Thursday, June 23, 2016

 

نندی میں اپنے لوگ










ایک فکر کے سلسلے کا کالم

کالم شمار دو سو چھیاسی

جون اٹھارہ، دو ہزار سولہ

نندی میں اپنے لوگ


علی حسن سمندطور

کیا آپ کو ویسی اور فجی میں کوئی مماثلت دکھائی [سنائی] دیتی ہے؟ دراصل برطانوی مہم جو کیپٹن کک کو یہی سنائی دیا تھا کہ بحرالکاہل کے ان جزائر پہ رہنے والے لوگ اپنے وطن کو ویسی نہیں بلکہ فجی کہہ رہے ہیں۔ آج دنیا میں بہت سے خطے ان ناموں سے نہیں جانے جاتے جن ناموں سے وہاں کے مقامی لوگ اپنے وطن کو کبھی جانتے تھے؛ ان خطوں کے نام بدیسیوں کے رکھے ہوئے ہیں۔ جزائر فجی کا تعلق بھی ان ہی خطوں سے ہے۔ جزائر فجی سے جنوبی ایشیا کا وہی تعلق ہے جو جنوبی امریکہ کے ملک سرینام کا جنوبی ایشیا سے ہے۔
نندی نامی قصبہ جزائر فجی کے جس جزیرے پہ ہے اسی جزیرے پہ ان جزائر کا دارالحکومت سووا بھی ہے۔ نندی اس جزیرے کے مغرب میں ہے جہاں سمندر کا ساحل زیادہ خوب صورت ہے۔ اسی وجہ سے نندی سیاحوں میں سووا کے مقابلے میں زیادہ مقبول ہے اور یہاں کا ہوائی اڈہ بھی سووا کے ہوائی اڈے سے بڑا ہے۔ آپ نندی پہنچیں تو آپ کو ہوائی اڈے پہ اونچے عہدوں پہ وہ لوگ نظر آئیں گے جو اپنے آپ کو ان جزائر کا اصل مقامی باشندہ خیال کرتے ہیں۔ مگر آپ جیسے ہی ہوائی اڈے سے باہر نکلیں  تو آپ کو لگے گا کہ آپ جنوبی ایشیا کے کسی شہر میں آگئے ہیں۔ ہم اپنی طرف کے ایک ٹیکسی ڈرائیور کے ساتھ ہوائی اڈے سے ہوٹل تک پہنچے۔ فجی میں رہنے والے اپنی طرف کے یہ لوگ ہندی سے ملتی جلتی ایک زبان بولتے ہیں۔ یہ زبان ایسی ہے کہ جب یہ لوگ اس زبان میں آپس میں بات کرتے ہیں تو آپ کو خیال نہیں ہوتا کہ اردو یا ہندی بولی جارہی ہے۔ مگر جب یہ لوگ برصغیر سے آنے والے اردو یا ہندی بولنے والوں سے گفتگو کرتے ہیں تو اچانک اس لہجے میں بولنا شروع ہوجاتے ہیں جو بمبئی میں بننے والی ہندی فلموں میں استعمال کیا جاتا ہے۔ شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ اس قسم کی ہندی ان لوگوں نے ان ہی فلموں سے سیکھی ہے۔
دراصل نیوزی لینڈ سے فجی جاتے ہوئے مجھے یہی سوچ کر غصہ آرہا تھا کہ ہمارے لوگ تعلیم میں اس قدر پیچھے کیوں ہیں؟ ہمیں وہ ڈائری کیوں نہیں ملتی جس میں جنوبی ایشیا سے فجی جانے والے ایک شخص نے ہر روز کا حال لکھا ہو۔ کلکتہ سے چلنے والے بحری جہاز میں چڑھنے سے لے کر فجی تک پہنچنے کی پوری داستان سناءی ہو اور یہ بتایا ہو کہ فجی پہنچ کر کس قسم کی مشقت اٹھانی پڑی اور اس مزدور کے فجی کے مقامی لوگوں اور انگریز افسران سے کس طرح کے تعلقات تھے۔ مگر قسمت کی یہی ستم ظریفی ہے کہ ہمارے وہ لوگ جو سب سے کٹھن اور [دوسروں کی نظروں میں] دلچسپ اور حیرت انگیز تجربات سے دوچار ہوتے ہیں، ان واقعات کو لکھنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ ان کی محیرالعقل داستان ان کی زندگی کے ساتھ ہی ختم ہوجاتی ہے۔ اگر کوءی اپنا شخص جان جوکھوں میں ڈال کر دوسری طرف سے زندہ باہر نکل آئے اور پھر اپنی بیتی کو کتاب کی صورت میں لکھے تو جان لیں کہ اس پہ مغرب کا اثر ہے۔ ذکر یقینا معظم بیگ کا ہورہا ہے۔
