Saturday, August 06, 2016

 

چین میں چالیس دن




ایک فکر کے سلسلے کا کالم

کالم شمار دو سو بانوے

 جولائی تیس، دو ہزار سولہ


چین میں چالیس دن



سنہ دو ہزار سے پہلے میرے پاس ذاتی کمپیوٹر نہ تھا۔ ایک نوٹ بک ساتھ رکھتا تھا۔ ذہن میں دوڑنے والا ہر الٹا سیدھا خیال اسی نوٹ بک میں لکھ دیا کرتا تھا۔  وہیں روز کی یادداشت لکھتا، پیسوں کا حساب کرتا، اور کہانیوں کے خاکے بھی انہیں صفحات میں تیار کرتا۔ ایک نوٹ بک بھر جاتی تو اسے پیٹی میں بند کر کے نئی نوٹ بک میں کام شروع کردیتا۔ سنہ دو ہزار کے بعد طریقہ واردات تبدیل ہوگیا۔ اب سب کچھ کمپیوٹر میں محفوظ ہونے لگا۔ قصہ مختصر، ہرطرح کی یادداشتوں کے علاوہ سنہ دو ہزار سے پہلے کیے جانے والے سفر کے چیدہ چیدہ واقعات بھی کئی نوٹ بک میں محفوظ ہیں۔ ایسی ہی ایک نوٹ بک میں ایک پرانی بات لکھی ملتی ہے۔  بات پرانی ہےمگر یادیں تازہ ہیں۔ یادیں جو تازگی رکھنے کے ساتھ نرم، گرم، اور شیریں ہیں۔ آج سے بیس سال پہلے خشکی پہ سفر کرتے ہوئے کراچی سے بینکاک جانا ہوا۔ یعنی کراچی سے شمال کی طرف چلتے ہوئے قراقرم پار کرتے ہوئے چین میں داخلہ، پھر چین میں مشرق کی طرف سفر اور پھر جنوب کی طرف سفر کرتے ہوئے لائوس میں داخلہ، پھر دریائے میکانگ پہ شمال سے جنوب، اور پھر سرحد پار کر کے تھائی لینڈ میں داخلہ۔ کئی ماہ کے اس سفر میں یقینا بہت سی مشکلات پیش آئیں مگر  بیس سال بعد وہ ساری مشکلات ذہن سے رفع ہوگئی ہیں اور صرف خوشگوار میٹھی یادیں بچی ہیں۔ پرانی نوٹ بک سے استفادہ کرتے ہوئے اسی سفر کا حال بیان کرنا چاہوں گا۔
سنہ پچانوے کا کراچی خون آشام بھیڑیوں کا شہر تھا۔ یہ بھیڑیے اچانک نمودار ہوتے، ذرا سی دیر میں کشتوں کے پشتے لگاتے، اور پھر اپنی کمین گاہوں میں گم ہوجاتے۔ دراصل قریبا پندرہ سال پہلے ضیاالحق نے جو زہریلا درخت لگایا تھا، وہ اب خوب پھل دینے لگا تھا۔ نوآبادیاتی تسلط سے آزاد ہونے کے بعد یوں تو تیسری دنیا کے اکثر ممالک بدانتظامی اور پے درپے خراب حکومتوں کا عذاب سہتے رہے تھے مگر اسی کی دہائی میں افغان جہاد کی وجہ سے پاکستان غیرقانونی اسلحے سے بھر گیا تھا اور معاشرے پہ قانون کی گرفت اور بھی ڈھیلی پڑگئی تھی۔ سیاسی، مذہبی، اور قوم پرست جنونیوں کو اپنی نفرت کے خونی اظہار کا خوب خوب موقع مل رہا تھا۔  اخبارات قتل و غارت گری کی خبروں سے بھرے ہوتے۔ کراچی کے دوسرے باسیوں کی طرح میں بھی ان حالات سے تنگ تھا۔ میں نے بھی کئی مضامین لکھے، کشت و خون پہ آنسو بہائے، قاتلوں پہ لعن طعن کی، حالات کا جائزہ  تحریر کیا مگر لاقانونیت کا طوفان بہت طاقتور تھا۔ ان لہروں کے سامنے میری کوئی حیثیت نہیں تھی۔ کراچی کے رہنے والے بیشتر لوگوں کے مقابلے میں میرے پاس یہ گنجائش تھی کہ میں شہر چھوڑ کر چلا جائوں۔ کہاں جائوں؟ کہیں بھی چلا جائوں، اپنا ذہنی توازن قائم رکھنے کے لیے بس کراچی سے نکل جائوں۔ میں ایک عرصے سے چین جانا چاہتا تھا۔ سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد اب چین ایک بڑا اشتراکی ملک بچا تھا۔ اس ملک کے قائدین سوویت یونین کے تجربے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے رفتہ رفتہ اپنے ملک کی سمت بدل رہے تھے۔ چین کے بدلتے طریقوں کو قریب سے دیکھنا ایک پرکشش تعلیمی تجربہ معلوم دیا۔ کراچی میں چینی قونصل خانے کا دروازہ کھٹکھٹایا تو انہوں نے دو ہفتے کا ویزا دے دیا۔ کراچی ہی میں تھائی لینڈ کا ویزا بھی مل گیا۔ اب منزل واضح تھی۔ کسی طرح چین کا سفر کرتے ہوئے بینکاک تک پہنچنا تھا۔ دل میں آیا کہ واہگہ سے سرحد پار کر کے بھارت میں داخل ہوں اور پھر شمال میں سفر کرتے ہوئے بھارت اور چین کی وہ باہمی سرحد پار کروں جو کم ہی استعمال میں آتی ہے۔ اسی ارادے سے کراچی سے روانہ ہوگیا۔ لاہور تک کا سفر شالیمار ایکسپریس سے کیا۔
کیا آپ کے ساتھ کبھی ایسا ہوا ہے کہ آپ کی کوئی چیز گم ہوئی ہو مگر آپ کو پتہ نہ ہو کہ وہ کیا ہے؟ کراچی سے لاہور ٹرین کا سفر کرتے میرے پاس چھوٹے بڑے کئی بیگ اور ڈبے تھے۔ غلطی یہ ہوئی کہ میں نے کل نگ نہیں گنے۔ لاہور میں مجھے کینٹ اسٹیشن پہ اترنا تھا۔ یہاں گاڑی تھوڑی دیر کے لیے ہی ٹہرتی ہے۔ میں نے ایک قلی کی مدد سے جلدی جلدی اپنا سامان اتارا۔ اخری پھیرا لگایا تو ٹرین چل پڑی تھی۔ میں ٹرین سے باہر کودا تو ٹرین نے رفتار پکڑ لی تھی اور میں پلیٹ فارم پہ چھلانگ لگانے کے بعد گرتے گرتے بچا۔ گر کر زخمی ہونے سے تو بچ گیا مگر دل میں یہ کسک رہ گئی کہ ڈبے سے سارا سامان نکالنے کے بعد سیٹوں کے نیچے اچھی طرح جھانک کر نہیں دیکھا کہ آیا کوئی چھوٹی موٹی چیز رہ تو نہیں گئی تھی۔
لاہور میں بیشتر سامان عزیزوں کے پاس رکھایا اور بس سے راولپنڈی پہنچ گیا۔ اسلام آباد میں چند دن قیام کے دوران مختلف سفارت خانوں کے چکر لگائے۔ اگست پچیس، انیس سو پچانوے کی یادداشت میرے سامنے ہے۔
کل صبح خوب زوردار بارش ہوئی۔ اسلام آباد میں ہمارا صرف ایک دن کارآمد گزرا۔ وہ یہاں ہمارا پہلا دن تھا جب برما کے سفارت خانے نے ہمیں ویزا دے دیا۔ اگر ہمیں بھارت کا ویزا مل جائے تو ہم بھارت جائیں، پھر چین، پھر برما، اور پھر تھائی لینڈ۔
مگر ایسا نہ ہوا۔ بھارت کے سفارت خانے میں ایک خوش اخلاق افسر سے طویل گفتگو ہوئی مگر تحریری احکامات آڑے آگئے۔ ہمیں ایسا ویزا نہیں دیا جاسکتا تھا کہ ہم بھارت میں گھسنے کے بعد جہاں چاہیں جائیں اور پھر وہیں سے آگے چین روانہ ہوجائیں۔
اسلام آباد میں لائوس کا سفارت خانہ نہ تھا اس لیے ہم اس ویزے کی کوشش بھی نہ کرسکے۔ برما کا ویزا بھی پابندیوں میں جکڑا ہوا تھا۔ ہم زمینی راستے سے نہ تو برما میں داخل ہوسکتے تھے، نہ وہاں سے نکل سکتے تھے۔ اب کیا کریں؟ چین میں تو داخل ہوجائیں گے مگر چین سے تھائی لینڈ کیسے پہنچیں گے؟ ترکیب یہی سمجھ میں آئی کہ پہلے چین تو پہنچو، پھر وہاں سے نکلنے کا انتظام کرنا۔

Labels: , ,


Comments: Post a Comment



<< Home

This page is powered by Blogger. Isn't yours?