستوراں میں صرف تین میزوں پہ لوگ بیٹھے ہیں۔ یہ ریستوراں ویگر [مغربی چینی] کھانوں کے لیے مقبول ہے۔ باہر ایک نقشے پہ دکھایا گیا ہے کہ کاشغر کا تاریخی تعلق تاشقند، بخارا، اور تبریز سے ہے۔ ریستوراں والے جو چاہیں تاریخی حوالہ دیں اس وقت تو کاشغر کا تعلق چین سے ہے۔ ریشم کی تجارت سینکڑوں برس جاری رہی مگر اب وقت بدل گیا ہے۔ اب نہ تاشقند، نہ بخارا، نہ کاشغر، نہ تبریز، ان میں سے کسی شہر کو ریشم کی تجارت کی وجہ سے کوئی اہمیت حاصل نہیں ہے۔ اب ان شہروں کو اپنے پائوں پہ خود کھڑے ہونا ہے۔ اور یہ دنیا اسی طرح کام کرتی ہے۔ وقت بدل جاتا ہے۔ میلہ کسی قسم کا ہو، بس کچھ ہی دن چلتا ہے۔
ہم سے قریبی میز پہ تین چینی خواتین بیٹھی ہیں، اصل چینی، ہان چینی۔ ان کے لباس اور میک اپ سے ان کی خوشحالی کا اندازہ ہوتا ہے۔ کچھ ہی دیر میں تین حجابی خواتین ریستوراں میں داخل ہوتی ہیں۔ ان حجابیوں کے چہروں سے حلال چینی ریستوراں میں آنے کی خوشی عیاں ہے۔ ریستوراں میں کام کرنے والے آپس میں ویگر میں باتیں کرتے ہیں۔ ان میں سے ایک لڑکی جلدی سے ان حجابی خواتین کے پاس پہنچ کر انہیں سلام کرتی ہے۔ وہ تینوں بلند آواز وعلیکم اسلام کہتی ہیں۔ حجابی خواتین اب خوشی سے کھلی جارہی ہیں۔ کارکن لڑکی کے سلام سے تصدیق ہوگئی ہے کہ گوشت ذبیحہ ملے گا۔
کچھ ہی دیر میں ہمارا کھانا آجاتا ہے۔ ہری پیاز کےپراٹھے، لامیین، اور نان کے تلے ٹکڑوں کے ساتھ دنبے کا گوشت۔ ہمارے قریب بیٹھی تینوں چینی خواتین ٹکٹکی باندھے ہماری طرف دیکھ رہی ہیں۔ ہم ان کی طرف دیکھ کر مسکراتے ہیں تو وہ پوچھتی ہیں کہ ہم نے کیا کھانا آرڈر کیا تھا اور پھر ہمارے جواب پہ کہتی ہیں کہ اگر انہیں معلوم ہوتا تو وہ وہی کچھ آرڈر کرتیں جو ہم نے کیا تھا۔ دراصل وہ تینوں اس ڈر کی ماری ہیں جس ڈر میں دنیا کے اکثر لوگ گرفتار ہوتے ہیں۔ وہ صرف آشنا لوگوں اور آشنا چیزوں سے تعلق رکھنا چاہتے ہیں۔ ان تینوں چینی خواتین نے بھی وہی کچھ آرڈر کیا تھا جو اکثر چینی ریستورانوں میں ملتا ہے۔ مالدار مگر ڈرپوک عورتیں۔

چین رفتہ رفتہ پھیلا ہے۔ آج کا ملک چین مغرب سے درآمد شدہ  قومی ریاست کے خیال سے وضع ہے۔ بھانت بھانت کے لوگ اس بڑے ملک کا حصہ ہیں۔ ان سب کو بتایا جارہا ہے کہ تمھارا وطن چین ہے، اس لیے تم سب چینی ہو۔ بہت سے گروہ یہ بات ماننے کو تیار نہیں ہیں۔ تبتی قیادت ملک سے فرار ہوگئی ہے، ویگر کچھ کچھ دنوں بعد شور مچاتے ہیں۔ مگر چین بھی پوری طاقت سے ڈٹا ہوا ہے۔ کھیل وقت کا ہے۔ چند دہائیاں اور گزریں گی اور تبتی اور ویگر بھی اپنے آپ کو چینی کہنے لگیں گے۔

