Thursday, July 28, 2016

 

راکی راکی، نندی، اور واپسی






















ایک فکر کے سلسلے کا کالم

کالم شمار دو سو اکیانوے

جولائی چوبیس، دو ہزار سولہ

راکی راکی، نندی، اور واپسی
 
بس راکی راکی سے چلی تو کئی جگہ ساحل کے بالکل ساتھ چلی۔ وہاں سمندر کا پانی ٹہرا ہوا تھا اور چمرنگ [مینگروو] بڑی تعداد میں نظر آتے تھے۔ چمرنگ کی خاصیت ہے کہ یہ نہ صرف سمندر کے پانی کا نمک برداشت کرلیتا ہے، بلکہ سمندر کے پانی سے کہیں زیادہ نمکن پانی میں بھی اپنا گزارہ کرتا ہے۔

بس نندی پہنچنے سے پہلے با اور لاتوکا نامی قصبوں سے گزری۔ پہلی بار نندی پہنچنے پہ ہمیں خیال ہوا تھا کہ ہم لاتوکا اور با میں کم از کم ایک ایک دن ضرور گزاریں گے، مگر بس لاتوکا سے چلی تو کچھ ہی دیر میں نندی پہنچ گئی اور اندازہ ہوا کہ لاتوکا کا مختصر دورہ نندی میں رہتے ہوئے بھی کیا جاسکتا تھا۔ ہر جزیرہ اپنے باسیوں کے لیے کالا پانی ہوتا ہے مگر ہر جگہ آپ کو ایسے لوگ ضرور ملتے ہیں جو سالوں ایک ہی جگہ رہتے ہیں اور اپنی آزادی کا ذرا مظاہرہ نہیں کرتے۔

اب کی بار نندی میں ہمارا قیام شاہراہ سے کچھ ہٹ کر تھا۔ ہم کمرے میں سامان رکھنے کے بعد ٹاٹا نامی ریستوراں میں کھانا کھانے کے لیے روانہ ہوئے۔ یہ غریب پرور مگر مقبول ریستوراں قصبے کے بڑے مندر کے قریب واقع ہے۔ ٹاٹا ہمارے ہوٹل سے کافی فاصلے پہ تھا۔ ہم ہوٹل سے نکل کر کچھ دور تو پیدل چلے مگر پھر ایک ٹیکسی لے لی۔ ہم نے ٹیکسی ڈرائیور سے باتیں کرنا شروع کردیں۔ ڈرائیور کا نام شاہ نواز تھا۔ اس کا کہنا تھا کہ اس کا باپ مردان سے فجی آیا تھا۔ دراصل سب سے پہلے شاہ نواز کا تایا فجی آیا۔ اسی تایا نے اپنے بھائی یعنی شاہ نواز کے باپ کو فجی آنے کا مشورہ دیا۔ شاہ نواز کا باپ انیس سو چھتیس میں فجی پہنچا تھا۔ شاہ نواز کی پیدائش فجی ہی کی تھی۔ شاہ نواز کا کہنا تھا کہ فجی میں بہت عرصہ گزارنے کے بعد بھی اس کا باپ مردان میں اپنے ایک قریبی رشتے دار سے مستقل رابطے میں رہتا تھا مگر پھر مردان میں اس رشتہ دار کا قتل ہوگیا اور فجی میں بس جانے والے اس پشتون خاندان کا تعلق مردان سے مکمل طور سے ٹوٹ گیا۔ شاہ نواز شادی شدہ تھا اور اس کے چار بچے تھے۔ اب فجی ہی اس کا وطن تھا۔ اس کے بچے جب فجی میں موجود دوسرے دیسی لوگوں میں شادیاں کریں گے تو وہ مردان جو شاہ نواز کے چہرے پہ نظر آتا تھا اگلی نسل میں نظر آنا بالکل بند ہوجائے گا۔

