Thursday, June 09, 2016

 

ہاسٹ، تیمارو








ایک فکر کے سلسلے کا کالم

کالم شمار دو سو چوراسی

جون پانچ، دو ہزار سولہ

ہاسٹ، تیمارو
 

اب پوناکائیکی سے ہاسٹ کا پانچ گھنٹے کا سفر درپیش تھا۔  ہم ہاسٹ جاتے ہوئے مستقل جنوبی قطب کی طرف سفر کر رہے تھے۔ سردی بڑھنے کا امکان تھا مگر ساتھ ہی  گزرتے وقت کے ساتھ جاڑوں کے دن بہار کے موسم میں بدل رہے تھے۔
نیوزی لینڈ کے جنوبی جزیرے پہ مغربی ساحل کی سیر کرتے ہوئے ہم ایسی جگہوں سے گزر رہے تھے جو سیاحوں میں بہت مقبول تھیں۔ کہنہ مشق کھلاڑی اسی شکار کی گھات لگائے بیٹھے تھے۔  ہمیں رقم خرچ کرنے میں احتیاط سے کام لینا تھا۔

سیاحوں سے چھینا جھپٹی کا ایک مظاہرہ پوناکائیکی میں ہوا۔ ہم کمرے کی چابی واپس کرنے کے لیے ہوٹل کے استقبالیے پہ پہنچے تو وہاں موجود  فلیپینو عورت نے بتایا کہ ہمیں کمرے کا اضافی کرایہ دینا ہوگا کیونکہ کمرے میں مقرر تعداد سے زیادہ لوگ ٹہرے تھے۔ ہمیں اچھی طرح یاد تھا کہ ہوٹل کی بکنگ کرتے وقت ایسی کوئی بات نہیں بتائی گئی تھی۔ ہم نے اضافی رقم کے مطالبے پہ شدید احتجاج کیا۔ اچھا، میں تمھاری اصل ریزرویشن دیکھتی ہوں، یہ کہہ کر خاتون کمپیوٹر پہ مصروف ہوگئیں۔ کچھ دیر بعد انہوں نے فیصلہ سنایا کہ سب کچھ ٹھیک تھا اور ہم جا سکتے تھے۔

ہاسٹ کے راستے میں گرے متھ نامی بڑا قصبہ پڑتا تھا۔ ہم نے اس قصبے میں رک کر نیوایج گروسری اسٹور نامی دکان سے اشیائے خوردونوش خریدیں اور اگلے دو تین کا انتظام کرلیا۔ اس دکان میں جن خاتون نے ہمارا حساب کتاب کیا ان کا تعلق جنوبی ایشیا سے معلوم دیتا تھا مگر قمیض پہ لگے بلے پہ ان کا نام جمائما بتایا گیا تھا۔ کیا یہ اس کا اصل نام تھا یا وہ جمیلہ یا اس سے ملتے جلتے کسی دیسی نام کو بدل کر جمائما ہوگئی تھی؟

پوناکائیکی سے ہاسٹ جاتے ہوئے پھر سمندر اور پہاڑوں کا ساتھ تھا۔ اسی راستے میں دو مشہور گلیشئیر کا سامنا بھی ہونا تھا۔ سب سے پہلے فرانز جوزف گلیشئیر پڑا۔ چند دہائیوں پہلے تک فرانز جوزف گلیشئیر پہاڑوں سے اتر کر اتنے نیچے تک آتا تھا کہ ہاسٹ جاتے ہوئے راستے میں اسے باآسانی دیکھا جاسکتا تھا۔ بہت عرصے سے یہ گلیشئیر سکڑ رہا ہے اور اب اسے دیکھنے کے لیے پہاڑوں میں بہت آگے تک جانا ہوتا ہے۔ ہم ایک جگہ رک کر فرانز گلیشئیر کی تلاش میں ایک پگڈنڈی پہ بہت دور تک چلے مگر فرانز جوزف کو دیکھنے میں ناکام رہے۔

ہم انسان اپنی دنیا کے بارے میں بہت کم جانتے ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ ماضی میں دنیا کئی برفانی ادوار سے گزری ہے مگر دنیا میں ایک دم ٹھنڈک کیوں بڑھ جاتی ہے، اور پھر چند ہزار سال بعد دنیا پھر سے گرم کیوں ہوجاتی ہے، اس بارے میں ہم نہیں جانتے۔

مثلا ہم جانتے ہیں کہ پچاس ساٹھ ہزار سال پہلے ایک برفانی دور اپنے عروج پہ تھا اور اس وقت کے بعد دنیا مستقل گرم ہورہی ہے۔ مگر فی الوقت ہمیں جس عالمی گرمائش کا سامنا ہے کیا وہ اسی آخری برفانی دور کے اختتام کا ایک حصہ ہے، یا یہ گرمائش ہمارے کرتوتوں سے ہے؟ جس طریقے سے عالمی گرمائش تیزی سے بڑھ رہی ہے اس سے تو یہی اندازہ ہوتا ہے کہ اس گرمائش کا تعلق ہماری صنعتی سرگرمی سے ہے۔