آخسو سے کورلا
بس ٹھیک وقت پہ آخسو سے چل دی۔ ایک دفعہ پھر پورے دن کا بس کا سفر درپیش تھا۔ ہمارا واحد کام یہ تھا کہ بس کی کھڑکی سے باہر جھانکتے رہیں اور شنجیانگ کے دیہی علاقوں کے مناظر کو اپنے سامنے سے گزرتا دیکھیں۔ اس بس میں ہمیں ایک ویگر عورت ملی جو تھوڑی اردو بول لیتی تھی۔ اس نے بتایا کہ اس کا آدمی پاکستان سے تھا۔ اس وقت تک ان دونوں کی شادی نہیں ہوئی تھی مگر عورت کی خواہش تھی کہ ایسا جلد ہوجائے۔
بس جب کورلا پہنچی تو ہم سخت تھک چکے تھے اور جلد از جلد ہوٹل پہنچ کر آرام کرنا چاہتے تھے۔ ہماری سفری کتاب میں جس مقبول ہوٹل کا پتہ لکھا تھا ہم وہاں پہنچ گئے۔ ہوٹل کے استقبالیہ پہ موجود خاتون نے خوشخبری سنائی کہ خالی کمرے موجود تھے؛ اور پھر ہمارا پاسپورٹ طلب کیا۔ ہم نے خاتون کو اپنا ہرا پاسپورٹ دیا تو یوں لگا کہ ان کو بجلی کا جھٹکا لگا ہو۔ انہوں نے فورا ہمارا پاسپورٹ واپس کرتے ہوئے بتایا کہ وہ ہوٹل پاکستانیوں کے لیے نہیں تھا۔ کیا مطلب کہ ہوٹل پاکستانیوں کے لیے نہیں ہے؟ جواب آیا کہ ہوٹل دوسرے غیرملکیوں کے لیے ہے؛ پاکستانیوں کے لیے نہیں ہے۔ پاکستانیوں کے لیے ایک مخصوص ہوٹل ہے جس کا پتہ ہمیں دیا جاسکتا ہے۔ ہم نے سخت غصے میں وہ کاغذ لیا جس پہ ہوٹل کا نام لکھا گیا تھا اور اس خاص ہوٹل کی طرف چل دیے جو پاکستانیوں کے لیے مخصوص تھا۔ وہاں پہنچ کر ہمیں سخت مایوسی ہوئی۔ ہوٹل اوپری منزل پہ تھا۔ وہاں تک جانے والی سیڑھیوں پہ بہت سے لوگ شلواریں قمیضیں پہنے بیٹھے تھے۔ وہ مونگ پھلی کھا رہے تھے اور کچرا ادھر ہی پھینکتے جارہے تھے۔ ہمیں اندازہ ہوگیا کہ پاکستانیوں کے الگ ہوٹل کیوں مختص تھا۔ مگر ہم اس ہوٹل میں ٹہرنا نہیں چاہتے تھے۔ ہم سفری کتاب میں دیے ایک اور ہوٹل پہنچے۔ وہاں بھی وہی معاملہ ہوا۔ ہمیں  پاکستانیوں کے لیے مخصوص ہوٹل جانے کا مشورہ دیا گیا۔ ہم نے منت سماجت شروع کردی کہ ہمیں اس ہوٹل میں ٹہرنے دیا جائے؛ ہم کوڑا کرکٹ والے ہوٹل میں نہیں جانا چاہتے تھے۔ نہ جانے کیسے ہوٹل والوں کا دل پسیجا اور ہمیں وہاں رات بسر کرنے کی اجازت مل گئی۔ ساتھ ہی بتادیا گیا کہ ہمیں کمرہ بہت صبح چھوڑنا ہوگا۔ شاید ہمیں وہاں غیرقانونی طور پہ ٹہرایا جارہا تھا۔
اس رات بستر پہ لیٹے ہم سوچ رہے تھے کہ پاک چین دوستی زندہ باد کا نعرہ آپ کو سرحد کے اس طرف ہی سنائی دے گا۔ وہ پرانے زمانے کی بات ہے جب دو غریب پڑوسی اچھے دوست تھے۔ اب حالات بدل گئے ہیں۔ اب ایک پڑوسی بہت امیر ہوگیا ہے۔ اور جہاں دو دوستوں میں معاشی عدم مساوات ہو وہاں اچھی دوستی قائم نہیں رہ سکتی۔ اب وہ امیر پڑوسی ہماری طرف حیرت سے دیکھتا ہے اور کہتا ہے کہ پاکستان یار، تمھیں کیا ہوا، تم وہی غریب کے غریب رہ گئے۔
پاکستان کی سرحد سے لگے چین کے اس علاقے میں پاک چین دوستی زندہ باد تو دور کی بات، پاکستان سے واضح نفرت نظر آرہی تھی۔ بات اتنی ہے کہ کوئی ایسے ملک سے کیسے محبت کرے جہاں کے لوگ چرس کی تجارت سمیت ہر قسم کے غیرقانونی کام کرتے ہوں؛ جہاں کے اکثر سیاح کم پڑھے لکھے، بدتہذیب ہوں، اور عورتوں کے متعلق عجیب و غریب خیالات رکھتے ہوں؛  جہاں کے لوگ ہر جگہ غیرقانونی طور پہ رہنے کے لیے تیار ہوں اور واپس جانے کا نام نہ لیں۔

مگر ان لوگوں کو الزام دینا تو ایک سطحئی بات ہے۔ اصل الزام تو اس معاشرے کو دینا چاہیے جو ایسے لوگ بناتا ہے۔ اور مورد الزام ان لوگوں کو ٹہرانا چاہیے جن کے پاس معاشرے کی باگ ڈور ہے اور وہ عوام کی حالت بہتر کرنے کے لیے کچھ نہیں کرتے۔ اس صورتحال میں سوچنے سمجھنے والے لوگوں کو اپنی ذمہ داری محسوس کرنی چاہیے اور معاشرے کی راہ متعین کرنے کا کام کرنا چاہیے۔ اور حالات کتنے بھی خراب کیوں نہ ہوں اپنا مثبت عمل جاری رکھنا چاہیے۔

Labels: , , ,


Comments: Post a Comment



<< Home

This page is powered by Blogger. Isn't yours?