شام ہونے پہ ہم اپنے ہوٹل کے قریب ساحل سمندر پہ پہنچے اور وہاں غروب آفتاب کا دلکش نظارہ دیکھا۔ نندی میں ہمارا وقت ختم ہوچکا تھا۔ یہ استعارہ سفر کے ساتھ پوری زندگی کے لیے بھی عین موزوں ہے کہ ایک دن اس دنیا میں بھی آپ کا وقت ختم ہوجاتا ہے۔

ہم نے فجی میں جو دن گزارے اس درمیان ٹی وی پہ کئی بار فجی ملٹری فورسز کمانڈر بریگیڈئیر جنرل موسیس تکوئی توگا کو دیکھا۔ فجی میں بہت سے لوگوں کی نظریں جرنیل صاحب پہ تھیں۔ جنرل موسیس تکوئی توگا کیا سوچ رہے تھے، وہ کیا کرنا چاہتے تھے، وغیرہ وغیرہ۔ شاید اس بات کا امکان تو نہ تھا کہ فوج فجی کی سول حکومت کا تختہ الٹ دے مگر خبروں سے واضح تھا کہ فوج کے سربراہ کو بہت زیادہ اہمیت دی جارہی تھی۔ ترقی یافتہ، پائیدار جمہوری ممالک میں جرنیلوں کو اتنی لفٹ نہیں کرائی جاتی؛ وہاں فوج کا سربراہ منتخب حکومت کا ماتحت ہوتا ہے اور وہی کچھ کرتا ہے جو منتخب حکومت اسے کرتا دیکھنا چاہتی ہے۔

ہم ایک ایسی کتاب کی تلاش میں ہیں جو دنیا بھر میں نوآبادیاتی تسلط سے آزاد ہونے والی ریاستوں میں فوجی بغاوتوں میں مماثلت بیان کرے۔ کیا ایسا نہیں ہے کہ نوآبادیاتی دور میں دوسرے اداروں کے مقابلے میں فوج کو مضبوط بنانے پہ بہت زیادہ اہمیت دی گئی اور آج پاکستان جیسے ملک میں دوسرے اداروں کے مقابلے میں فوج کی مضبوطی اسی نوآبادیاتی تجربے کی دین ہے؟ برطانوی راج میں دوسری جنگ عظیم کے دوران ہماری فوج کی عددی طاقت میں بہت زیادہ اضافہ ہوا۔ شاید یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ دوسری جنگ عظیم کے اختتام پہ نوآبادیاتی آقا اسی فوجی طاقت سے ڈرکر بھاگ گئے۔ شاید یہاں سے روانہ ہوتے وقت برطانویوں کو خیال آیا ہو کہ جس طرح ان کی حکومت کو مقامی فوجی طاقت سے خطرہ تھا، اسی طرح آگے آنے والی مقامی سول حکومت کو بھی اس فوجی طاقت سے خطرہ ہوگا۔

آزادی کے بعد فوج دو ملکوں میں تقسیم ہوئی تو پھر صرف ایک ملک کی قسمت میں پے درپے فوجی بغاوتیں کیوں لکھی گئیں؟ دراصل بڑے ملک میں فوج مختلف قومیتوں کے سپاہیوں پہ مشتمل تھی اور فوجی بغاوت کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ فوج کے اعلی عہدیداران ایک طرح سے سوچیں اور مل کر بغاوت پہ عمل کریں۔

پاکستان میں کم آبادی والی قومیتوں کے لوگ مختلف اداروں میں اپنی مساوی نمائندگی کا حق مانگتے نظر آتے ہیں۔ دراصل سب سے پہلے ان لوگوں کو فوج میں مساوی نمائندگی کا حق مانگنا چاہیے۔ اگر فوج میں ان قومیتوں کی مساوی نمائندگی ہو تو ملک میں فوجی بغاوت کا خطرہ کم ہوگا اور ایک ایسی صحتمند جمہوریت قائم ہوگی جس میں دوسرے اداروں میں کم آبادی والی قومیتوں کو اپنی بہتر نمائندگی کے مواقع ملیں گے۔

Labels: , , , , ,


Comments: Post a Comment



<< Home

This page is powered by Blogger. Isn't yours?