آپ ایک لمحے کو آنکھیں بند کر کے ۱۸۵۷ کی ناکام جنگ آزادی کے بعد کا جنوبی ایشیا خیال کیجیے۔ انگریز نئے طمطراق سے اس خطے پہ حکومت کررہے ہیں۔ انگریز مہم جوئوں کے بحری جہاز بحرالکاہل میں دندناتے پھر رہے ہیں۔ دوسری یورپی نوآبادیاتی طاقتیں جزائر فجی کے آدم خور قبائل سے خوفزدہ ہیں مگر انگریز انہیں رام کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔ ان جزائر پہ قبائل کے ایسے سردار ہیں جو آدم خوری میں ایک دوسرے سے مقابلے پہ ہیں۔ جس سردار نے پچاس، سو سے کم انسان کھائے ہوں اسے کسی خاطر میں نہیں لایا جاتا۔ انگریز ان ہی سرداروں سے معاہدہ کر کے ان جزائر کا انتظام سنبھال لیتے ہیں۔
انگریز جزائر فجی میں رہنا نہیں چاہتے۔ یہاں کی آب و ہوا ان کے حساب سے اچھی نہیں ہے۔ یہاں کی کڑی دھوپ گوری رنگت کی دشمن ہے، مرطوب ہوا تیکھے نقوش کو موٹا کرنے کا کام کرتی ہے۔ مگر انگریز ان جزائر کو اپنے استعمال میں لانا چاہتے ہیں۔ خط استوا سے قریب ہونے کی وجہ سے ان جزائر پہ استوائی فصلیں اگائی جا سکتی ہیں، خصوصا یہ علاقہ گنے کی کاشت کے لیے موزوں ہے۔ مگر مقامی لوگوں کو کھیتی باڑی پہ لگانا مشکل کام ہے۔ مقامی لوگ ایک اور طرح سے زندگی گزارتے ہیں۔ جب دل چاہتا ہے، جہاں دل چاہتا ہے سو جاتے ہیں۔ جب بھوک لگتی ہے تو جنگل میں جا کر کھانے کے قابل پودے تلاش کرتے ہیں یا کسی جانور کا شکار کرتے ہیں۔ غرض کہ مقامی لوگوں کی زندگی میں کام کاج کا حصہ بس اتنا ہے جس سے کسی طرح کھانے پینے کا سہارا ہوجائے۔
انگریزوں کو جنوبی ایشیا بہت پسند ہے۔ اس پسند کی بڑی وجہ یہاں کی آبادی ہے۔ جنوبی ایشیا کے لوگ نہ صرف یہ کہ ذہین ہیں بلکہ حکام بالا کی بات کو آسانی سے مان جاتے ہیں۔ انہوں نے انگریز کی حاکمیت کو قبول کرلیا ہے؛ اب انگریز جیسا کہے گا یہ ویسا ہی کریں گے۔
مگر انسان پہ حاکمیت سے متعلق مغربی ادوار تبدیل ہوئی ہیں۔ اب غلامی سے کراہیت آتی ہے۔ پھر جزائر فجی میں جنوبی ایشیا کے مزدوروں کی مدد سے گنے کے کھیت کیسے لگائے جائیں؟ آسان حل موجود ہے۔ کلکتہ سے جہاز چل رہا ہے۔ بے روزگار حضرات جہاز میں چڑھ جائیں۔ جہاز میں چڑھنے سے پہلے انگریزی میں لکھے ایک مختصر معاہدے پہ دستخط کریں۔ دستخط کرنے کے لیے معاہدے کی سمجھ ضروری نہیں ہے۔ اس معاہدے کی رو سے مزدور پانچ برس تک فجی میں معمولی تنخواہ پہ نوکری کرے گا۔ ان پانچ برس کے دوران مزدور فجی چھوڑ کر واپس جنوبی ایشیا نہیں آسکتا۔ ہاں پانچ برس کے بعد واپسی ممکن ہے۔ یہ غلامی نہیں ہے، یہ بالرضا مشقت ہے۔ اب جنوبی ایشیا کے معاشی حالات ایسے ہیں کہ لوگ خود بخود اس کٹھن مشقت کی طرف کھنچے چلے آتے ہیں تو اس میں انگریز کا کیا قصور ہے؟
ایک دفعہ کوئی شخص اپنی جوانی کے پانچ سال کسی جگہ لگا دے تو پھر اس بات کا امکان کم ہوتا ہے کہ وہ اس جگہ سے ہل کر کہیں اور جائے گا۔
پانچ سالوں بعد اگر ان مزدوروں کو یاد آتا کہ اب معاہدے کی معیاد ختم ہوگئی ہے، اب یہ واپس جا سکتے ہیں تو وہ حیرت سے سوچتے کہ واپس جانے کا کیا مطلب ہے۔ اس جگہ واپس جانا جو ان کی غیر موجودگی میں بہت بدل چکی ہوگی کیسا ہوگا۔ وہ پانچ سال اس جزیرے پہ رہے ہیں۔ اب ان کے آس پاس جو لوگ ہیں، وہی ان کے پیارے ہیں۔ اب یہی جگہ ان کا وطن ہے۔ اب بقیہ زندگی یہیں گزارنی ہے اور یہیں مرنا ہے۔


Labels: ,


Comments: Post a Comment



<< Home

This page is powered by Blogger. Isn't yours?