ہم ہاسٹ کے راستے میں اور آگے بڑھے تو فوکس گلیشئیر کا نشان نظر آیا۔ یہاں ہمیں کامیابی ہوئی اور کچھ فاصلے سے ہمیں وہ گلیشئیر نظر آگیا۔

ہاسٹ کے آس پاس خوبصورت ساحل تھا۔ مگر اس سردی میں وہ ساحل میلوں میل ویران پڑا تھا۔ شاید وہاں آنے والے سیاح پہاڑوں میں اسکی کررہے تھے۔

ہم ہاسٹ میں جس ہوٹل میں ٹہرے تھے وہاں استقبالیہ ایک افریقی نژاد عورت سنبھالے کھڑی تھی۔ ہم سوچتے رہے کہ کیا اس چھوٹے سے قصبے میں کہیں ایک افریقی نژاد مرد بھی تھا یا اس عورت کا جوڑی دار کوئی سفید فام شخص تھا۔

اگلے روز ہماری آنکھ کمرے کے باہر ہونے والے شور سے کھلی۔ چینی زبان بولی جارہی تھی۔ کچھ ہی دیر میں چینی سیاحوں کا ایک بڑا گروہ ہوٹل سے روانہ ہوگیا۔ بمشکل دس سال پہلے کی بات ہے،دنیا کی سیر کرتے بھانت بھانت کے سیاحوں میں چینی سیاح شاذ و نادر ہی نظر آتے تھے؛ مشرق بعید کا کوئی سیاح اگر ملتا تھا تو وہ لا محالہ جاپانی ہوتا تھا۔ مگر اب یہ منظر تیزی سے بدل رہا ہے۔ اب چینیوں کے پاس پیسہ ہے اور چینی سیاح کثرت سے نظر آتے ہیں؛ اب بھی یقینا چینی سیاحوں کی تعداد دنیا میں چین کی آبادی کے تناسب سے کم ہے، مگر چند سال پہلے کے مقابلے میں یہ تعداد زیادہ ہے۔ غالبا سنہ دو ہزار تیس تک چینی سیاحوں کی یہ تعداد اتنی بڑھ جائے گی کہ لوگ سفید فام سیاحوں کو حیرت سے دیکھا کریں گے کہ اچھا آپ بھی گھومنے پھرنے نکلے۔

تیمارو جنوبی جزیرے کے مشرقی ساحل پہ ہے۔ ہمیں ہاسٹ سے تیمارو جاتے ہوئے پہاڑوں کے دوسری طرف جانا تھا۔ اس سڑک پہ چلتے ہمیں مستقل ایسی جگہیں ملیں جہاں آپ خوب صورت راستوں پہ گھنٹوں پیدل چل سکتے تھے۔ اس پورے علاقے میں لوگ قدرتی مناظر کو قریب سے دیکھنے کی خواہش میں پہاڑوں میں اسی طرح کے راستوں پہ چلتے ہیں۔

پہاڑ ہوں، وہاں پانی برسے یا برف گرے اور پھر برف پگھل کر رفتہ رفتہ پانی پہاڑوں کی ڈھلوان سے نیچے آئے تو آپ پانی کی اس طاقت کو استعمال کرتے ہوئے ایک پھرکی گھما سکتے ہیں اور یوں بجلی بنا سکتے ہیں۔ تیمارو جاتے ہوئے ہمیں اسی طرح کا ایک بجلی گھر وائ تاکی میں نظر آیا۔

قدرت جب کبھی زور دکھائے چاہے ہوا سے یا پانی سے، آپ اس زور کو اپنے مقصد کے لیے استعمال کرتے ہوئے بجلی بنا سکتے ہیں۔ کسی بھی خطے کے رہنے والے لوگوں کو بس یہی مشاہدہ کرنا ہے کہ وہاں قدرت کا زور کس انداز سے ہے۔ پینترا بدل کر اس زور کو بجلی میں تبدیل کرنا ہے اور بجلی اپنے استعمال میں لانی ہے۔ ہم اسی طرح کی دنیا میں رہنا چاہتے ہیں جہاں لوگ اپنے خطے کے منفرد حالات کو اپنے فائدے کے لیے استعمال کرتے ہوئے اپنی ضروریات پوری کریں۔ اپنی بنیادی ضروریات کی تکمیل کے لیے دور دراز کی جگہوں کے وسائل کا اور دوسروں کا محتاج رہنا ہرگز عقلمندی نہیں ہے۔


Labels: , , , ,


Comments: Post a Comment



<< Home

This page is powered by Blogger. Isn't yours?